خطبات سیرت
مصنف: ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی
صفحات: ۲۳۲
تبصرہ و تعارف: معاویہ محب الله
ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کی کتاب "خطباتِ سیرت” جیسی کتابیں روز روز نہیں لکھی جاتی، ایسی کتابیں عرصہ گزر جانے کے بعد ایک پختہ سیرت نگار، بابائے سیرت اور عشقِ سیرتِ نبوی کے شیدا قلم سے نکل آتی ہیں، کتاب کا نام خطبات ہونے کی وجہ یہ کہ ۲۵ سے ۲۹ مارچ ۲۰۱۳ء کے دوران ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کو بطور لیکچرار زائر کی حیثیت سے دعوت دی گئی تھی، خطبات کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا مسودہ بطور اشاعت پیش کر دیا جو تصحیح و ترتیب کے بعد شائع کیا گیا۔
کتاب میں نام کی مناسبت سے دیکھا جائے تو ۹ خطبات یا باب ہیں، سب سے پہلے "مصادرِ سیرت کا تنقیدی مطالعہ” کے عنوان سے امامانِ سیرت اور عمودِ سیرت شخصیات کا اردو سیرت نگاروں کی روشنی میں تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے، تمام سیرت کا ذخیرہ انھیں چار امام؛ ابن اسحاق اور ان کے جامع ابن ہشام، واقدی اور ان کے ناقل ابن سعد کی سیرت نگاری کے منہج، طریقۂ کار اور ان کے ضعف و صحت کے اسباب پر بہترین کلام کیا ہے، اس ضمن میں ڈاکٹر صدیقی صاحب نے بڑی نفیس بات لکھی ہے کہ ہمارے سیرت نگاروں کا نقد و تجزیہ ان ائمہ کے متعلق صرف فن جرح و تعدیل کے اصول پر قائم ہے، وہ مختلف محدثین، اصحابِ سیرۃ اور ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال و آراء سے کام لیتے ہیں اور ان کی مرویات میں اسی اصول کے مطابق اخذ و ترک کا عمل کرتے ہیں، حالانکہ ضروری تھا کہ ساتھ ساتھ ہر سیرت نگار کے نقل کردہ متن کا درایتی تنقیدی مطالعہ کیا جاتا اور اس منہج کو مد نظر رکھتے ہوئے اخذ و ترک کا عمل کیا جاتا۔
یہی وجہ ہے کہ شبلی نعمانی اور ان کے جامع سید صاحب نے امام واقدی کو بہر حال ضعیف ٹھیرا لیا، لیکن ان سے استفادہ کئے بغیر چارہ نہیں تھا تو ابن سعد کو مطلقا صحیح قرار دے کر واقدی کی روایات سے استفادہ بھی خوب کیا، حالانکہ ابن سعد کی روایات نہ صرف اپنے استاد امام واقدی سے بلکہ دیگر راویوں کی نقل کردہ روایات میں بھی صدق و کذب کا امکان ہے۔
دوسرے باب میں ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا ہے کہ امامان سیرت ابن اسحاق اور ابن ہشام نے سیرت کا جو منہج قائم کیا ہے، بعد کے تمام سیرت نگاروں نے وہی منہج اختیار کیا، اردو، عربی، فارسی اور انگریزی؛ ہر زبان میں سیرت نگاروں نے اسی طریقہ کو پسند کیا۔
ابن اسحاق کا منہج یہ ہے کہ وہ موضوعاتی اور تاریخی ترتیب کا حسین امتزاج ہے، بنیادی موضوعات میں ؛ قبل بعثتِ نبوی، بعد بعثتِ نبوی، بعد ہجرتِ نبوی کے ضمن میں ذیلی عنوانات قائم کرتے ہیں۔ یہی تین ادوار کو امام سیرت ابن اسحاق نے بیان کیا ہے اور بعد کے تمام سیرت نگاروں نے اسے اپنایا ہے، کچھ سیرت نگاروں نے یہ سلسلہ اور منہج ترک کرنے کی کوشش کی لیکن اسے نبھا نہ سکے۔
اردو زبان میں علامہ شبلی نعمانی رحمہ الله نے سیرت نگاری کا دوسرا منہج اختیار کیا اور خوب اختیار کیا، جس میں سیرت کی موضوعاتی ترتیب کا لحاظ کرتے ہوئے کلام کیا ہے۔
شبلی نعمانی رحمہ الله نے سیرت النبی کی اسی دوسری جلد کو پہلے مرتب کیا تھا، اس کے بعد پہلی جلد کو ترتیب دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ دوسری جلد کے ابواب کے مطالعہ میں بہت زیادہ دلچسپی ہے، شبلی نعمانی کا موضوعاتی منہج کچھ اس طرح ہے؛
اسلام کی امن کی زندگ، تاسیس حکومتِ الٰہی، تاسیس و تکمیلِ شریعت، وفاتِ نبوی، حجۃ الوداع، اختتامِ فرض نبوت، متروکاتِ نبوی، شمائلِ نبوی، معمولاتِ نبوی، خطابتِ نبوی، عباداتِ نبوی، اخلاقِ نبوی، ازواج مطہرات اور ان کے ساتھ برتاؤ، اولادِ نبوی وغیرہ۔
ڈاکٹر یاسین مظہر صاحب نے یہاں قدرے بے باک انداز میں اردو سیرت نگاروں پر تبصرے بھی کئے ہیں؛
"دانا پوری کی سیرت میں مکی عہد بہت مختصر ہی نہیں ناقص ترین ہے(ص ۲۰) اس کا دلچسپ نکتہ یہ کہ دونوں(شبلی، کاندھلوی) نے حلف الفضول کو حربِ فجار کا شاخسانہ بنا دیا ہے کہ وہ عربوں میں جنگ بندی کی کوشش تھی، دونوں کا یہ بیان صحیح نہیں ہے اور نہ ان کی ترتیبِ واقعات صحیح ہے(ص ۲۰)۔ مکی دور کے واقعاتِ سیرت کی ترتیب اور ان کی روایات میں تداخل کا مسئلہ ہو یا مدنی واقعات کا معاملہ ہو جدید سیرت نگار بالعموم ابن اسحاق و ابن ہشام کی ترتیبِ واقعات کا بھی اور ان کی روایات کا بھی پوری طرح اتباع و نقل کرتے ہیں اور اس باب میں وہ تاریخی ترتیب یا زمانی توقیت کا خیال نہیں رکھتے(ص۲۱)۔
تیسرے باب کا عنوان ہے "نقدِ ابن اسحاق و ابن ہشام” یہ باب انتہائی اہم ہے، اس میں ایک بات بڑی غور طلب ہے کہ ابن ہشام کا خاص درایتی و تنقیدی منہج ہے جو بعد کے سیرت نگاروں نے ترک کردیا ہے، نیز امام ابن اسحاق اپنی کتاب میں کوئی ضعیف روایت اخذ کرتے ہیں تو زعم، زعموا، فیما زعموا یا فیما یزعمون جیسے الفاظ سے ضعف کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں، خصوصا ابن اسحاق نے مکی دور کے واقعات کے ضمن میں ان تنقیدی فقروں کا استعمال خوب کیا ہے، لیکن متاخرین سیرت نگاروں نے، خاص طور پر اردو مؤلفینِ سیرت نے ابن اسحاق و ابن ہشام کی تنقیدی و درایتی چیزوں کو قطعی نظر انداز کردیا اور اسے صحیح سمجھ کر نقل در نقل کرتے رہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ مآخذ کی کتب میں ضعیف روایات بھی عام ہونے کی وجہ سے صحیح سمجھیں جانے لگی۔
ڈاکٹر یاسین صاحب نے اس موضوع پر پورا تفصیلی مضمون بھی مرتب کیا ہے جو ماہنامہ معارف میں شائع ہوچکا ہے، سرِ دست یہاں کچھ مثالیں مجملاً پیشِ خدمت ہے ؛ عبد المطلب کی ابرہہ سے ملاقات، عبد شمس کی ناداری اور ہاشم کی دولت مندی، ہاشم کا رحلۃ الشتاء و الصیف کا بانی ہونا، عبد المطلب کی نذر والی روایت، ابو طالب کو کفالتِ نبی کی وصیت، سیدہ خدیجہ کا رسول الله سے نکاح کے لئے پیغام بھیجنا، عبد الله بن عبد المطلب ہاشمی کی جبین پر نورِ محمدی دیکھنے کی روایت، ولادت کے بعد عبد المطلب کا خانہ کعبہ میں لے جانے کی روایت وغیرہ میں زعموا جیسے تنقیدی الفاظ کو اردو سیرت نگاروں نے یکسر نظر انداز کردیا۔
ڈاکٹر صاحب کے عناوین ہی اس قدر مفید مطلب ہے کہ آدمی عنوان دیکھ کر ہی پورے مضمون کا اندازہ لگا سکتا ہے مثلا؛ آدھا سچ بولنے کا طریقہ، عصبیتِ ابن اسحاق و ابن ہشام، تاریخی توقیت کا عدمِ لحاظ، دوسرے مصادر سے اخذِ روایات کا معاملہ وغیرہ۔
باب چہارم "قرآن مجید بطور مأخذ سیرت” بہت ہی مفید ہے، ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ آیاتِ قرآنی سے استدلال و استشہاد کی ک فہرستِ موضوعات بنائی جائے تو بہت سے واقعاتِ سیرت میں ان کی کار فرمائی ملے گی، اس سلسلے میں ابن اسحاق، ابن ہشام اور امام واقدی سب سے زیادہ قرآنی آیات کا ذکر واقعات کے ضمن میں کرتے ہیں، عصرِ حاضر کے چند علماء نے اس کی کوشش کی ہے جیسے مولانا محمد حنیف ندوی کی کتاب "چہرۂ نبوت قرآن کی روشنی میں” اور مولانا عبد الماجد دریابادی کی کتاب "سیرت نبوی قرآن کی روشنی میں”۔
اس مبحث میں صدیقی صاحب کئی واقعات کے ضمن میں جہاں اردو سیرت نگاروں نے اس کام کو ناتمام رکھا ہے واقعات کے ضمن میں آیات کا تذکرہ بھی کرتے ہیں، خصوصا مکی عہد کے واقعات میں تو سیرت نگاروں نے اسے بالکل ہی تشنہ چھوڑ دیا ہے، اس باب میں مذکور اشارات سے اگر کوئی طالب علم قرآن مجید کی آیات جمع کردیں، تو اس سے بھی اچھی خاصی تحقیقی کاوش منظرِ عام پر آسکتی ہے۔
باب پنجم "حدیثِ نبوی سے سیرت نگاری” ہے، اس مبحث میں ڈاکٹر مظہر نے بڑی نفیس بات لکھی ہے کہ؛
فکری افراط و تفریط اور تالیفی عدمِ توازن کی وجہ سے بعض حدیثی سیرت نگاروں نے کتبِ سیرت کے تمام مواد کو ناقابلِ اعتبار ٹھیرا کر مسترد کردیا، لیکن صاحبانِ اعتدال و توازن نے دونوں منابعِ سیرت اور مآخذِ سنت سے صحیح و معتبر روایات و احادیث لے کر سیرت نگاری کا نہج اختیار کیا(ص،۷۷)
اردو سیرت نگاروں نے جزوی طور پر ہی سہی حدیث کے مآخذ سے بھرپور فایدہ اٹھایا ہے لیکن اس میں حدیث کی روایات کو سیرت کی روایات کے مقابل میں قبول کرنے کا رجحان زیادہ نظر آتا ہے، یہ رجحان تحقیق کی دنیا میں محمود تسلیم نہیں کیا جاتا، اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لئے ڈاکٹر یاسین مظہر صاحب ہی کا دوسرا رسالہ "اسلامی تاریخ نگاری کے مسائل اور ان کا حل” مطالعہ کرنا چاہئے، سیرت نگاری میں سب سے زیادہ حدیث کی کتب سے استفادہ کرنے والوں میں سید مودودی کا نام جلی حروف سے لکھا جانا چاہئے، انہوں نے فتح الباری اور عمدۃ القاری کے حوالے سے سیرت پر مواد کا انبار لگا دیا ہے، سیرت کے بے شمار واقعات میں حدیث کی کتابوں سے استفادہ کی واضح جھلک دکھائی دیتی ہے، چند واقعات بطور مثال یہ ہے؛ ولادت و تاریخِ ولادتِ نبوی، عقیقۂ نبوی، رضاعتِ ثویبہ اسلامہ، رضاعتِ حلیمہ سعدیہ و اسلامہ، شق صدر کا معجزہ، وفاتِ آمنہ و زیارتِ قبر، کفالتِ عبد المطلب، رعی الغنم، تعمیرِ کعبہ، حلف الفضول، تجارتِ نبوی، نکاحِ خدیجہ، مراسمِ شرک سے اجتناب، حلیہ مبارکہ وغیرہ وغیرہ، تمام واقعات کے استقصاء کا یہاں موقع نہیں۔
اسی ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے حدیث و سیرت میں تعارض کا مسئلہ، روایتِ خاص میں دوسری روایت کا تداخل، متاخر واقعات کا قدیم روایات میں تداخل جیسے موضوعات پر بہت نفیس گفتگو فرمائی ہے، یہ باب نہایت قیمتی ہے اسے تو ہر طالب علم کو ضرور مطالعہ کرنا چاہئے!
باب ششم میں سیرت اور حدیث کے مصادر کے علاؤہ مآخذ سے استفادہ کرکے سیرت نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے، اصل مصادر سیرت میں کونسا مواد ناتمام ہے جو انساب، فقہ، ادب و شاعری، جغرافیہ اور ثانوی سیرت نگاروں کی کتب میں کامل صورت میں دستیاب ہو جاتا ہے نیز وہ نادر معلومات کا خزانہ بھی ہے، لہذا ان مآخذ و مصادر سے بھی استفادہ کرنا نہایت ناگزیر ہے۔
باب ہفتم اور ہشتم میں سیرت نگاری میں تحلیل و تجزیہ کی بحث کی ہے، اس بحث کا کوئی جزوی پہلو میں بیان نہیں کرسکتا، اس لئے کہ اس میں پورا کا پورا مواد ہی ایسا ہے جسے یہاں نقل کرنا چاہئے جس کا یہاں موقع نہیں، مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ کیا انتخاب کروں اور کیا چھوڑ دوں، غرض اس کتاب کا صرف یہی باب مطالعہ کردیا جائے تو قاری کو پوری کتاب کے مطالعہ کی رغبت ہو جائے گی ان شاء الله۔
آخری بابِ نہم میں تجزیاتی نگارش کے طریقے بیان کئے گئے ہیں، جس میں موضوعاتی تبویب پر مفصل کلام کیا ہے، نیز کتاب کے بالکل اخیر میں ڈاکٹر صاحب نے حاشیہ نویسی، متن اور ضمیمہ کے مسائل ذکر کئے ہیں، قدیم مآخذ میں کیا طریقہ رائج تھا اور موجودہ تحقیقات خصوصاً مغربی مستشرقین کی کتابوں میں تحقیق کے کیا مناہج ہیں اس کا بھرپور تعارف کرایا ہے، یہ باب بھی کمال علمی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ میرا تبصرہ بہت طویل ہوگیا ہے، جو طالب علم تبصرہ پڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے تو ان شاء الله امید ہے کہ ضرور اسے کتاب کے مطالعہ کی رغبت پیدا ہو جائے گی، اور یہی میرا تبصرہ لکھنے کا مقصد و مدعا ہے، جس شخص نے ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی صاحب کی اس کتاب کا مطالعہ کرلیا وہ سیرتِ نبوی کے موضوع پر اجتہادی زاویہ سے سوچنے کا سلیقہ سیکھ لے گا۔
- ساس جو کبھی بہو تھی
- علامہ شبیر احمد عثمانی ایک عظیم مفسر قرآن
- بہار: این ڈی اے کے گلے ہار، مہا گٹھ بندھن کی ہار
- کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے؟
- مائیکرو فائنانس کے شرعی احکام
#شیر مارکیٹ حرام ہے یا حلال Islamic Margin Trading Sher marking آنکھیں وغیرہ عطیہ کرنے کا حکم ؟ ابن تیمیہ اسلام اور خواتین اسلام میں خاتون کا کردار اسلامی فقہ اکیڈمی میں منظور شدہ تجاویز انتقال کے بعد آنکھوں کا عطیہ کرنا ؟ انفرادی ضرورتوں کو اجتماعی ضرورتوں پر قربان کرنے کی دعوت این ڈی اے کی جیت بہار انتخابات بہار انتخابات 2025 تدفین کا صحیح طریقہ تربیت کیسے کریں ؟ تربیت کے ضروری اصول تفسیر عثمانی خوشگوار ازدواجی زندگی ساس اور بہو ساس اور بہو کے تعلقات ساس اور بہو کے مسائل سفر نامہ سوانح ابن تیمیہ شبیر احمد عثمانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عظیم مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز قبر کھودنے کا طریقہ مائیکرو فائنانس مائیکرو فائنانس کے شرعی احکام مسلم ووٹ سیمانچل مفتی منور سلطان ندوی ملک و ملت کی نازک صورت حال میں مسلمانوں کے لئے رہنما خطوط مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی تحریروں کی روشنی میں ملکی حالات کا صحیح شعور و آگہی مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی فکر و پیغام مولانا عامر عثمانی میت کو تدفین کیسے کریں وہ جو بیچتے تھے دوائے دل کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے ؟ ہیلتھ انشورنس ہیلتھ انشورنس لینا کیسا ہے ؟ ہیلتھ انشورنس کی شرعی حیثیت ؟ یکساں سول کوڈ اور ان کے نقصانات
جواب دیں