
تقدیر کے فیصلوں کو سمجھنا انسان کے بس کی بات نہیں۔ حالات انتہائی مایوس کن تھے۔ ہر دل شکست کے احساس سے نڈھال تھا۔ بے حد تناؤ کا ماحول تھا۔ بظاہر معاہدۂ حدیبیہ کی بعض شقیں مسلمانوں نے دبتے ہوئے منظور کی تھیں؛ لیکن ایسے مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ نے صلحِ حدیبیہ کو فتحِ مبین سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا۔ (الفتح: ۱) (ہم نے آپ کے لیے کھلی فتح کا انتظام کر دیا)حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر اور صاحب فراست صحابی بھی حالات سے اس قدر متأثر تھے کہ پوچھ بیٹھے یا رسول اللہﷺ! کیا یہ فتح ہے؟ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:إی و الذی نفس محمد بیدہٖ إنّہ لفتح قسم ہے اس ذاتِ گرامی کی جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے۔ (مسند احمد، ابو داؤد) اس وقت کے حالات پر نظر ڈالیے! روایات پڑھیے تو لوگوں کی بے چینی اور بے اطمینانی کی کیفیت کا اندازہ ہوگا! ایمان کا تقاضا تھا کہ نبی کریم ﷺ کے اشاروں پر سرِ تسلیم خم کیا جائے سو تمام صحابہ نے ایسا ہی کیا؛ لیکن انسانی فطرت کے سبب بعض دلوں میں ایک خلش تھی کہ یہ کیسی فتح ہے، ہمیں عمرے سے روک دیا گیا، قربانی کے جانور بھی آگے نہ جا سکے؛ حتی کہ ہمارے مظلوم بھائیوں کو بھی ظالموں کے حوالے کرنا پڑا پھر آخر اس کو فتح کیوں کہا جائے؟ لیکن نبی اکرمﷺ فرما رہے تھے کہ یہ خیال غلط ہے، حقیقت میں یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے گھر پہنچ گئے تھے، مشرکینِ مکّہ ہر اعتبار سے بہتر پوزیشن میں تھے؛ لیکن انھوں نے خود جنگ بندی کی درخواست کی، خود تم سے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کی۔ ایک وہ دور تھا جب اُحد کے دن تم بھاگ رہے تھے اور میں تم کو پکار رہا تھا۔ سارا عرب جنگِ احزاب میں تم پر چڑھ آیا تھا، مشرکین کے دل میں تمہارے لیے جو کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے؛ لیکن پھر بھی اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر گزرے ہوئے لمحے کے ساتھ لوگوں پر صلح حدیبیہ کا فتح مبین ہونا واضح ہوتا چلا گیا۔ ٦ ہجری میں یہ بشارت سنائی گئی اور دو سال میں ہی جزیرۃ العرب کا نقشہ بدل گیا۔ تاریخ نے ‘‘نصراً عزیزاً’’(الفتح:۳) کی تفسیر کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا اور ‘‘اتمام نعمت’’(الفتح:۲) کی کارفرمائیوں اور جلوہ سامانیوں کو اپنے ریکارڈ میں محفوظ کیا، خوف و ہراس کے بادل چھٹ گئے، بیرونی حملوں اور مداخلتوں سے نجات ملی، اسلامی تہذیب و تمدن کا غلغلہ بلند ہوا، دعوتِ اسلامی کی فضا ہموار ہوئی، لوگ خیمۂ کفر سے نکل نکل کر اسلام کے دامن میں بصد شوق آنے لگے۔
حالات کی سنگینی
اطرافِ مدینہ کے بدوؤں کی سوچ اور صورت حال کی نزاکت کا اس سے اندازہ کیجیے کہ جن کو نبیﷺ نے عمرہ پر جانے کی دعوت دی تھی، وہ سوچ رہے تھے کہ اب نبیﷺ اور ان کے ساتھی وادئ مکّہ میں ہی دفن کر دیے جائیں گے، انھیں کفر کی شوکت و طاقت پر اتنا بھروسا تھا کہ انھوں نے دور رہ کر تماشا دیکھنے کا فیصلہ کیا، وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ اب تو اسلام کی یہ تحریک ختم ہو جائے گی، اب یہ لوگ بچ نہ سکیں گے، دوبارہ کبھی اپنے گھر نہ آ سکیں گے، وہ طرح طرح کی لچر باتیں کر رہے تھے اور مزے لے رہے تھے۔ اف! قرآن مجید نے کس اختصار و بلاغت کے ساتھ تصویر کشی کی ہے، وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ پر دیر تک ٹھہر کر میں سوچتا رہا اور آج کے ان لبرل یا صلح حدیبیہ سے غلط استدلال کرنے والوں کے بارے میں سوچتا رہا، جو جہاد و مزاحمت کا لفظ سن کر ہسٹریائی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جنھیں خون دیکھ کر ڈر لگتا ہے، جو اس فلسفے کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ‘‘امن کے لیے کبھی جنگ بھی ضروری ہوتی ہے’’، جو طاقت کے توازن کو عقیدہ کی طرح تصوّر کرتے ہیں، جو مغرب اور اس کی دجّالیت اور شیطانی طاقت کا اس طرح تذکرہ کرتے ہیں گویا خدا کی طاقت ، قرآن کی بشارت اور عزیز و حکیم کی نصرت کے وعدے انھیں یاد ہی نہ ہوں، جو ہر حال میں مصالحت و مصلحت کی رٹ لگاتے ہیں اور کفر کی شوکت کے حوالے دیتے ہیں، خدا نے ان ہی کا نقشہ تو کھینچا ہے۔ وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ پڑھیے ذرا…..! بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا۔ (الفتح: ۱۲) (بلکہ تم یہ سمجھ رہے تھے کہ رسول اور ایمان والے اب کبھی اپنے گھر والوں کے پاس واپس نہ آ سکیں گےاور تم بُرے گمان کر رہے تھے اور تم اپنی بربادی کا انتظام کر رہے تھے۔)
لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے:وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَاتِ الظَّانِّينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا۔ (الفتح: ٦) (اور منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے جو اللہ کے بارے میں برا گمان رکھتے ہیں، بربادی انھیں کی ہونی ہے، اللہ ان پر غضب ناک ہے، وہ ان پر لعنت برساتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے، جو بہت بُرا انجام ہے۔
تاریخ کا یہ باب اپنی تفصیلات کے ساتھ ذہن میں رکھیے، پھر آج کے حالات کا مشاہدہ کیجیے۔ خدا کے وعدوں پر یقین میں اضافہ کیجیے، قرآن کی بلاغت و حقانیت پر سر دھنیے۔٤٧١؍دنوں کے بعد غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ہوا ہے، معاہدہ کی شقیں پڑھیے تو فتح کا صحیح اندازہ ہوگا،ایک صہیونی قیدی کے بدلے صہیونی ریاست ۳۰؍قیدی رہا کرنے کی پابند ہے، اس میں ایسے قیدی بھی شامل ہیں، جو صہیونی جیلوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جنگ بندی کا یہ معاہدہ کئی مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلا مرحلہ ٤٢؍دنوں پر محیط ہے، اس دوران حماس صرف ۳۳؍قیدی رہا کرے گا،اور حیرت کی بات ہے کہ ٤٧١؍دنوں تک اسرائیل نے غزہ پر تباہ کن بمباری کی، بستی کو کھنڈر بنا دیا، اسپتال تباہ کر دیے، مسجدیں ڈھا دیں، لوگوں کو بے گھر کر دیا، ستّر ہزار سے زائد لوگ شہید ہو گئے، لاکھوں لوگ زخمی ہو گئے؛ لیکن صبر و استقامت اور مضبوط جنگی حکمتِ عملی نے پاگل ہاتھی کو اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا، امّت کے منافقین اور منافق اکبر نا محمود عباس نہیں چاہتا تھا کہ حماس کے خاتمے سے قبل معاہدہ ہو، اسرائیل نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وہ حماس کو ختم کر کے ہی دم لے گا۔ یہ دونوں ہی اس کے لیے کوشاں تھے کہ اگر معاہدہ ہو بھی جائے تو جنگ بندی کے بعد غزہ کا کنٹرول مقاومہ کے ہاتھ میں نہ رہے؛ لیکن خدا کا منصوبہ کچھ اور تھا، اس نے اہلِ غزہ کے ہونٹوں پر خوشی بکھیر دی اور اسرائیل میں صفِ ماتم بچھ گئی، معاہدہ پر دستخط کرتے ہوئے اسرائیل کے کئی وزراء رو پڑے۔ ایک متشدد صہیونی وزیر نے تو استعفیٰ دے دیا، اسرائیل کو معاشی طور پر جو نقصان پہنچا وہ کچھ کم نہیں، جو جانی نقصان پہنچا بالخصوص شمالی غزہ میں اس کو جس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اس پر اس نے پردہ ڈالنے کی بھرپور کوشش کی؛ لیکن اس میں بھی اسے کامیابی نہ مل سکی، اس کی صفوں میں انتشار ہوا، اس کے عوام کا ایک طبقہ صہیونی وزیرِ اعظم کے خلاف کھڑا ہوا، اسے اپنے کسی ایک مقصد میں بھی کامیابی نہ ملی، حد یہ ہے کہ وہ تمام تر دجالی اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے باوجود بھی اپنے قیدیوں تک کا پتہ نہ لگا سکا، امریکی وزیر خارجہ بلینکن کو کہنا پڑا کہ ‘‘مقاومہ کو صرف عسکری طریقے سے شکست دینا ممکن نہیں، شمالی غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس کی دلیل ہے۔ مقاومہ نے جتنا نقصان اٹھایا بظاہر اتنی ہی نئی بھرتی کر لی ہے’’۔ ہم تو پہلے ہی لکھ چکے تھے کہ مقاومہ ایک فکر کا نام ہے اور فکریں جنگوں سے نہیں مٹائی جا سکتی ہیں، یوں بھی بزدل و قاتل صہیونی افواج حماس کی عسکری طاقت توڑنے میں ناکام رہی ہیں، ہاں انھوں نے عالمی انسانی حقوق کے اداروں پر تھوکتے ہوئے محض حماس پر دباؤ بنانے کے لیے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو شہید کیا، اسکول و اسپتال تباہ کیے؛ لیکن سلام ہے غزہ کے غیور عوام کو جنھوں نے اپنی تحریک کو جھکنے نہ دیا، بلکہ اعلان جنگ بندی کے بعد سب یہ کہتے پائے گئے کہ الحمد للہ ہم سب بخیر ہیں اور ہماری مزاحمت بھی بخیر ہے۔جنگ بندی کے اعلان کے بعد جب مجاہدین سڑکوں پر نکلے تو ایک اسرائیلی صحافی نے کہا: ‘‘آپ جنگ کے اگلے دن کے مناظر کا مشاہدہ کر رہے ہیں، حماس کے فوجی غزہ کی سڑکوں پر پِھر رہے ہیں، بہادروں اور جیالوں کی طرح ان کا استقبال کیا جا رہا ہے، ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی’’۔ واقعی حماس کے جیالوں کا جس طرح غزہ کے غیور عوام نے استقبال کیا، اس استقبال میں اِن قرآنی آیات کی حقانیت مجسّم نظر آئی:وَكَاَیّن مِّن نَّبِىٍّۢ قٰتَلَ مَعَهٗ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌۭ فَمَا وَهَنُوا۟ لِمَآ أَصَابَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللهِ وَمَا ضَعُفُوا۟ وَمَا ٱسْتَكَانُوا۟ وَٱللهُ يُحِبُّ ٱلصّٰبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّآ أَن قَالُوا۟ رَبَّنَا ٱغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِىٓ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ فَـآتٰهُمُ ٱللهُ ثَوَابَ ٱلدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ ٱلْآخِرَةِ وَٱللهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ۔ ( آلِ عمران: ۱۴۶-۱۴۸)(اور کتنے نبیوں کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے مل کر (کفر کی طاقتوں سے) جنگیں کیں اور اللہ کے راستے میں جو مصائب آئے ان کی وجہ سے وہ بزدلی کا شکار نہ ہوئے اور نہ کمزور پڑے اور نہ ڈھیلے اور سست ہوئے (کہ ڈگیں ڈال دیں) اور اللہ مضبوطی سے جمنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ انھوں نے بس یہی کہا کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ اور اپنے معاملات میں ہمارے حد سے گزر جانے کو معاف فرما دے، ہمارے قدم جما دے اور ہمیں کافروں پر مدد و نصرت عطا فرما تو اللہ نے ان کو دنیا کی جزائے خیر بھی دی اور آخرت کا بہترین ثواب بھی اور اللہ اچھے کام کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)
جو قوم جری ہو، غیور ہو، آزادی کی دیوانی ہو، جس نے حالات سے لڑنا سیکھ لیا ہو، جس نے مصائب کو برداشت کرنا سیکھ لیا ہو، جو اپنے مجاہدین کے شانہ بشانہ کھڑی ہونے پر فخر کرے، اسے کوئی شکست دے سکتا ہے نہ رسوا کر سکتا ہے۔ ہم نے مجاہدین کو ایک ویڈیو میں کہتے ہوئے سنا کہ آپ کے لیے اس وقت جنگ بہت آسان ہو جاتی ہے، جب آپ کی پشت پر غزہ جیسی قوم ہو، غزہ کی غیور ماؤں نے شہادتوں کے باوجود جس طرح حماس کے مجاہدین کا استقبال کیا ہے اس پر تاریخ بھی ششدر ہے، بعض ماؤں نے تبادلے میں رہائی پانے والے اپنے نوجوان بچوں کو گلے لگاتے ہوئے ان کی پیشانی پر قسام کی سبز پٹی باندھ دی۔ واقعی غزہ کے لوگوں نے اپنی ایمانی قوت اور صبر و استقامت سے ہی صہیونی دہشت گرد کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا ہے اور مستقبل میں بھی وہ ایسا کریں گے، اس کا واضح پیغام دے دیا ہے۔
اہلِ غزہ نے ایسے تمام لوگوں کے منہ پر خاک ڈالی ہے جو دور کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے، جو سمجھ رہے تھے کہ شکست ان کا مقدر بنے گی، مقاومہ ختم ہو جائے گی، تحریک مزاحمت دم توڑ دے گی، آزادی کے نعرے بھولی بسری داستان بن جائیں گے، صہیونی اژدھا سب کو نگل جائے گا، شہید اسماعیل ہنیہ کی بہو نے بتایا کہ آج کا دن ان تمام لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو ہماری شکست کے منتظر تھے، آج کا دن نہ صرف فتح کا دن ہے؛ بلکہ ایسے منافقوں اور منافق بدوؤں کے منہ پر آج کا دن خاک ڈال گیا ہے، غزہ کی سڑکوں پر عوام نے اسماعیل ہنیہ، یحیٰ السنوار اور محمد الضیف کے نام لے لے کر نعرے لگائے اور دنیا کو بتایا کہ تحریک زندہ ہے اور مزاحمت جاری رہے گی۔ ویسے بھی غزہ میں حماس کے قائد خلیل الحیہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ہماری جنگ کا عنوان مسجدِ اقصیٰ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے، مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور فلسطینی ریاست کے قیام تک ہماری جنگ و مزاحمت کے یہ عنوان باقی رہیں گے۔ مزاحمت کا وجود صہیونی قبضے کی وجہ سے ہے، قبضہ کا خاتمہ اور فلسطینی ریاست کا قیام ہی مسئلہ کا حل ہے، اس کے بغیر مزاحمت ختم ہوگی نہ جنگ۔ یہ جنگ بندی کتنے دنوں پر محیط ہوگی، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، دوغلے امریکہ کا کیا رویّہ ہوگا یہ بھی ابھی کہہ پانا مشکل ہے۔ ٹرمپ نے عندیہ دے دیا ہے کہ وہ غزہ پر حماس کا کنٹرول نہیں چاہتا، یہی منشا غلام فلسطینی اتھارٹی اور عرب بدوؤں کی ہے؛ لیکن کیا یہ منشا پوری ہوگی؟ کیا آزادی فلسطین کی تحریک ختم ہو جائے گی؟ حماس تو ہے جو صدی ڈیل کے نفاذ، بیت المقدس کے صہیونی راجدھانی بننے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، کیا یہ رکاوٹ دور کر دی جائے گی؟ کیا دنیا اور خود فلسطینی اور عرب یہی چاہتے ہیں؟ کیا گریٹر اسرائیل کے قیام سے وہ راضی ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر غور کرنا ہوگا، بظاہر عرب حکمران تو سرینڈر کر چکے ہیں، حماس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ عرب دنیا انھیں اس طرح بے سر و سامان چھوڑ دے گی، انھوں نے تو ۷؍اکتوبر کو محاصرہ توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا، انھیں کیا معلوم تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان اس قدر مجبور و بے بس ہو جائیں گے کہ وہ جنگ بندی معاہدہ کے لیے بھی مداخلت نہ کر سکین گے، بہرحال ہمیں مزاحمت کی تاریخ اور ان کی فراست و منصوبہ بندی اور جذبۂ قربانی و سرفروشی پر پورا بھروسا ہے کہ ٹرمپ کی منشا پوری ہوگی نہ اسرائیل کا منصوبہ۔ وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرُ اللہ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْن اللہ ہی ہے جو فتح مبین کی راہیں ہموار کرے گا اور لوگ اپنی آنکھوں سے اس معاہدے کے اثرات دیکھیں گےاور مشاہدہ کریں گے کہ یہ معاہدہ کس طرح فتح مبین میں تبدیل ہوگا۔
بہرحال حالیہ منظرنامہ تو یہ ہے کہ دشمن نے کہا تھا ہم شہر عزیمت کو جغرافیائی نقشے سے مٹا دیں گے؛ مگر شہرِ عزیمت کی استقامت نے دشمن کو ہزیمت دے کر تاریخ میں ہمیشہ کے لیے اپنے وجود کو ثبت کر دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں صرف وسائل سے نہیں لڑی جاتی ہیں، صرف تعداد اور فوجی طاقت ہی شکست و فتح کا فیصلہ نہیں کرتی ہے، سود و زیاں کا فیصلہ صرف جانی و مالی نقصان پر منحصر نہیں ہوتا۔ اقبال کہہ گئے ہیں:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا
اللہ کو پا مردی مؤمن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
پہلی بار ایسا ہوا کہ امریکہ کے تمام تر تعاون کے باوجود اسرائیل کو عالمی طاقتوں سے مدد لینی پڑی، عالمی سطح پر اسے جنگی مجرم، دہشت گرد اور نسل پرست قرار دیا گیا، اس کی ہتھیار کی منڈی سرد پڑی، اس کے سیکورٹی سسٹم کا بھرم ٹوٹا، اسے عسکری، سیاسی اور میڈیائی سطح پر منہ کی کھانی پڑی، اخلاقی طور پر تو وہ پہلے ہی دیوالیہ ہے۔ اس قوم کی اخلاقی پستی کا جو بیانیہ قرآن مجید نے پیش کیا ہے، وہی آج بھی نظر آتا ہے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ۴۷۱؍دنوں کی مسلسل جارحیت کے بعد بھی اسے جھک کر معاہدۂ جنگ بندی کرنا پڑا ہے۔ سوال تو یہی ہے کہ یہ معاہدہ کس کی فتح اور کس کی شکست ہے؟ دنیا تو صرف اسرائیل سے سوال کر رہی ہے کہ جس نے ہر حال میں حماس کو مٹانے کی قسم کھائی تھی، وہ معاہدہ پر کیوں راضی ہوا؟ جس نے بار بار کہا تھا کہ قیدیوں کو چھڑانے کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہوگا، طاقت کے ذریعے حماس کو کچل کر قیدی رہا کرائے جائیں گے، وہ تو قیدیوں کا پتہ بھی نہ لگا سکا! سوال یہ ہے کہ کون کمزور پڑا اسرائیل یا حماس؟ کس کی کمزوری کے سبب یہ معاہدہ ہوا؟ عالمی عدالت نے کسے مجرم قرار دیا؟ کس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے گئے؟
واقعہ یہ ہے کہ معرکہ طوفان اقصیٰ نے قضیۂ فلسطین کو زندہ کیا ہے، بچوں اور نوجوانوں کو مزاحمت کے معنیٰ سمجھا دیے، قربانیوں کا درس دیا، صبر و شجاعت اور پامردی کی مثال قائم کی اور سب کو مقاومہ کی تاریخ و جاں بازی سے واقف کرا دیا،آزادی فلسطین کی تحریک کو پھر سے زندہ کر دیا، عرب بدوؤں بشمول نا محمود عباس کے منہ پر خاک ڈال دی، شہرِ قدس کو صہیونی ریاست کی راجدھانی بننے کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی، مشرقِ وسطیٰ کی سیاست؛ بلکہ دنیا بھر کی سیاست کا رخ بدل دیا، دہشت گردی کی تعریف بدل دی، دنیا نے صہیونیت کو دہشت گرد تسلیم کیا، مجاہدین کو دہشت گرد کہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ عالمی طاقتیں ان سے مذاکرات کر رہی ہیں۔ دنیا نے پہلے بھی دیکھا تھا کہ ‘‘افغانی دہشت گردوں’’ سے امریکہ نے بات چیت کی، جب وہ ‘‘افغانی ملا’’ حکومت تشکیل دے رہے تھے، اس وقت گودی میڈیا انھیں دہشت گرد کہہ رہا تھا؛ لیکن اب جب خود ہمارے خارجہ سکریٹری ان سے بات کر رہے ہیں تو وہی میڈیا اس بات چیت کو اہم پیش رفت قرار دے رہا ہے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے، اس وقت اور آج کے معاہدہ نے پھر یہ بات ثابت کر دیا کہ عالمِ کفر صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ دیسی لبرل بھی سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ طاقت ہی کے ذریعے بات منوائی جا سکتی ہے، جنھیں بڑے فریب سے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے، ان ہی کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے مذاکرات کیے جاتے ہیں۔ ‘‘اعدادِ قوت’’ کا یہی نتیجہ ہے اور‘‘تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدوّ اللہِ’’ کی یہی تفسیر ہے۔ تاریخ اس دوغلے پن کو بھی ریکارڈ کر رہی ہے کہ صہیونی مظالم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور فلسطینی مزاحمت کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاتا ہے، صہیونی قیدیوں کو ‘‘بندھک’’ کہا جاتا ہے اور اسرائیل جب جسے چاہے اسے قید کر دے، دوغلی دنیا اسرائیل کی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو بندھک سے نہیں تعبیر کرتی، دوغلا میڈیا یہ تصویریں بھی نہیں دکھاتا کہ حماس کی قید سے رہا ہونے والوں کے چہرے کیسے شاداب ہوتے ہیں، صحت کیسی اچھی ہوتی ہے؛ لیکن اسرائیلی جیلوں سے نکلنے والے فلسطینی کس طرح اپنی زندگی ہا چکے ہوتے ہیں، ان کی تصویریں ظلم و جارحیت اور بربریت کی کیسی خوف ناک کہانیاں سناتی ہیں، ہمیں تو افسوس ان بے چاروں پر ہوتا ہے، جو اس دوغلے میڈیا اور سستے دانش وروں کا حوالہ دیتے ہیں۔
سچائی یہی ہے کہ اسرائیل نے اس جنگ میں بہت کچھ کھویا ہے، اس کے جنگی نظریے کو شکست ہوئی ہے، اس کی فوجی طاقت اور اس کا غرور خاک میں ملا ہے، حماس کے پاس کھونے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں، اس نے تو پایا ہے، اس نے غزہ کا محاصرہ توڑا، اس نے اسرائیل کو مزاحمت کا سبق پڑھایا، اس نے تحریک آزادی کی عالمی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ کیا، اس نے تمام تر غیر متوازن حالات اور نا مساعد و نا ہموار فضا میں جنگ کرنے کا سبق دیا۔ اس نے بتایا کہ قوت کا توازن، تعداد کا تواززن، وسائل کا توازن مطلوب نہیں، مطلوب ہے تو اعداد قوت اور پھر صبر و استقامت۔ اس نے پھر ثابت کیا کہ مؤمن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ایسی خوف ناک جنگ میں اپنا وجود باقی رکھنا اور اپنی شرطوں پر دشمن کو جھکانا اور آزادی کی جوت جگانا از خود فتح کی دلیل ہے، دنیا بھر میں صہیونیت کے خلاف فضا بننا اور فلسطینی مزاحمت کو حمایت ملنا اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی پُر زور آواز اٹھنا فتح مبین نہیں تو اور کیا ہے؟ اعلان جنگ بندی کے بعد مقاومہ اپنی پوری شوکت کے ساتھ سڑکوں پر ہے اور اسرائیلی وزراء رو رہے ہیں، استعفیٰ دے رہے ہیں، ماتم کر رہے ہیں، ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں، اب چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ یہ خضوع اور تسلیم و رضا درست نہیں، ایندھن اور امداد روک کر قیدیوں کو چھڑانا چاہیے؛ مگر وہ یہ سب بھی کرکے دیکھ چکے، نتن یاہو نے بھوک مری کو جنگی ہتھیار کے طور پر آزما کر دیکھا، مگر سلام ہو اہلِ غزہ پر کہ انھوں نے شعب ابی طالب کی مثال بھی پیش کی، انھوں نے عہدِ صحابہ کی یاد دلا دی،صبر و استقامت کے ذریعہ وہ عزت و حرّیت کا رمز بن گئے، ان کی ایمانی قوت کے آگے ساری طاقتیں زیر ہو گئیں، یہ آیات آپ بھی پڑھ لیجیے جو جناب ابو عبیدہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں پڑھی ہیں۔وَقَضَيْنَآ إِلَىٰ بَنِىٓ إِسْرٰٓءِيلَ فِى ٱلْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِى ٱلْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا۔ فَإذَا جَآءَ وَعْدُ أُولَىٰهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ أُو۟لِى بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا۟ خِلَالَ ٱلدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ ٱلْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنٰكُم بِأَمْوٰلٍ وَّبَنِينَ وَجَعَلْنٰكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا إنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإذَا جَآءَ وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُــُٔوا۟ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا۟ مَا عَلَوْا۟ تَتْبِيرًا۔ (الاسراء: ۴-۷) (ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل کو یہ فیصلہ سنا دیاتھا کہ تم روئے زمین پر دو مرتبہ بڑا فساد مچاؤ گے اور بڑی طاقت حاصل کرو گے پھر جب ان میں سے پہلی مرتبہ کے وعدے کے پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم تم پر زبردست جنگ کرنے والے اپنے بندے مسلط کریں گے، جو علاقوں میں گھستے چلے جائیں گے اور یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا ۔ پھر ہم تمھیں ان پر پلٹنے کا موقع دیں گے اور مال اور اولاد کی خوب ریل پیل کریں گے اور تمہاری تعداد بڑھا دین گے پھر اگر تم اچھا رویّہ اختیار کرو گے تو خود اپنے لیے اچھا کرو گے اور اگر تم بدی کا رویّہ اختیار کرو گے تو اس کا نتیجہ بھگتو گے۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آئے گا، کہ جب (تمہارے دشمن) تمہارے چہرے بگاڑ دیں گے اور مسجد میں داخل ہوں گے، جس طرح پہلے داخل ہوئے تھےاور (تمہارا) سارا اقتدار تباہ کر دیں گے۔