بدلتے مغربی نظام کی دروں بینی
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
"یہ صرف مغربی تہذیب ہی ہے جس نے اپنی حالیہ صدیوں میں مشرقی تہذیبوں سے ایسی دوری اختیار کی کہ محسوس ہوتا ہے دونوں کے درمیان نہ کوئی مشترک قدر باقی رہی، نہ تقابل کی کوئی بنیاد، اور نہ ہی مفاہمت ومصالحت کی کوئی زمین جس پر دوبارہ کھڑا ہوا جا سکے”۔
یہ رائے فرانسیسی نو مسلم فلسفی عبد الواحد یحییٰ (رینے گینوں، م: 1951ء) نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد اپنی مشہور کتاب (East and West, 1924) کی تصنیف کے دوران لکھی تھی، یہ فرانسیسی سے انگریزی ترجمہ کا عنوان ہے، عربی کتاب "الشرق والغرب” (مشرق ومغرب) کے نام سے چھپی تھی، یہ اس وقت کی بات ہے جب مغربی دنیا ایک ایسے داخلی تصادم کی تیاری کر رہی تھی جس کے تاریک مظاہر بعد ازاں دوسری جنگ عظیم میں پوری شدت کے ساتھ سامنے آئے۔
عبد الواحد یحییٰ نے اپنی زندگی کا رُخ پوری طرح مشرق کی جانب موڑ لیا، انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اپنا بقیہ زمانہ قاہرہ میں تصوف اور خلوت گزینی میں گزاریں گے، وہ اپنے وطن سے ہجرت کرکے چلے آئے، اور پیچھے وہ یورپ رہ گیا جو باہم برسر پیکار قومیتوں کے بھنور میں ڈوب رہا تھا، وہ قومیتیں جو نسل برتر کے تمغہ بردار ہونے کی دعوے دار تھیں، اور اس کشمکش میں مبتلا تھیں کہ طاقت ور کون ہے، اور کون کمزور اقوام کو اپنی نو آبادیات میں نوچ کھانے کی زیادہ سکت رکھتا ہے۔
جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی، اور اس ہولناک تصادم نے یورپ کی قومیت پرست اور عوامی حمایت کی خواہش مند Populist سیاست—یا یوں کہیے "قدیم مغرب”—کو شکست فاش سے دوچار کر دیا، اس بربادی نے مغرب کو مجبور کیا کہ وہ کسی ایسے متبادل کی جستجو کرے جو اسے قومیت کے خون آشام بندھن سے رہائی دلائے، یہی وہ مرحلہ تھا جس نے ایک نئے مغربی نمونے کے لیے فضا ہموار کی، ایک ایسا نمونہ جسے "نیا مغرب” کہا گیا، جو دوسری جنگ عظیم کی کوکھ سے جنم لینے والی نئی حقیقت بن کر ابھرا۔
اس مشکل کا حل سب سے آخری مغربی کنارے سے ہی سامنے آیا، وہ خطہ جو نہ صرف جغرافیائی طور پر بلکہ ذہنی اور نظریاتی طور پر بھی اپنی انتہا پر تھا، جیسا کہ گینوں نے بیان کیا، اور وہ تھا امریکہ، امریکہ نے یہ دیکھا کہ مسئلے کا حل قومیت پرستی کی شدت کو کم کرنے اور ایک "مغرب جدید” کے قیام میں مضمر ہے، یہی نیا مغرب اس اتحاد کی شکل میں نمودار ہوا جسے "آزاد دنیا” یا "مغربی بلاک” کہا گیا، اور جس کی بنیاد نیٹو نے رکھی، تاکہ اس بڑے عالمی اتحاد کا مقابلہ کیا جا سکے جو سوویت یونین کی قیادت میں وجود میں آیا اور "مشرقی بلاک” کے نام سے مشہور ہوا، یہ نیا مغرب اپنی کئی پرانی پرتیں اتار چکا تھا، اور بہت سی قومیت پرست قدروں کو ترک کر چکا تھا، اس نے ثقافتی پاکیزگی کے بوجھ کو تھوڑا ہلکا کیا، اور ایک ایسے وجود میں بدلنے کو قبول کیا جو پہلے صرف نسلی حلقے تک محدود تھا، لیکن اب زیادہ کھلا اور اپنے دروازے سب کے لیے کھول دیئے۔
اور اس نئے عالمی منظرنامے میں عالمگیریت اور عالمی تہذیب کے تصورات ابھرے، اور سرحدوں سے ماورا اقدار زور پکڑنے لگیں، یہ بیانیہ عام ہوا کہ دنیا ایک ہی گاؤں کی مانند ہے، اور یہ کہ خود مختاریاں اور سرحدیں انسانی ترقی کے اس بہاؤ کے سامنے ٹوٹ پھوٹ رہی ہیں، اس نئے نظام میں غیر مغربی ممالک بھی اس دنیا کا حصہ بن سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ اپنی زندگی مغربی طرز زندگی کے مطابق گزاریں، یہی ماحول جاپان اور جنوبی کوریا کے مغربی محاذ میں شامل ہونے، معاشی اور دفاعی نظام میں مکمل انضمام، اور ترکی کو نیٹو میں شمولیت کی جانب مائل کرنے کا سبب بنا۔
یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ یا "مغرب اقصی” ہی تھا جو اس کا ضامن بن سکا، اور جس نے باقی ماندہ مغربی دنیا کو بچانے کی ذمہ داری اٹھائی، تاکہ وہ اس زبردست لہر کا مقابلہ کر سکے جو سوویت یونین کی قیادت میں ابھری تھی، یہ سب کچھ ممکن نہ ہوتا اگر اس کے مقابل ایک متضاد وجود نہ سامنے آتا، جسے "مشرقی دنیا” یا سوویت یونین کے گرد مرکوز بلاک کہا گیا، جس کے کئی حصے خود یورپ میں بھی شامل تھے، مغربی ممالک کی خود شناسی یا خود بینی کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت صرف دوسروں سے علیحدگی کے ذریعے ہی حاصل کرتے ہیں، اور اپنی روشنی اسی "سیاہ چہرے” کے ذریعے نمایاں کرتے ہیں جو انہوں نے دوسروں کے لیے تخلیق کیا ہوتا ہے، یہی سوچ انہیں جمع ہونے اور اپنے حلقے کو مضبوط کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
اگرچہ عالمگیریت کا دور زور پکڑ رہا ہے، مگر خود پسندی میں مبتلا سفید فام مغربی اقوام غیر یورپی قوموں کو مکمل شمولیت کی اجازت نہیں دیتی ہیں، مغرب کا جوہر "یگانہ ومنفرد اور غیر عالمی” ہے، جیسا کہ سیموئیل ہنٹنگٹن نے اپنے ایک مقالے میں کہا ہے، چاہے وہ آزادی اور مساوات کے اصولوں کا اعلان کرے اور دعویٰ کرے کہ یہ ہر زمانے اور ہر جگہ نافذ کیے جا سکتے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ "آزاد دنیا” بظاہر اپنی رخصت کی تیاری کر رہی ہے، اور اس تبدیلی کا محور امریکی صدر ٹرمپ کی دوسری مدت ہے، ٹرمپ کے نزدیک پرانے عالمی اتحاد برقرار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، وہ ایک کھلا قوم پرست ہے اور "آزاد دنیا‘” کے تصور پر یقین نہیں رکھتا، اس کے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ "نیا مغرب” (امریکہ) یورپ یا پرانے مغرب کے بوجھ سے آزاد ہو جائے اور اسے اپنی راہ پر خاموشی سے جانے دیا جائے، اس رویے نے یورپی کمیشن کی صدر اُرسولا فان ڈیر لائن کو اپریل میں یہ افسوسناک بیان دینے پر مجبور کیا:
"وہ مغرب، جسے ہم جانتے تھے، اب موجود نہیں”، اسی طرح فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے خبردار کیا:
"یورپ آج فنا پذیر ہے، اور اس کا زوال ممکن ہے”۔
یہ مغربی دنیا کا متزلزل وجود، جس کا ذکر یورپی کمیشن کی صدر نے کیا اور جس سے فرانسیسی صدر بھی فکرمند ہیں، اگر مکمل طور پر اپنی تمام جہتوں میں ظاہر ہو جائے، تو یہ ایک پیچیدہ نظام کے زوال اور تحلیل کا سبب بنے گا، درحقیقت، یہ عالمی سطح پر قائم عالمگیریت پر مبنی اقدار، عالمی ماحولیاتی معاہدے، انسانی حقوق، اور نیوکلیئر پھیلاؤ کی روک تھام کے بین الاقوامی معاہدات کے پورے نظام کا خاتمہ ہوگا۔
تو کیا جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ واقعی اس مغرب جدید کا خاتمہ ہے جسے ہم گزشتہ دہائیوں میں جانتے آئے ہیں، یا یہ ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، جو شاید پرانے دور کی طرف بھی لوٹ سکتا ہے؟ کیا ہم "تیسرا مغرب” دیکھ رہے ہیں، جو پرانے اور نئے، قوم پرست اور لبرل عناصر کے ملاپ سے تشکیل پا رہا ہے؟ کیا "آزاد دنیا” کا زمانہ ختم ہو چکا ہے؟ اور کیا ہم مغرب کے اندر شدید داخلی تقسیم دیکھیں گے، جیسے 1945 کے بعد یورپ دو حصوں میں تقسیم ہوا، اور آج امریکہ بھی دو متضاد نظریاتی دھڑوں—قدیم قوم پرست اور جدید عالمگیریت پسند—میں بٹا ہوا ہے؟
مغرب کی روح کو سمجھنے کے لیے کوئی ایک ہی تصور کافی نہیں ہے، مختلف خیالات، تحریکوں اور تاریخی اقدامات نے مل کر آج کا مغرب تشکیل دیا، جیسے مذہبی اصلاحات، فرانسیسی انقلاب، فلسفۂ روشن خیالی، اور صنعتی انقلاب وغیرہ؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جدید مغرب اپنے حقیقی مفہوم میں قومیت کے تصور کے ساتھ ہی وجود میں آیا، جو ایک ایسے نظام سے عبارت ہے جس میں نئے دوست بنائے جارہے ہیں تو پرانے دور بھی کئے جاسکتے ہیں، یہی اصل مغرب ہے، نہ کہ وہ مغرب جو فلسفے میں غرق اور اس کے سحر میں گرفتار بنا کر دکھایا جاتا ہے، اور ہمیں اسی خیالی اور پیچیدہ مغرب کو ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ٹرمپ کی انتظامیہ یورپی شدت پسند دائیں بازو کو ایک "وقتی اتحادی” کے طور پر دیکھتی ہے، جو اس عالمی فکر کے خلاف جنگ میں شریک ہے جس کی نمائندگی یورپی یونین کرتی ہے، اس کے برعکس، یورپی دائیں بازو کے کئی رہنما ٹرمپ کو اپنی تحریک کا حمایتی اور اپنی نظریاتی فتح کی علامت سمجھتے ہیں، ٹرمپ کی داخلی پالیسیوں جیسے جبری ہجرت، میڈیا اور اقلیتی حقوق کے معاملات نے یورپ میں غیر لبرل رہنماؤں کے لیے تحریک اور جواز فراہم کیا ہے۔
اس طرح، ہم ایک نئی "قوم پرست بین الاقوامیت” کے ابھرنے کا مشاہدہ کرتے ہیں، یا جیسا کہ کچھ اسے کہتے ہیں، "آزاد خیالی کے بعد کا انقلاب”، جو کانفرنسوں، میڈیا پلیٹ فارمز اور سرحد پار مالی معاونت کے ذریعے تشکیل پا رہی ہے اور اس رجحان کی حمایت کر رہی ہے،
تو کیا ہم واقعی اُس جدید مغرب کے زوال کا مشاہدہ کر رہے ہیں جسے ہم نے گزشتہ کئی دہائیوں تک پہچانا؟ یا یہ مغربی تہذیب کے ایک نئے مرحلے—اور شاید کسی پرانے مرحلے کی طرف واپسی—کی شروعات ہے؟
دوسری جنگِ عظیم کے بعد قوم پرست اور سامراجی مغرب نے خود کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک "عالمی لبرل” روپ اختیار کرلیا تھا؛ لیکن آج، جب اس کے اندرونی ڈھانچے میں دراڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں، وہ آہستہ آہستہ اس لبرل لباس کو اتار کر اپنے پرانے قوم پرستانہ قالب کی طرف لوٹ رہا ہے، عبد الواحد یحییٰ نے تقریباً ایک صدی پہلے کہا تھا کہ مغرب کا بحران بنیادی اور دائمی ہے، صرف وقتی نہیں، آج وہی بحران سیاسی وتہذیبی انتشار کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔
ممکن ہے کہ ہم جلد ہی ایک "تیسرے مغرب” کی تشکیل دیکھیں، ایسا مغرب جو پرانے قوم پرست مزاج اور نئے لبرل تصور کا امتزاج ہو، مغرب کے اندر ہمیشہ کچھ حلقے مثلا نسل پرست، قوم پرست، یا قدامت پسند عالمی لبرل نظام کی مزاحمت کرتے رہے ہیں، اسی بنیاد پر ممکن ہے کہ آنے والا مغرب "آزاد دنیا” کے عالمی عنوان سے دستبردار ہو کر خود کو ایک محدود تہذیبی شناخت تک محدود کر دے۔
مغرب کا مستقبل اس کے اپنے رہنماؤں اور عوام کے فیصلوں پر منحصر ہوگا، جیسا کہ ماکرون نے خبردار کیا: "یورپ کی تقدیر ہمارے ہاتھ میں ہے؛ اگر ہم درست انتخاب نہ کریں تو یہ مر سکتا ہے”.
اگر مغرب نے سخت قوم پرستی اور مکمل بند ذہنیت کا راستہ اپنایا، تو ممکن ہے کہ "امریکی امن” کا دور ختم ہو جائے اور دنیا ایک نئے دور کے انتشار میں داخل ہو جائے، بالکل ویسے ہی جیسے 1930 کی دہائی میں لیگ آف نیشنز کے زوال کے بعد ہوا تھا۔
اور اگر بین الاقوامی تعاون کے حامی اس بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے میں کامیاب ہو گئے، تو مغرب شاید ایک نئے، کثیر الجہتی نہ کہ یک رخی سانچے میں دوبارہ ابھر سکے، ایسا سانچہ جو بدلتے ہوئے حالات کو اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئے بغیر اپنے اندر جذب کر لے۔