HIRA ONLINE / حرا آن لائن
اسلام میں سود کی حرمت قرآن و حدیث کی روشنی میں مکمل رہنمائی

1. تمہید … اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی معاشی و سماجی زندگی کے ہر پہلو کو پاکیزگی، عدل اور خیر کے اصولوں پر قائم کرتا ہے۔ انہی اصولوں میں سے ایک عظیم اصول سود (ربا) کی حرمت ہے، جسے اسلام نے نہایت شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: قالوا: إِنَّمَا البَيعُ مِثلُ الرِّبَا… وَأَحَلَّ اللَّهُ البَيعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(البقرہ 275) “سود خور کہتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔” 2. اسلام میں سود کی شدید حرمت جو آیات میں نے تلاوت کیں، ان میں اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت کو نہایت سخت الفاظ میں بیان کیا ہے۔اسلام نے بہت سی چیزوں کو حرام کیا، لیکن ربا کی حرمت کو ایسے انداز میں بیان کیا گیا جیسا کسی اور گناہ کے بارے میں نہیں۔ حدیث شریف رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اللہ نے سود کھانے والے، سود دینے والے، سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں — سب پر لعنت کی۔”(صحیح مسلم) یہ اس گناہ کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ 3. ربا (سود) کی تعریف — What is Riba? لغوی معنی: ربا: زیادتی، بڑھوتری، اضافہ۔ اصطلاحی معنی (Shariah Definition): "ہر وہ نفع جو قرض کے بدلے بغیر کسی حقیقی عوض کے لیا جائے، وہ سود ہے۔” عام مثال: آپ نے کسی کو 100 روپے قرض دیے اور شرط لگائی کہایک مہینے بعد 120 روپے واپس کرنے ہوں گے۔یہ 20 روپے اضافہ سود ہے اور قطعی حرام ہے۔ 4. بغیر شرط کے زیادتی — سود نہیں اگر کوئی شخص خوشی سے قرض لوٹاتے وقت زیادہ دے دے تو یہ جائز ہے۔نبی کریم ﷺ نے بہتر اونٹ واپس کیا اور فرمایا: “تم میں بہترین وہ ہے جو قرض اچھے طریقے سے ادا کرے۔”(صحیح بخاری) 5. موجودہ معاشرے میں ربا کی صورتحال ہمارے معاشرے میں: ✔ سود لینا✔ سود دینا✔ سودی کاروبار✔ بینکوں سے سودی قرض✔ فنانس کمپنیوں سے سودی معاہدے — یہ سب عام ہو چکا ہے، اور لوگ اسے غلط بھی نہیں سمجھتے۔ بہت سے…

Read more

قرض حسن اور اس سے متعلق احکام

قرض اور اس سے متعلق شرعی احکام (اسلام کی معاشرتی تعلیمات کا ایک روشن باب) انسانی معاشرہ باہمی تعاون، ہمدردی اور ضرورت مندوں کی دستگیری کے اصولوں پر قائم رہتا ہے۔ جب ایک فرد دوسرے فرد کی مشکل میں اس کا سہارا بنتا ہے تو اس سے نہ صرف تعلقات مضبوط ہوتے ہیں بلکہ معاشرہ امن، خیر اور یگانگت کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ انہی اعلیٰ معاشرتی اصولوں میں سے ایک اصول قرض ہے—وہ قرض جو محض لین دین نہیں بلکہ خیر خواہی، اخلاص اور انسانی ہمدردی کا مظہر ہو۔ اسلام نے اس جذبے کو غیر معمولی اہمیت دی ہے اور اسے عبادت کے درجے تک بلند کیا ہے۔ قرضِ حسن — قرآن کریم کا عظیم پیغام قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے ’’قرضِ حسن‘‘ کا ذکر فرمایا ہے، جو اس عمل کی فضیلت اور اس کے دینی و اخلاقی مقام کی طرف اشارہ کرتا ہے: مَنْ ذَا الَّذِی یُقْرِضُ اللہَ قَرْضاً حَسَناً فَیُضَاعِفَہُ لَہُ اَضْعَافاً کَثِیْرَةً(البقرہ: 245) یعنی کون ہے جو اللہ کے لیے خالص نیت سے قرض دے تاکہ اللہ تعالیٰ اسے بے شمار گنا بڑھا کر لوٹا دے۔ اسی مضمون کو مختلف انداز میں سورۂ حدید اور تغابن میں بھی بیان کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرضِ حسن محض مالی مدد نہیں بلکہ اللہ کی خوشنودی کے حصول کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں قرض کی اہمیت نبی کریم ﷺ نے معاشرتی زندگی کے اس بنیادی ستون کو واضح انداز میں بیان فرمایا ہے: 1۔ قرض دینے کا اجر، صدقہ سے زیادہ حدیثِ معراج میں آتا ہے کہ: "دروازۂ جنت پر لکھا تھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض دینے کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔”(ابن ماجہ) وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ صدقہ لینے والا کبھی کبھار محتاج نہیں بھی ہوتا، مگر قرض لینے والا حقیقی ضرورت کے وقت ہی سوال کرتا ہے۔ 2۔ قرض میں نیت کی اہمیت نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جو شخص ادائیگی کی نیت سے قرض لیتا ہے، اللہ اس کی طرف سے ادا…

Read more

کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے؟ 

[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ]  موجودہ دور میں میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجہ میں آنکھ کا قرنیہ (Cornea) اور قرن بٹن (Corneoscleral Button) دوسرے ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا محفوظ طریقہ پر انجام پذیر ہوتا ہے اور اس عمل میں میت کی کوئی اہانت نہیں سمجھی جاتی ہے اور نہ اس کی وجہ سے شکل میں کوئی بدنمائی پیدا ہوتی ہے ، لہذا اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پاس کی جاتی ہیں :          (1) زندگی میں آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینے میں چوں کہ دینے والے کو بڑا ضرر لاحق ہوتا ہے ، نیز یہ چیز طبی اخلاقیات اور قانون کے بھی خلاف ہے ، اس لیے اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔           (2) اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو دے دیا جائے اور ورثہ بھی اس پر راضی ہوں تو اس کی آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینا درست ہے ، اسی طرح میت نے وصیت نہ کی ہو اور ورثہ اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا چاہیں تو اس کی بھی شرعاً اجازت ہے ۔        ( 3) اگر کوئی شخص کسی ایکسیڈنٹ یا حادثہ کا شکار ہوا اور اس کی آنکھ پر ایسی ضرب آئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، یا کسی شدید بیماری کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، اور اس کی آنکھ کا قرنیہ طبّی نقطۂ نظر سے قابلِ استعمال ہو تو ایسی صورت میں اس کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ مولا نا عظمت اللہ میر کشمیری (نوٹ: تجویز 2 کی دونوں شقوں کے ساتھ راقم اتفاق نہیں رکھتا ہے – )

Read more

مائیکرو فائنانس کے شرعی احکام

[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ]  (1) غیر سودی مائیکرو فائنانس ادارے قائم کرنا وقت کی ضرورت اور شرعاً مستحسن قدم ہے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ سے واقف علماء و اربابِ افتاء کی نگرانی میں کام کرے ۔ (2) مقروض کو قرض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے والے گروپ کی تشکیل میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ؛ البتہ مقروض کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے گروپ کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جو مقروض کے لیے ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سبب ہے ۔ (3) مال جمع کرنے والوں کی رضا مندی سے قرض طلب کرنے والوں کو قرض دینے کی گنجائش ہے ؛ خواہ وہ ادارے کے ممبر ہوں یا نہ ہوں ؛ البتہ اگر قانوناً ممبر بنانا ضروری ہو تو ممبر بنا کر قرض دیا جائے ۔ (4) الف : مائیکرو فائنانس ادارہ قرض کے اندراج اور وصولی کی مناسب اجرت لے سکتا ہے ۔ غیر متعلق اخراجات نہیں لیے جاسکتے ۔       ب : بہتر ہے کہ مائیکرو فائنانس ادارہ دیگر اخراجات کے لیے جائز ذرائع مثلاً اصحاب خیر سے تبرّعات اور جائز سرمایہ کاری کی صورت اختیار کرے ۔ (5) مائیکرو فائنانس ادارہ بھی اسلامی سرمایہ کاری مثلاً مضاربت ، شرکت ، اجارہ اور مرابحہ وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے ۔ (6) وکالت پر مبنی سرمایہ کاری شرعاً جائز ہے ۔ (7) آج کل چھوٹے سودی قرضے کے متعدد ادارے ہیں ، جن میں گروپ بناکر عورتوں کو قرض دیا جاتا ہے ، اس میں قرض کی وصولی کے نام پر استحصال بھی کیا جاتا ہے ؛ اس لیے ایسے سودی قرض سے بچا جائے ۔

Read more

ہیلتھ انشورنس

ہیلتھ انشورنس * [ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] مورخہ ۹/نومبر ۲۰۲۵ ء کے اجلاس میں ہیلتھ انشورنس کے موضوع پر بحث و مناقشہ کے بعد کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اکیڈمی کی طرف سے مارچ 2006ء میں میڈیکل انشورنس سے متعلق جو تجاویز منظور کی گئی تھیں ان سے اتفاق کرتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظر میں مزید مندرجہ ذیل تجاویز منظور کرتی ہے : (1) مروّجہ ہیلتھ انشورنس اپنے انجام کے اعتبار سے غرر ، قمار ، سود و غیرہ- ممنوعات پر مشتمل ہے ، لہٰذا عام حالات میں ہیلتھ انشورنس کرانا ناجائز ہے ۔(2) اگر کمپنی / ادارہ اپنے ملازمین کا ہیلتھ انشورنس اپنی طرف سے تبرّعاً یا ملازمین کی تنخواہوں سے وضع کرکے جمع کرائے تو ملازمین کے لیے اس سے نفع اٹھانے کی اجازت ہوگی ۔(3) اگر میڈیکل انشورنس کمپنی پالیسی لینے والوں کو نقد کے بجائے علاج و معالجہ کی خدمت فراہم کرے اور کم از کم سال میں ایک مرتبہ چیک اپ وغیرہ کی خدمات فراہم کرے تو اس کی بھی اجازت ہے ۔ (4) اگر وہ چیک اپ وغیرہ کی خدمات فراہم نہ کرے تو موجودہ حالات میں علاج و معالجہ کی گرانی کی وجہ سے ناقابل تحمّل مصارف والے امراض میں ابتلا کا ظن غالب یا اندیشہ ہو اور مریض اس کا تحمّل نہ کرسکتا ہو تو علاج ومعالجہ کی خدمت فراہم کرنے والی پالیسی لینے کی گنجائش ہے ۔ نوٹ : علاج کی خدمات کی فراہمی کی صورت میں بھی ، اگر علاج کے وقت مریض کے مالی حالات ٹھیک ہوں تو اس کی طرف سے جمع کردہ اصل رقم سے زائد جو رقم بھی کمپنی نے خرچ کیا ہے اسے معلوم کرکے صدقہ کرنا واجب ہوگا : محمد شاہجہاں ندوی

Read more

حلال ذبیحہ کا مسئلہ

🔰حلال ذبیحہ كا مسئلہ 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی‏ ‎ عام تصور یه هے كه اگر چور كو چوكیدار بنا دیا جائے تو وه بھی چوری كرنے سے بچنے کی كوشش كرتا هے؛ مگر بدقسمتی كی بات هے كه وطن عزیز میں جو پارٹی بر سر اقتدار هے، اس كی بنیادی سوچ هی نفرت اور فرقه پرستی هے، اس نے دستور كا حلف اٹھایا هے، دستور نے مساوات، برابری اور تمام طبقه كے لوگوں كے لئے یكساں مذهبی آزادی كی بات كی هے، یه بات ان كے حلق سے اتر نهیں رهی هے، اگر یه صاحبِ عقل ودانش هوتے تو كم از كم ذمه دارانه عهده پر آنے كے بعد نفرت كے بول نهیں بولتے اور اپنی قَسَم كا ظاهری طور پر تو بھرم ركھتے؛ لیكن افسوس كه بی جے پی كے ذمه دار حكمران اور مختلف وزراء اعلیٰ نفرت كے بول بولنے میں ایك دوسرے پر سبقت لے جانے كی كوشش كر رهے هیں، خاص كر اس وقت اتر پردیش اور آسام كے وزیر اعلیٰ كی زبان تو ایسا لگتا هے كه زهر سے بھری هوئی شیشی هے، پارٹی میں اپنا نمبر بڑھانے كے لئے وه كوئی تعمیری كام تو نهیں كرتے هیں؛ مگر نفرت انگیز بول ایك سے بڑھ كر ایك بولتے هیں، اور دن ورات اقلیتوں كے خلاف بغض وعناد كا اظهار كرتے رهتے هیں، اسی كا ایك مظهر یه هے كه ابھی انھوں نے حلال ذبیحه پر نهایت هی ناشائسته بات كی هے، ان كا دعویٰ هے كه حلال سرٹیفیكشن كے ذریعه پچیس هزار كروڑ روپیه كمائے جاتے هیں اور دوسرا دعویٰ یه هے كه یه پیسے دهشت گردی، لَو جهاد اور مذهب كی تبدیلی میں استعمال هوتا هے، یه ایك جھوٹ كی بنیاد پر دوسرے جھوٹ كی تعمیر هے، انھوں نے جس بڑی رقم كے حاصل هونے كا دعویٰ كیا هے، اس كا كوئی ثبوت پیش نهیں كیا هے، مسلمانوں پر دهشت گردی كا الزام سراسر غلط هے، ملك میں اصل دهشت گرد تو سنگھ پریوار كے لوگ هیں، جنھوں نے بابائے قوم مهاتما گاندھی جی كا بے دردانه قتل كیا…

Read more