
خدمت کا درویش، علم کا چراغ
(حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ): م ، ع ، ن
کبھی کبھی وقت کے بے رحم دھارے میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوتی ہے، جو اپنی سادگی میں وقار، خاموشی میں خطابت، اور خدمت میں قیادت کا مجسمہ بن کر دنیا کو خیر و فلاح کی راہوں پر گامزن کرتی ہے۔ ایسی ہی ایک روحانی، علمی اور رفاہی عظمت کی علامت تھے حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ۔ وہ ایک ایسے عہد کا نام تھے جو گزر تو گیا، مگر اپنی خوشبو زمانے کی سانسوں میں چھوڑ گیا۔
یکم جون 1950ء کو گجرات کے ایک گاؤں کوساڑی میں جنم لینے والے اس چراغ نے ابتدا ہی سے علم و عمل کا سفر شروع کیا۔ جب 1952ء یا 1953ء میں ان کا خاندان وستان منتقل ہوا تو گویا ایک نئی تقدیر نے ان کے قدم چومے۔ مدرسہ قوت الاسلام کوساڑی میں قرآن کریم حفظ کیا، پھر بروڈہ کے مدرسہ شمس العلوم اور فلاح دارین ترکیسر میں دینی علوم کی باریکیوں میں مہارت حاصل کی۔ 1972ء کے اوائل میں اپنی تعلیم مکمل کی، اور اسی سال مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا، جہاں حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ جیسے محدث العصر کی شاگردی میں بخاری شریف پڑھی۔
لیکن علم کا یہ متلاشی صرف کتب و اساتذہ کا طالب نہیں تھا، بلکہ وہ روحانیت، اخلاق، اخلاص اور اصلاح کا سچا خوگر تھا۔ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے اصلاحی تعلق قائم کیا، ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا سید صدیق احمد باندویؒ سے وابستہ ہوئے اور ان کے خلیفہ مجاز بنے۔ یوں علم و روحانیت کی دونوں نہریں اس دل میں ایک ساتھ رواں ہو گئیں، جس میں صرف امت کی بھلائی کی تڑپ تھی۔
علم کی تکمیل کے بعد آپ کا پہلا تدریسی سفر قصبہ بوڈھان، ضلع سورت میں شروع ہوا، لیکن اصل میدان دارالعلوم کنتھاریہ، بھروچ میں سجا، جہاں فارسی سے متوسطات تک تدریس کی خدمات انجام دیں۔ مگر حضرت وستانویؒ کے دل میں ایک بڑا خواب پرورش پا رہا تھا، جو 1979ء میں اکل کوا کی دھرتی پر شرمندہ تعبیر ہوا۔ یہاں انہوں نے “جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم” کی بنیاد رکھی۔ چھ طلبہ اور ایک استاد سے شروع ہونے والا یہ ادارہ وقت کے ساتھ علم و عرفان کا ایک ایسا مرکز بن گیا، جو دینی و عصری تعلیم، فنی مہارت، پیشہ ورانہ تربیت اور رفاہی خدمات کا امتزاج بن گیا۔
یہ مدرسہ نہیں تھا، یہ ایک تحریک تھی۔ یہاں قال اللہ و قال الرسول کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی روشنی بھی دی جاتی ہے۔ یہاں کے نصاب میں صرف متونِ فقہ نہیں، بلکہ جدید معاشرتی اور سائنسی تقاضوں کی بھی عکاسی ملتی ہے۔ یہاں صرف عالم نہیں بنتے، باشعور، باہنر اور بامقصد انسان تیار ہوتے ہیں۔
مولانا کی زندگی کا ہر لمحہ خدمت خلق میں گزرا۔ وہ یتیموں کے لیے باپ، بیواؤں کے لیے سہارا، بیماروں کے لیے امید، اور محروموں کے لیے مسیحا بنے۔ ان کے ہاتھ خالی تھے، مگر دل مالا مال۔ وہ بولتے کم تھے، مگر ان کی خاموشی میں ایسی تاثیر تھی کہ بڑے بڑے خطیبوں کی تقریریں ماند پڑ جائیں۔
ان کی خدمات کا دائرہ صرف اکل کوا یا گجرات تک محدود نہ رہا، بلکہ ملک کے گوشے گوشے میں انہوں نے تعلیمی اور رفاہی ادارے قائم کیے۔ ایک مکمل ماڈل پیش کیا کہ دین و دنیا، مسجد و مدرسہ، ہسپتال و یونیورسٹی سب ایک چھت کے نیچے کیسے جمع ہو سکتے ہیں۔
ان کی قیادت کے اوصاف اس وقت مزید نمایاں ہوئے جب 1998ء میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے، اور 2011ء میں مہتمم کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ ان کے اصلاحی عزائم نے بعض حلقوں میں اضطراب پیدا کیا، اور ان کے چند بیانات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا۔ یوں اختلافات نے جنم لیا، اور 23 جولائی 2011ء کو ان سے منصبِ اہتمام واپس لے لیا گیا۔ مگر وہ دلوں کے مہتمم تھے، ان کے لیے عہدے اور مناصب کبھی معیار نہ تھے۔
ان کا اندازِ قیادت خاموش، مگر اثر انگیز تھا۔ وہ دھیرے سے بولتے، مگر ہر لفظ پتھر پر لکیر ہوتا۔ ان کی باتوں میں خلوص، نظر میں دوربینی، اور قدموں میں ثبات تھا۔ وہ خود مٹی میں گم رہے، مگر دوسروں کے لیے آسمان بن گئے۔
4 مئی 2025ء، بروز اتوار، 5 ذی القعدہ 1446ھ کو وہ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
افلاک رو رہے ہیں زمیں بھی اداس ہے
آنسو بہا رہی ہے فضا تیری موت پر
یہ صرف ایک شخصیت کا انتقال نہ تھا، بلکہ ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ ان کے جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوا ہے، جو شاید کبھی پُر نہ ہو سکے۔ مگر ان کی قائم کردہ درسگاہیں، ان کے پُرخلوص اولاد و شاگرد، ان کے خواب، اور ان کا اخلاص ہمیشہ زندہ رہے گا۔
وہ ہمیں سکھا گئے کہ علم صرف صفحوں میں نہیں، کردار میں بھی ہوتا ہے۔ وہ ہمیں دکھا گئے کہ قیادت صرف تقریروں میں نہیں، خدمت میں ہوتی ہے۔ اور وہ ہمیں بتا گئے کہ انقلاب نعرے سے نہیں، عمل سے آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے، اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔