
از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
كسى چيز كو دوسرى چيز كے مثل قرار دينے كو تشبيه كہتے ہيں، جيسے كہا جائے “مولانا آزاد كى نثر شيرينى ميں شہد كے مانند ہے”، تشبيه كے چار اركان ہوتے ہيں: 1- مشبه، 2- مشبه به، 3- اداة تشبيه، 4- وجه شبه، يہاں دى گئى مثال ميں “مولانا آزاد كى نثر” مشبه، “شہد” مشبه به، “مانند” اداة تشبيه، “شيرينى ميں” وجه شبه ہے۔
اگر كسى صورت حال كو دوسرى صورت حال كے مماثل قرار ديا جائے تو اسے تمثيل كہتے ہيں، جيسے نبى اكرم صلى الله عليه وسلم كى زندگى كا تقابل يوسف عليه السلام يا موسى عليه السلام كے قصه سے كيا جائے۔واعظين ومصلحين كے كلام ميں تمثيلات كثرت سے پائى جاتى ہيں، مولانا روم كى مثنوى، اور شيخ سعدى كى گلستان وبوستان كى بنياد تمثيلى قصوں اور كہانيوں پر ہے۔
تشبيه وتمثيل كا مقصد بات كو واضح كرنا ہوتا ہے، يعنى آپ ايكـ بات كہتے ہيں، اس كى دليل پيش كرتے ہيں، مگر پهر بهى مخاطب كے ذہن ميں وه بات اچهى طرح نہيں بيٹهتى تو آپ اسے ان مثالوں يا قصوں سے واضح كرتے ہيں جنہيں وه جانتا ہے يا جنہيں وه اچهى طرح سمجهتا ہے، مثلا ٹرمپ كا يه بيان كه “وه غزه كى پٹى كو وہاں كے باشندوں سے خالى كركے اسے امريكه كى ايكـ سياحت گاه بنائے گا”، ہر شخص جانتا ہے كه يه ظلم ہے، اور يه جرم عظيم اور اثم مبين ہے، آپ اس كے انجام كى مثال فرعون وغيره ظالمين سے ديتے ہيں، اس سے سامع كے دل ميں بات اتر جاتى ہے، ٹرمپ آپ كى مثال سے ظالم نہيں بنا، بلكه وه ظالم پہلے سے ہے، آپ كى مثال نے اس كا ظلم واضح كرديا۔تشبيه وتمثيل بذات كوئى دليل نہيں، جب آپ كہتے ہيں كه خالد بہادرى ميں شير كى طرح ہے، تو آپ اچهى طرح جانتے ہيں كه اس كى بہادرى پہلے سے ثابت ہے، تشبيه ديكر اسے واضح كر رہے ہيں، كوئى بهى يه نہيں كہے گا كه شير كى تشبيه كى وجه سے وه بہادر ہو گيا، يا آپ كہتے ہيں كه زينب خوبصورتى ميں چاند كى طرح ہے، آپ كا “چاند كى طرح” كہنا اس كى خوبصورتى كى دليل نہيں، بلكه اس كى خوبصورتى پہلے سے ثابت ہے، اس تشبيه نے اسے واضح كرديا۔
يہاں بعض لوگوں كو شبہ ہو سكتا ہے كه قياس واعتبار بهى تشبيه وتمثيل ہيں اور انہيں دليل كى حيثيت سے استعمال كيا جاتا ہے، صحيح بات يه ہے كه قياس واعتبار دليل نہيں، اس كى تشريح يه ہے كه جب آپ يه كہتے ہيں كه وهسكى نشه ميں خمر كى طرح ہے، اس لئے وهسكى بهى حرام ہے جيسے خمر حرام ہے، تو اس كى حرمت اس تشبيه كى بنا پر نہيں ہے، بلكه خمر اور وهسكى دونوں كى حرمت كى دليل ايكـ ہى ہے، اور وه ہے ان دونوں ميں نشه كا پايا جانا، خمر چونكه قرآن كريم ميں مذكور ہے اس لئے اس كى حرمت واضح ہے، آپ نے وهسكى كو خمر سے تشبيه دے كر اس كى حرمت كو بهى واضح كرديا، اسى لئے قياس كو تعميم حكم سے تعبير كيا جاتا ہے، دوسرے لفظوں ميں اسے تحقيق مناط بهى كہتے ہيں۔اسى طرح جب قرآن كريم ميں قريش كے مستكبرين كو قوم نوح، عاد، ثمود اور فرعون سے تشبيه دى گئى، تو اس كا مطلب يه نہيں كه يه تشبيه ان كے معذب ہونے كى دليل ہے، بلكه قريش كے ليڈروں اور ان سارى قوموں كے معذب ہونے كى دليل ايكـ ہى ہے، اور وه ہے تكذيب رسل، چونكه گزشته قوموں پر عذاب آچكا ہے اس لئے ان كى تمثيل سے قريش كے حق ميں بهى عذاب كى بات واضح ہوگئى۔اس تشريح سے يه بات كهل كر سامنے آگئى كه تشبيه وتمثيل دليل نہيں ہيں، بلكه حكم كى وضاحت ہيں، اگر يه كہا جائے كه فلاں صاحب لال بجهكڑ ہيں، تو اس تشبيه سے ان كى بيوقوفى ثابت نہيں ہوتى، ان كى بيوقوفى كى دليل كچهـ اور ہوگى، تشبيه سے بيوقوفى دو دو چار كى طرح واضح ہوگئى۔واعظين قصوں، كہانيوں، تمثيلوں اور تشبيہوں كو كثرت سے استعمال كرتے ہيں، ان كى وجه سے مخاطب كى سمجهـ ميں بات اچهى طرح آجاتى ہے، اس كا نتيجه يه ہوتا ہے كه اكثر واعظين ومقررين اپنى بات كى دليل دينا ضرورى نہيں سمجهتے اور صرف مثالوں اور كہانيوں سے كام چلاتے ہيں، يوں ان كے سامعين بلكه ان واعظين كى بڑى تعداد مثالوں ہى كو دليل سمجهنے لگتى ہے۔
تشبيه وتمثيل كے متعلق اس غلط فہمى كا شيوع مثنوى شريف اور مشائخ كے ملفوظات كا كثرت سے پڑهنا ہے، نتيجه يه ہے كه مدارس كے فارغين بالعموم اپنى تقريروں اور تحريروں ميں مثالوں كا سہارا ليتے ہيں، اور اپنے دعووں كو مدلل كرنا ضرورى نہيں سمجهتے۔ترتيب ميں مثال دليل كے بعد آتى ہے، جب دليل نہيں ہوگى اور صرف مثال ہوگى تو معاشره ميں صرف خرافات پهيلے گى، آپ كسى كو گدها كہيں گے، وه آپ كو گدها كہے گا، آپ اپنے شيخ كو جنيد وشبلى كہيں گے، دوسرے بهى اپنے شيخ كو جنيد وشبلى كہيں گے، آپ اپنے مقرر كو طوطى ہند اور شير پنجاب كہيں گے، دوسرے بهى اپنے مقررين كو طوطى اور شير كہيں گے، آپ اپنے مسلكـ كى كتاب كو قرآن كہيں گے، دوسرے بهى اپنے مسلكـ كى كتاب كو قرآن كہيں گے، بے دليل بات كہنے كا اثر ہے كه ايكـ ہى ملكـ ميں كئى كئى شيخ الاسلام ہيں۔