از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى آكسفورڈ
سوال: ايكـ محترم عالم ومدرس (جو كسى وجه سے اپنا نام بتانا نہيں چاہتے) نے سوال كيا: مولانا! آپ فكر اسلامى كے مطالعه پر زور ديتے ہيں، برائے مہربانى بتائيں كه فكر اسلامى كيا ہے؟ اور اس كا مطالعه كس طرح كريں؟
جواب: يه سوال آپ كى سلامت طبع اور پختگى عقل كى دليل ہے، سارے نافع علوم كا مقصد مثبت ہوتا ہے، يعنى ايكـ طالب ان علوم كى تحصيل كرتا ہے، تاكه حق تكـ رسائى كرے، اس سے خود فائده اٹهائے اور دوسروں كو بهى فائده پہنچائے، اس كے برعكس علوم ضاره كا بنيادى مقصد منفى ہوتا ہے، انہيں دوسروں كو نقصان پہچانے كے لئے حاصل كيا جاتا ہے، جيسے جادو اور عمليات، اسى قسم ميں مناظره، جدل اور ترديد داخل ہيں۔
تعريف: فكر ايكـ عقلى عمل ہے، فكر كو عقل سے جدا نہيں كيا جا سكتا، كوئى بات اسى وقت فكر كہلائے گى جب اس كى تشريح عقلى بنيادوں پر كى گئى ہو، فكر اسلامى كا مطلب ہے عقلى اصولوں كى روشنى ميں ايمان، اسلام، عبادات، معاشرت، معاملات، تہذيب، اخلاق اور تاريخ وغيره كى تشريح كرنا، عقلى اصول جس قدر پخته ہوں گے اسى قدر فكر مستحكم ہوگى، اسلام كى ہر وه تشريح جو عقل سے مستغنى ہو وه نا پائيدار ہوگى، اور اسے ہرگز فكر نہيں كہا جا سكتا۔اسلامی فکر کا مطالعہ صرف متون یا تاریخ کو سمجھنے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع عمل ہے جس ميں خیالات، تصورات اور ثقافت کو ان کے زمانی اور اجتماعی پس منظر میں سمجھنے کی کوشش شامل ہے، تاریخی فہم، متنی تجزیے، اور معاصر مسائل کے ساتھ تعامل کے ذریعے، ایک محقق اسلامی فکر کی تجدید اور نئى دنیا میں اس کى افاديت کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اساس:اسلامى فكر كے بنيادى مقومات صرف دو ہيں: كتاب الہى اور سنت نبوى، يه دونوں مقدس ہيں، فكر اسلامى كى كوئى تشريح خواه كسى عالم وفقيه يا فلسفى ودانشور نے كى ہو، نصوص كا درجه نہيں حاصل كرسكتى، بلكه ہر تشريح كے جانچنے كا معيار يہى دو چيزيں يعنى كتاب الہى اور سنت نبوى ہيں، جس تشريح كى دليل نصوص ميں ہو وه اسلامى ہے، اور واجب القبول والاذعان، اور جس كى دليل نصوص ميں نہيں وه غير اسلامى ہے اور قابل رد وانكار۔فكر اسلامى كے فہم كا نقطۂ آغاز يه ہے كه ان دونوں متون کا كلى، تجزیاتی اور عمیق مطالعہ كيا جائے، ان كى حكمتوں، تعليلات اور مقاصد كا ادراكـ كيا جائے، زبان وادب، تہذيب وتاريخ، تفاسیر اور احادیث کی شروح کا مطالعہ ان متون کو ان کے لغوی اور شرعی اور معاشرتى سیاق میں سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔تاريخ:اسلام كى تاريخ زريں تاريخ ہے، مختلف ازمنه وامكنه ميں اسلام كى تشريح كس طرح كى گئى، اس كا جاننا فكر اسلامى كے ارتقا كو سمجهنے كے لئى لازمى عمل ہے، اسلامی فکر کو اس تاریخی پس منظر سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا جس میں یہ پیدا ہوا، پروان چڑها، اور جس ميں اس كا ارتقا ہوا۔
اسلامی فکر کے بنیادی تصورات اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارتقا پزير ہوئے، اور اس وقت کی سیاسی اور سماجی حالتوں سے متاثر ہوئے، اسلامی تاریخ کا مطالعہ، عہد نبوی، خلافت راشدہ، اموى، عباسی دور اور اس کے بعد کی تاریخ کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے کہ کس طرح بدلتے حالات نے اسلامی افکار کى تشکیل كى۔
اسلامی فکر میں مختلف مکاتب فکر پیدا ہوئے، جیسے معتزلہ، اشاعرہ، ماتريديه اور صوفیہ وغيره، ہر مکتب فکر توحید، رسالت، تقدیر، عبادات، معاملات اور اخلاقی اصولوں جیسے موضوعات پر منفرد نقطہ نظر پیش کرتا ہے، ان مکاتب کا مطالعہ اسلامی فکر کے اندر تنوع اور مختلف چیلنجز کے ساتھ اس کے تعامل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
اسلامی فلسفہ اسلامی فکر کا اہم حصہ ہے، مسلمان فلسفیوں جیسے فارابى، ابن سینا، اور ابن رشد کے کام اسلامی فکری ورثے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسلامی فلسفے کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح اسلامی فکر نے یونانی فلسفہ جیسے دیگر فلسفوں کو اپنے اندر جذب کیا، كن چيزوں كو قبول كيا اور كن چيزوں كو رد كيا۔
تطهير:فكر اسلامى كى تشريح منزل من الله نہيں، بلكه يه انسانوں كى كاوشوں كا نتيجه ہے، اس لئے اس ميں حالات وماحول كى اثر اندازى نا گزير ہے، فكر اسلامى كے ماہرين كى ذمه دارى ہے كه ہميشه تطہير وتنقيه كا عمل جارى ركهيں، ورنه لوگوں كے كلچرز يعنى اعراف، رسوم وعادات بهى اسلام كا حصه بن جائيں گے۔تطہير كے عمل ميں كوتاہى كا نتيجه وه اسلام ہے جس ميں طرح طرح كى ملاوٹيں كردى گئى ہيں، فقه اور كلام كے مفيد پہلوؤں سے انكار نہيں، تاہم يه بهى حقيقت ہے كه ان دونوں ميں بہت سى منفى چيزيں داخل ہوگئى ہيں جو دين كے اصول سے متعارض ہيں۔
فقه، كلام اور تصوف كے ارتقاء كا ايكـ دردناكـ پہلو يه ہے كه تينوں مسلكوں اور مشربوں ميں منقسم ہوگئے، نتيجتاً تينوں پر دوسروں كى ترديد كا رنگ غالب آگيا، ترديد كا رجحان جب غالب ہو جائے تو فكر منفى ہو جاتى ہے، يه كہنا مبالغه نہيں ہوگا كه فقه وكلام كے بہت سے ابواب وفصول منفى ذہنيت كى عكاسى كرتے ہيں، ان كے ماہرين كا مقصد حق تكـ رسائى نہيں ہوتا، بلكه اپنے اپنے مسلكـ كے فتح وغلبه كا اعلان ہوتا ہے، جو لوگ ان ميدانوں ميں لگ جاتے ہيں وه كوئى مفيد كام نہيں كرسكتے، تصوف كا سب سے زياده نقصان ده پہلو يه رہا ہے كه اس كے ذريعه غير اسلامى تصورات كو اسلام كا جامه پہنانے كى كوشش كى گئى، اس كى واضح ترين مثال احوال، مقامات اور وحدت الوجود اور وحدت الشهود وغيره كے لا طائل، بلكه باطل مباحث ہيں۔
معاصر فكر اسلامى:معاصر اسلامی فکر کو سمجھنے کے لئے جامع طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے جو اس کی تاریخی، مذہبی، سماجی اور بين الاقوامى تناظرات کو مد نظر رکھے، عدل، مساوات، عورتوں كا مقام اور انسانی حقوق جیسے مسائل کے ساتھ اسلامی فکر کے تعلق کا مطالعہ ان خیالات کو حقیقی زندگی میں نافذ کرنے کے طریقے كو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
آج کا اسلامی فکر مختلف چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، جیسے عالمگیریت، جدیدیت، اور مذاہب کے درمیان تعلقات۔ اس لئے مطالعہ میں یہ شامل ہونا چاہئے کہ اسلامی فکر ان چیلنجز کا کیسے جواب دیتا ہے۔ جامع مطالعہ کے لئے مختلف علوم، جیسے دینی علوم، تاریخ، سماجیات، اور فلسفہ کا امتزاج کرنے والے طریقے اپنانے چاہئیں، یہ طریقے اسلامی فکر کی ایک مکمل اور جامع تصویر پیش کرنے میں مدد کرتے ہیں۔معاصر فكر اسلامى كے مراجع: ہمارے استاد مولانا سيد محمد واضح رشيد ندوى رحمة الله عليه شايد اس عہد كى آخرى شخصيت تهے جو معاصر فكر اسلامى كے تنوع كو سمجهتے تهے، مختلف مناهج كے درميان منصفانه موازنه كرتے تهے، اور بغير كسى تعصب كے ہر ايكـ كى خصوصيات بيان كرتے اور اس پر ناقدانه نگاه ڈالتے، ہندوستان اور عالم عرب كے مفكرين اور ان كى تخليقات پر ان كى گہرى نظر تهى، فكر اسلامى ہم نے انہيں سے پڑهى، پهر اس ميں وسعت پيدا كى، مگر استاد محترم كى تربيت كا نتيجه تها كه اجنبى افكار سے حفاظت رہى۔ معاصر فكر اسلامى كے مطالعه كے لئے درج ذيل كتابيں معاون ہوں گى:تمہيدى مطالعه: ابن خلدون كا مقدمه، ابن تيميه كى الرد على المنطقيين، ڈريپر كى مذہب وسائنس كى كشمكش، اور يورپ كے فلسفه اور اخلاقيات كى بنيادى كتابيں۔فكر اسلامى كا تعارف: محمد المباركـ كى الفكر الإسلامى، اور مالكـ بن نبى كى كتابيں۔توسع وتعمق: محمد اسد كى (Islam on the Crossroad)، سيد قطب، محمد قطب، محمد الغزالى اور مريم جميله وغيره كى تصنيفات۔سيد ابو الاعلى مودودى كى تنقيحات، خطبات، رسائل ومسائل، سود، تجديد واحيائے دين، تفهيم القرآن، ابو الحسن على ندوى كى تاريخ دعوت وعزيمت، انسانى دنيا پر مسلمانوں كے عروج زوال كا اثر، اسلاميت اور مغربيت كى كشمكش، عصر حاضر ميں دين كى تفہيم وتشريح، مولانا امين احسن اصلاحى كى دعوت اسلامى اور اس كا طريقۂ كار، تدبر قرآن، مولانا وحيد الدين خان كى اسلام اور عصر جديد كا چيلنج، تعبير كى غلطى، اور مولانا محمد واضح رشيد كى مختلف كتابيں۔