*_ساتویں مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ کے سمینار میں_* (١)
فقہ و فکر کے تعلق سے ندوۃ العلماء ممتاز ہے، فکری اعتبار سے اعتدال، توازن، توسط، قدیم صالح اور جدید نافع، الی الاسلام من جدید اس کا سلوگن ہے تو وہیں فقہ میں توافق، توازن، مسلکی ہم آہنگی، وسطیت اس کا طرہ امتیاز ہے، ندوہ نے دونوں جہتوں پر کام کیا ہے، علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے جس پود کو پروان چڑھایا، وہ سید سلیمانی جس نے تحقیق و نظر کا کام کیا، انفاس علی نے روشن پھر ندوہ کا جہاں میں نام کیا، وہ نام اور شہرہ ان دونوں جہات سے ہوا؛ لیکن افسوس کہ فکر ندوہ کو گرچہ کچھ کامیابی ملی؛ لیکن فقہی ذوق ندوہ کو فروغ نہ ملا جس کا وہ مستحق تھا، اگر اسے مبالغہ سمجھا جائے تو تاریخ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور دیکھنا چاہئے کہ کس طرح ندوہ کی بنیاد میں فقہی و فکری دونوں اینٹیں توازن کے ساتھ رکھی گئی تھیں، مولانا عبداللطيف صاحب کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں بہت کچھ کام کیا تھا؛ لیکن ہمسایہ ملک ہجرت کر جانے اور بہتر علمی جاں نشین نہ مل پانے نے ان کے سارے علمی سرمایہ کو ضائع کردیا، مولانا تقی امینی کا کام بھی گراں قدر ہے، ان کے بعد جس بوالحسن کو فکر ندوہ کا تاج سمجھا جاتا ہے انہی نے فقہی میدان میں بھی غیر معمولی پیش قدمی کی، مولانا نے ہی جامع ازہر کے بعد ہندوستان کی سرزمین پر اجتماعی اجتہاد اور تحقیق و تدقیق، جدید مسائل کا حل نکالنے اور فقہ و فتاوی کے میدان میں زبان وبیان، فکر و تقریر اور تحقیق میں اعتدال قائم رکھنے اور اسے ترقی دینے کی خاطر مجلس تحقیقات شرعیہ لکھنؤ قائم کیا تھا، یہ 1963 کی بات ہے جب یہ کہا جاتا تھا کہ علماء ایک دسترخوان پر تو ساتھ بیٹھ سکتے ہیں؛ لیکن کسی مسئلہ پر سر جوڑ کر بات نہیں کرسکتے، مولانا نے اسے ممکن بنایا، تین سمینار بھی منعقد ہوئے اور سود، روئیت ہلال، انشورنس جیسے اہم ترین موضوعات زیر بحث بھی آئے، جنہیں اب تک بطور استیناس بیان کیا جاتا ہے؛ لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ پھر یہ سلسلہ بند ہوگیا، اس کی وجوہات و اسباب پر باقاعدہ بات ہونی چاہئے جو متقدمین کا حق ہے.
مجلس نے ایک شمع جلا دی تھی اور اندھیرا دور کردیا تھا، ایسے میں پھر تاریکی کا پھیلنا مناسب نہ تھا، وقت گزرا اور پھر اللہ تعالی نے حضرت قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رحمہ اللہ جیسے موفق و موید شخص کو کھڑا کیا، قاضی صاحب نے 1989 میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی بنیاد ڈالی اور پھر اس کے کچھ سالوں بعد جمعیت کی طرف سے ادارہ مباحث فقہیہ کا بھی قیام عمل میں آیا، خدارا کسی کی تحقیر مراد نہیں؛ لیکن آپ دیکھئے کہ کس طرح اللہ تعالی نے ندوہ کو فوقیت عطا فرمائی اور تجدید دین کا فریضہ انجام پایا، اگر مفکر اسلام کی تحریک مسلسل اپنے خطوط پر گامزن رہتی تو اب تک نہ جانے کتنے سمینار منعقد ہوچکے ہوتے اور امت مسلمہ کے مسائل کا حل نکالا جا کا ہوتا، جو فقہ اسلامی کا عظیم سرمایہ ہوتے، خیر جو ہونا تھا ہوگیا، شاید مشیت ایزدی یہی تھی؛ وقت گزرا، عرصہ دراز در دراز ہوتا گیا، گرچہ مختلف اکیڈمی متحرک رہیں؛ لیکن فکر ندوکا یہ پلیٹ سنسان پڑا رہا کہ حضرت مولانا سید رابع حسنی ندوی رحمہ اللہ نے زمانہ کورونا سے قبل اس کی نشات ثانیہ کی فکر کرتے ہوئے مفتی عتیق صاحب بستوی مدظلہ کو اس کا ذمہ دار متعین کیا، مفتی صاحب چونکہ قاضی مجاہد الاسلام صاحب رحمہ اللہ کے تربیت یافتہ، فکر بوالحسن کے خوشہ چیں ہیں؛ چنانچہ ان کی فکر و فقہ کی متوازی صلاحیت نے اس کام کو اسٹیم کا فائدہ پہنچایا، نیز سوکھی رگوں جوان خون مولانا منور سلطان ندوی،مولانا رحمت اللہ صاحب ندوی، مولانا نصر اللہ صاحب ندوی وغیرہم کہ شکل میں میسر ہوگیا؛ ایسے میں تحقیق و فکر کا قافلہ چل پڑا، راقم الحروف کو یہ سعادت حاصل ہے کہ اس کی نشأت ثانیہ میں شریک رہا اور اب گاہے گاہے اس کے سالانہ فقہی سیمینار میں شریک ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے، اس دفعہ یہ اجلاس سنیچر، اتوار 27،28 ستمبر 2025 کو منعقد ہوا، اس میں تین بنیادی موضوعات تھے، پہلا: مساجد اور ان کے اوقاف سے متعلق چند مسائل، دوسرا: قبرستان کے متعلق چند نئے مسائل، تیسرا: تلفیق بین المذاہب اور تتبع رخص.(جاری)
✍🏻 *محمد صابر حسین ندوی
*Mshusainnadwi@gmail.com798797204329/09/2025