سلسلۂ تعارف کتب
زندگی کیا ہے سے لے کر زندگی کیوں ہے کے سوال سے اٹھنے والی تشکیکی رَو شاید انسان سے بس اس کے احساسات یا خیالات کا اظہار کرواتی ہے۔ زندگی کیوں ہے کے تو بہت سے جوابات ہیں، لیکن کیا ہے کا کوئی جوابِ آخر نہیں ہے۔ نہ شاید ہو سکتا ہے۔ زندگی کے جلو میں پنپنے والے مناظر اور واقع ہونے والے اوقات انسان کے دماغ میں ثبت ہو جاتے ہیں، بعض اگلے حصے میں اور بعض پچھلے میں۔ لیکن اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب انسان کبھی ان مناظر کی مصوری کرنا چاہتا یا ان اوقات کی باز گشت سننا چاہتا ہے۔ سوانح لکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز سے اس کا شکوہ کیا ہے۔
پیشِ نظر کتاب "اور پھر ایک دن” (and then one day) معروف بالی ووڈ اداکار نصیر الدین شاہ کی خود نوشت سوانح ہے۔ یہ ترتیب وار واقعات بیان نہیں کرتی بلکہ جہاں جہاں جیسے جیسے لکھنے والے کو یاد آتا جاتا ہے وہ اس کو اظہار کرتا چلا جاتا ہے۔ اس بات کی شکایت یا اِس کی طرف توجہ صاحبِ کتاب نے دیباچے میں کی ہے۔ نصیر الدین شاہ بارہ بنکی کے پاس ایک چھوٹے سے قصبے میں "٢٠ جولائی ١٩٤٩ یا ١٦ اگست ١٩٥٠” کو پیدا ہوئے۔ بارہ بنکی سے شروع ہونے والی کہانی اب بھی اپنے مرکزی کردار کو در در لیے پِھر رہی ہے۔
اس زمانے کے عام مذاق اور رواج کے مطابق نصیرالدین شاہ کے بھی بعض رشتہ دار اور خاندانی پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ اِن سطور میں چھپے باریک طنز کو اگر قارئین سمجھ پائیں گے تو ممکن ہے بہت سی حقیقتیں ان پر واشگاف ہوں گی۔ نصیرالدین لکھتے ہیں؛
"میرا سب سے بڑا بھائی ظہیر دو سال کا تھا، دوسرا ضمیر کچھ مہینے کا اور میرا تو پتہ ہی نہیں تھا، لہذا پاکستان جانے یا ہندوستان میں رہنے کے بارے میں ہم سے کوئی رائے مشورہ نہیں ہوا، پر بے شک ہم سب اس فیصلے کی تائید ہی کرتے۔ بابا کے پاس ہندوستان میں جائیداد تھی نہیں، سرحد پار جائیداد کا دعوی کر نہیں سکتے تھے اور پھر تھوڑی بہت ڈھل چکی عمر میں بندھی بندھائی نوکری چھوڑ کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا انہیں اس آزاد ہوئے ”ہندو ملک” میں رہنے کے مقابلے کم دلکش لگا ہوگا۔ قسمت سے پنگا لینا ان کی عادت نہیں تھی اور انہیں یقین تھا کہ ان کی اولاد کو اچھی تربیت ملے تو یہاں بھی اعلیٰ ترین زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ یہ پیشین گوئی غلط نہیں نکلی۔” ١٤
اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں روشنی ڈالتے ہوئے بغیر کسی جھجک اور شرمندگی کے نصیر الدین نے صاف صاف بات بغیر کسی تاویل کے لکھ دی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ ان کا خاندان ١٨٥٧ میں پغمان سے آئے ایک پیشہ ور سپاہی سے ہندوستان آیا تھا۔ جس نے جانبازی کے ساتھ انگریزوں کی طرف سے لڑ کر سر دھنا (میرٹھ) میں زمینات پائی تھیں۔
زندگی میں آپ کو کیا بننا ہے اور کیا نہیں بننا ہے کا فیصلہ ہمارے معاشرے میں ہم نہیں کرتے ہیں۔ ہم وہی بنتے ہیں جو ہمارے ارد گرد کے لوگ چاہتے یا ہمارا خاندانی پس منظر جس کی اجازت دیتا ہے۔ یعنی پیشے میں بھی ایک نوع کی "ملوکیت” کا سا سماں ہے۔ لیکن بعض اس قید و بند کو توڑ کر اپنی راہ خود اختیار کرتے ہیں، ایک بار جو بننے کا فیصلہ کر لیا پھر سر توڑ اس کی کوشش بھی کی۔ شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے پاؤلو کوئیلو نے لکھا ہے کہ جب آپ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کائنات آپ کے لیے راہیں ہموار کر دیتی ہے۔ لیکن اس کے باجود آپ کو ایک حد تک وقت نامی بھٹّی میں کندن ہونا پڑتا ہے۔ نصیرالدین لکھتے ہیں کہ اداکار بننے کا فیصلہ شاید انہوں نے اس وقت ہی کر لیا تھا جب تین چار برس کی عمر میں انہوں نے میدان میں ایک ڈراما دیکھا تھا۔ اس کے بعد وہ تمام زندگی یہی سوچتے ہیں کہ آخر اداکار بننے کا باعِث کیا ہوتا ہے؟ کوئی شخص اداکار بننا ہی کیوں چاہتا ہے؟ وہ لکھتے ہیں؛
"برسوں اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ کیا زندگی نہ جھیل پانے کا احساس ہی لوگوں کو ادا کار بناتا ہے؟ یہ سوال میرے ذہن میں آج بھی ان سلجھا ہے، لیکن جب کئی ایسے قابل اداکار جن کو میں قریب سے جانتا ہوں، ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگ بھگ ہر ایک اسی سانچہ میں ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہر وقت کوئی اور ہونے کی چاہ نارمل بات ہے کیا؟ ایسی خواہش کیا انہیں لوگوں میں جاگتی ہے جنہوں نے میری طرح ابتداء میں خود اعتمادی کی کمی سہی اور جو باقی زندگی سوانگ کے پیچھے چھپ کر مکمل ہونا چاہتے ہیں؟” ٢٩
نصیرالدین ایک جگہ والد کی طرف سے جبرا اسکول بھیجے جانے اور اچھے نمبرات حاصل کرنے کی تنبیہ اور ان کے بار بار فیل ہونے پر کبیدہ خاطر ہونے پر عجیب و غریب انداز میں لکھتے ہیں۔ شاید کبھی زندگی میں ہم بھی ایسی ہی کیفیت سے گزرے ہوں۔ نصیرالدین لکھتے ہیں؛
"شک اب یقین میں تبدیل ہونے لگا کہ میں نرا احمق ہوں۔ میرے گرتے ہوئے درجوں کے باوجود بابا کہتے رہے، تم ہو تو ذہین وہ یقین کرنا چاہتے تھے اس بات کا پر میری مسلسل گرتی کارگزاری کو بچا پانا ان کے لئے زخم بن گیا ہو گا۔ ایک عرصے تک مجھے خود یقین نہیں تھا کہ مجھ میں کچھ عقل ہے لیکن جب میرا دماغ واقعی چلنا شروع ہوا تو بہت ہی انہونی وجہ سے۔ اس کے بیان میں ذرا وقت لگے گا ۔ کرکٹ کے اسکور اور جولیس سیزر کی تقریروں کے علاوہ کچھ اور یاد کرنے سے میری بیزاری مرض بن چکی تھی۔ ظہیر کو بابا نے مجھے Math پڑھانے پر لگایا اور بیچارے نے اپنی پڑھائی کا قیمتی وقت ضائع کر کے میری کھوپڑی میں میتھ کی تھوڑی بہت سمجھ بھرنے کی ہزار فضول میں کوششیں کیں۔ میرا دماغ ایک جگہ اتنی دیر ٹھہرتا ہی نہیں تھا کہ کسی سوال کا حل اپنے گلے سے نیچے اتار سکوں اور دوسرا سوال سامنے آجاتا۔ میں سمجھنے کا دکھاوا کرتا اور ظہیر لمبی آہ بھر کے آگے بڑھ جاتے کبھی کبھی ان کا دانت پیسنا بھی مجھے سنائی دیتا۔” ٤٤
"کتاب پر مجموعی اور سرسری نگاہ”
یہ کتاب اصلا نصیرالدین شاہ نے انگریزی میں لکھی تھی۔ ایم آر پبلیکیشنز کے مالک عبدالصمد نے اس کو اردو میں منتقل کیا ہے۔ نصیرالدین شاہ نے اے ایم یو میں اپنی زندگی پر کافی وضاحت سے لکھا اور معاشقے اور پھر شادی کا حیران کن قصہ بھی بیان کیا ہے۔ جس طرح ہماری زندگی میں کہیں نہ کہیں کوئی ایسا موڑ ضرور آتا ہے جہاں سے ہماری زندگیاں کامل تبدیل ہو جاتی ہیں، نصیرالدین نے بھی ایسے مواقع کا ذکر کیا ہے۔ صحیح و غلط بیانی کی نشاندھی تو وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں جنہیں نے آیا نصیرالدین کا زمانہ دیکھا ہے یا کتاب کے دوسرے کرداروں سے واقف ہیں۔ ہم اتنا بتا سکتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تہذیب کے بارے میں جس طرح سے نصیرالدین نے لکھا ہے، یہ شاید ان کی کور نگہی ہے کہی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک فضا عام ہے، کہ جب ہمیں کسی گوشے پر تنقید کرنی ہوتی ہے، تو بلا تحقیق شروع ہو جاتے ہیں۔ نصیرالدین گاہے گاہے کتاب میں اس کے شکار ہوئے ہیں۔ زندگی، اور امورِ زندگی کو لے کر ان کے نظریات اور ان کی دانش کے حقوق اپنی جگہ مسلم، مگر ان سے اتفاق نہیں کیا سکتا بلکہ ان کو بعض سمتوں سے غلط کہنا لازم آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سب سے مقدس اور سب سے ذلیل چیز مذہب ہے، پوجا بھی مذہب کو جاتا ہے اور گالیاں بھی مذہب کو دی جاتی ہیں۔ مذہب کے بارے میں اور اس کی مقاصد سازی کے تئیں رائیں بہت متذبذب اور غیر معقول ہیں۔ کتاب کا ترجمہ بہت بھدّا ہے۔ یعنی اگر مجھے نصیرالدین شاہ کی ایکٹنگ پسند نہ ہو اور کسی غیر متعارف شخص کی سوانح پڑھنا ہو تو اس زبان و بیان میں تو بالکل نہیں پڑھوں گا۔ بلکہ ممکن ہے دو ایک لوگوں کو روک دوں کہ اِس کو نہ پڑھا جائے۔ جملوں کی ساخت بالکل بے ہنگم، ان میں بعض جگہ کوئی ربط نہیں۔ ہندی جملوں کی ساخت کو اردو میں جس طرح استعمال کرکے اچھی خاصی کتاب کی گت بنا دی گئی ہے یہ عجیب ہے۔ اگر آپ کو انگریزی آتی ہے تو کوشش کریں کہ اِس کتاب کو اصلی متن میں ہی پڑھیں۔
دوسروں کی زندگیوں کو پڑھ کر اپنے بہت سے مراحل آسان ہو سکتے ہیں، چونکہ زندگی بعض اوقات ہمارے سروں پر یکساں نازل ہوتی ہے۔ ٢٨٠ صفحات پر مشتمل اس کتاب کو ایم آر پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے
#شیر مارکیٹ حرام ہے یا حلال Islamic Margin Trading Sher marking آنکھیں وغیرہ عطیہ کرنے کا حکم ؟ ابن تیمیہ اسلام اور خواتین اسلام میں خاتون کا کردار اسلامی فقہ اکیڈمی میں منظور شدہ تجاویز انتقال کے بعد آنکھوں کا عطیہ کرنا ؟ انفرادی ضرورتوں کو اجتماعی ضرورتوں پر قربان کرنے کی دعوت این ڈی اے کی جیت بہار انتخابات بہار انتخابات 2025 تدفین کا صحیح طریقہ تربیت کیسے کریں ؟ تربیت کے ضروری اصول تفسیر عثمانی خوشگوار ازدواجی زندگی ساس اور بہو ساس اور بہو کے تعلقات ساس اور بہو کے مسائل سفر نامہ سوانح ابن تیمیہ شبیر احمد عثمانی شیخ الاسلام ابن تیمیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ عظیم مفسر قرآن علامہ شبیر احمد عثمانی فقہ اکیڈمی انڈیا کے تجاویز قبر کھودنے کا طریقہ مائیکرو فائنانس مائیکرو فائنانس کے شرعی احکام مسلم ووٹ سیمانچل مفتی منور سلطان ندوی ملک و ملت کی نازک صورت حال میں مسلمانوں کے لئے رہنما خطوط مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کی تحریروں کی روشنی میں ملکی حالات کا صحیح شعور و آگہی مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی فکر و پیغام مولانا عامر عثمانی میت کو تدفین کیسے کریں وہ جو بیچتے تھے دوائے دل کیا آنکھ کا عطیہ جائز ہے ؟ ہیلتھ انشورنس ہیلتھ انشورنس لینا کیسا ہے ؟ ہیلتھ انشورنس کی شرعی حیثیت ؟ یکساں سول کوڈ اور ان کے نقصانات