محمد قمر الزماں ندوی۔
مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ
9506600725
ماضی میں مدارس کا کردار یقیناً انتہائی شان دار، روشن اور تابناک، ایثار و قربانی، ورع و تقویٰ اور زہد و قناعت کے تمام عناصر سے پر ہے۔ارباب مدارسِ اسلامیہ رخصت نہیں عزیمت اور فتویٰ نہیں تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تھے۔ معاملات اور حساب و کتاب کی شفافیت اور مدارس کی چیزوں کے استعمال سے اجتناب، ان کا نمایاں وصف ہوتا تھا۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا منیر احمد نانوتوی رح سابق مہتمم دار العلوم دیوبند کا واقعہ ہم مدارس سے تعلق رکھنے والوں کے ایک مثال ،آیڈیل اور نمونہ ہے۔
ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد منیر صاحب رح مہتمم دار العلوم دیوبند ڈھائی سو روپے لے کر مدرسہ کی روئداد وغیرہ طبع کرانے دہلی تشریف لے گئے، اتفاق سے روپے چوری ہوگئے،آپ نے اس چوری کی کسی کو اطلاع نہیں کی اور اپنے وطن واپس آکر زمین فروخت کی اور ڈھائی سو روپے لے کر دہلی پہنچے اور کیفیت مدرسہ چھپوا کر لے آئے ،کچھ دنوں کے بعد اس کی اطلاع اہل مدرسہ کو ہو گئی، انہوں نے مولانا رشید احمد گنگوہی رح کو واقعہ لکھ کر حکم شرعی دریافت کیا، وہاں سے جواب آیا کہ مولوی صاحب امین تھے اور روپیہ بلا تعدی کے ضائع ہوا ہے، اس لیے ان پر ضمان نہیں ہے۔
اہل مدرسہ نے مولانا منیر صاحب سے درخواست کی کہ آپ روپیہ لے لیجئے اور مولانا گنگوہی کا فتویٰ دکھایا۔ مولانا محمد منیر صاحب نے فتویٰ دیکھ کر فرمایا کہ :میاں رشید احمد نے فقہ میرے لئے ہی پڑھا تھا اور کیا یہ مسائل میرے لیے ہی ہیں۔ ذرا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر تو دیکھیں، اگر ان کو ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا وہ بھی روپیہ لے لیتے؟ لے جاؤ اس فتویٰ کو، میں ہرگز دو پیسے بھی نہ لوں گا۔( نقوش علمائے دیوبند ص٢٩) مولانا محمد علی لاھوری رح کے بارے میں مولانا علی میاں ندوی رح نے لکھا ہے کہ میں ان کے گھر میں مہمان تھا، شام کے کھانے میں صرف روٹی اور ماش کی دال تھی میرے خاطر دو پیسہ کا دہی منگوا لیا تھا۔ (جب کہ مولانا کے مدرسہ میں بچوں کے لیے ہر وقت عمدہ اور اعلی کھانا ہوتا تھا۔ لیکن مولانا کے گھر والے اور بچے ہمیشہ سادہ کھانے ہی پر اکتفا کرتے تھے) اور فرمایا کہ اس وقت جیب اس کے علاوہ کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ ماضی میں مدارس کے ذمہ داروں میں استغنا ،خوداری اور زہد و توکل کا وصف اور جوہر کمال درجہ میں ہوتا تھا، وہ بادشاہوں اور ارباب اقتدار اور اصحاب ثروت سے کبھی مرعوب و متاثر نہیں ہوتے، اور جہاں مناسب سمجھتے ان کی امداد اور عطیہ کو لینے سے صاف انکار کردیتے تھے یا حکمت سے ٹال دیتے تھے۔ والی افغانستان سلطان حبیب اللہ خاں نے ایک مرتبہ اپنے سفیر کے ذریعہ پانچ ہزار روپے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں بھیجے( پانچ ہزار کی حیثیت آج سے ایک صدی قبل کتنی تھی ؟ ذرا اندازہ لگائیے) اور ساتھ ہی یہ پیغام دیا کہ یہ مقدار ہرسال خدمت میں پہنچتی رہے گی اور معاوضہ صرف دعا ہے۔ مگر حضرت نے قبول نہیں فرمایا اور نہ صرف اس وقت کے پانچ ہزار روپے بلکہ ہر سال کی ایک مستقل آمدنی کو پائے استغنا سے ٹھکرا دیا۔ سفیر نے عرض کیا کہ حضرت! کم از کم میری حاضری کا تو لکھ دیں، والی کو شبہ ہوگا کہ میں آپ کے پاس پہنچا ہی نہیں۔ اور ویسے ہی بات بنا دی۔ اس پر مولانا گنگوہی رح نے فارسی زبان میں ایک خط سلطان حبیب اللہ خاں کے نام لکھوایا، جس کا مضمون یہ تھا ۔
بحیثیت اسلام مجھے آپ سے تعلق ہے اور میرا دل ہمیشہ آپ کو دعا دیتا ہے۔ خصوصاً موجودہ حالات میں محبت اسلام اور قدر و منزلت علم کی خبریں سن کر بہت خوش ہوتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔ آپ کی نذر پہنچی، مگر چونکہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ اور حق تعالیٰ نے مجھے بہتیرا کچھ دے رکھا ہے ،جمع کرکے کیا کروں گا ؟۔ اس لیے واپس کرتا ہوں کسی دوسرے مصرف میں خرچ کردیا جائے اور مجھے بہر حال دعا گو سمجھئیے۔ ( تذکرہ رشید)
آج بعض مدارس والے سرکاری ایڈ اور گرانٹ حاصل کرنے کے لیے نہ جانے کیا کیا حربے اختیار کرتے ہیں اور حکومت کی نظر میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور گرانٹ قبول کرنے کے نتیجے میں سرکار کے کن کن خلاف شرع حکموں کا ان کو پالن کرنا پڑتا ہے، یہ بات باکل عیاں اور بیاں ہے۔ لیکن ماضی میں مدارس کے ذمہ داران اور ارباب اہتمام نے ان کے پیشکش کو ہمیشہ ٹکھرا دیا اور اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
آزادی کے بعد جب وزارت قائم ہوئی اور مولانا ابو الکلام آزاد رح وزیر تعلیم و ثقافت بنے تو انہوں نے ایک موقع پر ندوہ کے ذمہ داروں کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ گورنمنٹ آف انڈیا ہندوستان میں ایک نمونہ کی عربی درسگاہ قائم کرنا چاہتی ہے، جو جدید اصولوں اور عصری تقاضوں کے مطابق ہو اگر ندوہ اس پیشکش کو قبول کرلے تو یہ سب سے بہتر ہوگا، حکومت عمارتوں کی تکمیل کرادے گی۔ یہ تجویز آئی تو ذمہ داران ندوہ بڑی کشمکش میں پڑ گئے۔ موت و حیات کا مسئلہ تھا، دوسری طرف مولانا آزاد کی تجویز کو یکسر رد کر دینا بھی مشکل تھا کیونکہ وہ خاندان کے بزرگ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ندوہ اور فکر ندوہ کے زبردست حامی و موئد تھے اور مستقل رکن انتظامی تھے۔ اس کے لیے ارباب ندوہ کی نظر مولانا مسعود علی ندوی پر پڑی جو مولانا سے بے تکلف تھے، وہ دہلی گئے مولانا ازاد نے پوچھا مولانائے مسعود کیسے آئے۔(وہ ان سے بے تکلفی میں اسی طرح مخاطب ہوتے تھے)مولانا مسعود نے کہا کہ کچھ بزرگوں کے لوح مزار کی عبارت کے بارے میں غور و خوض ہورہا ہے، مولانا محمد علی مونگیری رح کے لوح مزار پر بانی ندوة العلماء لکھنا تجویز ہوا ہے، اسی طرح مولانا شبلی کے لوح مزار کی کوئی عبارت بتائی جس سے ان کی ندوہ کی تحریک کو ترقی دینے کا اظہار ہوتا تھا، کہنے لگے کہ اندیشہ ہے کہ ہمارے اور آپ کے مزار پر قاتل ندوة العلماء لکھا جائے گا،مولانا آزاد نے بڑے استعجاب سے پوچھا کہ کیوں معاملہ کیا ہے ؟ مولانا مسعود علی ندوی نے کہا آپ نے جو تجویز پیش کی ہے، اس کا مآل تو یہی ہے کہ ندوة العلماء ختم ہوجائے اور ہم آپ اس کے قاتل ٹھریں، آج تو آپ منصب وزارت پر ہیں اور آپ کی موجودگی میں اس کا خطرہ نہیں، لیکن پھر کون آتا ہے اور کیا ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کی شہرئہ آفاق ذہانت کے لیے اتنا اشارہ کافی تھا، وہ دور تک بات کو سمجھ گئے اور فرمایا کہ آپ لوگوں کا فیصلہ صحیح ہے اور اس تجویز پر کوئی اصرار نہیں۔ ( مستفاد پرانے چراغ جلد دوم) ماضی میں مدارس کا یہ کردار رہا ہے ، لیکن کیا آج مدارس اسلامیہ میں اس کردار کا عشر عشیر بھی پایا جارہا ہے؟ کیا مدارس کے مالیات کے نظام میں وہ احتیاط اور شفافیت ہے؟ کیا ہمارے مالی فراہمی کے نظام میں استغنا اور خوداری ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارے سفراء اصحاب ثروت کے سامنے ذلیل و خوار ہوتے ہیں؟ کیا چندہ کی وصولی کا جو صحیح نظام ہونا چاہیے وہ نظام مدارس میں ہے؟ یہ سب وہ سوالات ہیں، جن پر ہم سب کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
آج مدارس اسلامیہ دھیرے دھیرے اپنی افادیت اور معنویت و مرکزیت کھوتے جا رہے ہیں، اور انکے شاندار اور تابناک ماضی کو خلف باقی رکھنے کامیاب نہیں ہو پا رے ہیں۔ جس کا شکوہ بہت پہلے علامہ اقبال مرحوم نے بھی کیا تھا کہ اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک نہ محبت نہ مروت نہ حقیقت نہ نگاہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں جہاں زندگی کے تمام شعبہ میں زبردست تنزلی، پستی انحطاط اور زوال و تنزل آیا ہے، وہیں مدارس اسلامیہ بھی شدید تنزلی، زوال و انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہوئے ہیں۔ علمی و اخلاقی معیار کی پستی اور زوال کا شکوہ سب کی زبان پر ہے، اور سب اس کا رونا رو رہے ہیں۔
اگر آج کے دینی مدارس کا مقابلہ چالیس پچاس سال پہلے کے مدارس سے کیا جائے تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ جس کا نتیجہ ہے کہ اب عام مسلمانوں کی زندگی پر ان مدارس کی تاثیر میں دن بدن کمی آرہی ہے۔ اگر ارباب مدارس اس جانب توجہ نہیں دیں گے، تو یہ مدارس اپنی معنویت اور اہمیت مزید کھو دیں گے اور عوام کا رشتہ اور تعلق علماء اور مدارس سے کٹ جائے گا اور ان کے درمیان مزید دوریاں پیدا ہوجائیں گی۔ اس وقت مدارس اسلامیہ میں جو بے اعتدالی اور افراط و تفریط ہے ، اور جو کمیاں اور خامیاں ہیں، جن کی طرف بہت سے صاحب بصیرت متوجہ کر رہے ہیں اور ارباب مدارس کے ذھن کو اس جانب مبذول کررہے ہیں، ہم بھی اس کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ اس وقت دینی مدارس نے عصری اسکولوں اور کالجوں کی طرح تعمیرات، ظاہری و مادی وسائل اور نظم و نسق کے شعبوں میں یقینا ترقی کی ہے۔ لیکن مدارس کی اصل روح جن پر ان کی حقیقی زندگی موقوف ہے، اس میں زبردست زوال اور انحطاط واقع ہوا ہے۔ دھیرے دھیرے مدارس کا تعلیمی نظام اور تعلیم و تعلم ایک رسمی شکل اختیار کر چکا ہے اور مدارس کے قیام کا اصل مقصد اور مشن نگاہوں سے اوجھل ہو رہا ہے۔ پہلے کے فارغین اور اب کے فارغین کی صلاحیتوں اور خدمات میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ زیادہ تر مدارس اسلامیہ میں ظاہری چیزوں اور تعمیرات کو فوقیت اور ترجیح دی جاتی ہے۔ باصلاحیت اساتذہ اگر ان کے اندر مالی فراہمی کی صلاحیت نہیں ہے، تو اس کی حیثیت مدرسہ میں کچھ بھی نہیں ہوتی۔ اراکین مدارس اور ارباب اہتمام کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح مدرسہ کی شہرت میں اضافہ ہو۔ طلبہ کی تعداد کمیت کے اعتبار سے بڑھے کیفیت کچھ بھی ہو۔ لیکن طلبہ کی تعلیمی اخلاقی اور دینی حالت کیا اور کیسی ہے؟ مدارس سے کس قسم کے افراد تیار ہو رہے ہیں اور ان سے دین و ملت کو کتنا فایدہ ہو رہا ہے، اس پر توجہ دینے والے اور اس جانب فکر کرنے والے مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ مدارس میں پہلے اساتذہ اور طلبہ کا گہرا علمی تعلق اور مضبوط اخلاقی و روحانی رشتہ ہوتا تھا، وہ طلبہ اپنے اساتذہ کی نیک نامی اور شہرت و مقبولیت کا ذریعہ بنتے تھے۔ اساتذہ اپنے طلبہ کو بیٹے کا درجہ دیتے تھے، بلکہ بعض جگہ تو نسبی اولاد سے زیادہ روحانی اولاد کو ترجیح حاصل ہوجاتی تھی ، سید سلیمان ندوی رح اور علامہ شبلی رح کے تعلق کو دنیا جانتی ہے، کہ کس طرح سید صاحب نے اپنے استاد کے تشنہ کاموں کو مکمل کیا۔ لیکن علامہ شبلی کی صلبی اولاد کو وہ شہرت حاصل نہیں ہوسکی اور نہ لوگوں میں ان کا کوئی چرچا ہوسکا، جو شہرت و مقبولیت سید صاحب کو حاصل ہوئی ۔ اس وقت مدارس میں اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ محض ایک رسمی رشتہ بن کر رہ گیا ہے۔ جو صرف درسگاہ کی حد تک محدود ہے۔ جبکہ ماضی میں استاد اپنے طلبہ کے لیے ایک شفیق باپ، روحانی مربی، اور علم و عمل کے میدان میں ایک شفیق نگران اور مخلص اتالیق کی حیثیت رکھتا تھا۔ جو طلبہ کے نجی معاملات تک میں دخیل ہوا کرتا تھا۔
انتظامی امور کے اعتبار سے بھی سینکڑوں خامیاں ہیں۔ مدارس جو روحانیت اور صداقت وراست بازی کے اعتبار سے لوگوں کے لیے ایک زمانہ میں مرکز ہوا کرتے تھے، آج بعض ادارے خود جھوٹ اور فراڈ کرتے ہیں، طلبہ اور اساتذہ کی تعداد بڑھا کر بتاتے ہیں ، جو سراسر دیانت و امانت کے خلاف ہے۔ بہت سے ادارے جو ثانویہ کے لائق ہیں زبردستی وہاں عالیہ کی پڑھائی کی جاتی ہے، جب کہ نہ وہاں ڈھنگ کے اساتذہ ہوتے ہیں اور نہ طلبہ اور نہ ہی اسباب و وسائل۔ ہر ضلع میں سینکڑوں مدارس ہیں، جب ایک ضلع میں ایک دو ہی مرکزی اور بڑے مدرسے ہونے چاہئیں اور گاؤں گاؤں میں مکتب کا نظام قائم ہونا چاہیے۔ پتہ چلا کہ ایک ایک ضلع سے سو سو سفراء زکوۃ کی وصولی کے لیے نکلتے ہیں، لوگوں کو تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی ضلع میں آخر کتنے مدارس ہیں۔ رمضان میں ایسے ایسے لوگ مدارس کے چندے کے لیے کمیشن پر نکلتے ہیں، جن کو صحیح نام لکھنا تک نہیں آتا اور ان کو دین کی باتیں تک یاد نہیں ہوتیں۔ جس کی وجہ مدرسے کی شبیہ لوگوں کی نظر میں خراب ہو رہی ہے۔ بعض جگہ مدرسہ کا وجود نہیں ہوتا جیبی مدرسے ہوتے ہیں، کمال عیاری سے تصدیق نامہ حاصل کرلیتے ہیں اور سال بھر چندہ کے پیسے سے بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے افسوس کہ اس پر عمل نہیں ہو پا رہا ہے۔
اب جو مدارس قائم ہو رہے ہیں زیادہ تر مدارس شخصی ہوتے جارہے ہیں۔ مزید یہ کہ مدرسہ کی املاک اور پراپرٹیز بھی شخصی ناموں پر بنتی جارہی ہیں۔ جس کی وجہ سے فتنے اور فساد پیدا ہو رہے ہیں اور بدگمانیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ بعض جگہ اگر چہ ایسا کرنا مجبوری میں ہوتا ہے ، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
مدارس کے نظام میں مالی شفافیت کی بھی کمی ہے۔ بہت سے طلبہ جو مالی اعتبار سے خود کفیل ہوتے ہیں وہ بھی زکوۃ کی رقم سے استفادہ کرتے ہیں اور اس بارے میں نہ کوئی تحقیق کی جاتی ہےاور نہ ان کے والدین اور سرپرستوں سے رابطہ کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کا ذھن بن گیا ہے کہ مدارس میں فیس طعام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اچھے اچھے صاحب حیثیت لوگ اپنی اولاد کو زکوۃ کھلاتے ہیں۔ اسی طرح مدوں کا فرق نہیں کیا جاتا ہے اساتذہ کی تنخواہیں بھی زکوۃ سے ادا کی جاتی ہے۔ مجبوری میں تو اس کی گنجائش نکل سکتی ہے، فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے،لیکن عام حالت میں اس کا جواز نہیں ہے۔ مدارس کے نصاب تعلیم کا قدیم ہونا اور حالات زمانہ کی رعایت کرتے ہوئے اس میں تبدیلی نہ کرنا اور اس کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہ اٹھانا بھی مدارس میں علمی گراوٹ اور اس کے زوال و انحطاط کا ایک سبب ہے۔ اس بارے میں ہم تفصیل کے ساتھ الگ مضمون میں ان شاءاللہ اظہار خیال کریں گے۔ مدراس کے جو طلبہ اب فارغ ہوکر نکلتے ہیں اپنی اصلاح و تربیت کے لیے ان کا کسی استاد اور شیخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، بلکہ اس راہ تصوف و سلوک کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کو فعل عبث سمجھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی زندگی اور تعلیم و تربیت سے دوسروں کا بھلا نہیں ہوتا اور نہ خود کا بھلا ہوتا ہے۔ بہت سے مدارس کے مالی نظام کے مرتب اور منظم نہ ہونے کی وجہ سے اور حساب نہ آڈٹ کرانے کی وجہ سے حکومت کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ اس جانب بھی توجہ کی سخت ضرورت ہے۔ ان حالات میں ہمیں مدارس کے مستقبل کے تئیں کیا کرنا ہے اور کیا نظام بنانا ہے چند باتیں پیش کی جاتی ہیں۔ (جاری)نوٹ / مضمون کا آخری حصہ کسی اور دن ملاحظہ فرمائیں ۔