HIRA ONLINE / حرا آن لائن
"مزاحمت” ایک مطالعہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم "مزاحمت”ایک مطالعہ اِن دنوں اردو ادب کی دنیا میں جو کتاب غیر معمولی شہرت، بےپناہ پذیرائی اور دلوں کی گہرائیوں سے اُبھرتی ہوئی محبت حاصل کر رہی ہے، وہ یحییٰ سنوار کے شہرۂ آفاق عربی ناول (الشوک والقرنفل) کا اردو ترجمہ "مزاحمت” ہے۔ یہ ترجمہ محترمہ ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کا کارنامہ ہے،اور اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس عظیم ناول کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے، تو یہ کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ حق یہ ہے کہ اس کتاب کو جو عزت، جو مقبولیت اور جو توجہ ملی ہے، وہ اسی کی مستحق تھی۔ اس میں وہ تمام تمنائیں، وہ خواب، وہ تڑپ اور وہ آرزوئیں سمٹی ہوئی ہیں جو برسوں سے مسلمانوں کے سینوں میں مچلتی رہی ہیں۔ یہ کتاب دلوں کی دھڑکنوں کو وہ زبان دیتی ہے جو اکثر لوگ کہنا تو چاہتے ہیں مگر الفاظ میں ڈھال نہیں پاتے۔ میں نے اس ناول کو پہلی بار اس وقت دیکھا جب ہمارے عزیز ساتھی مولانا سمعان خلیفہ ندوی نے اسے "ندوی فضلاء گروپ” میں شیئر کیا۔ چند صفحات پڑھے، لیکن اسکرین پر پوری پڑھنا ممکن کہاں؟لیکن چند صفحات کے مطالعہ نے جیسے کسی نے میری رگوں میں حرارت بھر دی ہو۔ پھر جب یہ کتاب مکمل شکل میں ترجمے کے ساتھ محترم ڈاکٹر طارق ایوبی صاحب کے توسط سے میرے ہاتھ آئی، تو پڑھنے لگا—اور یوں پڑھتا چلا گیا کہ لفظ لفظ میرے اندر اترتا گیا۔ یہ کتاب ایسی گرفت رکھتی ہے کہ قاری محسوس بھی نہیں کرتا اور یکایک خود کو آدھی رات میں غزہ کی گلیوں میں بھٹکتا پاتا ہے، دھماکوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ملبے کے درمیان تڑپتے چہروں کی چلمنیں ہلتی ہیں، اور مجاہدین کی دھڑکنیں اپنے سینے سے ٹکراتی محسوس ہوتی ہیں۔ میں ہر صفحے پر رک رک کر سوچتا کہ اب اگلا مرحلہ کیا ہوگا؟اسلامی جہاد کا اگلا وار؟مزاحمت کا نیا قدم؟کون شہید ہوگا؟ کون زخمی؟غزہ کب تک صبر کرے گا؟اور مجاہدین کی کامیابیوں کی روشنی کب پھیلے گی؟کبھی کسی شہید کی موت دل کو…

Read more