جدید مسئل میں فتاوی نویسی کا منہج : ایک تعارف
تبصرہ نگار : اشرف علی
شریک افتاء: دارالعلوم وقف دیوبند
از روئے قرآن و احادیث اور از روئے عقل و مشاہدات یہ ایک ثابت شدہ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ دنیا بدیع السموات والارض کے حکم و مشیت کے مطابق ہر لمحہ تغیر پذیر ہے اور یہ تغیرات دنیا میں موجود تمام مخلوقات و موجودات عالم پر کسی نہ کسی طور پر بہر کیف اثر انداز ہیں، انسان جو کہ حق تعالیٰ کے سلسلۂ تخلیقات کا عروج ہے جس کو خلیفۃ اللہ فی الارض کے منصبِ جلالت سے سرفراز فرما کر کائنات میں اگر چہ محدود ہی سہی لیکن کسی نہ کسی درجے میں تصرف کے اختیار و شعور سے سرفرازی عطا فرما کر مخلوقات عالم پر جہاں ایک طرف عظمت و برتری سے نوازا گیا ہے، وہیں دوسری جانب اس اختصاص کے با وصف یہ کیسے ممکن تھا کہ انسان قوانین قدرت کے اثرات سے خارج ہو سکتا بلکہ تغیرات احوال ، گردش شام و سحر اور اسکے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مسائل و کوائف کو انسانی زندگی میں ارتقاء کی بنیاد واساس کا درجہ حاصل ہے جو کہ زمان و مکان کے ہر رنگ و آہنگ میں بنی نوع انسانی کی فطرت و طبیعت فکرومزاج مقتضیات و ضروریات پر مرتب ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی احوال و کوائف سے مل کر انسان کی اجتماعی مزاج سازی میں ایک مرکزی محرک کے طور دخیل و کار فرما ہیں۔
جہاں ایک طرف یہ حقیقت ہے تو وہیں دوسری طرف قرآن کا صاف و دو ٹوک اعلان ہے کہ آنحضور ﷺ پر سلسلۂ نبوت منتہی ہوگیا یعنی آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئیگا بلکہ آپ کی لائی ہوئی تعلیمات و ہدایات ہی رہتی دنیا تک فریضۂ ہدایت ادا کرتی رہیں گی۔
زمانہ خواہ کتنی بھی کروٹیں بدلے، قرآن وحدیث نئے مسائل کی عقدہ کشائی کے لئے کافی ہوں گے ، قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں ایسی جامعیت ہے ، اور ان کے اصولوں میں ایسی ہمہ گیریت ہے کہ تغیر پذیر دنیا کے نئے سے نئے مسائل کا حل ان کے جلو میں ہے ، البتہ ضرورت بالبصیرت علماء کی ہے جو نئے مسائل کا حل ماخذ اصلیہ سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ماضی میں علمائے اسلام عام طور پر، اور فقہائے احناف خاص طور پر اس فریضہ کو ادا کرتے رہے ہیں ، بلکہ فقہ حنفی تو رفتار زمانہ سے ایک صدی آگے چلتا تھا یعنی آئندہ سو سال میں جو مسائل وجود میں آسکتے تھے فقہ حنفی میں ان کے احکام پہلے سے مدون کر دیئے جاتے تھے اور فقہ تقدیری باقاعدہ فقہ حنفی کا اختصاص ہے ، مگر اب یہ صورت حال نہیں رہی، موجودہ دور کے ہوش ربا انقلابات اور ہر لمحہ تغیر پذیر دنیا نے فقہ وفتاوی سے وابستہ شخصیات کے لیے بھی کئی چیلنجز پیدا کر دیے ہیں ، عصر حاضر میں نئے مسائل کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ جتنے نئے مسائل آج کل دس سالوں میں سامنے آتے ہیں، اتنے مسائل پہلے ایک صدی میں بھی نہیں پیدا ہوتے تھے، دوسری طرف علمی زوال اور یکسوئی کا فقدان ہے، تیسری طرف فتوی کے لیے مطلوبہ احتیاط اور عملی تربیت کی بے حد کمی ہے، چوتھی طرف علماء اسلام کی علوم عصریہ سے ناواقفیت ہے، جس کی وجہ سے فہم مسائل میں کافی دشواری پیدا ہوتی ہے۔
اس صورت حال میں یہ ایک اہم اور ضروری سوال بن جاتا ہے کہ جدید مسائل میں فتاویٰ نویسی کا منہج اور طریقۂ کار کیا ہونا چاہئیے ، متقدمین میں اس کے حل کرنے کے کیا پیمانے تھے ، جس کے جواب کا أہل عام رسمی قسم کا فاضل کبھی نہیں ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسے شخص کا ہی کام ہے، جس نے فقہ وفتاوی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہو، قدیم ماٰخذ پر بھی گہری نظر رکھتا ہو اور دور حاضر کے انقلابات نیز معاصر فقہی ادارے اور مجامع کے مناہج اور طریقہ کار سے بھی واقف ہو ، بحمداللہ تعالیٰ مذکورہ تمام خوبیاں اور اوصاف و کمالات بدرجہ اتم اس کتاب کے مصنف حضرت مولانا مفتی امانت علی قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ ( استاذ فقہ و تفسیر و مفتی دارالعلوم وقف دیوبند) میں موجود ہیں ، جہاں وہ ایک طرف فقہ اسلامی کے متبحر ہیں تو وہیں دوسری طرف درس و تدریس کے شہسوار بھی ہیں تحقیق و تالیف کا عمدہ ذوق ہی ہے کہ متعدد تحقیقی کتابیں ان کے قلم سے منظر عام پر آچکی ہیں ، اسی سلسلہ کی ایک کڑی
” جدید مسائل میں فتاویٰ نویسی کا منہج “
نامی ٥٦ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہے ، جس میں مصنف نے اولاً فقہ کی فضیلت اور فقہ و فتاویٰ سے مربوط ہونے کی اہمیت ، فتاوی نویسی کا طریقہ ، اس کے اوصاف و شرائط، وقت اور حالات کی تبدیلی سے احکام میں ہونی والی تبدیلیاں اور اس کے اجزائے ترکیبی ، جدید مسائل میں تحققیات کا معیار اور قدیم ماٰخذ سے استفادہ کے اصول و ضوابط ، اور اس سلسلے میں متقدمین کا طریقۂ کار ، غرضیکہ جدید مسائل کو حل کرنے کے لئے جتنے اہم اساسی پہلو ہوسکتے تھے سب پر مصنف نے بڑی ہی عرق ریزی سے گفتگو کی ہے اور اس کو مرتب کیا گیا ہے تاکہ فقہ و فتاویٰ سے اشتغال رکھنے والے ہر اہل علم کے لئے یہ کتاب نافع ثابت ہو اور ہر کسی کے یکساں مفید ثابت ہوسکے ۔
قیمت ۔ 40