مولانا مفتی محمد اعظم ندوی
خداوندِ قدوس کی حکمتِ بالغہ نے انسانی زندگی میں کچھ ایسے روحانی موسم رکھ دیے ہیں جن میں اطاعت و بندگی کے دروازے اور زیادہ کشادہ ہو جاتے ہیں اور جن میں عبادتوں کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے، ان ہی مقدس دنوں میں انتہائی برگزیدہ، بہت بابرکت اور عظیم ایام عشرۂ ذی الحجہ کے ہیں، جن کی عظمت کا اظہار خود رب کائنات نے اپنی کتاب میں فرمایا: “والفجر، ولیال عشر” (الفجر: ۱-۲)، یہ وہ دن ہیں جن میں عبادتوں کی تمام اصناف جمع ہو جاتی ہیں: نماز، روزہ، صدقہ، حج، ذکرودعا، تلاوت، قربانی،اور مبارک ایام بھی جیسے یوم النحر یعنی دس ذی الحجہ،یوم عرفہ یعنی نو ذی الحجہ اور یوم الترویہ یعنی آٹھ ذی الحجہ ، حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں: ’’والذي يظهر أن السبب في امتياز عشر ذي الحجة لمكان اجتماع أمهات العبادة فيه وهي الصلاة والصيام والصدقة والحج، ولا يتأتى ذلك في غيره‘‘(ذی الحجہ کے دس دنوں کے امتیازات کے سلسلہ میں بہ ظاہر مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہان دس دنوں کی خصوصیت اس لیے ہے کہ ان میں اہم عبادات کی تمام اقسام جمع ہو جاتی ہیں، جیسے نماز وروزہ، اور صدقہ وحج،یہ شان کسی اور موقع کو حاصل نہیں)۔ (فتح الباری: ج2، ص460)
یہ وہ دن ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اللہ کو ان دنوں میں کیے جانے والے اعمال جتنے محبوب ہیں، باقی دنوں میں اتنے محبوب نہیں—حتی کہ جہاد بھی نہیں، سوائے اس کے کہ کوئی جان ومال لے کر نکلا اوراس نے اپنا سب کچھ اللہ کے لیے قربان کر دیا” (صحیح بخاری : ابواب العیدین، باب فضل العمل في أيام التشريق، حدیث نمبر:969)، سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ان دنوں میں کثرت سے تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو” یعنی لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کا ورد کرتے رہا کرو‘‘(العجم الکبیرللطبراني، مجاہد عن ابن عباس، حدیث نمبر:11116)، حضرت سعید بن جبیرؒ، جو ابن عباسؓ کے شاگردِ رشید تھے، ان کا حال یہ تھا کہ’’ وكان سعيد بن جبير إذا دخل أيام العشر اجتهد اجتهادا شديدا، حتى ما يكاد يقدر عليه‘‘ (مسند الدارمي: ومن كتاب الصيام، باب في فضل العمل في العشر،حدیث نمبر: 1798) (جب یہ عشرہ آتا تو اپنی عبادت میں اتنا انہماک پیدا کرتے کہ ان کے لیے اس کی تاب لانا دشوار ہو جاتا، ان کا ہی یہ قول بھی منقول ہے:’’لا تطفئوا سرجكم ليالي العشر‘‘ (لطائف المعارف لابن رجب، ص263)، (عشرہ کی راتوں میں چراغ مت بجھاؤ)، گویا کہ ہر لمحہ عبادت سے معمور اور خصوصاً تہجد سے روشن ہو، لیکن اصل فضیلت ان راتوں سے زیادہ دنوں کی ہے،شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ دنوں کے اعتبار سے عشرۂ ذی الحجہ رمضان کے آخری عشرہ سے افضل ہے، البتہ راتوں کے اعتبار سے رمضان کا آخری عشرہ افضل ہے، (مجموع الفتاوی الکبری لابن تیمیہ: ج2،ص477)،اور یہی تو حکمت ہے… کہ اللہ نے عبادت کے عاشقوں کو ہر سمت سے مواقع دیے ہیں: کسی کے لیے دن، کسی کے لیے رات، کسی کے لیے عرفہ کا روزہ، کسی کے لیے تہجد کی خلوتیں۔
عرفہ کا دن، جو ان دس دنوں کا نواں دن ہے، اپنے اندر عرفان، خشیت، مغفرت اور رب کریم کے قرب کی وہ سرشاری رکھتا ہے کہ کوئی دوسرا دن اس کے مثل نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ ایک سال پچھلے اور ایک سال اگلے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا” (صیح مسلم:كتاب الصيام، باب استحباب صيام ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس، حدیث نمبر: 1162)، عشرۂ ذی الحجہ فقط حاجیوں کا نصیب نہیں،جو لوگ حج پر نہیں جا سکتے، ان کے لیے بھی میدانِ بندگی وسیع ہے، ان کے لیے نمازیں ہیں، تلاوت ہے، صدقہ ہے، والدین کی خدمت ہے، مساکین کی اعانت ہے، صلہ رحمی ہے، قیام اللیل ہے، ذکر و اذکار ہیں، اور سب سے بڑھ کر دل کا تقویٰ ہے جو قربانی میں مطلوب ہے: ’’لن ینال اللہ لحومھا ولا دماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم‘‘ (الحج: 37)۔قربانی ایک رسم نہیں، بلکہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت اور حضرت اسماعیلؑ کی تسلیم و رضا کی یاد گارہے، یہی وہ مقام ہے جہاں ہم اپنے “نفس” کو ذبح کرتے ہیں، اپنی انا کو قربان کرتے ہیں، اور بندگی کی خلعت پہنتے ہیں،اور مقصود خود کو اس کا عادی بنانا ہے،دو چار روز کا تقوی نہیں۔
اس عشرہ میں مستحب یہ بھی ہے کہ جس شخص کو قربانی کرنی ہو، وہ ذی الحجہ کا چاند نظر آتے ہی اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے، جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں آیا: ’’جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھو اور کسی کا ارادہ ہو کہ قربانی کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے‘‘ (مسلم:كتاب الأضاحي، باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة…حدیث نمبر: 1977)،تکبیرات تشریق بھی ان دنوں کی ایک خاص سنت ہے، جو 9 ذی الحجہ کی فجر سے لے کر 13 کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز میں کہی جاتی ہے: ’’اللّٰہُ أَكْبَرُ، اللّٰہُ أَكْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ، وَاللّٰہُ أَكْبَرُ، اللّٰہُ أَكْبَرُ، وَلِلّٰہِ الْحَمْد‘‘۔
یہ عشرہ صرف عبادات کا مجموعہ نہیں، بلکہ تقویٰ کا آئینہ ہے، دل کی صفائی کا موقع ہے، اور عملی انقلاب کا آغاز ہوسکتاہے، ان دنوں میں غیبت، جھوٹ، نظر کی خیانت، زبان کی آفت، دل کی کجی اور نیت کی ملاوٹ سے بچنا عین عبادت ہے؛بندے کو چاہیے کہ ان دنوں میں ہر لمحہ کو قیمتی جانے، سحر خیزی کو شعار بنائے، والدین کے قدموں کو جنت سمجھے، رشتہ داروں کی دلجوئی کرے، گناہوں سے توبہ کرے، مسجد کو اپنا مسکن بنائے، اور ہر لمحہ اللہ کی رضا کی جستجو میں لگا رہے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: “ذٰلِکَ وَمَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَإِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ” (الحج: 32)۔(جو شخص اللہ کی نسبت رکھنے والی یادگاروں کا ادب کرتا ہے تو یہ اس وجہ سے ہے کہ دلوں میں اللہ کا ڈر ہے)۔
یاد رکھیں! عشرۂ ذی الحجہ وقت کے صحیفہ میں ان سطروں کا نام ہے جن پر مغفرت، قربت، اور ابدی فوز و فلاح کے عنوان ثبت ہیں،یہ دن اگر غفلت میں گزر گئے، تو شاید پھر ایسے لمحے نہ آئیں، آئیے، ان ایّام کو معرفت کی سیڑھی، قربانی کی منزل، اور بندگی کے راستے کا چراغ بنائیں۔
اے وہ ذات جس نے ان دنوں کو بخشش کا موسم بنایا! ہمیں ان میں خود کو تلاش کرنے، گناہوں پر رونے، عبادات سے جڑنے، اور اپنی رضا میں گم ہو جانے کی توفیق عطا فرما!