HIRA ONLINE / حرا آن لائن
کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے؟ 

[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ]  موجودہ دور میں میڈیکل سائنس کی ترقی کے نتیجہ میں آنکھ کا قرنیہ (Cornea) اور قرن بٹن (Corneoscleral Button) دوسرے ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا محفوظ طریقہ پر انجام پذیر ہوتا ہے اور اس عمل میں میت کی کوئی اہانت نہیں سمجھی جاتی ہے اور نہ اس کی وجہ سے شکل میں کوئی بدنمائی پیدا ہوتی ہے ، لہذا اس سلسلے میں مندرجہ ذیل تجاویز پاس کی جاتی ہیں :          (1) زندگی میں آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینے میں چوں کہ دینے والے کو بڑا ضرر لاحق ہوتا ہے ، نیز یہ چیز طبی اخلاقیات اور قانون کے بھی خلاف ہے ، اس لیے اس کی شرعاً اجازت نہیں ہے ۔           (2) اگر کسی شخص نے اپنی زندگی میں وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو دے دیا جائے اور ورثہ بھی اس پر راضی ہوں تو اس کی آنکھ کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند شخص کو دینا درست ہے ، اسی طرح میت نے وصیت نہ کی ہو اور ورثہ اس کی آنکھ کا قرنیہ کسی ضرورت مند شخص کو منتقل کرنا چاہیں تو اس کی بھی شرعاً اجازت ہے ۔        ( 3) اگر کوئی شخص کسی ایکسیڈنٹ یا حادثہ کا شکار ہوا اور اس کی آنکھ پر ایسی ضرب آئی جس کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، یا کسی شدید بیماری کی وجہ سے اس کی آنکھ کا نکالنا ضروری ہو گیا ، اور اس کی آنکھ کا قرنیہ طبّی نقطۂ نظر سے قابلِ استعمال ہو تو ایسی صورت میں اس کا قرنیہ دوسرے ضرورت مند کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔ مولا نا عظمت اللہ میر کشمیری (نوٹ: تجویز 2 کی دونوں شقوں کے ساتھ راقم اتفاق نہیں رکھتا ہے – )

Read more

مائیکرو فائنانس کے شرعی احکام

[ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ]  (1) غیر سودی مائیکرو فائنانس ادارے قائم کرنا وقت کی ضرورت اور شرعاً مستحسن قدم ہے ، لیکن یہ ضروری ہے کہ وہ احکامِ شرعیہ سے واقف علماء و اربابِ افتاء کی نگرانی میں کام کرے ۔ (2) مقروض کو قرض کی ادائیگی پر آمادہ کرنے والے گروپ کی تشکیل میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے ؛ البتہ مقروض کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے گروپ کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کرے جو مقروض کے لیے ذہنی تناؤ اور پریشانی کا سبب ہے ۔ (3) مال جمع کرنے والوں کی رضا مندی سے قرض طلب کرنے والوں کو قرض دینے کی گنجائش ہے ؛ خواہ وہ ادارے کے ممبر ہوں یا نہ ہوں ؛ البتہ اگر قانوناً ممبر بنانا ضروری ہو تو ممبر بنا کر قرض دیا جائے ۔ (4) الف : مائیکرو فائنانس ادارہ قرض کے اندراج اور وصولی کی مناسب اجرت لے سکتا ہے ۔ غیر متعلق اخراجات نہیں لیے جاسکتے ۔       ب : بہتر ہے کہ مائیکرو فائنانس ادارہ دیگر اخراجات کے لیے جائز ذرائع مثلاً اصحاب خیر سے تبرّعات اور جائز سرمایہ کاری کی صورت اختیار کرے ۔ (5) مائیکرو فائنانس ادارہ بھی اسلامی سرمایہ کاری مثلاً مضاربت ، شرکت ، اجارہ اور مرابحہ وغیرہ کا استعمال کر سکتا ہے ۔ (6) وکالت پر مبنی سرمایہ کاری شرعاً جائز ہے ۔ (7) آج کل چھوٹے سودی قرضے کے متعدد ادارے ہیں ، جن میں گروپ بناکر عورتوں کو قرض دیا جاتا ہے ، اس میں قرض کی وصولی کے نام پر استحصال بھی کیا جاتا ہے ؛ اس لیے ایسے سودی قرض سے بچا جائے ۔

Read more

ہیلتھ انشورنس

ہیلتھ انشورنس * [ اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کے 34 ویں سمینار منعقدہ 8 – 10نومبر 2025 ، جمشید پور (جھارکھنڈ) میں منظور شدہ تجاویز ] مورخہ ۹/نومبر ۲۰۲۵ ء کے اجلاس میں ہیلتھ انشورنس کے موضوع پر بحث و مناقشہ کے بعد کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اکیڈمی کی طرف سے مارچ 2006ء میں میڈیکل انشورنس سے متعلق جو تجاویز منظور کی گئی تھیں ان سے اتفاق کرتے ہوئے موجودہ حالات کے تناظر میں مزید مندرجہ ذیل تجاویز منظور کرتی ہے : (1) مروّجہ ہیلتھ انشورنس اپنے انجام کے اعتبار سے غرر ، قمار ، سود و غیرہ- ممنوعات پر مشتمل ہے ، لہٰذا عام حالات میں ہیلتھ انشورنس کرانا ناجائز ہے ۔(2) اگر کمپنی / ادارہ اپنے ملازمین کا ہیلتھ انشورنس اپنی طرف سے تبرّعاً یا ملازمین کی تنخواہوں سے وضع کرکے جمع کرائے تو ملازمین کے لیے اس سے نفع اٹھانے کی اجازت ہوگی ۔(3) اگر میڈیکل انشورنس کمپنی پالیسی لینے والوں کو نقد کے بجائے علاج و معالجہ کی خدمت فراہم کرے اور کم از کم سال میں ایک مرتبہ چیک اپ وغیرہ کی خدمات فراہم کرے تو اس کی بھی اجازت ہے ۔ (4) اگر وہ چیک اپ وغیرہ کی خدمات فراہم نہ کرے تو موجودہ حالات میں علاج و معالجہ کی گرانی کی وجہ سے ناقابل تحمّل مصارف والے امراض میں ابتلا کا ظن غالب یا اندیشہ ہو اور مریض اس کا تحمّل نہ کرسکتا ہو تو علاج ومعالجہ کی خدمت فراہم کرنے والی پالیسی لینے کی گنجائش ہے ۔ نوٹ : علاج کی خدمات کی فراہمی کی صورت میں بھی ، اگر علاج کے وقت مریض کے مالی حالات ٹھیک ہوں تو اس کی طرف سے جمع کردہ اصل رقم سے زائد جو رقم بھی کمپنی نے خرچ کیا ہے اسے معلوم کرکے صدقہ کرنا واجب ہوگا : محمد شاہجہاں ندوی

Read more

حلال ذبیحہ کا مسئلہ

🔰حلال ذبیحہ كا مسئلہ 🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی‏ ‎ عام تصور یه هے كه اگر چور كو چوكیدار بنا دیا جائے تو وه بھی چوری كرنے سے بچنے کی كوشش كرتا هے؛ مگر بدقسمتی كی بات هے كه وطن عزیز میں جو پارٹی بر سر اقتدار هے، اس كی بنیادی سوچ هی نفرت اور فرقه پرستی هے، اس نے دستور كا حلف اٹھایا هے، دستور نے مساوات، برابری اور تمام طبقه كے لوگوں كے لئے یكساں مذهبی آزادی كی بات كی هے، یه بات ان كے حلق سے اتر نهیں رهی هے، اگر یه صاحبِ عقل ودانش هوتے تو كم از كم ذمه دارانه عهده پر آنے كے بعد نفرت كے بول نهیں بولتے اور اپنی قَسَم كا ظاهری طور پر تو بھرم ركھتے؛ لیكن افسوس كه بی جے پی كے ذمه دار حكمران اور مختلف وزراء اعلیٰ نفرت كے بول بولنے میں ایك دوسرے پر سبقت لے جانے كی كوشش كر رهے هیں، خاص كر اس وقت اتر پردیش اور آسام كے وزیر اعلیٰ كی زبان تو ایسا لگتا هے كه زهر سے بھری هوئی شیشی هے، پارٹی میں اپنا نمبر بڑھانے كے لئے وه كوئی تعمیری كام تو نهیں كرتے هیں؛ مگر نفرت انگیز بول ایك سے بڑھ كر ایك بولتے هیں، اور دن ورات اقلیتوں كے خلاف بغض وعناد كا اظهار كرتے رهتے هیں، اسی كا ایك مظهر یه هے كه ابھی انھوں نے حلال ذبیحه پر نهایت هی ناشائسته بات كی هے، ان كا دعویٰ هے كه حلال سرٹیفیكشن كے ذریعه پچیس هزار كروڑ روپیه كمائے جاتے هیں اور دوسرا دعویٰ یه هے كه یه پیسے دهشت گردی، لَو جهاد اور مذهب كی تبدیلی میں استعمال هوتا هے، یه ایك جھوٹ كی بنیاد پر دوسرے جھوٹ كی تعمیر هے، انھوں نے جس بڑی رقم كے حاصل هونے كا دعویٰ كیا هے، اس كا كوئی ثبوت پیش نهیں كیا هے، مسلمانوں پر دهشت گردی كا الزام سراسر غلط هے، ملك میں اصل دهشت گرد تو سنگھ پریوار كے لوگ هیں، جنھوں نے بابائے قوم مهاتما گاندھی جی كا بے دردانه قتل كیا…

Read more

دیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟

دیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے؟ (اسلامی نقطۂ نظر) دیوالی ہندو برادری کا ایک مذہبی تہوار ہے جس میں روشنی، پوجا، اور خوشی کے اظہار کے ساتھ ساتھ میٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، مسلمانوں کے ذہن میں اکثر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیوالی کے موقع پر کسی غیر مسلم کی دی ہوئی میٹھائی کھانا جائز ہے؟ دیوالی کے موقع پر ہندوؤں کی جانب سے جو مٹھائی وغیرہ دی جاتی ہے ، اگر اس سے متعلق یہ یقین ہو کہ انہوں نے اپنے باطل معبودوں کے نام پر نہیں چڑھایا ہے اور نہ ہی اس میں کسی حرام و ناپاک چیز کی آمیزش ہے، تو اس کا استعمال جائز ہے۔ لیکن پھر بھی احتیاط بہتر ہے ۔ الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:’’ولو أهدى لمسلم ولم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لايكفر، وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفياً للشبهة.‘‘(كتاب الخنثى، مسائل شتى، ج: 6، صفحہ: 754، ط: ایچ، ایم، سعید دیوالی کی میٹھائی کھانا کیسا ہے ؟

Read more

حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا

حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا محمد رضی الاسلام ندوی : سوال حنفی مسلک پر عمل کرنے والے شخص کا عصر کی نماز شافعی مسلک کے مطابق وقت شروع ہونے کے بعد ادا کرنا کیسا ہے؟ میں نے فتاویٰ کی طرف رجوع کیا تو یہ جواب ملا کہ ایسا کرنا درست نہیں ۔ صاحبین کا ایک قول اس کی اجازت دیتا ہے ، لیکن فتویٰ امام ابو حنیفہؒ کے قول کے مطابق دیا جاتا ہے کہ جائز نہیں ۔میرے ایک دوست ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتے ہیں ۔ ان کا سوال یہ ہے کہ بعض اوقات حنفی مسلک کے مطابق عصر کی نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، جب کہ شافعی مسلک کے مطابق عصر کا وقت شروع ہونے کے بعد وہ نماز پڑھ سکتے ہیں ۔ پھر کیا وہ نماز عصر قضا کریں یا شافعی مسلک کے مطابق پڑھ لیا کریں؟ : جواب حنفی کا عصر کی نماز شافعی وقت میں پڑھنا اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض کرنے کے ساتھ ان کے اوقات بھی متعین کر دیے ہیں اور ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ ارشاد ہے :اِنَّ الصَّلاة کانَت عَلَی المُؤمِنینَ کِتاباً مَوقوتًا (النساء:۱۰۳)”درحقیقت نماز ایسا فرض ہے جو پابندی وقت کے ساتھ اہل ایمان پر لازم کیا گیا ہے۔“ نمازِ عصرکے وقت کی ابتدا کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا وقت اس وقت شروع ہوتا ہے جب کسی چیز کا سایہ اصلی سایہ کے علاوہ دو مثل ہو جائے ، جب کہ امام شافعیؒ کے نزدیک اس کا آغاز سایۂ اصلی کے علاوہ ایک مثل ہونے پر ہو جاتا ہے ۔ اس مسئلہ میں صاحبین (یعنی امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگرد قاضی ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ) کی رائے امام شافعیؒ کے مثل ہے ، لیکن فقہ حنفی میں فتویٰ امام صاحب کی رائے پر دیا جاتا ہے ۔ میری رائے میں حنفی مسلک پر عمل کرنے والوں کو…

Read more