
نعت گو شاعر ڈاکٹر تابش مہدی انتقال کرگئے
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ
إِنَّا ِلِلَّٰهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
غلام نبی کشافی آنچار صورہ سرینگر
_________________
کسی شاعر نے اچھے اور نیک لوگوں کے مرنے ، بچھڑنے اور ان کے اس دنیا سے چلے جانے پر ایک خوبصورت شعر کہا ہے ؛
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں
مشہور شاعر ، ادیب ، نعت گو ، عالم دین اور جماعت اسلامی ہند کے روح روان مرد قلندر ڈاکٹر تابش مہدی آج 22 جنوری 2025ء کو انتقال کر گئے ، ان کے انتقال کی یہ خبر صبح سے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ۔ڈاکٹر تابش مہدی ریاست اتر پردیش کے پرتاپ گڑھ کے رہنے والے تھے ، ان کی پیدائش 13 جولائی 1951ء کو ہوئی تھی ، لیکن ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے۔ ان کی مختلف موضوعات میں پچاسوں کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
ڈاکٹر تابش مہدی کے جو چند شعری مجموعے میں نے پڑھے ہیں ، وہ نعتیہ کلام پر مشتمل ہیں ، اور ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت سے سرشار تھے ۔ ان سے میری دو تین بار اس وقت فون پر بات ہوئی تھی ، جب وہ ماہ نامہ زندگی نو کے ایڈیٹر تھے ، ان کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کتنے مخلص ، ملنسار اور علم دوست شخصیت اور مزاج کے مالک تھے ۔
ایک ڈیڑھ دہائی قبل کی بات ہے کہ کلکتہ سے ایک نو مسلم ( جس کا نام یاد تو نہیں آرہا ہے ، نے ایک کتاب بھیجی تھی ، جس کا نام یہ تھا ۔” انبیاء علیہم السلام کے والدین ، ایک تحقیقی مطالعہ ” اس کتاب کے مصنف کا نام مولانا رطب علی (1917ء- 2010ء ) تھا ، اور اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس کا مقدمہ ڈاکٹر تابش مہدی کے قلم سے تھا ۔ چونکہ کتاب کی اشاعت مصنف کتاب کے انتقال کے ایک سال بعد 2011ء کو ہوئی تھی ۔ اس لئے تابش مہدی صاحب نے ان کے حالات زندگی پر بھی کچھ اہم اور غور طلب باتیں لکھی تھی ، اور جن میں ایک اہم بات یہ بھی تھی ۔ “مولانا رطب علی یہ بات بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ نمازوں کے بعد یا کسی اور موقع پر اعلان ہو کہ فلاں صاحب درس قرآن یا درس حدیث دیں گے یا خطاب فرمائیں گے ، وہ فرماتے تھے ، بس یہ کہہ دینا کافی ہے کہ درس قرآن یا درس حدیث ہوگا ، تاکہ لوگ قرآن کے رشتے سے بیٹھیں ، قرآن و حدیث کی بات سننا ان کا مقصد رہے ، ان کے سامنے کسی کا نام نہ رہے ” (کتاب مذکور ۔ ص 5)
ڈاکٹر تابش مہدی کے اس ایک مختصر اقتباس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا ۔ پھر میں نے ان کی شعر و ادب پر مبنی چند کتابیں خرید لیں ، ان کا مطالعہ کیا اور ان سے بھر پور سے استفادہ کیا ۔ خاص کر ان کی مرتب کردہ کتاب ” میرا مطالعہ ” کو کئی بار پڑھا ، جس سے مجھے ذاتی طور پر مطالعہ کے طریق کار کے حوالے سے کافی زیادہ فائدہ ہوا ۔ اور یہاں تک کہ میں نے خود بھی ایک کتاب ” مطالعہ کی اہمیت اور اس کا طریق کار ” کے نام سے لکھی ۔
تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے ایک نوجوان نے مجھے ڈاکٹر تابش مہدی کا نمبر بھی دے دیا تھا ، اور کہا تھا کہ ڈاکٹر تابش مہدی مجھ ناچیز سے بات کرنا چاہتے ہیں ، لیکن بد قسمتی سے میں ان کو فون کرنے سے قاصر رہا ، اور آج جب میں نے ان کے انتقال کی خبر پڑھی ، تو سب سے پہلے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا ، اور سوچا کہ اگر میں نے ان سے فون پر بات کی ہوتی ، تو وہ گفتگو آج میری اس تحریر کا حصہ اور یادگار بن جاتی ، لیکن افسوس کہ ایسا ہو نہ سکا ۔ دراصل ان کو کسی نے میرے بارے میں بتا دیا تھا کہ میں منکرین ِحدیث ، جن میں کچھ کا تعلق بد قسمتی سے جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ہے ، کے خلاف لکھتا رہتا ہوں ، اس لئے وہ مجھ سے فون پر بات کرنا چاہتے تھے ، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اب ہماری جماعت اسلامی میں بھی ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے ، جن میں انکار حدیث کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں ۔ ظاہر ہے اس کا اشارہ مولوی عنایت اللہ سبحانی اور ان کے بیٹے محی الدیں غازی وغیرہ افراد کی طرف ہوگا ۔ ڈاکٹر تابش مہدی نے جو نعتیہ کلام لکھا ہے ، وہ قابل مطالعہ ہے ، چنانچہ نمونے کے طور پر ان کے نعتیہ کلام میں سے یہ دو شعر ملاحظہ کیجئے ؛ہر پہلو سیرت کا درخشاں بس میرے سرکار کا ہےمیٹھی میٹھی باتیں ہیں کام جہاں تلوار کا ہےشہر مدینہ جانے والو یاد رہے یہ بات تمہیں نیچی نگاہیں اپنی رکھنا شہر بڑے دربار کا ہےدعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر تابش مہدی کی کوتاہیوں ، لغزشوں اور خطاؤں کو معاف اور ان کو جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
_________________