مولانا عبد القادر صاحب پٹنی کے ساتھ تعلق وعقیدت سالوں پرانا ہے، مولانا بھی مجھ سے بے حد محبت فرماتے ہیں، اس کا اندازہ ان کو ہوگا جنہوں نے ہمیں مولانا کے ساتھ دیکھا ہے، آپ چھوٹوں اور خردوں کو نوازنے میں بہت زیادہ تواضع سے کام لیتے ہیں، جب بھی مولانا عبد القادر صاحب کا چھاپی کے اطراف میں آنا ہوتا ہے ضرور ہم کو اطلاع دیتے ہیں اور یوں ملاقات وزیارت کا شرف حاصل ہوتا رہتا ہے، دو مرتبہ رمضان المبارک میں مولانا کے آگے تراویح بھی سنائی ہے، یک دفعہ شبینہ میں دو پارے سنائے تھے، اور یک دفعہ سہ شب تراویح میں ایک آد پارہ کے قریب سنانے کا اتفاق ہوا تھا، اس وقت ہمارا رہنا وہنا اور قیام وطعام مولانا کے گھر سے ہی میں تھا، اس کےعلاوہ مولانا دامت برکاتہم کے لکھنؤ کے گھر میں بھی کئی روز اور پٹن میں تو بارہا پانچ چھ دن گزارنے کا موقع میسر آیا ہے۔
اس مرتبہ بھی لکھنؤ کے سفر میں جمعہ کے بعد ظہرانہ پر مولانا نے اپنے ہی گھر پر دعوت کا انتظام فرمایا تھا، بہر حال مولانا دامت برکاتہم کے گھر جمعہ کے بعد پہنچ گئے۔ ابھی ابھی آپ کی تازہ تصنیف جو قرآن کریم کے ہندی، انگریزی اور گجراتی ترجمہ پر مشتمل ہے سامنے آئی ہے، ندوۃ العلماء میں اس کا رسمِ اجراء بھی ہوچکا ہے، مولانا نے ہم تمام رفقاء کے ہاتھ میں بھی وہ کتاب تھمائی اور تصویر بھی محفوظ کرلی، اس سے زیادہ آپ کی ذرہ نوازی کیا ہوگی کہ راقم الحروف کو اس کتاب کا ایک نسخہ بھی ہدیتا عنایت فرمایا۔
گرچہ میں مستقلا درسی اعتبار سے مولانا کا شاگرد تو نہیں ہوں لیکن ایک اعتبار سے شاگردیت کا شرف ضرور حاصل ہے، اجازتِ حدیث، مختصر سوال وجواب، اور مشکوۃ المصابیح کی مختصر سہی تقریر سننے کا موقع ملا ہے، مولانا دامت برکاتہم بھی بطور خُرد نوازی کے فرماتے کہ معاویہ بھی میرا شاگرد ہے، خلاصۂ کلام ہم بھی آپ کے خوشہ چینوں میں شامل ہیں۔
تازہ تازہ بھونی ہوئی مچھلی، گوشت کا سالن اور گھی کے ساتھ گُڈ کا لطف ہمیشہ یاد رہے گا، کھانا بڑا سادہ لیکن پُر لطف، لذت بخش لذیذ تھا، اللہ تعالٰی حضرت مولانا کے علم ورزق دونوں میں برکت نصیب فرمائے۔
*پاریکھ بک ڈپو*
شہود الحسن صاحب سے غائبانہ تعلق تو بہت پہلے سے تھا، رہ رہ کر ہم کئی مرتبہ آپ کے مکتبہ سے کتابیں منگوا چکے ہیں، لیکن لکھنؤ جانے کے بعد شہود الحسن صاحب سے ملاقات کی بے حد خواہش تھی، چنانچہ جمعہ کے بعد کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر پاریکھ بکڈپو پہنچ گئے۔ شہود الحسن صاحب محض کتابوں کے تاجر ہی نہیں بلکہ بہترین قلم کار اور علم دوست شخصیت ہے، جس طرح وہ کتابیں فروخت کرتے ہیں اس سے زیادہ انہیں کتابوں کے مطالعہ کا ذوق وشوق بھی ہے، پاریکھ بکڈپو میں ہر طرح کی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں: ناول، فکشن، شاعری، تنقید، خاکہ اور افسانہ وغیرہ۔ دینی ومذہبی لٹریچر میں آپ وسعتِ نظری اور اعلی ظرف کے حامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ مکتبہ پاریکھ میں بلاتفریقِ مسلک ومشرب تمام مصنفین کی کتابیں دستیاب ہوجاتی ہیں، جو جس مصنف کا چاہنے والا آئے وہ اپنے عزیز اور پسندیدہ مصنف کی کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پالیتا ہے، کتابیں بے ہنگم تھی لیکن اس کے باوجود مکتبہ میں مختلف الخیال مصنفین کی کتابوں سے جو حسن وخوبصورتی پیدا ہوگئی ہے وہ مصنوعی حُسن سے کہیں زیادہ ہے۔
شہود الحسن صاحب کی علم دوستی، مطالعہ سے محبت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ مکتبہ پاریکھ سے کتاب برائے مطالعہ بھی طلبہ کو دی جاتی ہے، اس کی صورت یہ کہ اگر سو روپے کی کتاب ہے تو قیمت سپرد کرکے کتاب مطالعہ کے لئے مل جائے گی، اس کے بعد کتاب واپس مکتبہ جمع کروا کر ستر یا اسّی فیصد قیمت واپس کر دی جاتی ہے، اس سے جو لوگ بہت زیادہ کتابیں خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں انہیں اپنی علمی پیاس بجھانے کا بہترین موقع میسر آجاتا ہے۔ بہر حال ہم نے اور مولانا سیف اللہ صاحب نے یہاں سے بھی کچھ کتابیں، ناول اور ابن صفی کے افسانے خریدیں، بچوں کے لئے کچھ کتابوں کی ضرورت تھی جو الحمد للہ یہاں دستیاب ہوگئی۔
*سید سلمان حسینی ندوی*
مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب سے اس سے پہلے بھی ہماری ملاقات ہوئی تھی، اور ایک دن ایک رات مولانا ہی کے مہمان خانہ میں رہنے اور مولانا کے عربی درس مشعال المصابیح میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا، اس مرتبہ بھی مغرب کے وقت مولانا سے ملاقات کے لئے مسجد میں پہنچ گئے، حسبِ معمول مولانا قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف تھے، کچھ دیر بعد ملاقات ہوئی اور ماشاء اللہ آفس میں بیٹھ کر تقریبا آدھ گھنٹہ علمی گفتگو کرنے کا موقع ملا، اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ مولانا وعظ وخطابت میں عبقری شخصیت ہے، زبان وبیان، فصاحت وبلاغت میں الفاظ کا تلاطم آنے کے انتظار میں رہتا ہے، ہماری رسمی ملاقات وگپ شپ میں بھی یہی انداز جھلک رہا تھا، وہی اندازِ تحکمانہ، وہی فخریہ لب ولہجہ، وہی اندازِ تخاطب دیکھا جو خطابت وتقریر کے وقت ہوا کرتا ہے، مولانا سے ہمیں صحابہ کے معاملہ میں شیدید نقطۂ نظر سے شدید اختلاف ہے، اس مرتبہ بھی مولانا نے اپنے موقف کا بھرپور انداز میں اظہار بھی کیا، واقعی میں قلبی احساس ہوا کہ اتنا بڑا محدث ، اتنا بڑا فصیح وبلیغ خطیب کاش اس موضوع میں ہاتھ نہ ڈالتا تو مستقبل کی قیادت کا درخشندہ ستارہ بن کر ابھرتا، میرے نام کی مناسبت سے انہوں نے وہی اپنی داستان چھیڑ دی جو نہیں چھیڑنی چاہئے۔ اللہ تعالٰی مغفرت فرمائے اور آپ کو صحیح راستہ کا داعی بنائے۔
اس کے علاوہ بے شمار موضوعات پر گفتگو ہوئی، خصوصا یہ کہ بخاری ومسلم میں بھی متکلم فیہ روایتوں کا اندراج ہے اور کئی بخاری کی روایات پر امام دار قطنی نے جو کلام کیا ہے اس پر بھی انہوں نے روشنی ڈالی، اس ضمن میں علامہ حبیب الرحمن صدیقی کاندھلوی رحمہ اللہ کی خدمات کو بہترین خراجِ تحسین پیش کیا، اور عمرِ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں علامہ صدیقی کے موقف کو تائید کے ساتھ صاد بھی فرمایا۔ نیز تفہیم القرآن کے بارے میں گفتگو ہوئی تو فرمانے لگے: اس کتاب کا میں نے حرف حرف دقتِ نظر کے ساتھ دیکھا ہے کہیں بھی اہلِ سنت سے سرِ مُو انحراف موجود نہیں ہے۔الغرض مولانا نے بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ خاطر داری فرمائی، بادام، پستہ اور کھجور کے ذریعہ ہماری تواضع فرمائی، تقریبا آدھا گھنٹہ کی مجلس چائے اور بسکٹ پر تمام ہوئی۔
اس ملاقات کے فورا بعد دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ واپس تشریف لائے، علامہ شبلی نعمانی لائبریری کی زیارت کی، لیکن یہ زیارت تشنہ لب ہی رہی، اس کے علاوہ کئی اساتذہ سے ملاقات کی خواہش تھی لیکن صبح سے شام ہی تک کے مختصر وقت میں آدمی آخر کرہی کیا سکتا ہے، لہذا عشاء کی نماز ندوۃ کی جامع مسجد میں ادا کرنے کے بعد فورا ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے جہاں سے سہارنپور کے لئے روانہ ہونا تھا۔