رضوان الدین فاروقی ان چند اردو قلمکاروں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنی سنجیدہ طبیعت اور رنگا رنگ شخصیت سے منفرد پہچان بنائی، وہ سوشل میڈیا پر بھی نہایت فعال اور متحرک نظر آتے ہیں۔ اور جس خوبصورتی سے وہ گفتگو کرتے ہیں، ویسے ہی پیاری، رواں، دلنشیں اور سبک نثر بھی لکھتے ہیں۔ ان کے تراجم اکثر "اثبات" کے مشمولات کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ اور وہ اسی جریدے کے نائب مدیر کی حیثیت سے بھی معروف ہیں۔
     رضوان الدین فاروقی کا تعلق بھوپال سے ہے اور ان کے مزاج میں جو نفاست اور سلیقہ ہے وہ ان کی تحریروں میں بھی نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ "ایک فکشن نگار کا سفر" ان کی پہلی کتاب ہے جسے ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا اور ان کی ترجمہ نگاری کی صلاحیت کو اجاگر کیا۔
     "ایک فکشن نگار کا سفر" دراصل شمس الرحمن فاروقی اور ادین واجپئی کے درمیان ہونے والی وہ طویل مکالماتی گفتگو ہے، جو 2018ء میں ہندی کے مؤقر رسالے "سماس" میں شائع ہوئی تھی۔ یہ انٹرویو دہلی میں باراں فاروقی کے گھر پر تین دنوں تک جاری رہا۔ جسے بعد میں ادین واجپئی نے ہندی میں "اپنیاس کار کا سفرنامہ" کے نام سے کتابی شکل دی، رضوان الدین فاروقی نے اس کا اردو ترجمہ 2023ء میں پیش کیا۔ یہ ترجمہ نہ صرف زبان و بیان میں رواں ہے بلکہ بعض مقامات پر اصل متن سے زیادہ مؤثر محسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مترجم خود بھی اس مکالمے میں شامل ہے۔ ہر سطر تخلیقت سے بھرپور اور ادبی چاشنی سے مملو ہے۔
   رضوان الدین فاروقی نے اس کتاب کا انتساب اپنے والدین کے نام کیا ہے اور عصر حاضر کے بڑے فکشن نگار خالد جاوید نے کتاب کی تقریظ میں اپنے خاص انداز واسلوب میں گفتگو کے مشمولات پر روشنی ڈالتے ہوئے دونوں صاحبان کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس گفتگو کی معنویت کو نمایاں کیا ہے۔ تقریظ میں خالد جاوید لکھتے ہیں:
  1. ماہنامہ شب خون کے اجراء کی تفصیلات اور فاروقی کے افسانوں کی تکنیک، کردار، پلاٹ اور تخیل کے بارے میں گفتگو۔