وارث نہیں ، غاصب از : مولانا مفتی محمد اعظم ندوی
وارث نہیں، غاصبمولانا مفتی محمد اعظم ندوی زندگی کے ہر موڑ پر انسان کا امتحان ہوتا ہے، مگر وراثت کا امتحان سب سے زیادہ رسوا کن اور عبرت آموز ہے، یہ وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں خون کی حرارت، رشتوں کی حرمت اور گھر کی بنیادیں، کسی چیز کی اہمیت باقی نہیں رہتی، کچھ وارث ایسے ہوتے ہیں جن کے ضمیر پر مفاد کا پردہ چڑھ جاتا ہے، وہ باپ کی نصیحتیں، ماں کی آنکھوں کی نمی، اور گھر کے در ودیوار میں سمائی ہوئی بھائیوں اور بہنوں کی محبت بھری آوازیں سب بھول جاتے ہیں، ان کے سامنے صرف ایک ہدف رہ جاتا ہے: قبضہ، اقبال نے کہا غلط کہا: بجلیاں جس میں ہوں آسُودہ، وہ خرمن تم ہوبیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو یہ لوگ جائیداد پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے جنگلی درندے شکار پر، حیلہ سازی کو چالاکی، ظلم کو حق، اور دھونس کو جیت سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ قانون کی راہیں لمبی ہیں، عدالتوں کے چکر تھکا دیتے ہیں، اور شریف لوگ جھگڑا پسند نہیں کرتے، اسی کمزوری کو اپنا ہتھیار بنا کر وہ بہنوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں، کمزور بھائیوں کو ڈراتے ہیں، اور بزرگ والدہ کے آنسوؤں کو نظرانداز کرتے ہیں، ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہوتا ہے، اور حرص وہوس کے پانی میں تیرتے ہوئے، اپنے جلتے جھلستے ہوئے اعمال کے اثرات سے بے خبر رہتے ہیں، مگر یہ وارث نہیں، زمین کے غلام ہیں، ان کے نزدیک قبر کی تنگی کا کوئی تصور نہیں، آخرت کی بازپرس کا کوئی احساس نہیں، اور اس دن کی کوئی فکر نہیں جب منصف حقیقی کے سامنے ایک ایک انچ کا حساب دینا ہوگا، وہ بھول جاتے ہیں کہ جس زمین کے لیے وہ بہنوں کو رلاتے ہیں، اسی زمین میں انہیں بھی دفن ہونا ہے، بغیر کسی کاغذ، بغیر کسی ثبوت اور معافی نامے کے، صرف ایک سفید کفن میں۔ خاندانوں کی سب سے بڑی بربادی جائیداد کے انہی جھگڑوں سے ہوتی ہے، باپ کی سجائی ہوئی دنیا، ماں کی آراستہ…
Read more