رمضان کے آخری عشرہ کے خصوصی اعمال
Related Posts
اعتکاف مسائل و آداب
{از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی} (چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی) E-mail:- aabehayatnewspaper@gmail.com. Mob:- 9826268925 اعتکاف نام ہے، مخلوق سے قطع تعلق کرکے اللہ کے گھر میں بیٹھ جانا اور اپنے دل کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا۔ تمام دنیاوی خیالات و تفکرات و تمام مشغولیات کے بدلہ میں خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں، اس کی عشق و محبت میں مشغول ہوجانا اور دل کو اللہ کے ساتھ مانوس کرکے لطف اندوز ہونا ۔ اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے اور رکنے کے ہیں اور اعتکاف کے شرعی معنی ہیں مرد کا مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا اور عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا۔ اعتکاف کی مشروعیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْد (سورۃ البقرہ، 125) یعنی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔ نیز اللہ تعالیٰ نے روزے کے احکام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ۔ فِی الْمَسٰجِد۔ (سورۃ البقرہ ص:187) یعنی عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو، جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ جو شخص اعتکاف میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروی ہے کہ وہ اعتکاف کے آداب و ضوابط کی پاسداری کرے، تاکہ اس کا اعتکاف درست ہوسکے اور اس سلسلے میں وارد جملہ فضیلتوں کا مستحق بن سکے۔ اس وجہ سے اگر انسان کوئی بھی عمل کرتا ہے اور اس سلسلے میں شرعی ہدایات اور نبوی فرامین کو ملحوظ نہیں رکھتا ہے تو اس کی عبادت ناقص اور ادھوری شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اعتکاف کے تعلق سے کتاب و سنت کے شہ پاروں سے بعض آداب و مستحبات اور سنن کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو ان کو…
Read moreشرائط زکوٰۃ
شرائط زکوٰۃ:۱۔ از : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے، جو مسلمان، عاقل اور بالغ ہو، نابالغ بچوں کے مال میں زکوٰۃ واجب نہیں(ہدایہ مع الفتح: 115/2 پاگل کے مال میں بھی زکوٰۃ وااجب نہیں ہوتی۔(حوالۂ سابق)۲ 2۔ زکوٰۃ واجب ہونے کے لئے ضروری ہے کہ مالِ زکوٰۃ مکمل طور پر اس کی ملکیت میں ہو( تاتارخانیہ:217/2)رہن رکھی ہوئی چیز پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، ( عالمگیری: 172/1 ) البتہ امان ت رکھی ہوئی چیز میں زکوٰۃ واجب ہوگی اور اصل مالک اس کی زکوٰۃ ادا کرے گا، (فتح القدیر:221/2)بینک اور فکسڈ ڈپازٹ میں رکھی ہوئی رقم پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی ـ3 قرض دی ہوئی رقم یا تجارتی سامان کی قیمت باقی ہو، اور جس کے ذمہ باقی ہو وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہو اور بظاہر اس قرض کی وصولی کی توقع ہو تو اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی، فی الحال بھی ادا کر سکتا ہے، اور قرض وصول ہونے کے بعد بھی پوری مدت کی زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے، قریب قریب یہی حکم ان بقایاجات کا ہے، جو اُجرت ومزدوری، کرایہ مکان وسامان یا رہائشی مکان کی قیمت وغیرہ کے سلسلے میں ہے، اور وصولی متوقع ہو، ان پر بھی زکوٰۃ واجب ہوگی، خواہ ابھی ادا کر دے یا قرض وصول ہونے کے بعد (تاتارخانیہ: 301/1) ایسا قرض جس کی وصولی کی توقع نہ ہو؛ لیکن وصول ہو گیا یا قرض کسی مال کے بدلہ میں نہ ہو، جیسے مہر وغیرہ، مقروض دیوالیہ ہو اور وصولی کی امید نہ ہو، قرض کا انکار کرتاہو اور مناسب ثبوت موجود نہ ہو، ان تمام صورتوں میں جب بقایا جات وصول ہو جائیں اور سال گزر جائے تب ہی زکوٰۃ واجب ہوگی، اس سے پہلے نہیں۔ (بدائع الصنائع: 210/) ۴۔ ضروری اور استعمالی چیزوں میں زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی، اور ان کو مستثنیٰ کر کے ہی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، ایسی ہی اشیاء کو فقہ کی اصطلاح میں ’’ حاجت اصلیہ‘‘ کہتے ہیں، رہائشی مکانات، استعمالی کپڑے، سواری کے جانور یا گاڑی، حفاظت کے ہتھیار، زیبائش وآرائش کے…
Read more