🔰جہاد ، حقیقت اور پروپیگنڈه
🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ جو بات اس سے بار بار کہی اور دہرائی جاتی ہے ، وہ اس کا یقین کر لیتا ہے ، خواہ وہ بات کتنی ہی خلافِ واقعہ کیوں نہ ہو ، اس کی ایک مثال اس وقت ’’ جہاد ‘‘ کے عنوان سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیاں ہیں ، جو ایك ملی تنظیم كے سربراه كے بیان كے پس منظر میں میڈیا كا موضوع بن گئی هے، مغربی ملکوں نے اپنی ظلم و زیادتی پر پردہ رکھنے اور اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ’’ جہاد ‘‘ کو ’’ دہشت گردی ‘‘ (Terrorism) کے ہم معنی قرار دے دیا ہے اور پوری دنیا میں اسلام کے خلاف دہشت گردی کو عنوان بناکر مہم چلائی جا رہی ہے ، اسرائیل فلسطین کی زمین پر قابض ہے ، فلسطینی تارکین کو اپنے گھر واپسی کے حق سے محروم کئے ہوا ہے ، اور خود یہودی بستیاں بسا رہا ہے ، اسرائیل کا موجودہ وزیر اعظم بنجامن نتن یاهو خوں آشام طبیعت کا انسان ہے اور اس نے نہتے عربوں کا قتل عام کیا ہے ، اس کے باوجود انھیں دہشت گرد نہیں کہا جاتا اور فلسطینی جب ان مظالم کے خلاف جد و جہد کرتے ہیں تو ان کی مدافعانہ کار روائیوں کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
خود ہمارے ملک ہندوستان میں جن طاقتوں نے علانیہ بابری مسجد کو شہید کیا ، عدالتی احکام کی خلاف ورزی کی ، بھاگلپور ، میرٹھ اور مختلف علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا ، اور گجرات میں منصوبہ بند طریقہ پر مسلمانوں کی جان و مال کو تباہ کیا، وہ دہشت گرد نہیں کہلاتے اور اگر مسلمانوں کی طرف سے کسی ردِ عمل کا اظہار ہو تو اسے دہشت گردی کا نام دیا جاتا ہے ، انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کے علاحدگی پسندوں نے شورشیں برپاکیں تو انھیں دہشت گرد نہیں کہا گیا اور انڈونیشیا کو اس بات پر مجبور کر دیا گیا کہ وہ اس خطہ کو آزاد کردے ، اسے دہشت گردی نہیں سمجھا گیا ، سوڈان میں جنوبی علاقے کے عیسائی آمادۂ بغاوت تھے ، تو اس کو جنگ آزادی کا نام دیا گیا ، روس سے متعدد عیسائی ریاستوں نے اپنی علاحدگی کا اعلان کیا ، تو ان کے اس حق کو تسلیم کیا گیا ؛ لیکن چیچنیا میں جب عوامی انتخاب کے ذریعہ ایک مسلم ملک وجود میں آیا تو اسے دہشت گرد کہا گیا اور پورا مشرق و مغرب مخالفت پر کمر بستہ ہو گیا بالآخر قطعاً ظالمانہ طریقہ پر اس مملکت کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ۔ مغرب کی سامراجی طاقتوں اور هندوستان كی هندوتوا تنظیموں نے دہشت گردی کا عجیب پیمانہ مقرر کیا ہے جس میں ایک ہی عمل کہیں ’’ دہشت گردی‘‘ قرار پاتا ہے اور کہیں ’’ حق مدافعت ‘‘ اور اسلام کو مزید بدنام کرنے کے لئے ’’ جہاد ‘‘ کو بھی دہشت گردی سے مربوط کر دیا گیا ہے ، اس پس منظر میں یہ بات ضروری ہے کہ ہم جہاد کے صحیح مفہوم کو سمجھیں اور ان حالات اور مواقع کو سامنے رکھیں جن میں جہاد کی اجازت دی گئی ۔عربی زبان میں ’’ جَہد ‘‘ ( ج کے زَبر کے ساتھ) کے معنی طاقت کے ہیں اور جُہد (ج کے پیش کے ساتھ ) کے معنی مشقت کے ہیں ، جہاد ظلم كا مقابله كرنے کے لئے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے اور اس راہ میں ہونے والی مشقتوں کو انگیز کرنے کا نام ہے ، گویا جہاد ایک وسیع مفہوم کی حامل اصطلاح ہے ، جس کا مقصد عدل قائم كرنے کی کوشش وکاوش ہے ، جہاد کے مختلف وسائل و ذرائع ہیں ، زبان و بیان بھی جہاد کا ایک ذریعہ ہے ، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات کہنے کو سب سے افضل جہاد قرار دیا: أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند السلطان الجائر (ابن ماجہ ، حدیث نمبر : ۱۱ ۴۰ )
جہاد کا ایک ذریعہ اس زمانہ میں قلم بھی ہے ؛ بلکہ یہ نہایت مؤثر ذریعہ ہے ، کوئی مسلمان اپنا قلم ظلم كو روكنے اور دین کی حفاظت و اشاعت کے لئے وقف کر دے تو یہ بھی جہاد میں شامل ہے ، آج کل دوسرے ذرائع ابلاغ بھی کسی فکر کی ترویج و اشاعت اور اس کے غلبہ کے لئے نہایت مفید اورمؤثر ہیں اور یہ بھی معنوی جہاد میں شامل ہیں ۔جہاد کی آخری صورت ’’ جہاد بالسیف ‘‘ ہے ، یعنی ظالموں کے خلاف طاقت کا استعمال ؛ لیکن اس کے لئے کچھ شرطیں اور تفصیلات ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ کسی مسلمان کی نظر جس غیر مسلم پر پڑجائے ، یا جو غیر مسلم اس کی گرفت میں آجائے وہ اس کا کام تمام کر دے ، یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے ، جہاد کے سلسلہ میں قرآن نے ہمیں واضح طور پر بتایا کہ جو لوگ تم کو مرنے اور مارنے کے درپے ہوں، تم بھی ان سے جہاد کرو ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَاتَعْتَدُوْا اِنَّ اﷲَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ (البقره: ۱۹۰)اور جو لوگ تم سے برسرِ پیکار ہیں ، ان سے اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو ، کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے ۔اس آیت میں دو باتیں بتائی گئی ہیں ، اول یہ کہ جہاد کا آخری درجہ جسے قرآن مجید میں قتال سے تعبیر کیا گیا ہے ، ان لوگوں سے ہے ، جو مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں ، جن كی مسلمانوں كے ساتھ صلح هو، جیسا كه بھارت میں تمام قومیں ایك معاهده كے تحت رهتی هیں، ان سے قتال کا حق نہیں ہے ، ایک اور موقع پر قرآن مجید نے اس حکم کو بہت ہی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے ، ارشاد ہے : لَا یَنْہَاکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (الممتحنه: ۸)اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حُسن سلوک اور انصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے ، جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ، یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔
یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ جہاد کا حکم ان لوگوں سے ہے ، جو مسلمانوں سے آمادۂ جنگ ہوں اور ظاہر ہے کہ اگر کوئی قوم دوسری قوم سے جنگ و جدال کا تہیہ کئے ہوئی ہو ، تواگر ان سے جنگ نہ کی جائے گی تو کیا ان کے لئے پھول کی سیجیں بچھائی جائیں گی ؟ اوپر جس آیت کا ذکر ہوا ہے ، اس میں دوسری اہم بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اسلام حالت ِجنگ میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مسلمان اخلاق اور انسانیت کی حدود کو پھلانگ جائیں ، اسی کو قرآن مجید نے ’’ اعتداء ‘‘ یعنی ’’ زیادتی‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتے ، علامہ ابن کثیرؒ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما حضرت عمر بن عبد العزیز اور حسن بصریؒ وغیرہ سے اس کی تشریح میں نقل کیا ہے کہ اس سے مراد دشمن کا مُثلہ کرنا ، عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنا ، مذہبی شخصیتوں کا قتل اوردرختوں کو جلانا ہے ، (تفسیر ابن كثیر: ۱؍۲۶۶) رسول اللہ ﷺنے اس بات سے بھی منع فرمایا کہ کسی انسان کو جلانے کی سزا دی جائے ، کہ اس سزا کا حق صرف اللہ کو ہے ، مسلمانوں نے ہمیشہ اس ہدایت کو ملحوظ رکھا ، انسانوں کو زندہ جلانے کی المناک اور انسانیت سوز صورت یا تو ان عیسائیوں کے یہاں ملتی ہے ، جن کی مذہبی عدالتیں عقیدہ سے اختلاف رکھنے والوں کو زندہ نذرِ آتش کردیا کرتی تھیں ، یورپ کی مذہبی اور اخلاقی تاریخ کی کتابوں میں بہ کثرت اس کا ذکر آیا ہے اسی طرح ہندوستان میں بیوہ عورتوں کو ان کے شوہروں کے ساتھ جرم بے گناہی میں زبردستی جلا دیا جاتا تھا ، جسے ’’ستی ‘‘ کا نام دیا جاتا تھا ۔افسوس کہ دروغ گو ذرائع ابلاغ نے جہاد کے وسیع مفہوم کو صرف قتال میں محدود کردیا ہے اور اسلام کی ایسی تصویر کھینچی گئی ہے ، جس میں رواداری ، تحمل ، قوتِ برداشت اور دیگر اہل مذہب کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو ؛ بلکہ وہ چاہتا ہو کہ ہر ’’غیر مسلم‘‘ کو تہہ ِتیغ کردے ، یہ لفظ جہاد کی نہایت ہی غلط اور خلافِ واقعہ توضیح ہے ، جو اسلام کے سرڈال دی گئی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بہ حیثیت مجموعی غیر مسلموں کے تین طبقے ہیں ، ایک تو وہ غیر مسلم جومسلم ممالک میں آباد ہوں ، ان کو ’’ ذِمی ‘‘ یا ’’ اہل ذِمہ‘‘ کہا جاتا ہے ، دوسرے وہ غیرمسلم جن کے ساتھ اقتدار میں شرکت اور بقاء باہم کے اُصول پر مسلمان ایک ملک میں رہتے ہیں ، اس طرح کے غیر مسلموں کے لئے فقہاء کے یہاں ’’ معاہد ‘‘ کی تعبیر ملتی ہے ، یعنی وہ شخص جس سے عہد ہو چکا ہے ، ان دونوں سے جہاد نہیں ہے ؛ بلکہ رسول اللہ ﷺنے ان کی جان و مال کو مسلمانوں ہی کی جان و مال کی طرح قابل احترام قرار دیا ہے : ’’دمائھم کدمائنا وأموالہم کأموالنا‘‘ ہاں اگر یہ مسلمانوں پر زیادتی کریں تو اپنی مدافعت کرنا اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے ان سے ظلم کا بدلہ لینا جائز ہے، اور دنیا کے ہر قانون میں انسان کے لئے اس حق مدافعت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ جہاد اُن لوگوں سے ہے، جن سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ نہ ہو ، وہ مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنے سے روکتے ہوں اور انھیں ان کے وطن سے بے وطن کرنا چاہتے ہوں ، جیسا کہ اس وقت اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا هے ، ایسے لوگوں کے خلاف اسلام نے قتال کی اجازت دی ہے اور یہ صرف اسلام کی بات نہیں ، دنیا کے تمام مذاہب اور مہذب قوانین میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ جب کوئی قوم دوسری قوم پر زیادتی کرے تو اسے مدافعت اور دفاعی جنگ کرنے کا حق حاصل ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خود جہاد کی حقیقت سے واقف ہوں ، اس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ جہاد کیا ہے ؟ جہاد کن قوموں سے ہے ؟ اور جہاد کا موقع و محل کیا ہے ؟ تاکہ اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اور جو زہر لوگوں کے ذہن میں بھی پیوست کیا جا رہا ہے ، وہ پوری بصیرت کے ساتھ اس کا جواب دے سکیں اور لوگوں کو زہر کا تریاق فراہم کر سکیں ، افسوس کہ اسلامی لٹریچر سے بے توجہی اور اسلام کے بارے میں حد درجہ ناآگہی کی وجہ سے ہمارا یہ حال ہوگیا ہے کہ ہم دوسرے کی غلط فہمی تو کیا دُور کرتے کہ خود ہی ان پروپیگنڈوں سے متأثر اور مرعوب ہوئے جاتے ہیں اور خود ہمارا ذہن شکوک و شبہات کی تاریکی میں بے سمت ہوا جاتا ہے ، ہمیں ایسے حساس موضوعات پر قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنا چاہئے ، سلف کی تحریروں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے اور اصحابِ نظر علماء سے صحیح صورتِ حال کو جاننے کی کوشش کرنی چاہئے !۰ ۰ ۰