✍️ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
صدر ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیں ، ریاض میں خلیج امریکہ تعاون کونسل کی کانفرنس ہوئی، اس سے پہلے تک یہ اندازہ کیا جا رہاتھا ، کہ شاید فلسطین کے متعلق کچھ بڑی خبر آنے والی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا، حماس نے امریکی نزاد الیکنرنڈ رکو بلا شرط رہا کیا، جس کے نتیجے میں ایک بار پھرمذ اکرات شروع ہوئے ، تادم تحریر کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے، البتہ ریاض کانفرنس سے ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ شام پر عائد تمام پابندیاں اٹھا لیں گے ، یہ واقعی ایک بڑی خبر ہے، بالخصوص اس شام کے لیے جو کئی دہائیوں سے مسلسل خانہ جنگی، ظلم وبربریت، بے بسی اور پابندیوں کا شکار تھا ، لیکن اس خبر کے ساتھ ہی یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ شام کی صبح مبارک !مگر شہر عزیمت غزہ کا کیا ہو گا؟ ہنوز شہر عزیمت سے متعلق کسی پیش رفت کا انتظار ہے ۔جنگ بندی کا اعلان اور بنیادی انسانی امداد کے پہنچنے کی اجازت کی خبر سننے کو کان بےتاب ہیں۔
سودا مفادات کا چل رہا ہے ، ساری ڈیل تجارتی نقطہ نظر سے ہو رہی ہے ، ٹرمپ امریکی تاریخ کا پہلا کمرشیل بلکہ بنیا مائنڈ سیٹ رکھنے والا صدر ہے ، کیا شہر عزیمت میں اسے کوئی تجارت نظر آئے گی ، کیا حماس سے کسی کے مفادات وابستہ ہیں؟ جس سعودی سرمایہ کاری نے ایسی بڑی سفارتی و سیاسی کامیابی حاصل کی ہے کہ شام پر عائد پابندیوں کے خاتمہ کا اعلان کر دیا گیا جو یقینا شامیوں کے لیے خوشی کے شادیانے بجانے کا موقع ہے ۔ کیا وہ سعودی عرب غزہ کے لیے کامیاب سفارت کر سکے گا، یقیناً نہیں کر پائے گا ، کیونکہ اس سعودی عرب کو بھی اب مقدسات ، اسلام ، کفاح ، آزادی و استقلال ، اخوت اسلامی اورمسجد اقصی کا دفاع کرنے والوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی ، وہ بھی مغرب کے خالص مادی نظریہ تعمیر و ترقی پر گامزن ہے ، اسلام اور اسکی تعلیمات اب وہاں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہیں، وہ اب تارکِ آئین رسولِ مختار ہے، مادی اور سیاسی مصالح ہی اس کے ہر اقدام و عمل کا معیار ہیں ، اغیار کا طرز ہی اس کا شعارہے، طرزِ سلف سے اب وہ بیزار ہے، وہ اب روح اور احساس سے عاری ہے، اسے پیغام محمد کا کچھ بھی پاس ولحاظ نہیں، اس دورہ خلیج میں ٹرمپ کا پڑاؤ امارات بھی ہے جو حماس کے خاتمہ کے لیے کوشاں ہے ، سعودیہ و امارات دونوں ہی تحریکِ آزادی اور دفاعِ قدس کے متوالوں کو خطہ کے لیے خطرہ اور دہشت گرد مانتے ہیں ، اس صورت حال میں کسی بڑے متوقع اعلان اور ٹرمپ کے اس دورہ خلیج سے کسی خیر کی امید فضول ہے ، نتن یاہو فی الحال جیالوں کے ہتھیار ڈالنے اور شہر عزیمت سے ان کے انخلا سے کم پر راضی نہیں، اسکا بیان آ چکا ہے کہ حماس اپنی شکست کا اعلان کرے ، ہم ٹرمپ کے ساتھ انھیں کسی اور ملک میں منتقل کرنے پر کام کر رہے ہیں، حالانکہ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ٹرمپ سے نتن یاہو کی بات نہیں بن پا رہی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ممکن نہیں، پھر کیا ہو گا؟ ابھی کچھ کہنا مشکل ہے ،تاہم یہ بات طے ہے کہ حماس کے خاتمہ پر عربوں نے ٹرمپ کے ساتھ اتفاق کر لیاہے، ٹرمپ کے اس دورہ کا اصل مقصد ہی یہ تھا، البتہ صبر و کفاح و استقلال کے سامنے دنیا کو جھکنا پڑے گا ، یہ تقریبا طے ہے ان شاء اللہ، شرطیں کیا ہوں گی ، شکل و نوعیت کیا ہو گی ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے ، مگر بھوک پیاس سے دم توڑتے شہیدوں کا خون رائیگاں چلا جائے ، ایسا نہیں ہو گا ان شاءاللہ ۔
شہر عزیمت کی صورت حال کے سبب اب کچھ لکھنے کا دل چاہتا ہے نہ تجزیہ کرنے کا ، ورنہ اس وقت عالم عربی کی سیاست میں نیا موڑ ہے ، فی الحال ایران بیک فٹ پر ہے ، اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر بھی معاہدہ کرنے کو تیار ہے، حزب اللہ اور حوثیوں کو بھی وہ تقریبا تنہا چھوڑ چکا ہے، جس تیزی کے ساتھ اس نے خطہ میں اثر و رسوخ کا دائرہ بڑھایا تھا اسی تیزی کے ساتھ اس کا دائرہ محدود ہو رہا ہے ، ایرانی رسوخ کا نتیجہ تھا کہ شام کئی دہائیوں سے خاک و خون میں جھلس رہا تھا ، اس پر پابندیاں عائد تھیں ، وہ اقتصادی اعتبار سے مفلوک الحال تھا، فرقہ ورانہ مظالم نے خاندانوں کے خاندان تاراج کر دیے تھے، لاکھوں لوگ مارے گئے اور ملینوں بے گھر ہو گئے ، بہرحال اب شام کو وہ ملا جسکی اُسے اِس وقت ضرورت تھی، لیکن ساتھ ہی شام سے روسی و ایرانی رسوخ کی بساط لپیٹ دی گئی، شام میں روس و ایران کو شکست اٹھانی پڑی ، ترکیہ شام میں ہر طرح کامیاب رہا، اس نے انقلاب کے آغاز سے آج تک ہر سطح پر شامی انقلاب کی مدد کی اور ہر سطح پر دنیا کے بڑے بڑے چودھریوں کو شکست دی، وہاں آزادی کا سورج طلوع ہونے کے بعد سعودیہ نے بھی کامیاب سیاست کی کیوں وہ بالکل نہیں چاہے گا کہ شام پھر سے روس و ایران کی گود میں جائے، اور یہ سعودیہ کی بڑی سیاسی کامیابی ہے کہ اس کی وساطت سے پابندیوں کے خاتمہ کا اعلان ہوا اور امریکی صدر نے شامی رہنما سے ملاقات کی، یہی وجہ ہے کہ ایران نواز اس خبر پر خوشی کا کھل کے اظہار بھی نہیں کر پا رہے ہیں، بلکہ چند دنوں میں وہ احمد الشرع کو امریکہ و اسرائیل کا ایجنٹ قرار دینے کی مہم بھی چلائیں گے، ٹرمپ نے کہا کہ میں نے یہ قدم سعودی ولی عہد اور ترک صدر کے کہنے پر اٹھایا ہے ، شام میں ترک صدر نے واقعی بڑی سیاسی و سفارتی کامیابی حاصل کی اور ٹرمپ کا یہ اعلان اسکے فعال و متحرک کردار کی تصدیق بھی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ جب آپ سیاسی ، عسکری ، صنعتی اور معاشی طور پر طاقتور ہونے کے ساتھ نظریاتی طور پر بھی مضبوط ہوں، تو پھر آپ کے سامنے دنیا کا جھکنا اور آپ کی رعایت کرنا باعث حیرت نہیں ، پھر بات برابری کی سطح پر ہوتی ہے ، پھر سعودیہ وقطر کی طرح نذرانے نہیں پیش کرنے پڑتے ہیں، پھر آپ کہیں موجود نہ ہوں پھر بھی آپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جی ہاں ! کل بھی ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم نے شام سے پابندیاں ہٹانے کا فیصلہ سعودیہ و ترکیہ کے مشورے سے کیا ہے اور آج بھی بن سلمان اور احمد الشرع سے ملاقات کرتے وقت اردوغان سے فون پر گفتگو کی جسکا حوالہ خود ٹرمپ نے خلیج کانفرنس میں اپنی گفتگو میں دیا ، اردوغان کی ٹیلی فونک گفتگو کا جو حصہ میڈیا میں آیا اسکا خلاصہ یہ ہے کہ "ہم سیریا کی تعمیر و باز آباد کاری میں ہر طرح سے مدد کریں گے ، سیریا میں موجود دہشت گرد تنظیموں بالخصوص داعش سے مقابلہ میں تعاون کریں گے ، ہم غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ غزہ میں امن و امان قائم ہو ” نظریہ اور معیشت کی طاقت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے، ایک طرف ترکیہ ہے جسکو ٹرمپ بھی نظر انداز نہیں کر پا رہا اور دوسری طرف خلیجی ممالک ہیں جو ٹرمپ کے لیے اپنا خزانہ خالی کرنے پر آمادہ ہیں ۔ خلیج کی یہ ریاستیں باج گزار ریاستیں بن کر رہ گئی ہیں ، سعودیہ اور قطر وامارات سے ٹرمپ 4 ٹریلین ڈالر سرمایہ کاری کے نام پر لے گیا ،ہدایا وتحائف اس کے علاوہ تھے، ظاہر ہے کہ یہ سرمایہ کاری امریکی معیشت کو سہارا دے گی، بہر حال شام ہی وہ سرزمین ہے جہاں آئندہ دنوں میں ترکیہ و اسرائیل کے مفادات کے ٹکراؤ کی امید کی جا رہی ہے، کیوں کہ گولان پر اسرائیل قابض ہے تو ترکیہ بھی شام میں اپنا فوجی اڈہ قائم کر رہا ہے، بھارت پاک حالیہ ٹکراؤ میں بھی ترکیہ و اسرائیل کے ڈرون آمنے سامنے تھے ، اور دونوں کھل کر اپنے اپنے حلیف کے ساتھ کھڑے تھے ۔
بلا شبہ مسجد اقصی و فلسطین کا قضیہ بہت پیچیدہ ہے ، اور امریکہ کا سب سے بڑا مفاد یہی قضیہ ہے ، لیکن مادی اسباب اور حالیہ اقدامات کچھ اس طرح کے ہیں جن سے اس کی امید قوی تر ہو رہی ہے کہ ان شاء اللہ یہ قضیہ حل ہو گا ،اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ کچھ نہیں کہا جاسکتا ، فی الحال تو بس یہی دعا ہے کہ جنگ بندی کا اعلان جلد ہو اور بنیادی انسانی ضروریات پہنچنے کی راہ جلد کھلے ، امت شاید اتنی مجبور کبھی نہیں ہوئی کہ پورا شہر بھوک سے تڑپ رہاہے، بچے ہڈی کا ڈھانچہ ہوکر شہید ہورہے ہیں اور پوری مسلم دنیا غزہ کا حصار توڑ کر دانہ پانی پہنچانے سے بھی قاصرہے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شام غزہ کو نظر انداز کرکے یہ مراعات حاصل کر پائے گا ، کیا ٹرمپ اپنے مطالبات کی تکمیل کے بغیر پابندیاں ختم کرنے میں کامیاب ہوگا، سچی بات یہ ہے کہ بہت کٹھن ہے ڈگر پن گھٹ کی، احمد الشرع کا اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے ۔ بلاشبہ اب تک انھوں نے جدید سیریا کی کامیاب سفارت و نمائندگی کی ہے ،جسکے نتیجہ میں امریکہ نے پابندیاں اٹھانے کا اعلان کیا ہے، لیکن ساتھ ہی ٹرمپ نے معاہدہ ابراہیمی Abraham Pact/Abraham Accord میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ، جس کا مطلب ہے اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن یعنی سیاسی و اقتصادی تعلقات کا قیام۔ سعودیہ نے ان کی ملاقات ٹرمپ سے کرائی ہے اور سعودیہ خود اس معاہدہ کا وکیل ہے، گرچہ بظاہر وہ اس میں شامل نہیں لیکن اسکے خفیہ تعلقات اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ٹرمپ نے ساتھ ہی ” فلسطینی دہشت گردوں ” کو دھتکار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ پابندیاں ختم کرنے کا اعلان بہت خوش کن تھا لیکن یہ آزمائش بھی بہت سخت ہے، کیا غزہ کو نظر انداز کر کے اور معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہوکر یہ مراعات حاصل ہوں گی یا احمد الشرع اس آزمائش سے بھی بخوبی کامیاب وکامران نکلیں گے۔
البتہ خلیج اور امریکہ تعاون کونسل کی کاروائیاں دیکھنے کے بعد یہ مان لینے میں ہی فائدہ ہے کہ موجودہ عربوں کو شوکت اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں کیوں کہ غیرت اسلامی ختم ہوئے زمانہ ہوا ۔ جزیرہ عرب سے اسلام کی سر بلندی کی اب کوئی امید نہیں کی جا سکتی ، عارضی کامیابیاں اور وقتی سیاسی فائدے اپنی جگہ ۔
*دیر تک ٹرمپ کی سربراہی میں چلنے والی کانفرنس کے خطابات سنتا رہا ، جہاں تک سن سکا وہاں تک رٹے رٹائے جملے ، غلامانہ ذہنیت کی عکاسی اور امریکی سربراہی کا اعتراف اور غلامی کا اقرار ۔ وہی گھسے پٹے بیانات کہ ہم دو ریاستی حل چاہتے ہیں، امن چاہتے ہیں وغیرہ ۔ سارے غلام آقا کے حضور جمع ہیں اور بڑھ بڑھ کے امریکہ کی تعمیر و ترقی کے لیے اپنا حصہ پیش کر رہے ہیں، بلا شبہ صحافتی دنیا میں اسے باہمی تجارتی معاہدہ قرار دیا جائے گا ، لیکن یاد رہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں سعودیہ و قطر سے اس وصولیابی کو جزیہ کی واپسی قرار دیا تھا ، صاف کہا تھا کہ مسلم حکمرانوں نے جو جزیہ مسیحی دنیا سے وصول کیا یہ اسی کی وصولی ہے ۔ اس بار بھی انداز بیان یہ تھا کہ اتنا مال دو تو ہم سب سے پہلے سعودیہ کا دورہ کریں گے ، یہ لہجہ ظل الہی کا ہو سکتا ہے تجارتی معاہدہ کا نہیں، ٹرمپ کو معلوم ہے کہ یہ ڈری سہمی دودھاری گائیں ہیں انھیں زندگی کی ضمانت چاہیے پھر دودھ ہی کیا ان کا خون بھی چوسا جا سکتا ہے ۔ یہی نہیں اس مرتبہ تو امارات نے حد کر دی ، دیوث شخص کے استقبال میں دیوثی طرز وطور اختیار کیا، بچیوں کو مکلف کیا گیا کہ وہ زلفیں لہرا کر دیوث صدر کا استقبال کریں، اس وقت جو نشید چلایا گیا اسمیں سیدی و مولای کی رٹ لگائی گئی، اس بے غیرتی اور غیر اسلامی طرزِ استقبال کو بعض عقل کے اندھوں نے یہ کہہ کر جواز عطا کر دیا کہ سپرپاور کی آمد تھی تو اس طرح تو استقبال کرنا پڑے گا، یعنی ان کے نزدیک طاقت کے سامنے جھک جانا، اسلامی مظاہرکو ترک کرکے قیامِ امن کی کوشش کرنا بھی دانشمندی ہے، تف ہے ایسی سوچ پر جس کا ماحصل محض اپنی روٹی کا مسئلہ ہو، کچھ ایسے مولوی نظر آئے جو اس برہنہ رقص کی عجیب توجیہ کرنے لگے کہ یہ تو رقص عِیالہ ہے جو جنگ کے لئے تیار رہنے کی خبر دیتا ہے، یہ عربوں کی قدیم تہذیب کا حصہ ہے، ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے کہ زلفیں لہرا کر بھلا جنگ کی تیاری کی اطلاع کا کیا مطلب ؟ اور یہ کون سی قدیم تہذیب ہے؟ اگرزمانہ جاہلیت کی ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق؟ اور اگر ابھی اختیار کی گئی تو قدیم کیسے ؟اور پھر استقبال ہو یا کوئی تقریب، تہذیب ہو یا کوئی اور ریت رواج، اسلام کے متعین کیے گئے احکام و حدود سے آزاد ہوکر تو کچھ بھی ممکن نہیں ، یہی نہیں اس سے آگے بڑھ کر یہ کیا گیا کہ ایک دن کے لیے مسجد شیخ زاید کو بند کر دیا گیا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ سیکورٹی کے مقصد سے ایسا کیا گیا ہوگا، لیکن ہمیں یہ عذر لنگ تسلیم نہیں ، اوّل تو اس دیوث کو وہاں لے جانے سے کیا حاصل ؟اور لے ہی جانا تھا تو دونمازوں کے درمیان مسجد خالی کرالی جاتی، لیکن نہیں!اصل کرونولوجی ٹرمپ کے اس جملے نے سمجھا دی، اس نے مسجد بند کیے جانےکو” اپنے لیے اور امریکہ کے لیے شرف قرار دیا ” واقعہ یہ ہے کہ ان باج گزاروں نے ایسے وقت میں امریکی معیشت کو سہارا دیاجب وہ مسلسل اسرائیل کو ہتھیار دے رہا ہےاور اسرائیل نے غزہ کو لہولہان کر رکھا ہے، ان باج گذاروں نے اس طرز استقبال کے ذریعہ عالم اسلام کی مغلو بیتاور ذلت و رسوائی پر مہر ثبت کر دی، حیرت تو ان کم عقلوں پر ہے جو باج گذاری اور سرمایہ کاری میں فرق نہیں سمجھتے، یہ بدو کیا نہ کریں گے، ابوظبی میں انھوں نے ایک مرکزخاندان ابراہیمی تعمیر کیا، جس میں مسجد ،سینیگاگ اور کلسا ایک ساتھ بنایا گیا، یہ ” دین ابراہیمی ” کی فکر کا مظہر ہے، جس کو بظاہر تقریب ادیان کی ایک کوشش قرار دیا جاتا ہے، لیکن دراصل اسکی بنیادا رس گمراہ کن باطل فکر پر ہے کہ جو لوگ بھی ملت ابراہیمی کی طرف نسبت کرتے ہیں وہ محمد ﷺ کی رسالت اور قرآن پر ایمان لائے بغیر بھی مسلمان ہو سکتے ہیں، ( اس پر کبھی تفصیلی گفتگو ہوگی، بلکہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اب تک ہندستان کے مناظروں اور مفتیوں نے اس پر بہت کچھ لکھا ہوگا مگر افسوس !…..) اس دورہ میں ٹرمپ کو اس مرکز کی بھی سیر کرائی گئی اور داد و تحسین وصول کی گئی ۔
خلاصہ یہ ہے کہ تحریک مزاحمت کا وجود مٹانے پر عرب و امریکہ سب متفق ہیں ۔ ٹرمپ کا یہ جملہ اس کانفرنس کے مائنڈ سیٹ کا خلاصہ ہے کہ "ہم قیام امن کے خواہاں ہیں مگر یہ ہدف اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو معصوموں کو ستاتے اور زیادتی کرتے ہیں” اس بیان کو خاموشی سے سن لینا ہی سب سے بڑی خیانت ہے کیونکہ اسی بیان میں سب کچھ چھپا ہوا ہے ۔ لیکن ان لوگوں سے اس خیانت سے زیادہ کی امید بھی نہیں کی جا سکتی جن کے اجداد نے ماضی میں قدس کا سودا کیا اور اب یہ لوگ دوبارہ کر رہے ہیں، سوچیے ذرا ایک طرف غزہ خاک و خون میں نہا رہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے سب سے بڑے معاون امریکہ سے یہ لوگ اربوں کھربوں ڈالر کے معاہدے کر رہے ہیں، جبکہ ان کے یہ ڈالر اتنے بے بس وبے حیثیت ہیں کہ ان کے ذریعہ غزہ کے معصوموں کی بھوک پیاس کا علاج بھی نہیں ہوسکتا۔ دراصل ۱۷کتوبر کی کارروائی اتنی سخت اور غاصب ریاست کے لیے اتنی خوفناک تھی کہ دشمن بوکھلا گیا ، اب دشمن تحریک مزاحمت کو ختم کیے بغیر یہ جنگ ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ، اس نے اعلان کیا ہے کہ کل اسکی فوج خان یونس میں یورپ ہاسپیٹل کے نیچے سرنگ کے تباہ کرنے کی کارروائی کرے گا، جسکے نیچے اسے اہم افراد کے رہنے کا گمان ہے ۔
تحریک مزاحمت نے خیال کیا ہو گا کہ لوگ درمیان میں پڑ کے کچھ دن میں جنگ رکوا دیں گے اور کچھ نہ کچھ مدد کریں گے ، یہ تو وہم وگمان بھی نہ ہو گا کہ سب ہاتھ کھڑے کر لیں گے ، طُرفہ یہ کہ اب تو سب نے اتفاق کر لیا ہے کہ پہلے تحریک کو ہی ختم کرنا ہے پھر کچھ اور سوچنا ہے ، ٹرمپ آیا ہی اسی لیے تھا اور اس امر پر اتفاق بھی ہو گیا، یہ الگ بات کی فکریں کبھی ختم نہیں ہوتیں ، منزل کو دور تو کھینچا جا سکتا ہے لیکن فکروں کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
تاریخ یہ منظر پہلی بار دیکھ رہی ہے کہ ایک شہر بھوک سے تڑپ کے مر رہا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے، خدا سب کو قحط کا بدترین مزہ چکھائے ، ایسا قحط پڑے کہ ریال و ڈالر کچھ کام نہ آئے ۔ خدا کی قدرت انتقام کب جوش میں آئے بس اسکا انتظار ہے ۔
بہرحال تحریک اور شہر عزیمت ختم ہوا تو قضیہ فلسطین کی روح ختم ہو جائے گی ، پھر فلسطین کا چپہ چپہ احتلال کے زیر نگیں ہو گا ، مسجد اقصی ممکن ہے رسمی طور پر بدقماش شاہ اردن کے کنٹرول میں باقی رہے لیکن کب تک باقی رہے اور کس طرح کس کیفیت سے باقی رہے یہ سب غاصب دشمن کے رحم و کرم پر طے ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاآنکہ پھر آزادی اقصی کے متوالے اٹھ کھڑے ہوں اور محاذ سنبھال کے صفر سے آغاز کریں ۔