HIRA ONLINE / حرا آن لائن

علم کیا ہے ؟

تذکرہ شعراء مدھوبنی (تعارف و تبصرہ)

✍️مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ مولانا حسیب الرحمن قاسمی تخلص شائق(ولادت ۵۱/ اپریل ۹۸۹۱ء) بن حافظ وقاری مطیع الرحمن صاحب رحمانی مدھوبنی ضلع کی مشہور ومعروف اور نابغہئ روزگار بستی یکہتہ کے رہنے والے ہیں، ان کے والد سے میری شناشائی قدیم تھی اور یہ اتفاق ہے کہ مدرسہ رحمانیہ میں قاری مطیع الرحمن کی بحالی میں اکسپرٹ کی حیثیت سے میری شرکت ہوئی تھی، علماء، فضلاء کی اس بستی میں کئی نامور اہل علم سے میرے تعلقات دوستانہ رہے ہیں، اور اس بستی کے کئی علماء، وحفاظ نے ویشالی ضلع کو اپنا مرکز بنایا اور مجھے ان کے پیچھے نمازپڑھنے کی سعادت ملی، مولانا ممتاز علی مظاہری ؒ کی شفقت ومحبت، قاری محمد طاہر، مولانا منظور احمد شمسی قاسمی، مولانا مطیع الرحمن موجودہ صدر مدرس مدرسہ ر حمانیہ سے میری رفاقت قدیم ہے اور دوستانہ تعلقات آج بھی قائم ہیں، حافظ نعمت اللہ صاحب نے پوری زندگی ویشالی میں ہی گذاری اور زمانہ تک میرے قائم کردہ معہد العلوم الاسلامیہ چک چملی سرائے، ویشالی میں بحیثیت استاذ خدمت انجام دیتے رہے، یہ اس گاؤں سے میری قلبی وارفتگی اور گاؤں والوں کی مجھ سے محبت کی دلیل ہے کہ معہد یعقوبیہ للبنات کا صدر حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ کے وصال کے بعد مجھے بنایا گیا، تحریک ماسٹر مشتاق علی فہمی کی تھی اور حوالہ مولانا محمد قاسم مظفر پوری ؒ کا کہ انہوں نے یہی مشورہ دیا تھا چنانچہ میں نے بھی قبول کر لینے میں اپنی سعادت سمجھی، امارت اور اکابر امارت شرعیہ کے یہاں کے لوگ گرویدہ ہی نہیں، فدائین میں رہے ہیں، جب بھی آواز دی گئی، لبیک کہا، یہاں امارت شرعیہ کا دار القضاء بھی قائم ہے، قاضی رضوان احمد صاحب یہاں کے معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کر تے ہیں۔ مولانا حسیب الرحمن قاسمی شاق یکہتوی یہیں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، مدرسہ نور الاسلام مسجد صوفیان باغ قدوائی نگر لدھیانہ سے حفظ قرآن کی تکمیل کے بعد عربی اول ودوم کی تعلیم مدرسہ فلاح المسلمین گوا پو کھر مدھوبنی…

Read more

*”گلدستۂ دینیات” ____ تعارف و تبصرہ*

نام کتاب: گلدستۂ دینیات (5/حصے) مصنف : مولانا محمد افضل حسین قاسمی تبصرہ نگار: مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری استاذ تفسیر و حدیث، دار العلوم سبیل السلام، و جامعہ ریاض البنات، حیدرآباد آپ نے یہ مقولہ تو سنا ہی ہوگا: "العلم فی الصغر کالنقش علی الحجر” بچپن کا پڑھا ہوا پتھر کی لکیر جیسا ہوتا ہے، جو مٹائے نہیں مٹتا، یہی وجہ ہے کہ اہلِ علم‌ نے اپنے اپنے زمانوں اور اپنی اپنی زبانوں میں ہمیشہ ایسی کتابیں لکھی ہیں، جو چھوٹے بچے اور بچیوں کے لیے مفید ہوں، اس میدان میں دینی تعلیم و تربیت کے لحاظ سے بھی کافی کام ہوا ہے، بچپن میں جن عقائد و ایمانیات اور اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے، بچوں کو جو کچھ سِکھایا جاتا ہے، وہ ذہن و دماغ میں پیوست ہوجاتا ہے، حالات کے اتار چڑھاؤ کے باوجود بھی اس سے ہٹنا مشکل ہوتا ہے، اور ماضی کی وہی دھندلی تصاویر ذہن و دماغ کے اسکرین‌ پر ابھر کر سامنے آجاتی ہیں؛ لہذا اپنے بچوں اور بچیوں‌کو صحیح تعلیم دینا، ان کے لیے اچھی کتابوں کا انتخاب کرنا، گھر اور گھر کے باہر اچھا ماحول فراہم‌ کرنا، ہم سب کی ذمّہ داری ہے، اس سلسلے میں بچوں کی درسیات کے عنوان سے، لائبریریوں میں مختلف کتابیں دستیاب ہیں، جو مکاتب و مدارس اور اسکولوں میں داخلِ نصاب ہیں، ہمارے سامنے اسی انداز کی ایک نئی کتاب "گلدستۂ دینیات” نام کی ابھی ابھی طبع ہو کر آئی ہے، جس کے کل 5/حصے ہیں، جو مختصر بھی ہیں اور مفید بھی۔ "گلدستۂ دینیات” مکاتب و مدارس اور اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے لیے لکھی گئی ایک خاص انداز کی کتاب ہے، جو ماضی کی بہت ساری کتابوں سے ممتاز ہے، یہ کتاب "گُل” نہیں، "گلدستہ” ہے، یعنی اس کے اندر ایک ہی قسم کے پھول نہیں؛ بلکہ دینیات کے انواع و اقسام کے پھول ملیں گے، پانچ حصوں کی اس کتاب میں طلبہ و طالبات کی عمروں کا خیال رکھتے ہوئے مضامین مرتب کیے گئے ہیں، اس کتاب میں مرحلہ در مرحلہ مخارج حروف، تجوید کے…

Read more

اسلام کا فلسفۂ یُسر اور آج کل کی شادیاںاز:ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

آج کل ہمارے شہر میں کچھ لوگوں نے ’’آسان نکاح‘‘ کی مہم چلا رکھی ہے، یہ بہت مبارک کام اور اقدام ہے، شادیوں کو جس طرح لوگوں نے حرص و ہوس، سماجی روایات و رسومات، سماجی دباؤ(Social Pressure) اور میرے الفاظ میں سماجی دہشت گردی(Social Terrorism) کے سبب مشکل و پیچیدہ بنا دیا ہے، اس کی وجہ سے نکاح دشوار ہو گیا ہے، بدکاری رواج پا رہی ہے، فحاشی رواج پا رہی ہے، لوگ ناجائز طریقے اپنا رہے ہیں یا ذہنی مریض بن رہے ہیں، بین مذاہب شادیوں کی وارداتیں بڑھنے میں ایک سبب شادی کی سماجی مشکلات اور رسم و رواج سے پڑنے والا بوجھ ہے۔ نکاح ایک عبادت بھی ہے اور ضرورت بھی، اسی لیے اسلام میں اس کی ترغیب بھی دی گئی ہے اور اسے آسان بھی رکھا گیا ہے، اسلام کے تمام ہی احکامات آسان رکھے گئے ہیں، کسی ایسی بات کا حکم ہی نہیں دیا گیا ہے، جس کی انسان میں صلاحیت و اہلیت نہ ہو۔ یہاں ہم اسلام کے فلسفہ یُسر کی وضاحت کے لیے متعدد احکامِ شریعت مثلاً جہاد، نماز، روزہ، کفارہ، قصر اور وضو و تیمم جیسے بہت سے بنیادی مسائل کی مثالیں پیش کر سکتے تھے، لیکن طوالت سے بچنے کے لیے چند بنیادی آیات و احادیث پر ہی گفتگو کریں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَـهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْـهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۔ [البقرۃ: ۲۸۶] (جب لوگ اللہ پر ایمان لے آئے اور اس کی طرف رجوع کر لیا تو اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ اوامر و نواہی میں ان پر کوئی مشقت نہیں ڈالے گا، بلکہ اپنی رحمت سے ان کو ان کی طاقت و قدرت کے مطابق ہی مکلف بنائے گا، ہر شخص کو اس کی نیکی کے بقدر ثواب دیا جائے گا اور ہر ایک کو اس کے گناہوں کے حساب سے سزا دی جائے گی۔ نہ کوئی زیادتی ہوگی نہ کسی کی نیکیاں کم کی جائیں گی۔) اسی سورہ میں رمضان کے روزوں سے متعلق احکامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: يُرِيْدُ اللهُ بِكُمُ…

Read more

اسلام کا فلسفۂ نصرت و آزمائش از: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

آج کل ملت اسلامیہ سخت آزمائشوں میں مبتلا ہے، بالخصوص اہلِ غزہ کی آزمائش خون کے آنسو رُلاتی ہے، لیکن دوسری جانب ان کا صبر و ثبات بہت حوصلہ بخش ہے، چوں کہ ان کا نظامِ تربیت بہت مثالی اور زبردست ہے، اس لیے وہ قرآن کے فلسفۂ نصرت و آزمائش سے بخوبی واقف ہیں، اور اسی لیے ثابت قدم ہیں، ان کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فہم قرآن بہت عالی ہے، ان کی نظر بہت وسیع ہے، قرآن مجید کے حرف حرف پر ان کا غیر متزلزل ایمان ہے، ورنہ عام طور پر جن لوگوں کو ابتلاء و آزمائش کے فلسفہ اور تاریخِ اسلام میں اس کی اہمیت کا درست علم نہیں ہوتا وہ خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، واویلا کرتے ہیں، ماتم کرتے ہیں اور فتح و آزادی کے بجائے غلامی کو ترجیح دیتے ہیں، موت کا خوف اور زندگی کی چاہت (وہن) انھیں آزمائش و مقاومت کے نام سے ہی ڈرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس مضمون میں ہم راست طور پر قرآن مجید کا بیانیہ پیش کرنےکی کوشش کریں گے، تاکہ حالات کا بھی صحیح اندازہ ہو جائے اور فلسفہ آزمائش و نصرت کا قرآنی بیانیہ بھی سامنے آ جائے، اس سلسلے کے تمام فلسفوں سے قطعِ نظر قرآن کا فلسفہ سمجھنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ ایک روز الجزیرہ نے اسرائیل کے وزیرِ دفاع کا بیان نشر کیا، جس میں اس نے کہا تھا کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم حماس کی طاقت کو توڑ کر رکھ دیں، تاکہ اس کے اندر حکومت کرنے کی صلاحیت اور عسکری قوت باقی نہ رہے۔ ہم نے اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ناممکن ہے، اسی وزیر نے پہلے کہا تھا کہ ہم یہ کام چند دن میں کر گزریں گے؛ لیکن اس بیان میں کہا کہ اس کے لیے ہمیں طویل مدت درکار ہے، اسی لیے ہم نے لکھا کہ یہ ناممکن ہے، کیوں کہ مقاومہ کے لوگوں نے یہ باور کر دیا ہے کہ انھیں موت کا خوف نہیں، وہ فلسفۂ…

Read more

اسلام ترا دیس ہے، تو مصطفوی ہے از: محمد اعظم ندوی استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کوئی بھی قوم جو اپنی نشاة ثانیہ اور ترقی و عروج کی خواہش رکھتی ہے اسے اپنی شناخت بنانی ہوتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر اس کی ترقی و تنزل کے فیصلے ہوتے ہیں، شناخت سے مراد کسی قوم کی وہ تشخصات، ما بہ الامتیاز صفات، ترجیحات، دستور حیات، اور اس کی وہ تاریخی خصوصیات ہوتی ہیں جو اسے دوسری قوموں سے ممتاز کرتی ہیں، امت مسلمہ کی شناخت کی بات کی جائے تو اس سے مراد نہ تو نہ قومی شناخت ہے نہ نسلی، نہ لسانی، اور نہ علاقائی،جس کے عفریت کو قابو کرنا محال ہوچکا ہے، یہاں گفتگو اس کلیدی شناخت کی ہے جس میں یہ ایک مسلمان کی پہچان کی یہ تمام جہتیں آکر سمٹ جاتی ہیں، وہ ہے اسلامی شناخت جو ہر شناخت سے بڑھ کر اور برتر ہے، اور تنہا یہی وہ شناخت ہے جو معتبر ہے، بقیہ شناخت کے نام پر جو کچھ ہے اس کی حیثیت چٹیل میدان میں چمکتی ہوئی ریت کی طرح ہے کہ جس کو پیاسا پانی خیال کرتا ہے؛ یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچ جاتا ہے تو اس کو کچھ بھی نہیں پاتا،اور وہاں اسے یہ آواز آتی ہے: اس سرابِ رنگ وبو کو گلستاں سمجھا ہے تو آہ اے ناداں! قفَس کو آشایں سمجھا ہے تو تاریخی اعتبار سے غور کریں تو اسلامی شناخت کواس وقت شدید صدمہ پہنچا جب مغرب پرستی،مذہب بیزاری کے احیا(Secularisation)، اور اسلامی تشخص کو ختم کرنے کی مہم اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں خاص طور پر مصر میں شروع ہوئی، جب فرانسیسی سپہ سالار نپولین بونا بارٹ نے ١٧٩٧ء میں مصر پر حملہ کیا،محمد علی پاشا برسر اقتدار آئے اور مصر کے ”خدیو” یا والی بنے تو مغربی تہذیب کو مصری معاشرہ میں نفوذ کا موقع ملا، اور سرکش سیلاب کی مانند اس نے سماج کی تہوں میں اپنی جگہ بنالی، اور مصریوں میں قومیت و وطنیت کی تخم کاری شروع ہوگئی، غیر اسلامی نظریات عالم اسلام کے ممالک میں جنگل کی آگ…

Read more

نفسیاتی جنگ حرب سے بڑا حربہ از: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی

نفسیاتی جنگ Psychological warfare کو ایک آزمودہ اور کارآمد ہتھیار کے طور پر دنیا کے اکثر ممالک اپنے دشمنوں کو زیر کرنے لیے استعمال کرتے آئے ہیں، کیونکہ کامیاب سیاستدانوں اور نفسیاتی ماہرین کو یہ علم ہے کہ نفسیاتی جنگ کے ذریعہ ایک بہادر سپاہی کو بزدل اور ایک شریف شہری کو ملک دشمن دہشت گرد اور قاتل بنایا جا سکتا ہے، نفسیاتی جنگ کا مقصد جھوٹے پروپیگنڈے تیار کرنا، بے جا الزامات لگانا، ذہنی دباؤ بنانا، ذلیل کرنا، اور بین الاقوامی سطح پر کسی قوم کی معیشت اور امن وعافیت کو متاثر کرنا، اس کے جذبات سے کھلواڑ کرنا، مختلف سازشیں رچنا، صبر کا امتحان لینا، اور مختلف فریب کاریوں میں اسے الجھا کر رکھنا ہے۔ زمانۂ قدیم سے ہی یہ طریقہ بہت کار گر رہا ہے، اسے سرد جنگ ، اعصاب کی جنگ یا معنوی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں، اس کا مقصد مد مقابل کی ترجیحات ومعتقدات کے بارے میں شک پیدا کرنا اور خود اس کو اپنی ہی نظر میں کمزور کردینا ہوتا ہے، اور یہ کام قلب ونظر کے شکار سے ہی ہوجاتا ہے، جسم وجان پر وار کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، دوسرے لفظوں میں یہ نظروں سے پرے نظریہ کی جنگ بنادی جاتی ہے، مد مقابل opponent کی معنویات morales پر حملہ کردیا جاتا ہے، گویا یہ حرب(جنگ) نہیں حربہ ہے، قدیم دور میں آشوریوں کے یہاں نفسیاتی جنگ کے مختلف حربوں کا بہت زیادہ استعمال تھا، دوسری جنگ عظیم میں بھی اس کو ایک کامیاب ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا، اس کے کامیاب ہتھیار کے طور پر زبان و قلم، کارٹونز، فوٹوز اور ویڈیوز وغیرہ کو استعمال کرنا عام ہے، ملک کی جاسوسی اور غداری Fifth column کا ۱۹۳۶۔۱۹۳۹ءکے دوران ہونے والی اسپین کی خانہ جنگی میں بہت خطرناک کردار رہا تھا، جس میں زر خرید جاسوسوں نے اپنی صفوں میں انتشار پیدا کرکے داخلی ٹکراؤ میں گھناؤنا کھیل کھیلا اور پھر اپنی ہی قوم کو شکست سے دوچار کیا۔ آج کی دنیا میں وڈیوز وائرل کرنا ،کسی کو ٹرول کرنا، منفی ٹرینڈ چلانا، فوٹو شاپ…

Read more