
کل مسجد اشاعتِ اسلام (مرکز جماعت اسلامی ہند) میں بعد نمازِ عصر کی تذکیر میں میں نے ایک حدیث کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا کہ ہر نماز اس طرح پڑھی جائے جیسے وہ زندگی کی آخری نماز ہو – (ابن ماجہ :4171) میں نے کہا کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی موت کب واقع ہوگی؟ اور کہاں ہوگی؟ طبعی موت ہی نہیں آتی ، بلکہ آئے دن ایکسیڈنٹ ہوتے رہے ہیں اور اچانک موت کسی کو اُچک لیتی ہے –
کیا خبر تھی کہ تھوڑی دیر کے بعد ہی اس کی مثال ہمارے سامنے آجائے گی – عشاء کے وقت بھائی رضوان احمد رفیقی فلاحی اسسٹنٹ سکریٹری جماعت اسلامی ہند نے جعفر بھائی کے ایکسیڈنٹ کی خبر دیتے ہوئے تصدیق چاہی – میں نے موبائل اٹھاکر واٹس ایپ کھولا تو بہت سے پیغامات موجود تھے ، جن میں حادثہ کی خبر اور اس کی تفصیلات موجود تھیں – جعفر بھائی ایک مصاحب کے ساتھ بائک پر کسی ضرورت سے رائے بریلی شہر گئے تھے – واپسی میں ایک جگہ سڑک کے کنارے رُک کر اپنا مفلر درست کرنے لگے کہ اچانک پیچھے سے ایک گاڑی نے ٹکر مار دی – وہ اسی جگہ جاں بحق ہوگئے اور مصاحب شدید زخمی – اس سے معلوم ہوا کہ زندگی اور موت کا رشتہ کتنا کم زور ہے ! کچّے دھاگے کی طرح – انا للہ وانا الیہ راجعون –
دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں میرا داخلہ پچاسی سالہ جشنِ تعلیمی کے بعد 1975 میں اُس وقت کے عربی سوم میں ہوا – وہ بھی اسی سال ندوہ آئے اور اسی درجہ میں ان کا داخلہ ہوا – اس سے قبل وہ حفظ اور ابتدائی تعلیم رائے بریلی میں حاصل کرچکے تھے – وہ شہر سے آتے تھے اور تعلیم سے فارغ ہوکر گھر چلے جاتے تھے ، اس لیے ندوہ کیمپس میں انہیں زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا تھا ، لیکن ان کے ایک شوق نے انہیں ندوہ کیمپس سے باندھ رکھا تھا – انہیں کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا – وہ بہت اچھے کھلاڑی تھے – اس لیے ندوہ میں ہونے والے میچوں میں وہ کسی نہ کسی ٹیم کا ضرور حصہ بنتے تھے – ہم لوگوں نے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضیلت کی – خوش قسمتی سے ہماری کلاس ممتاز طلبہ پر مشتمل تھی – حشمت اللہ ، اکرم ، وزیر ، عبد الحی ، عمر لداخی ، آفتاب ، خالد کان پوری ، خالد گونڈوی ، عبد القیوم کشمیری ، عبد الرزاق ، نجم الحسن ، عبد الحسیب ، نثار احمد اور جعفر بھائی – (اس وقت اتنے ہی نام یاد آرہے ہیں -) یہ سب اپنی امتیازی صلاحیتوں کی وجہ سے اساتذۂ ندوہ کو محبوب تھے – میرے اور جعفر بھائی کے درمیان ایک قدرِ مشترک تھی : خاموش مزاجی اور کم آمیزی – لیکن اس کے باوجود معلوم نہیں کیسے ہمارے درمیان بہت قربت اور دوستانہ ہوگیا تھا – شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد گرامی مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی ہمارے استاد تھے – وہ پندرہ روزہ عربی جریدہ الرائد کے ایڈیٹر بھی تھے – کلاس کے علاوہ ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا – وہ اردو اخبارات سے اہم خبریں نشان زد کرکے ہم سے عربی میں ترجمہ کرواتے ، پھر ہمارے ترجموں کو قابلِ اشاعت بناکر الرائد میں چھاپ دیتے – اس طرزِ تربیت سے بہت حوصلہ ملا اور یہی چیز بعد میں پورے اعتماد کے ساتھ لکھنے کی بنیاد بنی –
ندوہ سے فراغت کے بعد میں علی گڑھ چلا گیا – جعفر بھائی نے لکھنؤ یونی ورسٹی سے عربی میں ایم اے اور جامعة الملك سعود ریاض سے ٹیچرز ٹریننگ کورس کیا ۔ وہ لکھنؤ ہی میں واقع ندوۃ العلماء لکھنؤ کی شاخ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں استاد ہوگئے ، جہاں سے ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے وظیفہ یاب ہوئے تھے – ان کا اصل موضوع تفسیر ، حدیث اور فکر اسلامی تھا – انھوں نے ان موضوعات پر بہت سے ادبی و فکری مقالات لکھے ہیں – کئی کتابوں کا اردو سے عربی میں ترجمہ کیا ہے – سوشل میڈیا پر ان کے بہت سے خطابات سننے کا موقع ملا ، جس سے اندازہ ہوا کہ دعوتی و اصلاحی موضوعات پر ان کی گفتگو بہت مؤثر ہوتی تھی – اپنے والد ماجد کی وفات (2019) کے بعد انھیں ‘الرائد’ کا مدیر بنا دیا گیا تھا – کچھ عرصہ سے ندوہ میں فکر اسلامی کے موضوع پر کلاس لینے لگے تھے – مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی کے ناظم ندوہ منتخب ہونے کے بعد ان کی ناظر عام کی حیثیت سے تقرری عمل میں آئی تھی ۔
ندوہ سے جدا ہونے کے بعد سے اب تک ہمارے تعلقات کی گرم جوشی میں ذرا بھی کمی نہیں آئی تھی – وقتاً فوقتاً ملاقات ہوتی تو ہم کچھ دیر بیٹھ کر پرانی یادیں تازہ کرلیتے – کبھی فون پر بات ہوجاتی – واٹس ایپ پر بھی رابطہ رہتا – ایک بار ملاقات کے لیے ان کے گھر پہنچا تو انھوں نے کھانا کھلائے بغیر واپس نہیں ہونے دیا – ایک بار ملاقات ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تو میں نے فون کیا : ” آپ سے بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی ہے – لکھنؤ اسٹیشن پر ہوں – دہلی جارہا ہوں – ٹرین اتنے بجے چُھوٹے گی – فرصت ہو تو آجائیے – “ انھوں نے جواب دیا :” آتا ہوں – “ ٹرین دیر رات چھوٹتی تھی – چند منٹ کی ملاقات کے لیے کسی کو بڑی زحمت میں مبتلا کرنا اور ریلوے اسٹیشن بلانا ، اب سوچتا ہوں کہ میں نے کتنی بڑی بے وقوفی اور جسارت کرلی تھی – لیکن جعفر بھائی تشریف لائے ، ٹرین چھوٹنے تک رُکے رہے ، چائے پی گئی اور باتیں ہوتی رہیں – اُن دنوں میں تصنیفی اکیڈمی جماعت اسلامی ہند کا سکریٹری تھا – میں نے ان سے خواہش کی کہ کچھ کتابوں کا اُجرت پر اردو سے عربی میں ترجمہ کروانا چاہتا ہوں – آپ خود ترجمہ کردیجیے یا کسی سے کروادیجیے ، لیکن اسے قابلِ اشاعت بنانا آپ کی ذمے داری ہوگی – وہ تیار ہوگئے – لیکن آئندہ عملاً اس کی کوئی صورت نہیں بن سکی –
میرے بہت سے کام جعفر بھائی کی وساطت سے بہت آسانی سے ہوجاتے تھے – ایک واقعہ یاد آرہا ہے – چند برس قبل جماعت اسلامی ہند کی طرف سے کل ہند سطح پر اصلاح معاشرہ مہم طے کی گئی – ذمے داروں کے کہنے پر اس کا تعارفی کتابچہ میں نے اردو میں تیار کیا ، جس کا ہندی اور انگریزی میں ترجمہ کروالیا گیا اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کے لیے حلقوں کو بھیج دیا گیا – مہم کمیٹی نے تجویز دی کہ اگر اس پر مقدمہ مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی سے ، جو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ہیں ، لکھوالیا جائے تو بہت اچھا رہے گا – مولانا کی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اُن سے اس خواہش کا اظہار کرنے کی ہمّت نہ ہوتی تھی – بہر حال میں نے ایک خط مولانا کے نام ڈاک سے بھیج دیا ، لیکن ساتھ ہی جعفر بھائی کو فون کیا کہ میرا یہ کام کروادیں – انھوں نے وعدہ کیا اور چند دنوں میں مقدمہ لکھواکر بھیج دیا –
گزشتہ دو برس سے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی مجلس تحقیقات شرعیہ کی جانب سے فقہی موضوعات پر سمینار ہونے لگے ہیں – اس طرح ندوہ میں حاضری کا بہانہ مل گیا ہے – 2023 کے سمینار میں شرکت کے لیے حاضری کا پروگرام بنا تو جعفر بھائی کو میسیج کیا ، لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوسکی – بعد میں میں نے شکایت کی تو انھوں نے معذرت کی کہ اہلیہ کی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ندوہ نہیں آپایا تھا – گزشتہ برس (2024) کے سمینار میں پھر حاضری ہوئی تو میں نے انہیں پہلے سے اطلاع کردی – اس طرح ان سے ملاقات یقینی ہوگئی – ندوہ کے مہمان خانے میں بیٹھ کر دیر تک ان سے باتیں ہوتی رہیں – میں نے کہا کہ جمعیۃ الاصلاح کے ذمے داروں نے میرا ایک پروگرام طے کرلیا ہے – کہنے لگے : آپ جب بھی ندوہ آئیں ، ہم آپ کے لیکچر کروائیں گے – طلبہ کو آپ جیسے لوگوں سے استفادہ کا موقع ملنا چاہیے –
16 دسمبر 2024 کو امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی کا ندوے کا دورہ طے پایا – مجھے ان کی رفاقت کرنی تھی – جماعت کے ریاستی ذمے داروں نے ندوہ جاکر ذمے داروں سے ملاقات کرکے دورہ کی تفصیلات طے کرلیں ، لیکن میں نے جعفر بھائی کو براہ راست فون کیا کہ میں امیر جماعت کے ساتھ ندوہ آرہا ہوں – انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا – ندوہ میں عصر کے بعد حاضر ہونا تھا – ہمیں پہنچنے میں دیر ہونے لگی تو انھوں نے مجھے فون کرکے دریافت کیا کہ کب تک پہنچ رہے ہیں؟ ہم مغرب سے قبل پہنچے تو انہیں اور دیگر اساتذۂ ندوہ کو مہمان خانے میں سراپا انتظار پایا – امیر جماعت کی مختصر گفتگو کے بعد تبادلۂ خیال ہوا – مغرب کی نماز کے بعد پھر بیٹھے اور گفتگو کا سلسلہ جاری رہا – پُر تکلف ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا – ناظم ندوہ مولانا بلال حسنی کہیں سفر پر تھے – جعفر بھائی نے ان کی نیابت کی – انھوں نے مجھے اپنے قریب بٹھایا اور محبت کی بارش کرتے رہے – اس کے بعد ہم لوگوں نے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام اور کتب خانہ شبلی کی زیارت کی – بہت سے اساتذہ اور طلبہ ساتھ تھے – مجلس کی اہم مطبوعات کا ایک سیٹ امیر جماعت کو تحفۃً پیش کیا گیا – کتب خانہ کی وسعت ، مخطوطات کی حفاظت اور اختصاصی شعبوں کے طلبہ کے انہماکِ مطالعہ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی –
بھائی جعفر بہت سی خوبیوں کے مالک تھے – ان کی ہمہ جہت صلاحیتیں اپنی جگہ ، لیکن ان کی نجابت و شرافت ان سب پر مستزاد تھی – ان کی اچانک وفات ملتِ اسلامیہ ہندیہ کے لیے تو خسارہ ہے ہی ، لیکن میں اپنے ایک قریبی دوست اور ساتھی سے محروم ہوگیا ہوں – ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اپنا کام پورا کرکے اس کا صلہ پانے کے لیے بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوجانا ہے – فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَنْتَظِر
اللہ تعالیٰ بھائی جعفر کی مغفرت فرمائے ، انہیں ان کی خدمات کا اجرِ جزیل عطا فرمائے ، انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین یا رب العالمین !