{از: ڈاکٹر مفتی محمد عرفان عالم قاسمی}
(چیف ایڈیٹر ہفت روزہ آب حیات بھوپال ایم پی)
E-mail:- aabehayatnewspaper@gmail.com. Mob:- 9826268925
اعتکاف نام ہے، مخلوق سے قطع تعلق کرکے اللہ کے گھر میں بیٹھ جانا اور اپنے دل کو اللہ کی ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا۔ تمام دنیاوی خیالات و تفکرات و تمام مشغولیات کے بدلہ میں خدائے وحدہٗ لاشریک لہٗ کی یاد میں اور اس کے ذکر میں، اس کی عشق و محبت میں مشغول ہوجانا اور دل کو اللہ کے ساتھ مانوس کرکے لطف اندوز ہونا ۔
اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے اور رکنے کے ہیں اور اعتکاف کے شرعی معنی ہیں مرد کا مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا اور عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کی نیت سے ٹھہرنا۔ اعتکاف کی مشروعیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْد (سورۃ البقرہ، 125) یعنی ہم نے ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک صاف رکھو۔ نیز اللہ تعالیٰ نے روزے کے احکام کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ۔ فِی الْمَسٰجِد۔ (سورۃ البقرہ ص:187) یعنی عورتوں سے اس وقت مباشرت نہ کرو، جبکہ تم مسجدوں میں اعتکاف میں ہو۔ جو شخص اعتکاف میں بیٹھنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروی ہے کہ وہ اعتکاف کے آداب و ضوابط کی پاسداری کرے، تاکہ اس کا اعتکاف درست ہوسکے اور اس سلسلے میں وارد جملہ فضیلتوں کا مستحق بن سکے۔ اس وجہ سے اگر انسان کوئی بھی عمل کرتا ہے اور اس سلسلے میں شرعی ہدایات اور نبوی فرامین کو ملحوظ نہیں رکھتا ہے تو اس کی عبادت ناقص اور ادھوری شمار ہوتی ہے۔ چنانچہ اعتکاف کے تعلق سے کتاب و سنت کے شہ پاروں سے بعض آداب و مستحبات اور سنن کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم اگر اعتکاف کرنا چاہیں تو ان کو ملحوظ رکھیں اور اپنا اعتکاف رسول اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے موافق کریں۔اعتکاف کے فضائل: صاحب مراقی الفلاح نے لکھا ہے اگر اعتکاف اخلاص کے ساتھ ہو تو وہ افضل ترین اعمال میں سے ہے۔ اس کی خصوصیات حداحصاء سے خارج ہیں۔ اس میں قلب کو دنیا و مافیہا سے یکسو کر لینا ہے اور نفس کو مولیٰ کے سپرد کر دینا ہے اور آقا کی چوکھٹ پر پڑ جانا ہے۔ نیز اس میں ہر وقت عبادت میں مشغولی ہے کہ آدمی سوتے، جاگتے، ہر وقت عبادت میں شمار ہوتا ہے اور اللہ کے ساتھ تقرب ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ ’’جو شخص میری طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، میں اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جو میری طرف آہستہ بھی چلتا ہے، میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔‘‘ نیز اس میں اللہ کے گھر پر پڑ جانا ہے اور کریم آقا ہمیشہ گھر آنے والے کا اکرام کرتا ہے، نیز اللہ کے قلع میں محفوظ ہونا ہے کہ دشمن کی رسائی وہاں تک نہیں ایسے اعتکاف کی فضیلت و اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد پوری عمر اہتمام کے ساتھ رمضان المبارک کے اخیر عشرے کا اعتکاف فرمایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں ہمیشہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔
پھر آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کا اہتمام کرتی تھیں۔ (بخاری و مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے لیکن جس سال آپ صلّٰی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپؐ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرہ میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرہ میں بھی پھر خیمہ سے جس میں اعتکاف فرما رہے تھے، باہر سر نکال کر ارشاد فرمایا کہ میں نے پہلے عشرہ کا اعتکاف شب قدر کی تلاش میں اور اہتمام کی وجہ سے کیا، پھر دوسرے عشرہ میں کیا، پھر مجھے کسی (یعنی فرشتہ نے) بتایا کہ وہ رات آخری عشرہ میں ہے، لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ آخری عشرہ کا بھی اعتکاف کریں۔ (مسلم شریف ص:270، ج:1) حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ (اعتکاف کرنے والا) اعتکاف اور مسجد میں مقید ہوجانے کی وجہ سے گناہوں سے بچتا رہتا ہے اور نیکیوں کا اجر و ثواب نیکی کرنے والے بندے کی طرح جاری و ساری رہتا ہے اور نامۂ اعمال میں درج ہوتا رہتا ہے۔ (مشکوٰۃ ص:183، ج:1) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًاابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ جَعَلَ اللّٰہُ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّارِ ثَلاَثَ خَنَادِقَ کُلُّ خَنْدَقٍ اَبَعَدُ مِمَّا بَیْنَ الْخَافِقِیْن۔(طبرانی، المعجم الاوسط 221:7 رقم 7326، بیہقی شعب الایمان 425:3، رقم 3965، ہیشمی مجمع الزوائد 192:8) جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لئے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔ حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من اعتکف عشرا فی رمضان کان کحجتین و عمرتین۔(بیہقی شعب الایمان باب الاعتکاف 425:3، رقم 3966 الترغیب والترتیب ص:149، ج:2) جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے اعتکاف کرے گا، اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (کنز العمال ص:244، ج:8) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے دودھ دوہنے کی مقدار بھی (نفلی) اعتکاف کیا اس نے ایک جان (غلام) کو آزاد کیا، ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مغرب سے عشاء تک مسجد جماعت میں اعتکاف کرے اور سوائے نماز کے اور تلاوت قرآن کریم کے اور گفتگو نہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں محل بنا دیں گے۔ (شمائل کبریٰ ص:194، ج:8)اعتکاف کے فوائد: اعتکاف شریعت مطہرہ کا حکم ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ شریعت کا کوئی بھی حکم بے شمار فائدے اور لامتناہی حکمتوں سے خالی نہیں۔
یہاں اعتکاف کے چند فوائد اور حکمتوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔ شیطان انسان کا قدیمی و ازلی دشمن ہے لیکن انسان جب خانۂ خدا میں ہوتا ہے تو گویا وہ ایک مضبوط قلعے میں ہوتا ہے جس سے شیطان کا معتکف پر داؤ نہیں چلتا اور وہ معتکف کا کچھ بگاڑ نہیں پاتا۔ لوگوں سے ملنے جلنے اور کارو بار کی مشغولیتوں میں جو انسان سے چھوٹے موٹے بہت سے گناہ ہوجاتے ہیں۔ بندہ اعتکاف میں ان سے محفوظ رہتا ہے، اسے عبادت کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ خواہ وہ خاموش بیٹھا رہے۔ اعتکاف کرنے والے کا ہر منٹ عبادت کے طور پر لکھا جاتا ہے، شب قدر حاصل کرنے کا بھی اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کیوں کہ جب بھی شب قدر آئے گی تو معتکف بہر حال عبادت میں ہوگا۔ اعتکاف تمام عبادتوں میں ایک نرالی شان رکھتی ہے جس میں انسان دنیاوی مشاغل چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے در پر پڑا رہتا ہے جس سے پوری توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہنے کا موقع میسر ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق اور قربت پیدا ہوتی ہے۔ اعتکاف کا مقصد: حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اعتکاف کا مقصد اور اس کی روح دل کو اللہ کی پاک ذات کے ساتھ وابستہ کر لینا ہے کہ سب طرف سے ہٹ کر اسی کے ساتھ مجتمع ہوجائے اور ساری مشغولیات کے بدلے میں اسی پاک ذات سے مشغول ہوجائے اور اس کی غیر کی طرف سے منقطع ہو کر اس طرح اس میں لگ جائے کہ خیالات اور تفکرات سب کی جگہ اس کا پاک ذکر اور اس کی محبت سما جائے، یہاں تک کہ مخلوق کے ساتھ انس (محبت) کے بدلے اللہ کے ساتھ محبت پیدا ہوجائے کہ یہ انس قبر کی وحشت میں کام دے، جس دن اللہ کی پاک ذات کے سوا نہ کوئی مونس ہوگا، نہ دل بہلانے والا، اگر دل اس کے ساتھ مانوس ہوچکا ہوگا تو کس قدر لذت سے وقت گزرے گا۔ اعتکاف کا مقصد بھی یہی ہے کہ آدمی بارگاہ ایزدی کی چوکھٹ پر اپنا سر رکھ کر سرور اور خوشی کا مینار تعمیر کرتا رہے اور اپنی زبان کو اسی کے ذکر سے تر رکھے، کیوں کہ بندہ سب کو چھوڑ کر بارگاہ عالی میں حاضر ہوا ہے۔ تو اس مولائے کریم سے ہر وقت یہ درخواست کرتا رہے کہ اے کریم آقا ہمیں معاف فرما دے اگر تو نے معاف نہیں کیا تو میں تیرے در کو چھوڑ کر اور کہاں جاؤں گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب کوئی شخص کریم آقا کے دروازے پر دنیا سے منقطع ہوکر جا پڑے تو اس کے نوازے جانے میں کیا تأمل ہوسکتا ہے۔ معتکف کو چاہئے کہ خدائے ذوالجلال سے ہر وقت مغفرت کی طلب کرتا رہے اور اس سے صحیح عبادت کرنے کی توفیق مانگتا رہے کہ اے اللہ! ہمیں صحیح عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ معتکفین شرعی حدود کے مطابق اعتکاف کرپاوے یا نہ پاوے لیکن معتکفین کے دس روزے شرعی حدود کے مطابق ضرور پورے ہوتے ہیں۔
اعتکاف کے اقسام: اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔
(1)واجب اعتکاف
یہ نذر (منت) ماننے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ نذر (منت) مانے کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اتنے دن تک اعتکاف میں بیٹھوں گا۔ نذر کے لئے روزہ کے ساتھ کم از کم ایک دن کا اعتکاف ضروری ہوتا ہے یہ نذر مطلق کہلاتا ہے۔ نذر مقید یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما دے گا تو میں رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کروں گا۔ نذر کی درستگی کے لئے زبان سے الفاظ ادا کرنا ضروری ہے، صرف دل کی نیت اور ارادہ سے یہ نذر درست نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح نذر کے لئے مکمل ایک دن کا روزہ اعتکاف کے لئے شرط ہے ورنہ بغیر روزہ اور مکمل ایک دن کے اعتکاف کے لئے نذر درست نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع)(2)
مسنون اعتکاف:
یہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ہے جو سنت علی الکفایہ ہے۔ یعنی محلہ میں اگر ایک شخص بھی اعتکاف کر لے تو سب کے ذمہ سے ساقط ہوجائے ورنہ سب ترک سنت کے گناہ گار ہوں گے۔
رمضان المبارک کی بیس تاریخ کو سورج غروب ہونے سے کچھ پہلے اعتکاف شروع کیا جاتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک جاری رہتا ہے۔ اس اعتکاف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تقرب کے ساتھ شب قدر کی عبادت حاصل ہوجاتی ہے۔ جس میں عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ہزار مہینوں یعنی 83 سال کی عبادت سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ 2
ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد رسول اللہ صلّٰی اللہ علیہ وسلم نے تادم حیات رمضان المبارک کے اس آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا۔ (ہدایہ ص:209، ج:1)(3)
مستحب اعتکاف:
جب بھی آدمی مسجد میں داخل ہو تو یہ نیت کر لے کہ جب تک میں اس مسجد میں رہوں گا اعتکاف کی نیت کرتا ہوں۔ اس اعتکاف میں وقت اور روزہ کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ مسجد سے نکلنے پر اعتکاف ختم ہوجاتا ہے۔اعتکاف میں بیٹھنے کی شرائط اعتکاف میں بیٹھنے کی چھ شرائط ہیں (1)مسلمان ہونا (2)اعتکاف کی نیت کرنا (3)حدث اکبر (یعنی جنابت) اور حیض و نفاس سے پاک ہونا (4)عاقل ہونا (5)مسجد میں اعتکاف کرنا (6)اعتکاف واجب (نذر) کے لئے روزہ بھی شرط ہے۔وہ اعمال جن سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے(1) بیوی سے ہم بستری کرنا، خواہ رات میں ہو یا دن میں، جان بوجھ کر ہو یا بھول کر، انزال ہو یا نہ ہو، مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (رد المحتار ص: 438، ج:2)(2) بلا عذر شرعی و طبعی دن کا اکثر حصہ مسجد سے باہر گزارنا اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (بدائع الصنائع ص:286، ج:2)(3) عورتوں کو دوران اعتکاف حیض یا نفاس کا آجانا کیوں کہ یہ دونوں روزہ کے منافی ہیں اور اعتکاف بغیر روزہ درست نہیں، اس لئے اس خون کے آجانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص:438، ج:2)(4) دن میں جان بوجھ کر کوئی چیز کھا پی لینا، کیوں کہ یہ روزہ کے منافی ہے، اس لئے اس سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتح القدیر ص:316، ج:3)(5) اسلام سے مرتد (منحرف) ہوجانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں قضا بھی لازم نہیں گو بعد میں دو بارہ اسلام قبول کر لے۔ (فتاویٰ قاضی خاں ص:226، ج:1)(6) مسجد منہدم ہوجائے اور اعتکاف کرنے والا دن کا اکثر حصہ گزر جانے سے پہلے کسی دوسری مسجد میں منتقل نہ ہوسکے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص:439ج:3)(7) بے ہوشی اور جنون کی وجہ سے کوئی روزہ ٹوٹ جائے۔ کیوں کہ اعتکاف بغیر روزہ درست نہیں۔ اس لئے اس دن کا اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص:443، ج:3)(8) دن میں نشہ طاری ہو جانے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (رد المحتار ص: 493، ج:3)(9) مسلم آبادی منتشر ہو جانے کی وجہ سے مسجد ویران ہو جائے کہ اس میں پانچ وقت کی نماز نہ ہو رہی ہو تو اس مسجد میں بھی اعتکاف کرنے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ (فتح القدیر ص:311، ج:2)وہ اعمال جن سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا:(1) دوران اعتکاف، اعتکاف کرنے والا بالغ ہوجائے، اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتح القدیر ص:311، ج:2)(2) رات و دن کسی بھی وقت غسل کی ضرورت پیش آجائے، اس سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (بدائع الصنائع ص:287، ج:2)(3) جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے جائے اور وہیں ٹھہر جائے، یہ مکروہ تو ہے مگر اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ چوبیس گھنٹے کے گزرنے کے بعد پھر اپنی پہلی جگہ آجائے یا اعتکاف کی بقیہ مدت وہیں گزارے، ہر دو صورت اس کا اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ ( امداد الاحکام ص:314، ج:1)(4) دوران اعتکاف کسی عورت کو دیکھنے یا کسی کی محبت میں اس طرح کھو جائے کہ انزال ہوجائے۔ اس صورت میں بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتاویٰ قاضی خاں ص:222، ج:1)(5) دن میں بھول کر کھا پی لینے سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتح القدیر ص:316، ج:1)(6) گالی گلوج اور لڑائی جھگڑا نہایت برا اور گناہ کا کام ہے۔ لیکن اس اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)(7) دوسرے کا مال بغیر اس کی اجازت لینا شرعاً ناجائز ہے، لیکن اگر دوران اعتکاف لیکر استعمال کر لیا تو اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)(8) رات میں نشہ طاری ہو جانے سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ (فتح القدیر ص:316، ج:2)(9) دوران اعتکاف ہنسی مذاق کرنے سے بھی اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔ (فتاویٰ قاضی خاں ص:223، ج:1)(10) بیڑی، سگریٹ، حقہ، گٹکا اور تمباکو کی شدید حاجت ہو اور کسی بھی طرح سے برداشت نہ ہوسکے تو استنجاء وغیرہ کے لئے مسجد سے باہر نکلتے وقت اس ضرورت کو پورا کر لے اور منہ صاف کرکے فوراً مسجد چلا آئے۔ اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا ہے۔(فتاویٰ رشیدیہ ، ص:461)
جن صورتوں میں اعتکاف توڑ دینا جائز ہے:
(1) دوران اعتکاف سخت بیمار ہوجائے کہ مسجد میں رہتے ہوئے علاج ممکن نہ ہو تو پھر علاج کی غرض سے اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔ (فتاویٰ ہندیہ ص:213، ج:1)(2) نماز جنازہ پڑھنے اور مردے کو دفنانے والا کوئی نہ ہو تو ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ہے۔ (الدر الحکام ص:214، ج:1)(3) آگ میں جلنے اور پانی میں ڈوبنے والے کو بچانے کی خاطر اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔ اگر وہاں اس کے علاوہ کوئی بھی نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑ دینا واجب ہو جائے گا۔ (البحر الرائق ص:529، ج:2)(4) مسجد منہدم ہوجائے تو بہتر ہے کہ قریب کی کسی دوسری مسجد میں منتقل ہوجائے۔ لیکن اگر وہ اعتکاف توڑ دیتا ہے تو یہ جائز ہے۔ (رد المحتار ص:438، ج:3)(5) مسجد کے ارد گرد مسلم آبادی کے منتشر ہوجانے سے مسجد ویران ہوجائے کہ اس میں باجماعت نماز ادا نہ کی جارہی ہو تو پھر اعتکاف کا توڑ دینا جائز ہے۔ (فتح القدیر ص:311، ج:3)(6)
اعتکاف کرنے والے کو کسی بھی طرح سے جان یا مال کا خوف ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف توڑا جاسکتا ہے۔ (رد المحتار ص: 439، ج:3)(7) ماں، باپ، بیوی، بچے یا کسی قریبی رشتہ دار کی سخت بیماری کی وجہ سے اعتکاف توڑا جاسکتا ہے۔ (شامی ص:439، ج:3)(8) حکومت کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ ہو یا کسی بھی وجہ سے مسجد سے نکلنے پر مجبور ہونا پڑے تو اس صورت میں بھی اعتکاف توڑنا جائز ہے۔ (فتاویٰ قاضی خاں ص:222، ج:1)(9) جہاد میں شرکت جب کہ وہ ضرری ہو یا ادائیگی شہادت (گواہی دے) جب کہ اس کی شہادت پر فیصلہ موقوف ہو تو پھر ایسی صورت میں اعتکاف کا توڑنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔ (الدرر الحکام ص:214، ج:1) مندرجہ بالا صورتوں میں اعتکاف توڑ دینے سے گناہ تو نہیں ہوتا لیکن بعد میں اس کی قضا ضروری ہے۔مکروہات اعتکاف: اعتکاف کی حالت میں مندرجہ ذیل امور مکروہ ہیں:(1) بلا عذر شرعی و طبعی ایک لمحہ کے لئے بھی مسجد سے باہر نکلنا (2)شرعی اور طبعی حاجت سے فراغت کے بعد مسجد آنے کی بجائے کسی اور جگہ ٹھہرنا (3)مسجد میں خرید و فروخت کے غرض سے سامان لانا (4)مسجد کو تجارت گاہ بنانا (5)اجرت لیکر کپڑے سینا، تعلیم دینا اور کتابت سکھانا (6)عبادت کے خیال سے بالکل خاموش رہنا (7)غیر ضروری اور غیر مباح گفتگو کرنا (8)بیوی سے مباشرت فاحشہ کرنا اگرچہ نفس پر قابو ہو کہ ہم بستری نہیں کرے گا۔ اسی طرح بوس و کنار، چھونے اور معانقہ کرنے سے بھی حتیٰ الوسع پرہیز کرنا چاہئے۔
حالت اعتکاف میں آن لائن کلاس لینا:اعتکاف کا مقصد اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا اور اس کی عبادت میں مشغول رہنا ہے، لہذا معتکف کو چاہیے کہ وہ نماز، تلاوت، ذکر و اذکار، تعلیم و تعلم اور دیگر عبادات میں اپنا زیادہ وقت گزارے،اس کے علاوہ جو مصروفیات ہوں ان کو ترک کردے ،آن لائن کلاس بھی ترک کردے ،سب چیزوں سے کٹ کر اللہ تعالی کی عبادت کی طرف یک سو ہوجائے ۔ البتہ اگر کوئی شخص اعتکاف کے دوران جان دار کی ویڈیو یا تصویر سے پاک آن لائن کلاس لے گا تو اس سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا، لیکن سخت مجبوی کے بغیر اسے ترک ہی کرنا چاہیے۔واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں کسی بھی جان دار چیز کی تصویر کشی کرنا حرام ہے ، خواہ وہ تصویر کشی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے ، بہر صورت ناجائز ہے، ویب کیمرے کا استعمال بھی شرعاً تصویر کشی کے حکم میں ہے؛ اس لیے اگر انٹرنیٹ پر آن لائن کلاس کی صورت میں جان دار کی تصویر یا ویڈیو دیکھنا یا دکھانا لازم آتا ہو یا آن لائن کلاس ویڈیو لنک کے ذریعے ہوتی ہو تو اس میں جان دار کی تصویر بنانے یا دیکھنے کا گناہ ہوگااور رمضان میں اعتکاف کی حالت میں مسجد کے بے ادبی کا گناہ بھی ہوگا۔
عام حالات میں بھی آن لائن کلاس لینے کےلیے یہ بنیادی شرط ہے کہ تعلیم محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال ) کے ذریعہ ہو ،ایک دوسرے کی تصویر نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے(ویڈیوکال ،لائیو ویڈیووغیرہ )کے ذریعہ نہ ہو، اگر دوران کلاس کیمرے کا ستعمال ہو تو کیمرے کا رخ ( فوکس )غیرجاندار چیز ( بورڈ ، کتاب وغیرہ ) پر ہو ،جاندار اشیاء پر اگر کیمرے کا رخ ہو گا تو یہ جائز نہیں ہے ۔یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آن لائن کلاس مرد لے یا عورت ، اگر جان دار کی تصویر کا دیکھنا یا دکھانا پایا جائے تو صنف مخالف ہونے کی صورت میں حجاب کے احکام کی خلاف ورزی بھی لازم آئے گی، لہٰذا اس صورت میں ایک قباحت مستزاد ہوگی۔(رد المحتار2 / 448ط:سعيد)
مباحات اعتکاف:
بعض باتیں اعتکاف کی حالت میں مباح اور جائز ہیں (1)کھانا پینا (2)سونا، (3)ضروری خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا (سامان) مسجد میں نہ لایا جائے اور خرید و فروخت ضروریات زندگی کے لئے ہو لیکن مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں (4)حجامت کرانا بشرطیکہ بال مسجد میں نہ گریں۔ (5)بات چیت کرنا لیکن فضول گوئی سے پرہیز ضروری ہے۔ (6)نکاح یا کوئی عقد کرنا (7)کپڑے بدلنا، خوشبو لگانا، سر میں تیل لگانا (8)مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا اور نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا (9)قرآن کریم یا دینی علوم کی تعلیم دینا (10) کپڑے دھونا اور کپڑے سینا البتہ کپڑے دھوتے وقت پانی مسجد سے باہر گرے اور خود مسجد میں رہیں، یہی حکم برتن دھونے کا بھی ہے۔ (احکام اعتکاف ص:48) (11) ناخن کاٹنا، مونچھیں کاٹنا، خط بنانا جائز ہے، لیکن بال ناخن وغیرہ مسجد میں نہ گریں۔ (مسائل اعتکاف ص:42) حسب ضرورت سامان مسجد میں رکھنا جائز ہے۔ (13)چار پائی بھی مسجد میں رکھ سکتا ہے لیکن اتنا ضرور خیال کیا جائے کہ وہ مسجد کے ایک گوشے میں رہے۔(14) بالوں میں کنگھا کرنا (15) مسجد کے کسی بھی حصے کو اعتکاف گاہ کے لئے مقرر کرنا (16) حج یا عمرہ کا احرام باندھنا، لیکن یہ خیال رہے کہ جتنے دنوں کا اعتکاف ہے، اسے پورا کرکے ہی مسجد سے نکلے۔ ہاں البتہ اگر حج فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو تو پھر ایسی حالت میں اعتکاف توڑ دے اور حج کو چلا جائے، بعد میں توڑے ہوئے اعتکاف کی قضا کر لے۔ کیوں کہ حج اعتکاف سے بہر حال مہتم بالشان ہے۔ (بدائع الصنائع ص:288، ج:2)
ممنوعات اعتکاف:
درج ذیل باتیں اعتکاف کی حالت میں ممنوع و حرام ہیں: (1)بیوی سے تعلقات رکھنا، شہوت سے اس کو چھونا بھی حرام ہے۔ (2)بعض باتیں ویسے بھی حرام ہیں مگر مسجد میں اور اعتکاف کی حالت میں ان کو کرنا اور بھی سخت حرام ہے۔ مثلاً غیبت کرنا، چغلی کرنا، لڑنا اور لڑانا، جھوٹ بولنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، بہتان لگانا، کسی مسلمان کو ناحق ایذا پہنچانا، کسی کے عیب تلاش کرنا، کسی کو رسوا کرنا، تکبر اور غرور کی باتیں کرنا، ریا کاری کرنا وغیرہ۔ (مسائل اعتکاف ص:42)
مفسدات اعتکاف:
یعنی اعتکاف کو فاسد کرنے والی چیزیں۔ بعض باتوں سے اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے۔ (2)معتکف اگر مسجد سے یا عورت اپنی اعتکاف کی جگہ سے حاجت شرعیہ اور حاجت طبعیہ کے بغیر نکلے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر بھول کر نکل جائے تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (3)کسی نے زبردستی باہر نکال دیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے مگر اس صورت میں گنہگار نہ ہوگا۔ بعد میں قضا کر لے۔ (4)اگر میت کو نہلانے، کفن دینے، جنازہ پڑھنے گیا تب بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ (مسائل اعتکاف) (5)مریض کی عیادت کے لئے نکلا خواہ بیٹا، بیوی کیوں نہ ہو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (6)کسی کے بارے میں گواہی دینا ضروری تھا اس کے لئے مجبوراً نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (7)اگر روزہ کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو اعتکاف بھی فاسد ہوجائے گا۔ (8)اپنی بیماری کے علاج کے لئے ڈاکٹر کے پاس گیا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (9)پاخانہ پیشاب کے لئے نکل کر فارغ ہونے کے بعد ٹھہر گیا، رک کر کسی سے باتیں کرنے لگا تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (10) بال اور حجامت بنوانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (11)جمعہ کے غسل کے لئے جو مستحب ہے مسجد سے باہر غسل خانہ میں جانے سے اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (12)منجن یا مسواک کرنے (کلی کرنے) کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (13)بیڑی سگریٹ پینے (اسی طرح نسوار ڈالنے) کے لئے مسجد سے باہر نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا اور مسجد میں ان چیزوں کا استعمال جائز نہیں۔ (14)گاؤں میں جہاں جمعہ واجب نہیں اگر اس مسجد سے معتکف جمعہ پڑھنے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا۔ (شمائل کبریٰ ص:200، ج:8) (15)اعتکاف کی حالت میں بیوی سے صحبت کی تو اس سے بھی اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (16)بیوی سے صرف بوس و کنار بھی حالت اعتکاف میں ناجائز ہے اگر اس سے انزال ہوگیا تو اعتکاف بھی ٹوٹ گیا۔ (17)کوئی شخص مسجد کے کسی حصے کو مسجد سمجھ کر چلا گیا (مثلاً امام کے کمرہ میں گیا حالانکہ وہ تو عام طور پر مسجد سے باہر ہوتا ہے، اس نے اس کو مسجد کا حصہ سمجھا اور اندر چلا گیا) حالانکہ درحقیقت وہ حصہ مسجد میں شامل نہیں تھا تو اس سے بھی اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (احکام اعتکاف ص:44) (18)کھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے لئے مسجد سے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔ (احسن الفتاویٰ ص:510، ج:4) (19)اگر معتکف امام مسجد ہے اور نماز جنازہ پڑھانے کے لئے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوجائ