
از:ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ، المعہد العالی الاسلامی، حیدرآباد
وقت… ایک ایسی صداے ازل ہے جو نہ تھمتی ہے، نہ پلٹتی ہے، یہ وہ لمحہ ہے جو نہ کسی سلطنت کا مرہونِ منت ہے، نہ کسی فقیر کی قناعت کا محتاج، وقت کی انفرادیت یہ ہے کہ نہ رکتا ہے، نہ لوٹتا ہے؛ جو لمحہ بیت گیا، وہ ابدی تاریکی میں دفن ہوگیا، اور جو آنے والا ہے، وہ ابہام کے پردے میں پوشیدہ ہے، انسان کو جو کچھ عطا کیا گیا ہے، وہ صرف ’’آج‘‘ ہے، اور یہی ’’آج‘‘ اُس کی نجات یا ہلاکت، کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ کن لمحہ ہے، امتِ مسلمہ کے عروج وزوال کی داستان بھی وقت کے سنگ میلوں سے عبارت ہے، جب اس امت نے وقت کو امانت جانا اور اسے عبادت، جہاد، تعلیم اور تعمیری کوششوں کے لیے استعمال کیا، تو وہ دنیا کی پیشوا بن گئی؛ اور جب اسی امت نے وقت کی ناقدری کی روش اپنائی، تو قیادت اس کے ہاتھوں سے چھن گئی، اور وہ رہنمائی کرتے کرتے خود بھٹکنے لگی، سچ ہے:
وقت برباد کرنے والوں کو
وقت برباد کر کے چھوڑے گا
قرآنِ حکیم نے جا بجا وقت کی عظمت کو اجاگر کیا ہے، ربّ جلیل نے فرمایا: ﴿وَالْعَصْرِ، إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ خالقِ کائنات نے وقت کی قسم کھا کر انسان کو خسارے سے خبردار کیا ہے، یہ اعلان ہے کہ وقت صرف ساعتوں کا بہاؤ نہیں، بلکہ انسانی انجام کا فیصلہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اکثر لوگ دھوکے میں ہیں: صحت اور فرصت۔‘‘ یہ حدیث آج کے انسان کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے—ہمارے پاس صحت ہے، فرصت ہے، مگر ہماری ترجیحات سطحی، وقتی اور خودغرضانہ ہیں، ہم اِن نعمتوں کو کھو رہے ہیں، اور گمان یہ ہے کہ ترقی کی جانب گامزن ہیں:
وہ وقت کا جہاز تھا کرتا لحاظ کیا
میں دوستوں سے ہاتھ ملانے میں رہ گیا
اسلامی عبادات کا پورا نظام وقت کے ساتھ وابستہ ہے، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج—سب مخصوص اوقات سے جڑے ہوئے ہیں، اذکار، وظائف، قیام اللیل، اور فجر کی حاضری بھی وقت کی ترتیب پر قائم ہیں، ایک سچا مسلمان درحقیقت وقت شناس ہوتا ہے، مگر ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ عبادات کو عادت بنا لیا گیا ہے، اور عادتیں بے وقت اور بے سمت زندگی میں گم ہو چکی ہیں، مساجد میں فجر کی صفیں خالی ہوتی جا رہی ہیں، مدارس میں وقت کی حرمت مٹ رہی ہے، اور گھروں میں وقت صرف اسکرینوں کی قید میں گرفتار ہے، یاد رکھنا چاہیے کہ جو قومیں وقت کو ضائع کرتی ہیں، وقت انہیں ضائع کر دیتا ہے:
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج وتخت کا
تاریخ گواہ ہے کہ جب بغداد کے کتب خانے راتوں کو روشن ہوتے تھے، قرطبہ کی درسگاہوں میں طلبہ وقت کی ترتیب سے زندگی گزارتے تھے، اور سمرقند وبخارا کے علماء لمحہ بہ لمحہ اپنے اوقات کو بانٹتے تھے، تو مسلمان مسجد ومدرسہ میں پڑھائے جانے والے صرف شرعی علوم کے ہی نہیں، ریاضی، طب اور فلکیات کے بھی امام بنے، وہ وقت کو اس طرح برتتے تھے جیسے ایک خیاط قیمتی ریشم کو برتتا ہے—نہ اضافی کترن، نہ بے جوڑ سلائی، یہی وہ قرینہ تھا جس نے امت کو آسمانِ علم کا آفتاب بنایا۔
اب ہمیں نہ صرف اُس مقام تک واپس جانا ہے بلکہ اُس سے آگے نکلنا ہے، وقت کے ہر لمحے کو تھامنا ہے، اس میں زندگی کی حرارت بھرنی ہے، اسے سجدوں کی تپش سے گرم کرنا ہے، علم میں ڈھالنا ہے، اور جدوجہد میں گوندھنا ہے، ہمیں اپنی نسل کو وقت کی حرمت سکھانی ہے—نصاب کے ساتھ نظم بھی، نصیحت کے ساتھ نمونہ بھی، ہم اُس امت کے وارث ہیں جس نے راتوں میں چراغ جلائے، نیندیں قربان کیں، کتابیں رقم کیں، اور وقت کو عزم وعرفان میں ڈھال دیا، اگر آج ہم وقت کے ساتھ وفا کریں، تو نہ صرف ہمارا مقدر بدلے گا بلکہ امت کی تاریخ کا رُخ بھی پلٹ جائے گا۔
جدید دنیا تنظیم وقت کو سب سے بڑی دولت سمجھتی ہے، کوریا، جاپان، جرمنی، اور دیگر ترقی یافتہ اقوام نے اپنی ترقی کے راز کو وقت کی تنظیم میں پایا، وہاں کے اسکولوں میں بچوں کو گھڑی دیکھ کر وقت پر کام کرنا سکھایا جاتا ہے، ہر چیز deadline کے تحت چلتی ہے، یہ اقوام وقت کو سرمایہ نہیں بلکہ طاقت سمجھتی ہیں، جس سے وہ دنیا کو فتح کرتی ہیں۔
اس کے برخلاف ہم نے وقت کو ایسی پائمال دولت سمجھ رکھا ہے جو گرتی ہے تو اٹھائی نہیں جاتی، ہم اسلامی تعلیمات کے وارث ہوکر بھی وقت کے قاتل بنے ہوئے ہیں
وقت کے فلسفہ کو محض تقریر وتحریر کا عنوان نہ بنایا جائے، بلکہ اسے زندگی کا مرکزی شعار بنانا ہوگا، ہمیں وقت کی عزت، اس کا ادب، اس کی نزاکت اور اس کی افادیت کا شعور پیدا کرنا ہوگا، ہمیں Time-consciousness (شعور وقت) کو اپنی تہذیب کا لازمی جزو بنانا ہوگا، جب ہر فرد وقت کا نگہبان ہوگا، تب ہی ملتِ اسلامیہ اپنی کھوئی ہوئی قیادت، عظمت اور توقیر دوبارہ حاصل کر پائے گی۔
امت کو Time-discipline (نظمِ وقت) کی تعلیم دوبارہ دینا ہوگی—محض گھڑی کی سوئیوں سے نہیں، بلکہ دل کی ساعتوں سے ہم آہنگ ہوکر، یہی وہ نظم ہے جو صدیوں کی غفلت کو مٹا سکتا ہے۔ ہمیں Productivity (عملی کارکردگی) کے اسلامی مفہوم کو عام کرنا ہوگا—ایسی کارکردگی جو صرف کام کی مقدار پر نہیں بلکہ نیت، اخلاص اور حسنِ انجام پر بھی مبنی ہو۔
ہمیں ایک نئی Islamic work ethic (اسلامی طرزِ عمل) کو رواج دینا ہوگا جس میں وقت کی برکت کو دولت سے زیادہ قیمتی سمجھا جائے، ہمیں اپنی مساجد، مدارس، جامعات، دفاتر اور گھروں میں Punctuality (وقت کی پابندی) کو عبادت کی مانند برتنے کا مزاج پیدا کرنا ہوگا، یہی وہ رویہ ہے جو امت کو زوال کے اندھیروں سے نکال کر قیادت کے منبر تک لے جا سکتا ہے، میرا ہی شعر ہے:
وقت کا کچھ تو احترام کریں
اپنی ملت کو نیک نام کریں
یقین رکھیے، قومیں وہی بنتی ہیں جو وقت کو صرف نعمت نہیں، ذمہ داری سمجھتی ہیں؛ جو لمحے کی قدر کو صدیوں کی عظمت میں ڈھال دیتی ہیں؛ جو وقت کے آئینے میں اپنی شناخت تلاش کرتی ہیں،
آئیے، ہم بھی اٹھ کھڑے ہوں—اس خیر امت کی حیثیت سے، جس نے وقت کو زندگی نہیں، امانت سمجھا… اور وقت کی رفتار کو نظر انداز نہیں کیا، اس کے ہر عمل میں زمانہ شناسی کا عنصر تھا، اور شام وسحر کے ساتھ بھی اور کبھی اس سے آگے بھی چلنے کا ہنر جانتی تھی، آج بھی اسی میں کامیابی کا راز ہے:
رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ