HIRA ONLINE / حرا آن لائن
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے ایک یادگار ملاقات

از قلم: ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی المعھد العالی الاسلامی میں حاضری ہو اور اس کے بانی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کے وہاں موجود رہتے ہوئے ان سے ملاقات نہ ہوسکے تو اسے محرومی کہا جائے گا – میری خوش بختی تھی کہ معہد کی زیارت کے وقت مولانا وہاں موجود تھے اور مجھے ان سے ملاقات کرنے اور کچھ دیر تک گفتگو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی – معہد میں پہنچ کر سب سے پہلے مولانا عمر عابدین قاسمی سے ملاقات ہوئی – انھوں نے فرمایا کہ محاضرہ سے پہلے مولانا سے ملاقات کرلیجیے – مولانا کے دفتر پہنچے تو انھوں نے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا – دفتر سادگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کررہا تھا – بستر ، میز ، کرسیاں ، ہر چیز سے سادگی کا اظہار ہورہا ہے – مولانا کے علم و فضل کی دنیا معترف ہے ، انہیں فقہ کے میدان میں بین الاقوامی شہرت حاصل ہے ، لیکن علماء کی جس شان و شوکت اور کرّوفرّ کو دیکھنے کے ہم عادی ہوچکے ہیں اس کا کہیں سے بھی اظہار نہیں ہورہا تھا – تھوڑی دیر گفتگو کے بعد ہم محاضرہ کے لیے اٹھے تو مولانا نے اپنے صاحب زادے مولانا عمر عابدین سے فرمایا کہ محاضرہ کے بعد مولانا کو (یعنی مجھے) پھر یہاں لائیے اور دوپہر کا کھانا کھلا کر رخصت کیجیے – محاضرہ اور ظہر کی نماز سے فارغ ہوکر ہم پھر مولانا کی خدمت میں پہنچے – ان سے یوں تو بارہا ملاقاتیں رہی ہیں ، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سمیناروں میں اور دوسرے مواقع پر بھی ، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب بے تکلّفی اور اپنائیت کے ماحول میں ان سے دیر تک مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا – مولانا نے معہد کے شعبوں : قرآن ، حدیث ، فقہ ، مطالعۂ مذاہب ، انگریزی اور تحقیق کا تعارف کرایا – انھوں نے بتایا کہ اختصاص فی الفقہ کے شعبہ میں داخلہ کے لیے طلبہ کا رجوع زیادہ رہتا ہے – میں نے طلبہ کی کل تعداد پوچھی تو…

Read more

علمی سیاحت نامہ (12)✍️ معاویہ محب اللہ مظاہرِ جدید کے سامنے والی عمارت میں داخل ہوئے جہاں درسگاہیں بنی ہوئی ہیں، وہاں داخل ہوتے ہی دیواروں پر اکابرینِ دیوبند کے خطوط، مظاہر العلوم کے مہتمم حضرات کی فہرست، شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی ؒ کا خط جس میں ہنگامۂ مظاہر کا تذکرہ ہے، الغرض بہت سارے نایاب ونادر خطوط دیواروں پر آویزا تھے۔ اسی احاطہ میں موجود تخصص فی الحدیث کی درسگاہ میں داخل ہوئے، وہاں الماری میں رکھی کتابوں کی زیارت کر رہے تھے کہ صدرِ شعبہ تشریف لائے، ان کا نام یاد کرنے میں میرا حافظہ ساتھ نہیں دے رہا ہے، البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ سورت ،گجرات کے رہنے والے ہیں، چنانچہ گجراتی زبان میں رس گھولنے والا انداز سننے کو ملا، مولانا سے مختصر،ہلکی پھلکی گفتگو پر مجلس تمام ہوئی۔ شعبہ تخصص فی الحدیث سالِ دوم کے طالب علم کے ساتھ علمی گفتگو ہوئی، ہم نے ان سے منہجِ تخریجِ حدیث کے سلسلے میں دریافت کیا، ان کے نصاب میں موجود ڈاکٹر ابواللیث خیرآبادی کی کتاب ’’تخریج الحدیث نشأته ومنھجیته‘‘ کا تذکرہ آیا، یہ کتاب تخریجِ حدیث کے سلسلے میں نہایت عمدہ اور نفیس کتابوں میں سے ہے، ڈاکٹر ابوللیث خیرآبادی صاحب ملیشیا انٹرنیشنل یونیورسٹی میں حدیث کے لکچرر ہیں، اس کتاب کی ڈجیٹل پرنٹ کاپی راقم کے پاس بھی موجود ہے، الحمد للہ راقم نے اس کتاب کو محنت وعرق ریزی سے پڑھنے کے بعد چھوٹے بھائی کو پڑھایا بھی ہے، خود مصنف نے پچھلے سال دار العلوم وقف دیوبند میں دو گھنٹہ کے محاضرہ میں پوری کتاب کا خلاصہ پیش فرمایا ہے، اس محاضرہ سے خواہش مند احباب یوٹیوب پر جاکر ضرور استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہر حال وہ طالب علم اس کتاب سے کافی نالاں و شکوہ کناں نظر آرہےتھے، اس کتاب کے منہج پر اپنے اساتذہ کے تبصروں کا بھی ذکر بھی ہوا۔ ان صاحب کا یہ کہنا تھا کہ اس قسم کا اندازِ تخریج ہم جیسے ناتواں اور بے بضاعت نہیں کرسکتیں، جس میں فنِ اسماء الرجال کی روشنی میں الفاظِ جرح وتعدیل کے مراتب کا لحاظ…

Read more

علمی سیاحت نامہ (11)* ✍️ *معاویہ محب اللہ* *مظاہر العلوم جدید

جب مولانا سعیدی کی مجلس سے فارغ ہوئے اور ان کے ارشادات سے مستفید ہوگئے تو تقریبا ساڑے گیارہ بج چکے تھے، اب کسی درسگاہ میں بیٹھ کر درسِ حدیث سننے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چنانچہ مظاہر العلوم جدید کی راہ لی، مظاہر کی مسجد میں کچھ دیر آرام کیا۔ مظاہرِ جدید میں چھٹی ہوجانے کی وجہ سے تقریبا تمام ہی سرگرمیاں موقوف ہوگئی تھیں، یہاں ہمارے لئے ایک ہی چیز باعثِ کشش تھی، وہ شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کی لائبریری۔ *شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوریؒ* شیخ الحدیث مولانا یونس جونپوری رحمہ اللہ کا نام بچپن ہی سے سن رکھا تھا، کیونکہ جامعہ خلیلیہ ماہی کی وجہ سے پورا علاقہ حضرت شیخ کے قدومِ میمنت لزوم سے مستفید ہوتا رہتا تھا، البتہ کم عمری کی وجہ سے آپ کی زیارت وملاقات کا تو شرف حاصل نہ ہوسکا، لیکن درجۂ عربی سوم میں آپ کی مرگِ ناگہانی کی اندوہ ناک خبر سن کر قلب وذہن پر حزن وغم، رنج وملال اور افسردگی کے نقوش ضرور مرتسم ہوگئے، اس کے باوجود حضرت شیخ کی علمی جلالت ووقار، شخصیت وکردار سے واقفیت براہِ نام تھی۔ مشکوۃ المصابیح کے سال میں ” انوار المشکوۃ ” کی جلدیں برادرِ خُرد کی وجہ سے ہمارے گھر میں پہلی مرتبہ آئیں، تو اس کی مختصر مگر جامع تشریح وتبیین نے اتنا مانوس کردیا کہ یقینا اس کا شارح علمِ حدیث کا نہ صرف شناسا اور دیدہ ور ہے بلکہ اس فن میں گہری بصیرت بھی رکھتا ہے۔ اس کے بعد دورۂ حدیث کے سال میں بخاری کی شرح ” نبراس الساری الی ریاض البخاری ” کے جستہ جستہ مقامات نظر نواز ہوتے گئے، تو علمِ حدیث کی برکت سے آپ سے عقیدت میں اضافہ ہوگیا، رفتہ رفتہ مزید کتب دیکھنے کی خواہش ہوئی تو فراغت کے بعد تو "الیواقیت الغالیہ فی تحقیق وتخریج احادیث العالیہ ” کے نام سے جو احادیث کی تخریج پر مشتمل کتاب ہے ; کے بہت سارے مقامات کا مطالعہ کیا، ان چاروں جلدوں میں ایسے ایسے حدیث کے لعل وجواہر جڑے ہوئے…

Read more

علمی سیاحت نامہ (10)——( ✍️ معاویہ محب اللہ )

رات ساڑے دس بجے ٹرین لکھنؤ سے روانہ ہوگئی اور پوری رات ٹرین میں ہی گزری، عین صبح کی پَو پھوٹتے ہی سہارنپور کے ریلوے اسٹیشن پر آموجود تھے، الحمد للہ یہ سفر بہت آسان، آرام دہ اور ہنسی وخوشی میں پورا ہوگیا، مظاہر العلوم سہارنپور میں ایسی گہری جان پہچان اور شناسائی تو کسی سے تھی نہیں لیکن اللہ تعالٰی کا فضل وکرم ہی تھا کہ مظاہر العلوم قدیم کے مہمان نواز جناب رفاقت علی صاحب نے بڑی دل داری فرمائی، مہمان خانہ میں ٹھیرایا، نلّی نہاری سے لے کر چائے وناشتہ تک کا معقول انتظام فرمایا۔ اس کے بعد مظاہرِ قدیم کے مہتمم صاحب مولانا محمد اللہ سعیدی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان سے دعائیں لیں کچھ علمی گفتگو ہوئی لیکن سوال وجواب کے بجائے صرف آپ ہی کی پند ونصائح پر اکتفا فرما لیا گیا، مولانا محمد اللہ سعیدی صاحب نے بڑی بصیرت افروز اور پتے کی بات کہی کہ عام طور سے سہارنپور دیکھنے والے جذبات کی رَو کا شکار ہوتے ہیں، انہیں بس اکابرین کے تبرکات وبقایات سے دلچسپی ہوا کرتی ہے، عقیدت کی حد تک تو یہ بھی درست ہے، اگر ایک عاشقِ محبوب اپنی معشوقہ کی گلیوں سے عشق کر بیٹھتا ہے، اس کے دیار کے رہنے والوں سے اسے انسیت واپنائیت ہوجاتی ہے، اس شہر کی خبروں میں وہ وہ شیرینی محسوس کرتا ہے جو کہیں نہیں، لہذا اگر کسی کو اپنی محبوب علمی ودینی شخصیت سے محبت وعقیدت ہے، جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے بقایا کو دیکھنے کی آرزو رہتی ہے، اس کے متروکات کی زیارت سے دل فرحت محسوس کرتا ہے، لیکن جب عقیدت میں اندھا ہوکر غلو کی حدود کراس ہونے لگے اور محبت وعقیدت کے بجائے اس پر دینی جذبات کے پھول نچھاور ہونے لگے، اس کے متروکات کے ساتھ عقیدت ومحبت، چومنے وچاٹنے کو کارِ ثواب سمجھانے جانے لگے تو یہ لمحۂ فکریہ ہے، ان کو وہ درجہ دے دینا جس سے غلو آمیز عقیدت، تبرکات وبقایات کے ساتھ وہ تمسک اختیار کیا جائے کہ غلو کی بُو…

Read more

*علمی سیاحت نامہ (9)*—–(مولانا عبد القادر ندوی پٹنی)

مولانا عبد القادر صاحب پٹنی کے ساتھ تعلق وعقیدت سالوں پرانا ہے، مولانا بھی مجھ سے بے حد محبت فرماتے ہیں، اس کا اندازہ ان کو ہوگا جنہوں نے ہمیں مولانا کے ساتھ دیکھا ہے، آپ چھوٹوں اور خردوں کو نوازنے میں بہت زیادہ تواضع سے کام لیتے ہیں، جب بھی مولانا عبد القادر صاحب کا چھاپی کے اطراف میں آنا ہوتا ہے ضرور ہم کو اطلاع دیتے ہیں اور یوں ملاقات وزیارت کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے، دو مرتبہ رمضان المبارک میں مولانا کے آگے تراویح بھی سنائی ہے، یک دفعہ شبینہ میں دو پارے سنائے تھے، اور یک دفعہ سہ شب تراویح میں ایک آد پارہ کے قریب سنانے کا اتفاق ہوا تھا، اس وقت ہمارا رہنا وہنا اور قیام وطعام مولانا کے گھر سے ہی میں تھا، اس کےعلاوہ مولانا دامت برکاتہم کے لکھنؤ کے گھر میں بھی کئی روز اور پٹن میں تو بارہا پانچ چھ دن گزارنے کا موقع میسر آیا ہے۔ اس مرتبہ بھی لکھنؤ کے سفر میں جمعہ کے بعد ظہرانہ پر مولانا نے اپنے ہی گھر پر دعوت کا انتظام فرمایا تھا، بہر حال مولانا دامت برکاتہم کے گھر جمعہ کے بعد پہنچ گئے۔ ابھی ابھی آپ کی تازہ تصنیف جو قرآن کریم کے ہندی، انگریزی اور گجراتی ترجمہ پر مشتمل ہے سامنے آئی ہے، ندوۃ العلماء میں اس کا رسمِ اجراء بھی ہوچکا ہے، مولانا نے ہم تمام رفقاء کے ہاتھ میں بھی وہ کتاب تھمائی اور تصویر بھی محفوظ کرلی، اس سے زیادہ آپ کی ذرہ نوازی کیا ہوگی کہ راقم الحروف کو اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ہدیتا عنایت فرمایا۔ گرچہ میں مستقلا درسی اعتبار سے مولانا کا شاگرد تو نہیں ہوں لیکن ایک اعتبار سے شاگردیت کا شرف ضرور حاصل ہے، اجازتِ حدیث، مختصر سوال وجواب، اور مشکوۃ المصابیح کی مختصر سہی تقریر سننے کا موقع ملا ہے، مولانا دامت برکاتہم بھی بطور خُرد نوازی کے فرماتے کہ معاویہ بھی میرا شاگرد ہے، خلاصۂ کلام ہم بھی آپ کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں۔ تازہ تازہ بھونی ہوئی مچھلی، گوشت کا سالن…

Read more

علمی سیاحت نامہ——–(ندوۃ العلماء لکھنؤ)

ندوۃ العلماء لکھنؤ ایک علمی وفکری دانش گاہ ہے، ندوۃ کے محاسن اور اس کے کارناموں کے لئے میرے قلم میں تابانی نہیں ہے، اس کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے میرے دل ودماغ میں الفاظ ومعانی کے درمیان ہنگامہ بپا ہے، الفاظ نوکِ قلم آنا چاہتے ہیں معانی نے انہیں کم ظرف اور ناتواں ہونے کے باعث روکے رکھا ہے۔ ندوۃ کی جلالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے سید سلیمان ندوی جیسا علم کا کوہِ گراں ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی نذر کیا، ندوۃ العلماء : سیرت النبی جیسی معرکۃ الآراء کتاب کے مصنف شبلی نعمانی جیسی عبقری شخصیات کی فکر ونظر کا محور ہے، ندوۃ کو شبلی نعمانی نے بال وپَر دئے، علامہ نے ندوۃ کو ” قدیم صالح اور جدید نافع ” کا سنگم بنایا، جو بھی ، جس مسلک کا بھی، جس سوچ کے ساتھ آتا ہے اپنی جھولی بھر کے جاتا ہے۔ علومِ قرآنی کا گنجینہ سمیٹ کر جاتا ہے، قرآن میں تدبر وتفکر کا درس لےکر نکلتا ہے، طبری وابن کثیر کی مرویات سے روشناس ہوتا ہے، کشاف ورازی کے عقلی عقدوں کو حل کرنے کا گُر سیکھتا ہے، فراہی واصلاحی کے نظمِ کلام کے تصور سے متعارف ہوتا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تفسیری آراء سے بہرہ مند ہوتا ہے، غرض علم تفسیر کے گوشہ گوشہ سے اپنے سینے کو لبریز پاتا ہے۔ یہاں صحیح بخاری ومسلم کے تراجم پر بحث ہوتی ہے، یہاں اسماء الرجال کی کتابیں کھنگالی جاتی ہیں، یہاں جرح وتعدیل کی میزان میں راویوں پر کلام کرنا سکھایا جاتا ہے، یہاں روایت ودرایت میں پوشیدہ علتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے، الغرض اس فن کا پیاسا یہاں سے علمِ حدیث کا شناور بن کر نکلتا ہے۔ فقہ میں دلچسپی رکھنے والا تمام مسالک کے فقہاء کرام کی فقہی آراء سے مستفید ہوتا ہے، کبھی امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل کو ترجیح دیتا ہے تو کبھی امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے، یہاں عملِ اہلِ مدینہ سے واقفیت حاصل کرتا ہے…

Read more