ندوۃ العلماء لکھنؤ ایک علمی وفکری دانش گاہ ہے، ندوۃ کے محاسن اور اس کے کارناموں کے لئے میرے قلم میں تابانی نہیں ہے، اس کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لئے میرے دل ودماغ میں الفاظ ومعانی کے درمیان ہنگامہ بپا ہے، الفاظ نوکِ قلم آنا چاہتے ہیں معانی نے انہیں کم ظرف اور ناتواں ہونے کے باعث روکے رکھا ہے۔
ندوۃ کی جلالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس نے سید سلیمان ندوی جیسا علم کا کوہِ گراں ملتِ اسلامیہ ہندیہ کی نذر کیا، ندوۃ العلماء : سیرت النبی جیسی معرکۃ الآراء کتاب کے مصنف شبلی نعمانی جیسی عبقری شخصیات کی فکر ونظر کا محور ہے، ندوۃ کو شبلی نعمانی نے بال وپَر دئے، علامہ نے ندوۃ کو ” قدیم صالح اور جدید نافع ” کا سنگم بنایا، جو بھی ، جس مسلک کا بھی، جس سوچ کے ساتھ آتا ہے اپنی جھولی بھر کے جاتا ہے۔ علومِ قرآنی کا گنجینہ سمیٹ کر جاتا ہے، قرآن میں تدبر وتفکر کا درس لےکر نکلتا ہے، طبری وابن کثیر کی مرویات سے روشناس ہوتا ہے، کشاف ورازی کے عقلی عقدوں کو حل کرنے کا گُر سیکھتا ہے، فراہی واصلاحی کے نظمِ کلام کے تصور سے متعارف ہوتا ہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تفسیری آراء سے بہرہ مند ہوتا ہے، غرض علم تفسیر کے گوشہ گوشہ سے اپنے سینے کو لبریز پاتا ہے۔
یہاں صحیح بخاری ومسلم کے تراجم پر بحث ہوتی ہے، یہاں اسماء الرجال کی کتابیں کھنگالی جاتی ہیں، یہاں جرح وتعدیل کی میزان میں راویوں پر کلام کرنا سکھایا جاتا ہے، یہاں روایت ودرایت میں پوشیدہ علتوں کی نشاندہی کی جاتی ہے، الغرض اس فن کا پیاسا یہاں سے علمِ حدیث کا شناور بن کر نکلتا ہے۔
فقہ میں دلچسپی رکھنے والا تمام مسالک کے فقہاء کرام کی فقہی آراء سے مستفید ہوتا ہے، کبھی امام شافعی رحمہ اللہ کی دلیل کو ترجیح دیتا ہے تو کبھی امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی بصیرت کا اسیر ہوکر رہ جاتا ہے، یہاں عملِ اہلِ مدینہ سے واقفیت حاصل کرتا ہے ، یہاں متأخرین میں ابن تیمیہ، ابن القیم، ابن ہمام، زیلعی اور شاہ ولی اللہ کی تنقیدی آراء سے بھی مستفید ہوتا ہے۔
جب طالبِ علم دقیق، گہرے، علمی اور فکری موضوعات سے سیر ہوجاتا ہے تو ذہنی آسائش اور تفریحِ طبع کے لئے غالب واقبال کے نغمے گنگناتا ہے، میر وکلیم کے درد سے آنسوؤں کو رولتا ہے، اور یوں اپنا درد وغم ہلکا کرتا ہے، جگر واصغر کی غزلوں سے محفلوں میں تازگی وبشاشت کو بکھیر دیتا ہے، شبلی وآزاد کی تنقید سے لطف اندوز ہوتا ہے، حالی وسر سید کی قدیم نثر سے بھی استفادہ کرتا ہے، عبد الماجد اور رشید احمد صدیقی کی ادبی بذلہ سنجیوں سے بھی لطف اندوز ہوتا ہے، اور ابوالکلام و سید مودودی کے دینی وفکری علوم کو ادبی اسلوب میں پڑھ کر جھوم جھوم جاتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ مجھے ندوۃ العلماء لکھنؤ سے بے حد قلبی محبت ہے، بار بار وہاں جانے کا من کرتا ہے، گرچہ ندوۃ سے رسمی تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن فکری وذہنی رجحان اسی کی طرف مائل کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی اس ادارے کو پھلتا پھولتا رکھے۔ اس کو نظرِ بد سے بچائے۔
جمعہ کی نماز کے لئے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی جامع مسجد میں پہنچ گئے، کسی وقت مولانا سعید الرحمان اعظمی ندوی دامت برکاتہم عربی زبان میں طویل اور مسلسل خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے، لیکن کئی سالوں سے علالت کے باعث آپ نے خطبہ دینا چھوڑ دیا ہے، اس کے بجائے آپ کے لائق وفائق شاگرد اور ڈاکٹر سعید الرحمان اعظمی کی خدمات پر پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹر فرمان نیپالی ندوی (استاد ندوۃ العلماء لکھنؤ) کو خطبہ کے فرائض سپرد کردئے ہیں۔ لہذا حسبِ سابق آج بھی ڈاکٹر فرمان نیپالی ندوی صاحب نے ابتدا میں مختصر اردو زبان میں پند ونصائح پر مشتمل تقریر فرمائی، جس میں زبان وبیان، فصاحت وبلاغت کی اہمیت اور زبان اللہ تعالی کی کتنی بڑی نعمت ہے ; اس پر روشنی ڈالی، نہایت کم وقت میں مفید سے مفید گفتگو فرمائی، اس گفتگو میں ہماری دلچسپی کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ کوئی بات کتاب وسنت سے علاوہ نہیں تھی، ہر بات آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ مبارکہ سے مزین ومبرہن تھی۔ اس کے بعد عربی زبان میں خطبہ ارشاد فرمایا، قرآن میں تدبر وتفکر کی اہمیت کو کھول کھول کر بیان کیا، آپ نے خطبہ میں جس مضمون کا انتخاب فرمایا تھا ایسا لگتا ہے کہ مجھے ہی مد نظر رکھا ہوگا، کیونکہ خطبہ کی ہر سطر، ہر کڑی میرے پربطِ دل کو چھیڑ رہی تھی، نماز کے بعد ہم نے مولانا سے ملاقات بھی کی، اللہ تعالٰی مولانا کے علم وعمل میں ترقی نصیب فرمائے۔