
از: د/عامر مجیبی ندوی
ڈاکٹر تابش مہدی مرحوم ہندوستان کے صف اول کے نعتیہ شعراء میں تھے۔ وہ جماعت اسلامی ہند کے فعال رکن اور ایک دینی و علمی شخصیت کے مالک تھے۔ ڈاکٹر صاحب دہلی میں ہمارے دیرینہ پڑوسی بھی تھے۔ مرحوم بہت سادہ اور بے تکلف شخصیت کے مالک تھے۔ سادگی، تواضع اور انکساری آپ کا خاصہ تھیں۔
زمانہ طالبعلمی میں ندوۃ میں ڈاکٹر صاحب کو بارہا رابطہ ادب اسلامی کے پروگراموں میں آتے دیکھا اور ان کا کلام بھی سنا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مخصوص انداز میں ترنم کے ساتھ جھوم کر نعتیہ کلام پڑھا کرتے تھے اور ساری مجلس عشق نبی سے مسحور ہوجاتی تھی۔نعتیہ کلام کے چند اشعار:
جاہ و منصب اور نہ کوئی مرتبہ درکار ہے
ہم غلاموں کو مدینے کی ہوا درکار ہے
ملکوں ملکوں شہروں شہروں دیکھ چکے ہیں ہم لیکن
ایسا رنگ و نور کہاں جو کوئے شہِ ابرار میں ہے
مشغول جب سے نعتِ شہِ انبیاء میں ہوں
محسوس ہورہا ہے جوارِ خدا میں ہوں
دیوانہ کہے یا کوئی کچھ کہے مجھ کو
قرآن کے بعد ان کا کلام اچھا لگے ہے
مذاق با دصبا بھی مرا اڑانے لگی
روز جاتا ہے شہر مدینہ کوئی
چند غزل کے اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں:
پڑوسی کے مکاں میں چھت نہیں ہے
مکاں اپنے بہت اونچے نہ رکھنا
فرشتوں میں بھی جس کے تذکرے ہیں
وہ تیرے شہر میں رسوا بہت ہے
تم حسینوں سے نہ رکھنا کبھی امید وفا
ان کو آتا ہے فقط آپ پہ نازاں ہونا
مجھ کو متاع غم ملی ،زخم وفا ملا
اے ناز حسن تو ہی بتا تجھ کو کیا ملا
ندوہ میں ہی آپ کے لائق و فائق فرزند شاہ اجمل فاروق بھائی سے تعارف ہوا۔ مولانا اجمل ندوی شروع سے ہی پڑھنے میں فائق تھے اور بعد میں تو ماشاءاللہ لکھنے پڑھنے کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ موصوف کئی برسوں سے انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز سے منسلک ہیں اور علمی وتحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی محترمہ ڈاکٹر ثمینہ تابش صاحبہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں بحیثیت عربی زبان و ادب کی استاذ خدمات انجام دے رہی ہیں۔ دونوں لائق و فائق اولاد ڈاکٹر صاحب کی علمی میراث کے امین ہیں اور ان کے علمی قافلہ کو بحسن و خوبی آگے بڑھا رہے ہیں۔ تمام اہل خانہ بطور خاص اجمل بھائی اور ڈاکٹر ثمینہ صاحبہ کی خدمت میں دلی تعزیت پیش ہے۔ اللہ پاک پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرماۓ۔ ڈاکٹر صاحب کی بال بال مغفرت فرماۓ، جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرماۓ!