دو روزہ فقہی سیمینار ( دار العلوم ندوہ العلماء لکھنؤ)
از اسجد حسن ندوی
*ند وۃ العلماء کی مجلس تحقیقات شرعیہ کے زیر اہتمام علامہ حیدر حسن خان ٹونکی ہال میں 4-5 ربیع الثانی 1447ھ مطابق 27-28 نومبر ویکم دسمبر 2025ء کو ساتواں فقہی سیمینار کی بزم سجائی گئی ، جو الحمد اللہ بحسن و خوبی علمی ، اور دینی ماحول میں اپنے اختتام کو پہونچی ، جس میں تین اہم مسئلہ پر غور و خوض اور مناقشہ کے بعد تجاویز پیش منظور کی گئیں*
فقہ اسلامی ایک جامع نظام حیات ہے جو انسان کو دنیاوی مفاد سے اوپر اٹھا کر ابدی حقیقتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے ، یہ ایک ایسا ہمہ گیر فلسفۂ حیات ہے جو روح کو سکون ، عقل کو بصیرت اور معاشرے کو توازن عطا کرتا ہے، یہ فرد کی زندگی سے لے کر عالمی تعلقات تک رہنمائی فراہم کرتا ہے، خاندان کو مضبوط، معیشت کو عادلانہ اور معاشرے کو متوازن بناتا ہے ،
عصر حاضر میں ڈیجیٹل معیشت، مصنوعی ذہانت (A-I ) ، ماحولیاتی بحران اور ٹیکنالوجی جیسے مسائل کے سامنے بہت سے مسائل میں جہاں انسانیت بے بس دکھائی دیتی ہے ، وہیں فقہ اسلامی اپنے اصولوں کے ذریعے ان مسائل کا ایسا حل فراہم کرتی ہے جو ترقی اور ٹیکنالوجی کو اخلاقیات و روحانیت سے ہم آہنگ کر دے، یہ محض ماضی کی میراث نہیں بلکہ حال اور مستقبل کی حقیقی ضرورت ہے۔
ایسے نئے ، پیچیدہ اور غیر منصوص علیہ مسائل کو حل کرنے کے لیے "اجتہاد” کی ضرورت پڑتی ہے ، جو بدلتے ہوئے حالات اور نئی صورتوں میں اسلام کے عملی اطلاق کو ممکن بناتا ہے ، نظام ماضی یعنی قرآن و حدیث کی روشنی میں حال کے تقاضے پورے کرتا ہے اور مستقبل کی راہیں روشن کرتا ہے ۔
زمانہ صحابہ سے لیکر آج تک ہر زمانے میں اجتہاد کیا گیا ہے ، اور فقہاء کرام نے جہاں انفرادی طور پر نئے مسائل کے سلسلے میں غور و خوض کیا ہے ، وہیں اجتماعی اجتہاد بھی کیا ہے جس کے بہت سارے نظائر ملتے ہیں ۔
دور حاضر کے علماء اسلام اور فقہاء کرام کا بھی یہی ماننا ہے کہ اجتماعی اجتہاد غیر منصوص مسائل کو حل کرنے میں زیادہ محفوظ اور مؤثر طریقہ ہے ۔
اسی اجتماعی اجتہاد کے مقصد کے پیشِ نظر جہاں عالم اسلام میں مختلف فقہی اکیڈمیاں کام کررہی ہیں وہیں ہمارے یہاں بھی اسی قسم کی کئی اکیڈمیاں فقہی خدمات انجام دے رہی ہیں، ان میں ایک نام "مجلس تحقیقات شرعیہ” کا ہے ، مجلس کی بنیاد مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی نے ستمبر 1963 ء میں رکھی ، جس کا یہ ساتواں فقہی سیمینار تھا ۔
*سیمینار کا موضوع*
اس سیمینار کے لیے تین موضوعات کا انتخاب کیا گیا تھا ، پہلے دو موضوع کا تعلق وقف سے تھا ، جو فی الوقت ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ، مساجد اور ان کے اوقاف کے سلسلے میں بنیادی طور پر ایسے سوالات قائم کیے گئے تھے جس میں ایک طرف تو واقف کے مقصد و منشا کا خیال کیا گیا ہے، دوسری طرف وقف کو محفوظ کرنے یا وقف کو شر پسند عناصر سے محفوظ کرنے کا پہلو پیش نظر ہے ۔
دوسرا موضوع "قبرستان اور ان سے متعلق چند نئے مسائل”
قبرستان یقیناً ہماری تاریخ اور تہذیب کے خاموش محافظ ہیں، ان کے اوقاف امت کی امانت اور دیانت کا پیمانہ ہیں ،
اس سے غفلت دراصل اپنی جڑوں سے بے خبری ہے ، ندوہ کا سیمینار اسی شعور کوک بیدار کرنے کی ایک کوشش ہے۔
اسی طرح تیسرا موضوع ” تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص” تھا یہ بہت اہم اور نازک موضوع ہے ، کیوں کہ مسلک غیر پر فتویٰ دینے میں یہ بات عام طور پر رکاوٹ بنتی ہے کہ کہیں ایسا کرنے میں تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص لازم نہ آئے جسے عام طور پر فقہاء اور اصولین ناپسند کرتے ہیں ، اس پس منظر میں مجلسِ تحقیقات شرعیہ ندوہ العلماء نے بھی اس بات کی ضرورت محسوس کی تھی کہ تلفیق اور تتبع رخص کے موضوع پر مستقلاً غور و خوض کیا جائے ان کے دائروں اور حدود کی تعیین کی جائے اور یہ طے کیا جائے کہ تتبع رخص اور تلفیق کی حقیقت کیا ہے ؟ کیا یہ دونوں ہر حال میں ممنوع ہیں ؟ راقم الحروف کا مقالہ بھی اسی موضوع پر تھا ۔
تجاویز:
*ساتویں فقہی سیمینار کی تجاویز*
*تجاویز بابت مساجد اور ان کے اوقاف سے متعلق چند مسائل*
۔1 ـ جو مسجدیں نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے تنگ ہو رہی ہوں ، توسیع کی غرض سے ان کو شہید کر کے کئی منزلیں بنائی جاسکتی ہیں، اور بر بنائے ضرورت کسی منزل کو دینی تعلیم کے لیے استعمال کرنا درست ہے، البتہ اس کی کسی منزل کو طلبہ کی رہائش کے لیے مستقل طور پر استعمال کرنا یا اس کے کسی حصہ کو کرایہ پر دینا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ مسجد کے بنیادی مقاصد اور اس کے تقدس کے خلاف ہے۔
۔ 2 اگر کسی اپارٹمنٹ میں کوئی منزل خرید کر یا کثیر منزلہ عمارت تعمیر کرتے وقت کسی منزل کو بطور مسجد وقف کر دیا جائے، تو یہ منزل مسجد شرعی کے حکم میں ہوگی ، بشرطیکہ اس میں عام لوگوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہو۔
ـ 3 وہ زرعی زمین جو مسجد پر وقف ہو، اگر وہ قابل انتفاع نہ ہو یا اتنی کم منفعت ہو کہ اس سے ضروریات مسجد پوری نہ ہوتی ہوں تو یہ جائز ہے کہ اس زمین کے بدلے ایسی زمین یا دکان حاصل کر لی جائے جس کی آمدنی سے ضروریات مسجد پوری کی جاسکیں، اگر یہ اندیشہ ہو کہ اس زمین کو بدلنے میں وقف کا ضیاع ہوگا تو پھر ایسا کرنا جائز نہ ہوگا۔
۔ 4 مسجد کی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد سے الگ امام اور موذن کی رہائش کا انتظام کرے، البتہ ضرورت کے وقت عارضی طور پر امام و موذن کے لئے مسجد کے کسی حصہ میں قیام کی گنجائش ہے۔
ـ 5 قدیم مسجد کے آس پاس کی وہ زمینیں جو موقوفہ مسجد شرعی میں شامل نہیں ہیں بلکہ مصالح مسجد کے لئے ہیں وہاں نمازیوں کے لئے پارکنگ کی تعمیر کرنا، مسجد کے ائمہ ، موذنین اور خدام کے لئے رہائش گاہ ( فیملی کواٹر ) کا بندو بست کرنا یا دوسرے ایسے کام کرنا جو مصالح مسجد میں شامل ہو، درست ہے۔
ـ6 نئی مساجد کی تعمیر کے وقت اگر مسجد کے لئے زمین وقف کرنے والا شخص یا اشخاص اس طرح تعمیری منصوبہ بناتے ہیں کہ بیسمنٹ میں پارکنگ ہو، اوپر کی منزلیں مسجد کے لئے ہوں یا کوئی منزل دینی تعلیم کے لئے ہو تو شرعا اس کی گنجائش ہے۔
*تجاویز بابت قبرستان کے چند جدید مسائل*
ـ 1 جن قبرستانوں میں پہلے سے بنی ہوئی مسجد میں وضو خانہ نہ ہو، وہاں ایسی جگہ وضو خانہ اور استنجاء خانہ بنایا جاسکتا ہے، جہاں قبریں موجود نہ ہوں ۔
۔ 2 اگر قبرستان وسیع ہو تو ضرورت کے وقت خالی جگہ میں مسجد ، وضو خانہ اور استنجاء خانہ بنانے کی گنجائش ہے، لیکن قبرستان تنگ ہو تو تعمیر مسجد کی گنجائش نہیں ہے، کیونکہ یہ مقصد وقف کے خلاف ہے۔
ـ3 تحفظ قبرستان کے پیش نظر وسیع قبرستان کی خالی جگہ کو عارضی طور پر تعلیم یا کسی اور جائز مقصد کے لیے کرائے پر دیا جا سکتا ہے، لیکن معاہدہ میں یہ صراحت ضروری ہے کہ یہ قبرستان کی زمین ہے اور آئندہ تدفین کے لیے ضرورت پڑنے پر اس کو واپس کرنالازم ہوگا۔
ـ 4 قبرستان کی خالی جگہ میں جنازہ گاہ بنانا جائز ہے، بشرطیکہ سامنے قبر نہ ہو یا ہو تو کوئی حائل ( آڑ ) موجود ہو۔
ـ5 عام حالات میں قبرستان کو کھلیان ، اور باڑہ وغیرہ کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
*تجاویز بابت تلفیق بین المذاہب اور تنتج رخص*
اہل سنت کے تمام فقہی مسالک جو دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں میں مروج ہیں اور جن کی تقلید کی جاتی ہے، یہ سب اسلامی شریعت کا حصہ ہیں، اجتہادی مسائل میں ان کے اختلافات کی نوعیت حق و باطل کی نہیں ہے، بلکہ یہ سب کتاب وسنت کے سمندر سے نکلنے والی بافیض نہریں ہیں، جن سے امت مسلمہ سیراب ہو رہی ہے، اس لیے تمام فقہی مسالک کی کتابیں اور ان کے اجتہادات فقہ اسلامی کا گراں قدر حصہ ہیں ۔
جو علماء اور اصحاب افتاء عام فقہی اجتہادی مسائل میں کسی خاص فقہی مسلک کی پابندی کرتے ہیں، جب انہیں بعض مسائل میں موجودہ حالات کے تحت اپنے مسلک کی اجتہادی رائے پر عمل کرنے یا اس پر فتوی دینے میں شدید حرج محسوس ہوتا ہے اور وہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ کسی دوسرے فقہی مسلک کی اجتہادی رائے کو اختیار کر کے اس دشواری کا حل تلاش کریں اور امت مسلمہ کے لیے یسر وسہولت پیدا کریں، تو ان کے لیے یہ بات رکاوٹ بنتی ہے کہ کہیں ایسا کرنے میں ممنوع تلفیق بین المذاہب لازم نہ آئے ، اس پس منظر میں بحث و تمحیص کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں :
ـ1 تلفیق سے مراد ایک ہی عمل میں دو یا دو سے زائد فقہاء کی رائے کو اس طرح جمع کرنا ہے کہ بحیثیت مجموعی وہ عمل ان میں سے کسی کے نزدیک بھی درست قرار نہ پاتا ہو، یہ شکل نا جائز ہے۔
ـ2 پیچیدہ مسائل کو حل کرنے اور امت سے حرج اور تنگی کو دور کرنے کے لیے درج ذیل شرائط کے ساتھ ظاہری تلفیق ( جو در حقیقت دوسرے فقہی مسلک سے استفادہ ہے ) کو اختیار کرنے کی اجازت ہے:
الف: تلفیق سے کسی نص یا اجماع کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔
ب : تلفیق اتباع ہوی کی غرض سے نہ ہو۔
ج : تلفیق کے نتیجہ میں کسی حرمت شرعیہ کا جواز لازم نہ آتا ہو۔
د: جس مسلک کے فقہی قول کو لیا جائے اس کی تمام شرائط کی رعایت کی جائے۔
ـ3 یہ تلفیق معتبر اصحاب افتاء کے اجتماعی غور و خوض کے ذریعہ انجام پائے لیکن بوقت ضرورت انفرادی فتاوی میں بھی اس کی گنجائش ہے۔
ـ – 4 محض خواہش نفس کی بنیاد پر فقہاء کی سہولتوں کو اختیار کرنا درست نہیں ہے کہ یہ احکام شریعت سے آزاد ہونے کا ذریعہ ہے۔
ـ 5 فقہاء کے آسان اقوال کو اختیار کرنا درج ذیل شرائط کے ساتھ درست ہے
الف: وہ اقوال شرعا غیر معتبر اور شاذ نہ ہوں۔
ب : مشقت کو دور کرنے کے لیے رخصت اختیار کرنے کی حاجت ہو۔
ج : رخصت کا مقصد کسی غیر مشروع عمل کی انجام دہی نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…………..
مختلف نشستوں میں جو ارباب فضل وکمال شہ نشیں پر جلوہ افروز تھے، ان میں حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) ، حضرت مولانا فضل الرحیم مجددی (جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)، حضرت مولانا سید بلال عبد الحی حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلماء)، حضرت مولانا عتیق احمد بستوی (سکریٹری مجلس تحقیقات شرعیہ) ، مولانا عمار حسنی ندوی (ناظر عام ندوۃ العلماء)، مولانا عبد العزیز بھٹکلی ندوی (نائب مہتمم دار العلوم ندوۃ العلماء)، مولانا زکریا سنبھلی صاحب (عمید کلیۃ الشریعہ واصول الدین) ، مولانا عبد الرزاق صاجب قاسمی (استاذ دار العلوم دیوبند) ، مولانا اختر امام عادل صاحب(بہار) وغیرہ کے علاوہ علماء اور فقہاء کی ایک جماعت تھی۔
الغرض، یہ فقہی سیمینار ایک علمی انجمن ہی نہیں بلکہ فکر و تدبر کا ایسا گلستاں تھا جس میں علم و بصیرت کے چراغ روشن کیے گئے، اربابِ فضل و کمال نے اپنی قیمتی گفتگو سے یہ ثابت کیا کہ فقہ اسلامی آج بھی زندہ و تابندہ ہے، اور وہی ملت کی فکری و عملی زندگی کو نئی راہیں دکھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ نشست اس حقیقت کا اعلان تھی کہ بدلتے زمانے کے مسائل اور تیز رفتار چیلنجز کے باوجود اگر امت اپنے علمی سرمائے اور فقہی ورثے سے جڑ کر اجتماعی غور و خوض کرے تو کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہوسکے۔
یقیناً یہ سیمینار آنے والے دنوں میں نہ صرف علمی دنیا کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوگا بلکہ ملت کی اجتماعی زندگی میں توازن اور رہنمائی کا ذریعہ بھی بنے گا، اللہ تعالیٰ اس مجلس کی کاوشوں کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، اور اس کے ثمرات کو ملتِ اسلامیہ کے لیے نافع و دائمی بنائے۔
#شیر مارکیٹ حرام ہے یا حلال Islamic Margin Trading Sher marking ابن تیمیہ اسلام اور خواتین اسلام میں خاتون کا کردار انتقال ایک نیک والدہ باکمال خواتین تدفین کا صحیح طریقہ تربیت کیسے کریں ؟ تربیت کے ضروری اصول جذبات اور فیصلے جذباتی فیصلے کے نقصانات جذباتی لوگوں سے بچے حال و حرام کے مسائل/ حلال و حرام / حج و عمرہ / حج و عمرہ کے اعمال/ عورتیں حج و عمرہ کیسے کریں خواتین کی تعلیم و تربیت/ خواتین کی تعلیم و تربیت/ اسلامی نظام تعلیم سفر نامہ سوانح ابن تیمیہ سوانح حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فیصلہ کیسے کریں فیصلے کرنے کے اصول قبر کھودنے کا طریقہ قبر کیسے کھودے قرآن کا تقدس ، قئرآنم کی فضیلت ، قرآن کی اہمیت قربانی کی فضیلت موت موت ایک حقیقت ہے مولانا عامر عثمانی میت کو تدفین کیسے کریں میری امی والدہ کی خدمت والدہ کی خصوصیت والدہ کی فضیلت و اہمیت وہ جو بیچتے تھے دوائے دل پس مرگ زندگی گلدستہ دینیات تعارف و تبصرہ یادوں کی قندیل یکساں سول کوڈ یکساں سول کوڈ اور ان کے نقصانات