معاویہ محب الله
قرآن مجید کے نازل کئے کانے کا مقصد الله تعالیٰ نے چار آیات میں خصوصی طور سے ذکر کیا ہے، سورۂ جمعہ کی آیت ۲ میں وہ مضمون ملاحظہ فرمائیں ؛ هُوَ ٱلَّذِی بَعَثَ فِی ٱلۡأُمِّیِّـۧنَ رَسُولࣰا مِّنۡهُمۡ یَتۡلُوا۟ عَلَیۡهِمۡ ءَایَـٰتِهِۦ وَیُزَكِّیهِمۡ وَیُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَإِن كَانُوا۟ مِن قَبۡلُ لَفِی ضَلَـٰلࣲ مُّبِینࣲ [الجمعة ٢]رسول الله صلی الله عليه وسلم کو تلاوتِ آیات اور تعلیمِ کتاب و حکمت کے لئے مبعوث فرمایا، اس کا مقصد یہ کہ وہ انسانوں کا تزکیہ کرے، ان کے نفوس کی تطہیر کرے، ان کو تقویٰ و طہارت کی تعلیم دے۔
• یہاں رک کر ایک بات یاد رہنی چاہئے کہ تزکیہ، تطہیر اور تقوی تینوں قرآن مجید میں اکثر ایک معنی میں استعمال ہوئے ہیں، حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله نے اپنے رسالہ ” فصل في تزكية النفس” میں لکھا ہے کہ تزکیہ، طہارت اور تقوی ایک ہی معنی میں ہیں، قرآن مجید کی کئی آیات سے اسی معنی کی طرف اشارہ بھی ملتا ہے ؛ فَلَا تُزَكُّوۤا۟ أَنفُسَكُمۡۖ هُوَ أَعۡلَمُ بِمَنِ ٱتَّقَىٰۤ. اس آیت میں انسانوں کو اپنے آپ پاکیزہ سمجھنے سے منع فرمایا ہے، ساتھ ہی عرض کردیا کہ الله تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں کون صاحبِ تقوی ہیں؟ تزکیہ گویا تقوی ہی کے مفہوم میں یہاں آیا ہے۔
• نیز طہارت بھی تزکیہ کے معنی میں ہے، قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے حکم ارشاد فرمایا ؛خُذۡ مِنۡ أَمۡوَ ٰلِهِمۡ صَدَقَةࣰ تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّیهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَیۡهِمۡۖ. رسول الله صلی الله عليه وسلم کو حکم دیا کہ صدقہ و زکوۃ وصول کرے، اور ان کا تزکیہ و تطہیر کریں، یہاں تزکیہ و تطہیر بطور مترادف استعمال ہوا ہے۔
• پوری شریعت کا مقصد ہی تزکیہ و تطہیر ہے، تزکیہ کے لغوی معنی میں پاک صاف کرنے اور نشو ونما کرنے ؛ دونوں مفہوم شامل ہیں، جہاں شریعت کے احکامات و منھیات سے بُرے خصائل، اخلاق رذائل اور کھوٹے کرداروں کی صفائی کی جاتی ہے، وہیں عمدہ اخلاق، اعلیٰ محاسن اور نیک خصائل کو پروان چڑھایا جاتا ہے، اسی لئے الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سارے مختلف احکام و مسائل کے ضمن میں تزکیہ کے پہلو کو اجاگر کیا ہے، جہاں بھی تزکیہ کا ذکر ہوا ہے وہاں الله تعالیٰ نے ” ھم ” ضمیر کو استعمال فرمایا ہے، اس میں انسان کا مادی یعنی جسمانی وجود بھی داخل ہے، اس میں عقلی وجود بھی داخل ہے، اور اسی میں انسان کا اخلاقی وجود بھی داخل ہے، گویا ہر اعتبار سے انسانی ذات کا تزکیہ شریعت مطہرہ میں مذکور ہے۔ ہم آئندہ سطور میں قرآن مجید کی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں ؛
• تزکیہ کا مفہوم میں توحید و اعمالِ صالحہ بھی داخل ہے، کفر و شرک انسان کے قلب و ذہن کو روحانی طور پر آلودہ کرکے رکھ دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ سورۂ توبہ میں الله تعالیٰ نے شرک کو نجس قرار دیا ہے، انسان جب تک شرک کی وادی میں گردش کرتا رہتا ہے، ہر برائی اس کے لئے محاسن معلوم ہوتی ہے، عقل و خِرد کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں اور وہ حق کو حق پہچاننے سے قاصر رہتا ہے، باطل اسے حق نظر آتا ہے، شیطان ضلال و گمرہی کو اس کے سامنے مزیّن کرکے پیش کرتا ہے اور اس کے پاس مادی عقل و ہوش ہونے کے باوجود حق و باطل کے درمیان فرق کرنے کی تمیز نہیں رہتی، فرعون اسی روحانی بیماری میں مبتلا تھا، اس کو سیدنا موسیٰ علیه السلام نے دعوت دیتے ہوئے یہی ارشاد فرمایا ؛ فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى [النازعات: ١٨]. اسی طرح یہود کی غلط کاریوں اور ریشہ دوانیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد ان پر حجت تمام کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے یہی الفاظ ارشاد فرمائے ہیں ؛ أُو۟لَـٰۤىِٕكَ ٱلَّذِینَ لَمۡ یُرِدِ ٱللَّهُ أَن یُطَهِّرَ قُلُوبَهُمۡۚ لَهُمۡ فِی ٱلدُّنۡیَا خِزۡیࣱۖ وَلَهُمۡ فِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمࣱ [المائدة ٤١]. گویا بنی اسرائیل کی مسلسل نافرمانیوں کے باعث خدا نے ان پر مہر ثبت کردی، ظاہر بات ہے یہاں تطہیر و تزکیہ سے مراد توحید و اعمال صالحہ ہی ہوسکتے ہیں۔سیدنا ابراھیم عليه السلام کو بیت الله کی تعمیر کے بعد یہی حکم ارشاد فرمایا کہ اسے ظاہری اور باطنی ؛ کفر و شرک کی گندگی سے پاک صاف رکھو ؛ وَإِذۡ بَوَّأۡنَا لِإِبۡرَ ٰهِیمَ مَكَانَ ٱلۡبَیۡتِ أَن لَّا تُشۡرِكۡ بِی شَیۡـࣰٔا وَطَهِّرۡ بَیۡتِیَ لِلطَّاۤىِٕفِینَ وَٱلۡقَاۤىِٕمِینَ وَٱلرُّكَّعِ ٱلسُّجُودِ [الحج ٢٦]﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّاسُ ٱعۡبُدُوا۟ رَبَّكُمُ ٱلَّذِی خَلَقَكُمۡ وَٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ﴾ [البقرة ٢١]۔ مذکورہ آیت میں توحید کا حکم ارشاد فرمایا ہے، اور ایک ہی ذات خداوندی کی طرف رجوع ہونے کو تقوی کا سبب قرار دیا ہے۔
• شریعت کے احکامات میں عبادت کا پہلو جس قدر وضاحت و تفصیل سے بیان ہوا ہے شاید دوسرا پہلو ہوا ہو، ان سب میں نماز و زکوۃ کو رؤوس العبادات کا درجہ حاصل ہے، چنانچہ الله تعالیٰ نے سورۂ فاطر میں ارشاد فرمایا ؛ إِنَّمَا تُنذِرُ ٱلَّذِینَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّهُم بِٱلۡغَیۡبِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَۚ وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا یَتَزَكَّىٰ لِنَفۡسِهِۦۚ وَإِلَى ٱللَّهِ ٱلۡمَصِیرُ (فاطر،١٨). اپنے پروردگار سے غائبانہ خوف و خشیت کے بعد جس عبادت کے ادا کرنے پر تزکیہ کا وعدہ کیا گیا ہے وہ نماز ہی ہے۔ سورۂ اعلیٰ میں وارد ہے؛ قَدۡ أَفۡلَحَ مَن تَزَكَّىٰ، وَذَكَرَ ٱسۡمَ رَبِّهِۦ فَصَلَّىٰ [الأعلى ١٤،۱۵]۔
• اسی طرح قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے مالی عبادات میں زکوۃ کو تزکیہ کا ذریعہ قرار دیا ہے؛ خُذۡ مِنۡ أَمۡوَ ٰلِهِمۡ صَدَقَةࣰ تُطَهِّرُهُمۡ وَتُزَكِّیهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَیۡهِمۡۖ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنࣱ لَّهُمۡۗ وَٱللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ [التوبة ١٠٣]۔ ایک اور آیت کریمہ ارشاد فرمایا ؛ ٱلَّذِی یُؤۡتِی مَالَهُۥ یَتَزَكَّىٰ [الليل ١٨]. رسول الله صلی الله عليه وسلم کے ساتھ سرگوشی کرنے کے لئے منافقین غلو کی حد تک پہنچ گئے تھے، الله تعالیٰ نے ان کی تربیت و تزکیہ کے لئے صدقہ کا حکم ارشاد فرمایا اور اس کو بھی نفاق کی بیماری کے لئے تزکیہ و طہارت قرار دیا ہے؛ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوۤا۟ إِذَا نَـٰجَیۡتُمُ ٱلرَّسُولَ فَقَدِّمُوا۟ بَیۡنَ یَدَیۡ نَجۡوَىٰكُمۡ صَدَقَةࣰۚ ذَ ٰلِكَ خَیۡرࣱ لَّكُمۡ وَأَطۡهَرُۚ [المجادلة ١٢].
• تیسری اہم ترین عبادت روزہ کے متعلق بھی تقوی کا پہلو کھول کھول کر بیان فرمایا ہے، روزہ سے انسانی شہوت و خواہشات پر قابو حاصل ہوتا ہے، اس میں خدا جانے کتنے رازہائے سر بستہ پوشیدہ ہیں جن میں انسانی نفوس کا تزکیہ مضمر ہے، صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھائے، پیئے اور انسانی فطری حاجت سے محفوظ رہنا انتہائی مشکل ہے، اور وہ بھی اس یقین کے ساتھ کہ روزہ صرف اس ذات کے لئے ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود تمام حرکات و سکنات سے واقف ہے، ارشاد فرمایا ؛ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ كُتِبَ عَلَیۡكُمُ ٱلصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى ٱلَّذِینَ مِن قَبۡلِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ [البقرة ١٨٣].
• خور و نوش کے مسائل میں حلال و حرام کی تمیز انتہائی غیر معمولی معاملہ ہے، رسول الله صلی عليه وسلم نے فرمایا: ” حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان جو راہ ہے وہ مشتبھات ہے، جو انسان مشتبھات کی حدود کے قریب جائے گا، ممکن ہے وہ اس میں داخل ہو جائے” اس سلسلے میں بھی الله تعالیٰ نے انسانیت کے تزکیہ کا لحاظ فرمایا ہے، جب اصحاب کہف طویل نیند و آرام کے بعد کھانے کے لئے کسی کو بھیجنے لگے تو انہوں نے پاکیزہ و حلال کھانے کا ہی اہتمام فرمایا ؛ قَالُوا۟ رَبُّكُمۡ أَعۡلَمُ بِمَا لَبِثۡتُمۡ فَٱبۡعَثُوۤا۟ أَحَدَكُم بِوَرِقِكُمۡ هَـٰذِهِۦۤ إِلَى ٱلۡمَدِینَةِ فَلۡیَنظُرۡ أَیُّهَاۤ أَزۡكَىٰ طَعَامࣰا فَلۡیَأۡتِكُم بِرِزۡقࣲ مِّنۡهُ وَلۡیَتَلَطَّفۡ وَلَا یُشۡعِرَنَّ بِكُمۡ أَحَدًا [الكهف ١٩]کھانے کے پاکیزہ ہونے کی وجہ سے اس کا اثر انسان کے اخلاق پر نمایاں ہوتا ہے، اگر کھانا حرام کمائی سے کھایا جائے تو آدمی کی نفسیات میں برے اخلاق کا پیدا ہونا فطری بات ہے، نیز اگر ایسے جانوروں کا گوشت کھایا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے، خصوصاً درندے، ذی انیاب پرندے، مردہ جانوروں کے گوشت اور خنزیر و کتا کے گوشت سے انسانی نفسیات پر برا اثر واقع ہوتا ہے، انھیں چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے الله تعالیٰ نے پاکیزہ رزق کا حکم ارشاد فرمایا تاکہ انسانی اخلاق کا تزکیہ ہوسکیں۔
• معاملات و مالیات کے سلسلے میں ربو و سود سے بچنا نہایت ضروری ہے، سود کی لعنت جس معاشرہ میں داخل ہو جاتی ہے وہ معاشرہ تباہی کے دہانے پہنچ جاتا ہے، امیر شخص امیر ہی بنتا جاتا ہے اور مفلس مفلس تر ہوتا جاتا ہے، یہ اتنی بڑی لعنت و فساد ہے کہ الله تعالیٰ نے سودی معاملات کرنے والوں کے بارے میں نہایت درجہ غصہ و جلال کا اظہار فرمایا ہے ؛ فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُوا۟ فَأۡذَنُوا۟ بِحَرۡبࣲ مِّنَ ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۖ. اس معاملہ میں بھی انسان کا تزکیہ نفس اور اخلاقی اصلاح پوشیدہ ہے، سورۂ بقرہ کے آخر میں سود پر کلام کرتے ہوئے بار بار تقوی کی وصیت فرمائی ہے؛ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّبَوٰۤا۟ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ [البقرة ٢٧٨]۔
• حکومت و سیاست میں بھی عدل و انصاف غیر معمولی چیز ہے، عدل و انصاف تمام نیکیوں اور خیر کے کاموں کی اساس ہے، اگر عدل کا ہی خون کر دیا جائے تو انسانیت تباہی کے کگار پر جاپہنچے گی، الله تعالیٰ نے ہر معاملہ کے متعلق عدل و انصاف کا حکم دیا ہے ؛ إِنَّ ٱللَّهَ یَأۡمُرُ بِٱلۡعَدۡلِ وَٱلۡإِحۡسَـٰنِ وَإِیتَاۤىِٕ ذِی ٱلۡقُرۡبَىٰ وَیَنۡهَىٰ عَنِ ٱلۡفَحۡشَاۤءِ وَٱلۡمُنكَرِ وَٱلۡبَغۡیِۚ یَعِظُكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَذَكَّرُونَ [النحل ٩٠].سیاست شرعیہ اور حکومت اسلامیہ میں عدل کا کیا مقام ہے، اس سے ہر مسلمان واقف ہے، خصوصا جن مسائل کا تعلق براہ راست اسلامی اقتدار سے ہے، مثلا ؛ شہادت، صلح بین المسلمین، قضاء و افتاء وغیرہ، اس کے علاؤہ شریعت کے بے شمار مسائل میں عدل کی تعلیم دی گئی ہے، قرآن مجید عدل و احسان کی تعلیم سے بھرا پڑا ہے ؛ یتیم کے مال میں عدل، قرض کے لین دین میں عدل کے ساتھ کتابت، امانت میں عدل، دو ازواج کے مابین عدل، ناپ تول میں عدل و قسط وغیرہ، قرآن مجید میں وارد ہے؛ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ كُونُوا۟ قَوَّ ٰمِینَ لِلَّهِ شُهَدَاۤءَ بِٱلۡقِسۡطِۖ وَلَا یَجۡرِمَنَّكُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ عَلَىٰۤ أَلَّا تَعۡدِلُوا۟ۚ ٱعۡدِلُوا۟ هُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰۖ وَٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِیرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ [المائدة ٨]الله تعالیٰ نے عدل و قسط اور انصاف کو تزکیہ و تقوی کا ذریعہ قرار دیا ہے، عدل ہی کی راہ تقوی کے زیادہ قریب ہے، جوں ہی عدل وانصاف کی راہ سے سر مو انحراف کیا تو سارا نظام درہم برہم ہوکر رہ جائے گا۔
• الغرض قرآن مجید میں ہر قسم کے احکامات کے ساتھ تقویٰ، طہارت، تطہیر اور تزکیہ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں، اگر ان الفاظ کے سیاق و سباق پر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو الله تعالیٰ کی بیان کردہ حکمتوں اور مخفی مصلحتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح محسن و منعمِ حقیقی نے انسان کی اصلاح کا پیراڈائم تیار کر رکھا ہے، میرے خیال میں یہاں تک پڑھنے والا قاری اس حقیقت کا ہرگز انکار نہیں کرسکتا ہے، ورنہ ایسی واضح نصوص، برہانِ قاطع اور اظہر من الشمس آیات کے باوجود انکار کرنے والا حماقت و خِرد باختگی کی حد کو بھی پار کر چکا ہے۔ اس کے باوجود معاشرت و اخلاقیات سے متعلق مزید احکامات و مسائل کے ضمن میں کو آیات وارد ہوئی ہیں، اشارتاً ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں ؛• معاشرت و اخلاقیات کے بے شمار مسائل کے متعلق تزکیہ و تطہیر کا پہلو جس قدر وضاحت سے قرآن مجید میں وارد ہوا ہے وہ انتہائی دلچسپ ہے، سورۂ نور کی آیات میں استیذان کا حکم ارشاد ہوا ہے، جو شخص بھی کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونا چاہے تو وہ اجازت طلب کرلیا کریں، اس میں بھی انسانی نفوس کی تربیت و تزکیہ پوشیدہ ہے ؛ فَإِن لَّمۡ تَجِدُوا۟ فِیهَاۤ أَحَدࣰا فَلَا تَدۡخُلُوهَا حَتَّىٰ یُؤۡذَنَ لَكُمۡۖ وَإِن قِیلَ لَكُمُ ٱرۡجِعُوا۟ فَٱرۡجِعُوا۟ۖ هُوَ أَزۡكَىٰ لَكُمۡۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعۡمَلُونَ عَلِیمࣱ [النور ٢٨]
• غضِّ بصر اور نگاہوں کی حفاظت کے ضمن میں بھی الله تعالیٰ نے اسی پہلو کا ذکر فرمایا ہے، انسان خوفِ خدا تعالیٰ ہی کی بنیاد پر اپنی نگاہوں کو پست رکھتا ہے، ورنہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو اسے تنہائی میں ان گناہوں سے روک سکیں، لیکن اسی میں نفوسِ انسانی کی تربیت چھپی ہوئی ہے، الله تعالیٰ نے فرمایا ؛ قُل لِّلۡمُؤۡمِنِینَ یَغُضُّوا۟ مِنۡ أَبۡصَـٰرِهِمۡ وَیَحۡفَظُوا۟ فُرُوجَهُمۡۚ ذَ ٰلِكَ أَزۡكَىٰ لَهُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِیرُۢ بِمَا یَصۡنَعُونَ [النور ٣٠]
• سورۂ احزاب کی آیات میں جہاں پردہ کے متعلق حکم ارشاد فرمایا ہے وہاں بھی ازواج مطہرات اور عام عورتوں کی تربیت و تزکیہ کا لحاظ کیا ہے، خفضِ صوت، تبرجِ جاھلیت سے پرہیز اور اپنے گھروں میں ٹھیرے رہنے کی حکمت کے طور پر ارشاد فرمایا ؛ وَقَرۡنَ فِی بُیُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ ٱلۡجَـٰهِلِیَّةِ ٱلۡأُولَىٰۖ وَأَقِمۡنَ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتِینَ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَطِعۡنَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥۤۚ إِنَّمَا یُرِیدُ ٱللَّهُ لِیُذۡهِبَ عَنكُمُ ٱلرِّجۡسَ أَهۡلَ ٱلۡبَیۡتِ وَیُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِیرࣰا [الأحزاب ٣٣]
• مدینہ منورہ کے مضافات میں قبا ایسی بستی تھی جہاں کے لوگ نہایت درجہ متقی و مخلص تھے، انہوں نے مسجد کی تعمیر جس بنیاد پر رکھی وہ بھی تقوی و تزکیہ ہے، ان کے اسی خلوص اور حسنِ نیت کے بدل الله تعالیٰ نے یہ مژدہ سنایا کہ وہ ظاہری وجود اور اخلاقی وجود دونوں کو خوب پاکیزہ رکھنا پسند کرتے ہیں ؛ لَا تَقُمۡ فِیهِ أَبَدࣰاۚ لَّمَسۡجِدٌ أُسِّسَ عَلَى ٱلتَّقۡوَىٰ مِنۡ أَوَّلِ یَوۡمٍ أَحَقُّ أَن تَقُومَ فِیهِۚ فِیهِ رِجَالࣱ یُحِبُّونَ أَن یَتَطَهَّرُوا۟ۚ وَٱللَّهُ یُحِبُّ ٱلۡمُطَّهِّرِینَ [التوبة ١٠٨]
• دعوت کی تقریب میں جن اخلاقی اصول کا پاس و لحاظ کرنا چاہئے، سورۂ احزاب کی آیت میں اس کی تعلیم دی گئی ہے، تقریب میں اس وقت تک نہ در آنا چاہئے جب تک کہ بلایا نہ جائیں، اور کھانا وغیرہ لوازمات سے فراغت کے بعد فوراً تقریب سے روانہ ہو جانا قرینِ اخلاق ہے، اور اس کا خاص خیال اس وقت رکھنا چاہئے جب کسی کی شخصی مصلحت پیش نظر ہو، یہ تمام احکامات صحابہ کرام کے توسط سے قیامت تک آنے والی امت کے لئے ہیں، ان میں ہر شخص کے لیے اخلاقی درس پنہاں ہے، اور اسی میں دلوں کی پاکیزگی اور طہارت مضمر ہے ؛ ذَ ٰلِكُمۡ أَطۡهَرُ لِقُلُوبِكُمۡ وَقُلُوبِهِنَّۚ وَمَا كَانَ لَكُمۡ أَن تُؤۡذُوا۟ رَسُولَ ٱللَّهِ وَلَاۤ أَن تَنكِحُوۤا۟ أَزۡوَ ٰجَهُۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦۤ أَبَدًاۚ إِنَّ ذَ ٰلِكُمۡ كَانَ عِندَ ٱللَّهِ عَظِیمًا [الأحزاب ٥٣].
• سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا کی ذات پر منافقین نے جو کیچڑ اچھالا تھا، اس کی پوری طرح قرآن مجید نے تردید فرمائی ہے، صریح بہتان اور بد ظنی سے مسلمانوں کو منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ ساری راہیں شیطان کی بچھائی ہوئی ہیں، اگر کوئی انھیں راہوں پر گامزن ہوا تو نفس کا تزکیہ و تطہیر ہونے کے بجائے اخلاقی اعتبار سے آلودہ ہوکر رہ جائے گا، اور شیطان رجیم کا غلام بن جائے گا ؛ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّبِعُوا۟ خُطُوَ ٰتِ ٱلشَّیۡطَـٰنِۚ وَمَن یَتَّبِعۡ خُطُوَ ٰتِ ٱلشَّیۡطَـٰنِ فَإِنَّهُۥ یَأۡمُرُ بِٱلۡفَحۡشَاۤءِ وَٱلۡمُنكَرِۚ وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَیۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنۡ أَحَدٍ أَبَدࣰا وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ یُزَكِّی مَن یَشَاۤءُۗ وَٱللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمࣱ [النور ٢١]
• خلاصۂ کلام یہ کہ تطہیر، تقوی، روحانی تربیت اور تزکیہ نفس شریعت ہی کے بنیادی مقاصد میں سے ہیں، شریعت کے احکام و مامورات پر عمل کرنا اور منھیات سے رکنا اتنا آسان امر نہیں ہے، بلکہ اس سے قید و بند سے آزاد پسند انسانی نفس کو دشواری پیش آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا ؛ حفت الجنة بالمكاره. وحفت النار بالشهوات.(صحيح مسلم، ٢٨٢٢)جنت ناپسندیدہ چیزوں سے گھری ہوئی ہے اور جہنم خواہشات و شہوات سے گھری ہوئی ہے، لہذا جو شخص خوفِ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچے دل سے شریعت مطہرہ کے ایک ایک حکم پر عمل کرتا ہے اور ہر ممنوع حکم سے بچ نکلتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں مزکّٰی کہلانے کا مستحق ہے۔
معاویہ محب الله 7 رمضان المبارک 1446ھ