
از: محمد رضی الاسلام ندوی
جناب تابش مہدی کی وفات 22 جنوری 2025 کی صبح ہوئی اور شام کو ان کی تدفین عمل میں آئی – اُس وقت سے ان کا سراپا برابر نگاہوں کے سامنے گھوم رہا ہے اور ان سے متعلق یادیں اُمڈ اُمڈ کر آرہی ہیں۔
وہ اسلام پسند ادیب و شاعر ، تنقید نگار ، محقّق و مصنّف کی حیثیت سے معروف ہوئے اور خاص طور پر نعتیہ شاعری کے میدان میں انھوں نے عالمی شہرت پائی – اس حوالے سے انہیں پوری دنیا میں مدعو کیا جاتا تھا – ان کا نعتیہ کلام ان کے دواوین میں محفوظ ہونے کے علاوہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر بھی موجود ہے – نعتیں پڑھنے کا ان کا مخصوص انداز تھا ، جو دلوں کو گرماتا اور ذاتِ نبوی سے محبت پیدا کرتا تھا ، وہ اپنے کلام میں تعلیماتِ نبوی ، سیرت نبوی کا پیغام اور خلفائے راشدین کا ذکرِ خیر بہت خوب صورتی سے سمو دیتے تھے – اردو تنقید میں بھی ان کی متعدد کتابیں ہیں ، جو اس فن میں ان کی مہارت کا ثبوت پیش کرتی ہیں – لیکن میرے نزدیک ان کی شرافت ان سب خصوصیات پر فائق تھی – میرے لیے وہ ایک سرپرست ، مربّی ، بہی خواہ اور مشیر تھے۔
یاد آتا ہے کہ ان سے اوّلین تعارف غائبانہ گزشتہ صدی کی نویں دہائی کی ابتدا میں ہوا ، جب میں دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا طالب علم تھا اور انھوں نے دیوبند سے ماہ نامہ الایمان کا اجرا کیا تھا – مجھے مضمون نگاری کا شوق تھا ، چنانچہ میں نے مختلف رسائل میں مضامین بھیجنے شروع کیے – انھوں نے بھی الایمان میں میرے کئی مضامین شائع کیے – اُس زمانے کا ایک دل چسپ واقعہ اب تک یاد ہے – تعارف و تبصرہ کے کالم میں انھوں نے کسی دیوان پر تبصرہ کیا تو اس کی بخیہ ادھیڑ دی ، لکھا کہ شاعر کو عروض و قوافی کی بالکل خبر نہیں ہے – میرے روم پارٹنر برادر گرامی عطاء الرحمٰن صدیقی ندوی کو ، جو ادب و شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے ، یہ تبصرہ پسند نہیں آیا – ہم لوگوں نے طے کیا کہ تابش صاحب کو متوجہ کیا جائے کہ انھوں نے تبصرہ کرنے میں زیادتی کی ہے – اپنی شناخت چھپانے کے لیے خط میں اور پتہ میں بھی ندوہ کا ذکر نہیں کیا گیا اور صرف Post Box No. : 93 لکھا گیا – لیکن وہ تاڑ گئے – انھوں نے اپنے جواب میں ذرا بھی خفگی کا اظہار کیے بغیر لکھا کہ میرا تبصرہ ندوہ کے کسی ادب شناس استاد کو دکھا لیجیے ، پھر فیصلہ کیجیے۔
ان کا وطن ریاست اتر پردیش کا ضلع پرتاپ گڑھ تھا ، لیکن ان کا نکاح دیوبند کے عثمانی خاندان میں ہوا تھا ، اس لیے کچھ عرصہ وہ دیوبند میں مقیم رہے – اُس زمانے کی ایک یاد اب تک ذہن میں تازہ ہے – اسلامی طلبہ تحریک نے دینی مدارس میں نفوذ کے لیے ‘نھضۃ العلماء’ کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی – اس کی طرف سے بڑے دینی مدارس کا دورہ طے کیا گیا – برادر محترم مولانا عبد البر اثری فلاحی کے سربراہی میں دیوبند ، سہارن پور اور مراد آباد کے مدارس میں جانا ہوا ، جہاں تنظیم کا اچھا تعارف ہوا اور روابط استوار ہوئے – اُن دنوں تابش صاحب دیوبند میں موجود تھے – انھوں نے ہم لوگوں کو اپنے گھر مدعو کیا اور ضیافت کی – اس موقع پر انھوں نے اپنا مجموعۂ کلام ، جو ‘تعبیر’کے نام سے طبع ہوا تھا ، ہمیں تحفۃً پیش کیا۔
تابش صاحب متعدد رسائل کی ادارت سے وابستہ رہے ہیں – ان میں سے ایک ماہ نامہ زندگی نو بھی ہے – وہ مدیر مجلہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن فریدی کی معاونت کرتے تھے – اس کے لیے کئی برس ان کا قیام علی گڑھ میں رہا – اُن دنوں ان سے قربتیں بڑھیں۔
ان کی زندگی کا خاصا عرصہ دہلی میں گزرا اور وہ یہیں کے ہو رہے – مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی کے شعبۂ ادارت سے وہ وابستہ ہوئے – اشاعت کے لیے آنے والی کتابوں کی ریڈنگ کرکے زبان و بیان اور املا درست کرنا ان کا کام تھا – یہ کام انہوں نے پوری ذمے داری سے خود انجام دیا اور اپنے شاگردوں کی ایک ٹیم تیار کردی – مکتبہ سے وظیفہ یاب ہونے کے بعد مرکز جماعت میں شعبۂ تعلیم اور تصنیفی اکیڈمی میں ان کی خدمات حاصل کی گئیں اور وہ کافی دنوں تک اپنی بیش بہا صلاحیتوں سے فیض پہنچاتے رہے۔
میں اکتوبر 2011 میں دہلی پہنچا تو ان سے اور نزدیکیاں بڑھیں اور استفادہ کے مواقع حاصل ہوئے – مرکز میں روزانہ ہی ملاقات ہوجاتی تھی – مرکز سے تعلق ختم ہوجانے کے بعد بھی ان سے رابطے میں کمی نہیں آئی – جلد ہی ان کی خدمات مرکز جماعت کے کیمپس میں قائم اسلامی اکیڈمی کو حاصل ہوگئیں ، جہاں وہ طلبہ کو تجوید پڑھاتے تھے – فنِ تجوید و قراءت میں انہیں مہارت حاصل تھی – انھوں نے مختلف مدارس میں اس کی تعلیم دی ہے ، جن میں سے ایک جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ بھی ہے – تابش صاحب کی ابتدائی زندگی کے ایک مرحلے میں ان کا کچھ وقت میرے وطن بہرائچ میں گزرا تھا – ان کے اساتذہ میں سے ایک مولانا بلالی علی آبادی تھے – علی آباد ، جسے نواب گنج بھی کہا جاتا ہے ، میرے گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے – اس بنا پر وہ اس علاقے کے قصبات اور وہاں کی معروف شخصیات سے اچھی طرح واقف تھے – کبھی دورانِ گفتگو علی آباد کا ذکر چھڑ جاتا تو دیر تک وہاں گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے – مجھ سے کہتے کہ جب آپ کبھی وطن جائیں تو مجھے بھی لے چلیں – اپنی آپ بیتی ‘ تیز دھوپ کا مسافر’ میں بھی انھوں نے وہاں گزارے ہوئے ایام پر تفصیل سے لکھا ہے۔
تابش صاحب سے خصوصی تعلق کی ایک وجہ سابق امیر جماعت اسلامی ہند و صدر ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ مولانا سید جلال الدین عمری سے ان کا قریبی ربط تھا – مولانا ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے اور وہ ان سے بہت محبت اور احترام کا معاملہ کرتے تھے – مولانا کی زندگی ہی میں ایک بار تابش صاحب نے ان پر سمینار کرنے کا پروگرام بنایا تھا ، لیکن بعض اسباب سے اس پر عمل نہیں ہوسکا – وطنی نسبت تھی یا تحریکی یا مولانا عمری سے تعلق میں اشتراک کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ محبت اور تعلّقِ خاطر کا اظہار کرتے تھے ، چنانچہ اپنے کئی بچوں کا نکاح انھوں نے مجھ سے پڑھوایا – تابش صاحب میرے لیے شفیق ، مُحب ، سرپرست اور مربّی تھے – میرے مضامین اور کتابیں ان کی نظر سے گزرتیں تو انہیں ملاحظہ کرتے ، ان پر تبصرہ کرتے ، ان کی تحسین کرتے اور کچھ کم زور پہلو ہوتے تو ان کی نشان دہی کرتے – وہ ان لوگوں کے سخت ناقد تھے جو اگرچہ رجوع الی القرآن کے داعی ہیں ، لیکن ان کی تحریروں سے استخفافِ حدیث کا اظہار ہوتا ہے – اس جانب وہ مجھے برابر متنبّہ کرتے رہتے تھے – تابش صاحب کی متعدد کتابوں پر میں نے تبصرہ لکھا ، جو سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ اور ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی میں شائع ہوئے – انھوں نے بھی میری بعض کتابوں پر تبصرے کیے – تابش صاحب ہر طبقے میں عزیز اور محترم تھے – ان کے شاگردوں اور فیض یافتگان کی تعداد ہزاروں میں ہے – ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے میں امڈ آنے والی بھیڑ سے ہوا – اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی مغفرت فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے – ان جیسی شخصیات آج کے دور میں کم یاب بلکہ نایاب ہیں – شاد عظیم آبادی کا یہ مصرعہ ان پر پورے طور پر صادق آتا ہے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم