
مفتی محمد اعظم ندوی
عالمی معیشت کو اکثر ایک بلند پرواز طیارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو ترقی اور خوشحالی کی علامت ہے، مگر حقیقت اس چمکدار تمثیل سے کہیں زیادہ تلخ، پیچیدہ اور طبقاتی تضاد سے بھری ہوئی ہے، سرمایہ داری کے ایندھن سے اڑان بھرنے والی یہ پرواز، درحقیقت، صرف چند مراعات یافتہ طبقات کو فرسٹ کلاس آسائش فراہم کرتی ہے، جب کہ اکثریت کے لیے یہ ایک تھکا دینے والی جدوجہد، معاشی غلامی اور زمین سے جڑی محرومیوں کا سفر ہے، آکسفیم Oxfam کی 2024 کی رپورٹ (Vision IAS، فروری 2025) کے مطابق، دنیا کی 44 فیصد آبادی عالمی بینک کے غربت کے طے شدہ معیار — یعنی $6.85 (Purchasing Power Parity یعنی قوت خرید کے توازن) — سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جب کہ دنیا کے صرف 1 فیصد امیر ترین افراد کے پاس عالمی دولت کا تقریباً 45 فیصد حصہ موجود ہے، رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ 2024 میں ارب پتیوں کی دولت میں اضافہ 2023 کے مقابلے میں تین گنا زیادہ تیزی سے ہوا، اور ان کی 60 فیصد دولت محنت سے نہیں بلکہ وراثت، اجارہ داری، اور بدعنوانی سے حاصل ہوئی ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک، ترقی پذیر ممالک کو ایسے قرضوں کے جال میں الجھاتے ہیں جو ان کی معاشی خود مختاری کو سلب کر لیتے ہیں، ان اداروں کی پالیسیاں وسائل کی لوٹ مار اور مقامی صنعتوں کے انہدام کا سبب بنتی ہیں، افریقہ سے لیتھیم، سونا اور دیگر قیمتی دھاتوں کی کان کنی کا معاملہ ہو یا لاطینی امریکہ کے زرعی خطوں کو کمپنیوں کو جاگیر بنانے کا عمل، سب کچھ “ترقی” کے خوبصورت پردے میں ایک منظم استحصال ہے، عالمگیریت کے نام پر تجارت کے جو معاہدے تھوپے جاتے ہیں، وہ طاقتور اقوام کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں، جب کہ کمزور ممالک اپنی ثقافت، خود کفیل ہونے کی طاقت، اور اختیارات سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ٹیکنالوجی کو ترقی کا نیا افق بتایا جاتا ہے، مگر درحقیقت، یہ بھی عدم مساوات کو مزید وسعت دینے کا ذریعہ بن گئی ہے، اربوں ڈالر کمانے والی کمپنیوں مثلا ایمیزون اور گوگل کے ورکرز کم سے کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ خود کار نظاموں نے انسانوں کی جگہ لے لی ہے، سبز توانائی کا بیانیہ بھی اپنی جگہ ایک دکھاوا بن چکا ہے، کیونکہ اس کے لیے معدنیات کی کان کنی ماحول اور انسان دونوں کو شدید نقصان پہنچا رہی ہے، یہ ترقی نہیں بلکہ تباہی کے راستے کی نئی شکل ہے، جہاں کارپوریٹ مفادات، انسانیت، ماحول اور ثقافت سب پر بھاری ہے، اقبال نے کیا غلط کہا تھا:
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اس معاشی اڑان کا مقابلہ اسلامی اصولوں سے کیا جائے، تو ہمیں یہاں ایک ایسا متوازن، منصفانہ اور پائیدار نظام نظر آتا ہے جو دولت کے ارتکاز کو ناپسند کرتا ہے، قرآن کی صاف ہدایت ہے کہ “تاکہ مال تمہارے چند دولت مندوں کے درمیان نہ گردش کرتا رہے” (الحشر: 7)۔ زکوٰۃ، وراثت، ربا کی ممانعت، اور شراکتی مالیات جیسے اصول اس تصور معیشت کی بنیاد ہیں جو نہ صرف غربت کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی اور فطری توازن کو بھی فروغ دیتا ہے، سرکلر اکانومی کو بھی اسلامی تصور کے مطابق ڈھالا جاسکتا ہے جو فضول خرچی کی ممانعت اور وسائل کے معتدل استعمال پر زور دیتا ہے، جو ماحولیاتی تباہی کے سد باب میں معاون ہے۔
اسلامی تعلیمات عالمگیریت کو استحصال کے بجائے باہمی تعاون کے ایک موقع کے طور پر پیش کرتی ہیں، قرآن کے اصول “تعاون کرو نیکی اور تقویٰ میں” (المائدہ: 2) کی روشنی میں ایک ایسا عالمی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جو کمزور اقوام کو استحصال سے بچائے اور مقامی خود مختاری کو تقویت دے، عالمی معیشت کی اصلاح صرف اعداد و شمار کی ترتیب یا بیانیہ سازی کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک اخلاقی، فکری اور تہذیبی جدوجہد ہے—ایسی جدوجہد جو انسان اور انسانیت کو سرمایہ دارانہ نظام کے پنجۂ استبداد سے آزاد کرا سکے، اور ایک ایسے عالمی نظم کی راہ ہموار کرے جس میں ہر فرد کو ترقی، عزت اور خود مختاری کا حق میسر ہو۔
دنیا اسلامک بینکنگ کی جانب ٹکٹکی لگائے بیٹھی ہے، اور واقعی اس میں معاشی ریل کو پٹری پر لانے کی صلاحیت۔موجود ہے بشرطیکہ یہ خود ٹریک سے نہ اترے، اس سلسلہ میں اسلامی بینکاری کے پچاس سالہ سفر پر مبنی محمد زکریا فضل کا مضمون “خمسون عامًا من المصرفية الإسلامية في خدمة اقتصاد المعنى” (الجزیرہ، 23 اپریل 2025) قابل مطالعہ ہے، جو دراصل اسی تلخ حقیقت کا فکری تسلسل ہے جس کی نشاندہی ہم نے عالمی معیشت کی فرضی اڑان کے تناظر میں کی، جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام چند ہاتھوں میں دولت اور طاقت کے ارتکاز کو خوشحالی کا نام دے کر پوری دنیا کو معاشی غلامی کی پرواز پر سوار کر رہا ہے، وہیں مضمون نگار اسلامی مالیات کو “اقتصاد المعنیٰ” یعنی معنویت پر مبنی معیشت کے طور پر متعارف کراتے ہیں، جہاں پیسہ صرف شرح منافع کا پیمانہ نہیں بلکہ انسانی وقار، عدل، اور زمین کی تعمیری خدمت کا ذریعہ ہے، وہ اس باب میں ڈاکٹر احمد النجار کے ابتدائی اقدامات سے لے کر آج کے 4.5 ٹریلین ڈالر کے مالیاتی دائرے تک اسلامی بینکاری کی فکری روح کو یاد دلاتے ہیں، اور سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا موجودہ ادارے اب بھی اس مشن پر قائم ہیں یا صرف شرعی لیبل لگا کر سرمایہ دارانہ منڈی کے تابع ہو چکے ہیں؟ اس تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر عالمی معیشت کو واقعی انصاف، پائیداری اور مقصدیت کی طرف موڑنا ہے تو صرف تنقید کافی نہیں — ایک ایسا جامع متبادل نظام درکار ہے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہو، اور جس کی بنیاد “کس لیے کمایا؟” اور “کس پر خرچ کیا؟” جیسے سوالات پر ہو، نہ کہ صرف “کتنا کمایا؟” پر۔