احمد نور عینی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد

مبارک ہو کہ آج عید کا دن ہے، عید کا دن کسی بھی قوم کے لیے اجتماعی مسرت وشادمانی کے اظہار کا دن یہ ہوتا ہے، یہ محبت باٹنے اور نفرت کے گڑھے پاٹنے کا دن ہوتا ہے، یہ اپنا ذاتی غم مٹا کر اور دل کی دنیا سے رنج والم کے بادل ہٹا کر قوم کے ساتھ اجتماعی خوشی میں شریک ہونے کا دن ہوتا ہے،یہ دن دوستوں، رشتہ داروں اور شناساؤں میں سے جس سے بھی تعلقات خراب ہوگئے ہوں اس کے ساتھ مل کر دل کو صاف کرنے اور ایک دوسرے کو معاف کرنے اور دوبارہ محبت کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کا ایک بہانہ ہوتا ہے، ہر قوم اور ہر مذہب میں کچھ مخصوص عیدیں ہوتی ہیں، اسلام نے ہمیں دو عیدیں دی ہیں: ایک عید الفطر جو آج ہے اور دوسری عید الاضحی جو ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو منائی جاتی ہے، حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ آئے تو دیکھا کہ اہل مدینہ دو دن کھیل کود کے ساتھ مناتے ہیں، آپ ﷺ نے پوچھا کہ یہ دو دن کیا ہیں؟ تو اہل مدینہ نے جواب دیا کہ ہم (اسلام قبول کرنے سے پہلے)جاہلیت کے زمانہ میں اسی طرح یہ دو دن کھیل کود کر مناتے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان دو دنوں کے بدلے تمھیں ان سے بہتر دو ون عطا کیے ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحی۔ (نسائی: 1556)
مبارک ہو کہ آج مبارکبادی دینے اور لینے کا دن ہے، اور مبارک بادی کیوں نہ دی جائے کہ مبارک بادی نیک تمناؤں کا اظہاربھی ہے اور محبت والفت کا اقرار بھی، ایک دوسرے کی بھلائی کی دعا بھی ہےاور رسم وفا بھی، صحابہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ عید کے دن جب ایک دوسرے سے ملتے تو ایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہوئے یہ دعائیہ جملہ کہتے : تقبَّل الله منا ومنك (اللہ ہمارے اور تمہارے اعمال قبول کرے) (دیکھیے: فتح الباری: 2/446)، صفوان بن عمرو کہتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن بسر، عبد الرحمان بن عائذ، جبیر بن نفیر اور خالد بن معدان کو سنا کہ وہ عید کے دن دوسروں کو یہ دعا دیتے تھے: تقبَّل الله منا ومنك (اللہ ہمارے اور تمہارے اعمال قبول کرے)، لہذا عید کی مبارکبادی دینا جائز اور مستحب ہے، عید کے دن تقبَّل الله منا ومنك کے بجائے یا اس کے ساتھ ’’عید مبارک‘‘ جیسے الفاظ بھی کہے جاسکتے ہیں، جیسا کہ ہمارے یہاں اس کا رواج ہے، علامہ شامی نے مشہور فقیہ ابن امیر حاج کے حوالہ سے کہا ہے کہ شام میں عید مبارک اور اس جیسے الفاظ کہنے کا جو رواج ہے وہ بھی جائز اور مستحب ہے۔ (دیکھیے: شامی: 2/183)
مبارک ہو کہ آج انعام کا دن ہے، آج رب کریم کی طرف سے انعام تقسیم ہوتا ہے، ان بندوں کو انعام ملتا ہے جنہوں نے رمضان کا مہینہ، روزوں، نمازوں، تلاوتوں اور دیگر عبادتوں میں گذارا، نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عید الفطر کا دن آتا ہے تو فرشتے سر راہ کھڑے ہوکر آواز لگاتے ہیں: مسلمانو! چلو اپنے رب کریم کی طرف جو خیر کی توفیق دیتا ہے پھر بہت زیادہ ثواب عطا کرتا ہے، تمھیں قیام اللیل کا حکم دیا گیا تم نے اس پر عمل کیا، تمھیں روزے کا حکم دیا گیا تم نے اس پر عمل کیا اور رب کی اطاعت کی، لہذا اپنا انعام لے لو۔ جب لوگ عید کی نماز ادا کرلیتے ہیں تو آواز لگانے والا فرشتہ آواز لگاتا ہے: سنو، تمہارے رب نے تمھیں بخش دیا، اپنے گھروں کی طرف ہدایت کے ساتھ لوٹ جاؤ، یہ انعام کا دن ہے (طبرانی)۔ نبی کریم ﷺ نے اسے انعام کا دن قرار دیا، مگر یہ انعام کس کے لیے ہے؟ یہ انعام اس کے لیے ہےجس نے رمضان کے تربیتی کورس میں حصہ لیا اور اس سے استفادہ کیا، رمضان کا مہینہ در اصل تربیتی کورس ہے، یہ تقوی پیدا کرنے، خدا سے لو لگانے، حیوانی تقاضوں پر ملکوتی تقاضوں کو غالب کرنے،روحانیت کو پروان چڑھانے، قرآن سے رشتہ مضبوط کرنے ، ناداروں ومحتاجوں سے ہمدردی کرنے اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول رکھنے کی تربیت دیتا ہے، یہ اس بات کی تربیت دیتا ہے کہ جس رب کے حکم پر تم نے حلال کھانا پینا چھوڑا رمضان کے بعد اسی رب کے حکم پر حرام سے بچو، اس کورس کے اختتام پر آج کا دن بہ طور انعام کے رکھا گیا ہے، جیسا کہ دینی وعصری اداروں میں تعلیم کا ایک مرحلہ مکمل کرنے والوں کے لیے جلسۂ تقسیم اسناد یا کانوکیشن رکھا جاتا ہے، اب اگر کوئی جلسۂ تقسیم اسناد یا کانوکیشن میں اپنی سند یا ڈگری لے لے مگر عملی دنیا میں وہ اپنے کورس کے برعکس کام کرے تو لوگوں کی نظر میں اس کے اس کورس کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی اور اس کورس سے دوسروں کا فائدہ تو در کنار خود اس کی ذات کا بھی فائدہ نہیں ہوگا، مثلا کوئی شخص ایم بی بی ایس کا کورس کرے اور عملی زندگی میں وہ اپنے کورس کے برخلاف عمل کرے، مریضوں کو جان بچانے والی دوائیں دینے کے بجائے جان لینے والی دوائیں دینے لگے، آپریشن کے ذریعہ انسانی عضو کو صحیح کرنے کے بجائے اس عضو کو بے کار اور معطل کرنے لگے تو ایسے ڈاکٹر کی جگہ جیل ہوگی نہ کہ ہسپتال، رمضان کے تربیتی کورس کو بھی اسی مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ رمضان میں ہمیں جن باتوں کی تربیت دی گئی، رمضان گذرنے کے بعد اگر ہماری عملی زندگی اس کے برعکس رہی تو ہمارا کیا انجام ہوگا؟
مبارک ہو کہ آج اللہ کی طرف سے میزبانی کا دن ہے، آج ہم اپنے خالق کے مہمان ہیں، رمضان کا پورا مہینہ ہم نے خالق کے حکم پر اور اس کی رضا کے لیے صبح سے شام تک کچھ کھائے پیے بغیر گذارا، آج اللہ کا حکم ہے کہ ہم روزہ نہ رکھیں، آج کھائیں اور پئیں، آج کے دن روزہ رکھنے کا مطلب اللہ کی میزبانی قبول نہ کرنا ہے، اس لیے آج کے دن روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، حضرت ابو سعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عید الفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔ آج کی میزبانی کوئی اور نہیں بل کہ اللہ تعالے فرمارہے رہیں اس لیے صبح سویرے ہی کچھ نہ کچھ کھا کر اللہ کا مہمان بننے کی سعادت حاصل کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، اور اپنے عمل سے اس بات کا اقرار کرنا چاہیے کہ اے اللہ آپ نےرمضان میں کھانے سے منع کیا تو ہم رکے رہے اور آج آپ نے نہ کھانے سے منع کیا تو ہم نے صبح سویرے ہی کچھ نہ کچھ کھا لیا اور آپ کے حکم پر عمل کرنے میں تاخیر کرنا گوارا نہ کیا۔اسی حکمت ومصلحت کے پیش نظر ہمارے نبی ﷺ بھی عید گاہ جانے سے پہلے طاق عدد کھجوریں تناول فرماتے تھے (بخاری: 953) حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ عید گاہ جانے سے پہلے کچھ نہ کچھ کھا لیا جائے (ترمذی: 530)
مبارک ہو کہ آج جشن کا دن ہے، مگر جشن کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اللہ کو بھول جائیں، نہیں بل کہ آج ہم اللہ کی بڑائی اور اس کی شکر گذاری عام دنوں سے زیادہ کریں، یہی قرآن کا حکم ہے اور یہی نبی کی سنت ہے، قرآن میں جہاں روزوں کا ذکر ہے وہاں روزے پورےہونے پر اللہ کی بڑائی بیان کرنے اور اس کا شکر ادا کرنے کا حکم آیا ہے (دیکھیے: بقرہ: 185)، اسی وجہ سے اس دن عیدگاہ پہنچنے اور عید کی نماز شروع ہونے تک تکبیر پڑھتے رہنا مسنون ہے، نبی کریم ﷺ کا یہ معمول احادیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ عیدگاہ جاتے ہوئے بہ آواز بلند تکبیر پڑھتے تھے(بیہقی)۔ اللہ کی بڑائی کے لیے تکبیر پڑھنے کی ہدایت ہے، اللہ کی بڑائی اور شکر گذاری کے لیے ہی دوگانۂ عید ادا کرنے کا حکم ہے، اللہ کی بڑائی اور اپنے تواضع کے اظہار کے لیے ہی عیدگاہ پیدل جانا بہتر ہے، کیوں کہ پیدل جانے میں اللہ کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار زیادہ ہوتا ہے، اسی لیے نبی کریم ﷺ کا یہ معمول تھا کہ آپ عیدگاہ پیدل جاتے تھے، حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ عید کے لیے پیدل جایا جائے (ترمذی: 530)۔ واضح رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جب کہ عیدگاہ یا نماز گاہ کا فاصلہ اتنا ہو کہ آدمی پیدل جاسکے ، اگر فاصلہ زیادہ ہو یا کوئی عذر ہو تو پھر سواری پر بھی جاسکتا ہے۔اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ آج کے دن کھیل کود اور نغمہ وسرود کی اجازت نہیں ہے، بل کہ شریعت کی حدود میں رہ کراور اللہ کے احکام کے پابندرہ کر کھیل کود کرنے ، نغمہ وسرود کی محفل سجانےاور تفریح طبع کا سامان کرنے کی اجازت ہے، آپ ﷺ نے نہ صرف اس کی اجازت دی ہے بل کہ حوصلہ افزائی بھی فرمائی ہے؛ مگر شرط یہی ہے کہ اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولیں۔
مبارک ہو کہ آج خوشی کا دن ہے،خوشی کے اظہار کے لیے ہم اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا اہتمام کرتے ہیں، ہمارے نبی ﷺ بھی اس دن اپنے کپڑوں میں سب سے اچھا کپڑا زیب تن فرماتے تھے(دیکھیے: زاد المعاد: 1/441)، اس لیے خوشی کےموقع پر اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا اہتمام کرنا اچھی بات ہے؛ مگر خوشی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم صرف اپنی اور اپنے گھر والوں کی خوشی کا سامان کریں اور سماج کے ناداروں ومحتاجوں کو بھول جائیں، ہم اپنی خوشی میں ایسے مگن ہوجائیں کہ ہمیں اپنے تنگ دست وبدحال پڑوسیوں، رشتہ داروں اور شناساؤں کا خیال نہ رہے،سماج کے پچھڑوں، کمزوروں، ناداروں اور غریبوں کو چھوڑ کر خوشی منانا غیر انسانی اور اور غیر اخلاقی خوشی ہے ؛ بل کہ خوشی کا قتل ہے جس کی اسلام میں بالکل بھی اجازت نہیں ہے، یہاں برہمنی دھرم کی طرح، ایک بڑی تعداد کو جنگلی، اس سے بڑی تعداد کو اچھوت اور اس سے بھی بڑی تعداد کو شودر بناکر انھیں سماجی طور پر کمزور سے کمزور تر بنانا اور ان کو خوشی کے مواقع فراہم کرنے کے بجائے ان کی خوشی کا قتل کرنا کسی طرح روا نہیں ہے، اسلام کی نظر میں سارے انسان برابر ہیں، اس لیے وہ خوشی کے موقع پر سارے انسانوں کو خوشی منانے میں برابر کا شریک دیکھنا چاہتا ہے، برہمنی دھرم کے سوتروں اور اسمرتیوں میں اس بات کی صراحت بل کہ تاکید ہے کہ دان لینے کا حق صرف برہمن کو ہے، برہمن کے سوا کوئی اور دان لے لے یا دان دینے والا برہمن کے سوا کسی اور کو دان دے دے تو دینے والے اور لینے والے دونوں کا دھرم بھرشٹ ہوجائے گا، چاہے دان لینے والا کتنا ہی پچھڑا اور بد حال کیوں نہ ہو۔ برہمنی دھرم کے برعکس اسلام میں صدقہ لینے کا حق صرف پچھڑوں اور سماجی طور پر کمزوروں اور محتاجوں کو ہے، اور اس لیے اس کمزور اور نادار طبقے کواسلام میں ہر جگہ یاد رکھا گیا ہے، عید جیسے خوشی کے موقع پر بھی خوش حال لوگوں کو یہ حکم ہے کہ وہ ناداروں اور غریبوں کو خوشی میں شامل کرنے کے لیے صدقہ فطر کے ذریعہ ان کی مدد کریں۔اور یہ مدد مالداراوں کی طرف سے کوئی احسان نہیں ہے؛ بل کہ ان کے مال میں غریبوں اور ناداروں کا یہ متعین حق ہے، نیز اس سے صرف غریبوں کا فائدہ نہیں ہے؛ بل کہ مالداروں کا بھی فائدہ ہے کہ اس کے روزے میں جو نقص رہ گیا ہے اس کی تلافی اس صدقے سے ہوجائے گی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ صدقۂ فطر روزہ دار کے بےکار وبیہودہ باتوں سے پاکی وصفائی حاصل کرنے کا ذریعہ بنتا ہے اور محتاجوں کے لیے کھانے کا سامان فراہم کرنے کا سبب بنتا ہے (ابوداود: 1609)۔ آپ ﷺ کو عید کے روز صدقے کو بڑی اہمیت دیتے تھے؛ چناں چہ حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے عید کی نماز کے بعد خطاب کیا جس میں لوگوں سے کہا: أيُّها النَّاسُ تصدَّقوا (اے لوگو! صدقہ کرو) پھر عورتوں کے پاس گئے اور ان لوگوں سے کہا: يا معشرَ النِّساءِ تصدَّقْنَ (اے عورتو! صدقہ کرو) (ابن حبان: 5744)۔