HIRA ONLINE / حرا آن لائن
اخلاق نبوی کی چند جھلکیاں

راست گوئی و دیانتداری آپ کی راست گوئی اور دیانت مکہ میں ضرب المثل تھی ، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق و امین کہتے تھے ، خود ابو جہل بھی اعتراف کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ہیں ، لیکن کہتا تھا کہ جو باتیں آپ پیش کررہے ہیں ، وہ صحیح نہیں ہے ، آپ نے جب بادشاہ روم کو دعوت اسلام کا مکتوب لکھا ، اس وقت ابو سفیان روم ہی میں تھے ، جو اس وقت آپ کے سخت مخالف تھے ، چنانچہ شاہ روم نے ابو سفیان سے آپ کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا وہ دعوی نبوت سے پہلے جھوٹ بھی بولتے تھے ؟ ابو سفیان نے کہا : نہیں ، غرض کہ دشمنوں کو بھی آپ کی راست گوئی کا اعتراف تھا ، دیانت داری کا حال یہ تھا کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے ، چنانچہ جب آپ نے ہجرت فرمائی تو اہل مکہ کی بہت سی امانتیں آپ کے پاس تھیں جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کے حوالے کرکے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سچ بولنے اور دیانت داری کو قائم رکھنے کی خاص طور پر تاکید کرتے تھے ، ایک موقع پر ارشاد فرمایا: تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں ، بات کرو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو ، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو دیانت کے ساتھ واپس کرو ، اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کرو نگاہوں کو پست رکھو یعنی غیر محرم عورتوں پر نظر نہ جماؤ اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو ، یعنی ظلم نہ کرو۔ ایفاء عہد کا آپ کو بڑا لحاظ تھا صلح حدیبیہ میں جو شرطیں طے پائیں ، آپ ان پر سختی سے قائم رہے ، بعض مظلوم مسلمانوں کی قابل رحم حالت دیکھ کر بھی وعدہ خلافی کرنا گوارہ نہ کیا ، غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد دشمنوں کے مقابلہ ایک تہائی سے…

Read more

💎 *پیغمبر اسلام ﷺ کا احترام قرآن وحدیث کے آئینے میں:*

*يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النبي*( حجرات : ۲) نبی کی آواز سے تمہاری آواز بھی بلند نہ ہو، صحابۂ کرام کو یہ فرمایا، اس کے بعد کیا حال ہوا؟ حضرت عمر جیسے صحابی جن کی آواز بلند تھی اور حضرت ثابت بن قیس جن کی آواز بھی طبعی طور پر بلند تھی، یہ اتنا آہستہ بولنے لگے کہ آپ کو پوچھنا پڑا کہ عمر تم کیا کہہ رہے ہو؟ اور دوسرے صحابی تو اپنے گھر میں ہی بیٹھ گئے اور یہ آیت سن کر وہ بہت ڈرے اور روئے اور اپنی آواز کو گھٹایا ، *إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللهِ أُولَبِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى* (حجرات: ۳) اللہ پاک نے ان کا امتحان لیا، اور آپ ﷺ کا ادب قرآن نے بتلایا، دوسری آیت میں فرمایا : لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ( نور:۲۳ ) تم آپس میں ایک دوسرے کو جیسے پکارتے ہو تو اللہ کے نبی کو اس طرح نہیں پکارا جائے گا ، نماز میں ہو اور اگر اللہ کے رسول ﷺ بلائے، تو نماز توڑ کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا ضروری ہے، قرآن کریم کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہمارے نبی جب تمہیں بلائے *لما یحییکم* (انفال: ۲۴) جس میں تمہاری زندگی ہے۔ آپ ﷺ کے ایک صحابی ہے، آپ ﷺ نے ان کو آواز لگائی، وہ نماز میں تھے، انہوں نے نماز کے بعد حاضری دی، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں؟ میں نے تمہیں بلایا، کہا کہ اللہ کے رسول! میں نماز میں تھا،فرمایا اللہ کا حکم ہے کہ نماز توڑ کر میرے سامنے حاضر ہو جایا کرو ؛ (بخاری: کتاب فضائل القرآن، باب فضل فاتحة الكتاب، ترمذى: أبواب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل فاتحة الكتاب) مطلب یہ ہے کہ اب میں جس چیز کے لئے بلاتا ہوں تو یقینا وہ تمہارے لئے افضل اور بڑی چیز ہے، یہ آپ ﷺ کا ادب اور احترام اور آپ ﷺ کے سلسلہ میں قرآن کریم کی آیات میں ہمیں فرمایا گیا۔…

Read more

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اور حلم و بردباری

             کئی مرتبہ لوگوں کی طرف سے شرارتیں ہوئیں، یا کسی کی طرف سے کوئی بات ایسی نکلی جو آپ ﷺ کی شان کے خلاف ہو، جب صحابۂ کرام کو پتا چلا، حضرت عمرؓ، حضرت خالد بن ولید ، کئی قصے ان بزرگوں کے مشہور ہیں کہ فوراً عرض کیا کہ اللہ کے رسول! آپ فرمائیں تو ہم ان کے ساتھ یہ سلوک کریں، آپ نے منع فرمایا، اللہ پاک نے فرمایا *”إِنَّكَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِيمٍ“* (قلم :۴) آپ اخلاق کے بالکل اوپر کے معیار پر ہیں، آپ کے برابر اخلاق کسی کے نہیں ہو سکتے، اور اسی لئے آپ نے فرمایا: *”إنما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق“* (مجمع الزوائد:۱۸/۹،باب ماجاء فی حسن خلقه) میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ اخلاق کے جو اعلیٰ کردار اور اعلیٰ کریکٹر ہیں ان کو میں مکمل کروں، دوسرے انبیاء کرام بھی اخلاق کو ذکر فرمار ہے ہیں، لیکن آپ ﷺ کے ذریعہ اخلاق کی تکمیل فرمائی۔        جناب نبی اکرم ﷺ کے یہ اخلاق تھے کہ آپ کے پاس آکر یہودیوں نے شرارت کی، *السام عليك* کہا ، سام کا معنی ہلاکت اور بربادی، سلام کے بجائے سام کہا، آپ ﷺ نے ایک ہی جملہ فرما دیا: *وعلیکم*، حضرت عائشہ نے کہا: اللہ کے نبی ﷺ  یہ آپ کے لئے برے جملے استعمال کر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: عائشہ میں نے بھی تو ایک جملہ کہہ دیا ہے، (بخاری:کتاب الأدب، باب الرفق في الأمر كله) تم نے مجھے ہلاکت کی دعا دی، میں نے *و علیکم* کہا، سلام کرتے تو تمہیں سلام ملتی، علیکم کا معنی تم پر، تو تمہارے او پر وہی چیز ہو جو تم نے مجھے کہی، اتنے پر آپ ﷺ  نے صبر کیا۔        مال غنیمت تقسیم کر رہے ہیں، ایک صاحب آکر ز بر دستی یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے مال غنیمت میں سے حصہ دو جو اللہ نے آپ کو دیا، جبکہ آپ ﷺ مشغول تھے بانٹنے میں، چادر سے کھینچا، پھر بھی ہنستے ہنستے آپ ﷺ نے اس کو دے دیا ، (بخاری:کتاب فرض الخمس،باب ما كان النبي ﷺ يعطى المؤلفة…

Read more

اخلاق نبوی کی چند جھلکیاں

عفو و درگزر عفو و درگزر کا باب آپ کے یہاں بہت وسیع تھا ، اور دوستوں و دشمنوں سب کو اس سے سرفراز ہونے کا موقع ملتا تھا ، جب فتح مکہ ہوا تو وہ سارے لوگ آپ کے سامنے موجود تھے ، جنھوں نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے ، آپ کو اور آپ کے رفقاء کو جسمانی اذیتیں پہنچائیں ، آپ کو برا بھلا کہا ، معاشی ناکہ بندی کی اور آپ کے پورے خاندان کو دانہ دانہ کے لئے ترسایا ، آپ کی صاحبزادیوں کے طئے رشتے توڑ وادئیے ، لیکن آپ نے ان سبھوں کو بہ یک جنبش زبان معاف فرما دیا ، یہاں تک کہ ان کے جور و ظلم کا ذکر کرکے انھیں شرمندہ بھی نہیں فرمایا ، آپ نے محبوب چچا حضرت حمزہ کے قاتل وحشی ، ان کا کلیجہ چبانے والی ہندہ ، بدترین دشمن ابو جہل کے بیٹے عکرمہ اور غزوہ احد اور غزوہ خندق میں مشرکین کی قیادت کرنے والے ابو سفیان سبھوں کو دامن عفو میں پناہی دی ،  حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا آپ سخت کناروں والی نجران کی بنی ہوئی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ، ایک دیہاتی کی آپ سے ملاقات ہوئی ، اس نے بہت زور سے چادر کھینچی ، میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پر اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے چادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا ، اس نے کہا : اللہ کا جو مال تمہارے پاس ہے ، مجھے اس میں سے دینے کا حکم دو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے ، ہنسے پھر اس کو دینے کا حکم فرمایا ۔ حضرت اسامہ بن زید سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ گدھے پر سوار ہوئے اور حضرت اسامہ کو اپنے پیچھے بیٹھا لیا ، آپ حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے ، آپ کا گزر ایک ایسی جگہ…

Read more

اخلاق نبوی کی چند جھلکیاں

تواضع و انکساری آپ کے مزاج کا نمایاں پہلو تواضع و انکساری کا تھا ، آپ مقام نبوت پر فائز ہیں ، اور پورا جزیرة العرب آپ کے قدموں میں ہے ، لیکن تواضع اور سادگی کا حال یہ تھا ، کہ گھر پر خود چھاڑو دے لیتے ، بازار سے سودا لاتے ، جوتی پھٹ جاتی تو اسے سی لیتے ، بکری کا دودھ دوہ لیتے ، کھانا کے لیے بیٹھتے تو نہایت تواضع کی کیفیت کے ساتھ ، اور فرماتے کہ میں اس طرح کھاتا ہوں جیسے غلام کو کھانا چاہیے : أنا أكل كما يأكل العبد ” اگر کوئی غریب آدمی کسی معمولی سی چیز پر مدعو کرتا تو اس کی دعوت قبول فرما لیتے ، مریضوں کے گھر پہنچ کر ان کی عیادت کرتے ، غلاموں کی دعوت بھی قبول فرماتے ، ہر عام و خاص کے جنازہ میں شریک ہوتے ، گدھے کو معمولی سواری سمجھا جاتا تھا ، مگر آپ اس کی بھی سواری کیا کرتے تھے ، اور اگر کوئی غلام دعوت دے تو اسے بھی قبول فرماتے تھے، لوگ تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے تو منع فرما دیتے ، اگر کسی باندی کا بھی کوئی کام ہوتا اور وہ بھی سر راہ اپنی کسی ضرورت کے لئے روکتی تو رک جاتے ، بڑے تو بڑے چھوٹے بچوں کو بھی سلام فرماتے ، رفقاء کے ساتھ اس طرح بیٹھتے کہ امتیازی شناخت نہ ہونے کی بنا پر لوگ آپ کو پہچان نہیں پاتے ، اپنے لئے تعظیم کے جائز الفاظ بھی پسند نہیں فرماتے ، ایک بار بعض حاضرین نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا ( سید ) ہیں فرمایا : نہیں ، "آقا تو خدا کی ذات ہے” ایک بار لوگوں نے عرض کیا : آپ ہم سب سے افضل و برتر ہیں ، آپ نے اس تعبیر کو بھی پسند نہیں فرمایا ، تواضع و فروتنی کا یہ حال تھا کہ فتح مکہ کے موقعہ پر جب دس ہزار مسلح جاں نثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد و پیش تھے…

Read more