شریعت ِاسلامی کے تمام احکام کی بنیاد عدل پر ہے ، عدل سے مراد ہے صلاحیت کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے حقوق کی تعیین ، عدل کا تقاضہ کبھی مساوات اور برابری کا ہوتا ہے اور کبھی کمی بیشی کے ساتھ تقسیم کا ، اسلام کا قانون میراث بھی اسی اُصول پر مبنی ہے ، اسلام سے پہلے مختلف مذاہب اور قوانین میں الگ الگ قانونِ میراث رہا ہے ، عربوں کا فلسفہ یہ تھا کہ جو لوگ مقابلہ اور مدافعت کی طاقت رکھتے ہوں ، صرف وہی میراث کے مستحق ہیں ، اسی لئے وہ عورتوں اور بعض اوقات نابالغ بچوں کو بھی میراث سے محروم کردیتے تھے ، یہودیوں کے یہاں پوری میراث پر پہلوٹھے لڑکے کا قبضہ ہو جاتا تھا ، ہندوؤں کے یہاں عورتیں میراث کی حقدار نہیں ہوتی تھیں ، خود یورپ میں عورتوں کو انیسویں صدی میں حق میراث ملا ہے ، اس سے پہلے وہ اس حق سے محروم تھیں ۔
قرآن مجید میں میراث کے سلسلے میں تین باتیں خاص طور پر ملحوظ رکھی گئی ہیں :
٭ پہلی بات یہ کہ کچھ قریبی رشتہ دار لازمی طور پر میراث کے حقدار ہوں گے ، ان رشتہ داروں کو’’ ذوی الفروض ‘‘ کہا جاتا ہے ، ان میں مرد بھی ہیں اور اسی درجہ کی رشتہ دار عورتیں بھی ، جیسے باپ اور ماں ، بیٹا اور بیٹی ، شوہر اور بیوی ، یہ بات بھی اہم ہے کہ اصحابِ فروض میں عورتیں بہ مقابلہ مردوں کے زیادہ ہیں ، عورتیں سترہ حالتوں میں اصحابِ فروض کی حیثیت سے وارث بنتی ہیں اور مرد صرف چھ حالتوں میں ۔
٭ دوسرے : جس شخص سے ذمہ داریاں کم یا ختم ہو گئی ہوں ، اس کا حصہ بہ مقابلہ اس رشتہ دار کے کم رکھا گیا ہے ، جو ابھی ذمہ داریوں کے میدان میں قدم رکھ رہا ہے ، اور جس پر مستقبل میں اپنے متعلقین کے تئیں زیادہ ذمہ داریاں آنے والی ہوں ، ان کا حصہ زیادہ رکھا گیا ہے ، جیسے باپ کے مقابلے بیٹے کا حق زیادہ رکھا گیا ؛ کیوں کہ جب باپ بیٹے سے وارث ہوتا ہے تو عام طور پر وہ زندگی سے متعلق ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو چکا ہوتا ہے ، یا سبکدوش ہونے کے قریب ہوتا ہے اور بیٹا جب اپنے باپ سے وارث ہوتا ہے تو عام طور پر وہ اس کی ذمہ داریوں کے شباب کا وقت ہوتا ہے اور اسے بہت سے مالی حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں ، یہی حال ماں اور بیٹی کا ہے ۔
٭ تیسری بات یہ ہے کہ جس سے ذمہ داریاں کم متعلق ہوتی ہیں ، ان کا حصہ کم ہے اور جن سے زیادہ ذمہ داریاں متعلق ہوں ، ان کا حصہ بھی زیادہ ہوتا ہے ، باپ کے ذمہ بال بچوں کی کفالت ہے ، ماں کے ذمہ خود اپنی کفالت بھی نہیں ہے ، بیٹے پر اپنی بیوی ، اولاد اوروالدین کی ذمہ داری ہے ، بیٹی پر یہ ذمہ داریاں نہیں ہیں ، اسی لئے باپ کا حصہ بمقابلہ ماں کے اور بیٹے کا حصہ بمقابلہ بیٹی کے دو ہرا رکھا گیا ہے ، یہ نہ جنس کی بناپر تفریق ہے اور نہ نا انصافی ہے ؛ بلکہ یہ ذمہ داریوں کے لحاظ سے حقوق کی تعیین ہے ، یہ وہ اُصول ہیں جن کی اساس پر شریعت نے قانونِ میراث مقرر کیا ہے ۔
لیکن چوں کہ مردوں اور عورتوں کے تمام رشتوں میں ذمہ داریوں کا تناسب یکساں نہیں ہوتا ، اس لئے بہت سی صورتوں میں ایک ہی درجہ کے رشتہ دار مردوں اور عورتوں کے درمیان حصۂ میراث میں ایک اور دو کا تناسب ملحوظ نہیں ہے ، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ شریعت میں ہمیشہ بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ نصف رکھا گیا ہے ، یہ محض غلط فہمی اور نا آگہی ہے ، اگرگہرائی سے اس مسئلہ پر غور کیا جائے تو بہ آسانی تقسیم میراث کے سلسلے میں عورت کے حصہ کو لے کر جو آواز اُٹھائی جاتی ہے اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ، اس کی تردید اور نفی ہو سکتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ میراث کے اعتبار سے ہم درجہ مرد و عورت اور رشتہ داروں کے سلسلہ میں چار صورتیں پائی جاتی ہیں :
( ۱) وہ صورت جس میں عورت کا حق میراث بمقابلہ مرد کے نصف ہے ۔
(۲) وہ صورت جس میں مرد اور عورت کا حصہ برابر ہے ۔
(۳) وہ صورت جس میں مرد کا حصہ کم اور اسی درجہ کی رشتہ دار عورت کا حصہ زیادہ ہے ۔
(۴) وہ صورتیں جس میں صرف عورت وارث ہوتی ہے ، اسی درجہ کا مرد رشتہ دار وارث نہیں ہوتا ۔
عورت کا حصہ نصف
ان صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ آدھا ہوتا ہے :
٭ باپ کے مقابلہ ماں کا ، بشرطیکہ متوفی نے کوئی اولاد یا شوہر و بیوی کو نہ چھوڑا ہو ۔
٭ حقیقی بھائی کے ساتھ حقیقی بہن یا علاتی بھائی کے ساتھ علاتی بہن کا ۔
٭ زوجین میں سے ایک مرجائے اور دوسرے کو چھوڑ جائے ، اس صورت میں بھی بیوی کے ترکہ میں سے جو شوہر کو ملے گا اس کے مقابلہ میں شوہر کے ترکہ میں بیوی کا حصہ نصف ہوگا ، جیسے لا ولد بیوی کے مرنے پر شوہر کو نصف ملے گا اور لاولد شوہر کے مرنے پر شوہر کے ترکہ سے بیوی کو چوتھائی ، اسی طرح صاحب ِاولاد شوہر کے مال میں سے بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا ، اور صاحب ِاولاد بیوی کے مال میں شوہر کو چوتھائی ملے گا ۔
دونوں کا حصہ برابر
کچھ صورتوں میں ایک ہی درجہ کے مرد و عورت رشتہ دار کے حصے برابر ہوتے ہیں :
٭ میت کا ایک لڑکا ہو اور ماں باپ ہوں تو باپ کو بھی چھٹا حصہ ملے گا اور ماں کو بھی ۔
٭ میت کی صرف دو بیٹیاں ہوں ، اس صورت میں بھی بیٹیوں کو دو تہائی حصہ ملے گا ، ماں اور باپ کو چھٹا ملے گا ۔
٭ مرنے والی نے باپ ، بیٹا او رنانی کو چھوڑا ہو تو باپ اور نانی دونوں کو چھٹا حصہ ملے گا ؛ حالاں کہ نانی کا رشتہ بمقابلہ باپ کے دور کا ہے ۔
٭ اخیافی یعنی ماں شریک بھائی اور بہنوں کا حصہ ہمیشہ برابر ہوتا ہے ۔
٭ بعض صورتوں میں تنہا مرد رشتہ دار ہو یا عورت ، پورے ترکہ کی حقدار ہوگی ، جیسے کسی نے صرف باپ کو چھوڑا ہوتو عصبہ ہونے کی بناپر باپ پورے ترکہ کا حقدار ہوگا ، یا صرف ماں کو چھوڑا ہو تو ایک تہائی اس کا اصلی حصہ ہو گا اور دو تہائی بطور ’’ رد ‘‘ اسے ملے گا ، یا صرف ایک بیٹا چھوڑا ہو تو وہ عصبہ ہونے کی بناپر پورے ترکہ کا حقدار ہوگا ، اور اگر صرف ایک بیٹی چھوڑی ہو تو نصف اس کا اصل حصہ ہوگا اور باقی بطور ’’ رد ‘‘ اسے مل جائے گا ۔
اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں حقیقی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ یا اخیافی بہن کا حقیقی بھائی کے ساتھ برابر کاحصہ ہوتا ہے ۔
عورت کا حصہ زیادہ
بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد سے بڑھ جاتا ہے ؛ کیوں کہ بیٹی کا حصہ ذوی الفروض میں ہونے کی حیثیت سے بعض دفعہ نصف یا تہائی بھی ہو جاتا ہے ، بیٹے کا حصہ اصحاب الفروض میں ہونے کی حیثیت سے نصف یا تہائی نہیں ہے ؛ البتہ اصطلاحِ میراث کے اعتبار سے ’’ عصبہ ‘‘ میں ہونے کی حیثیت سے تقسیم حصص کے بعد بچاہوا حصہ اسے مل جاتا ہے ، یہ حصہ بعض اوقات عورت کے اس حصے سے کم ہوجاتا ہے ، جو اسے ’ اصحابِ فروض ‘ میں ہونے کی حیثیت سے ملتا ہے ، جیسے فرض کیجئے کہ ایک عورت نے اپنی وفات کے وقت ساٹھ ایکڑ زمین چھوڑی اور شوہر ، والد ، ماں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا ، تو ہر بیٹی کو سولہ (۱۶ ) ایکٹر زمین ملے گی ، اوراگر اسی صورت میں دو بیٹیوں کے بجائے دو بیٹوں کو چھوڑا تو ہر بیٹے کا حصہ ساڑھے بارہ ایکٹر ہوگا ، اسی طرح ایک عورت نے ترکہ میں ۱۵۶ ایکڑ اراضی چھوڑی اور اس کے ورثہ میں شوہر ، والد ، ماں اور بیٹی ہیں ، تو بیٹی کا حصہ۷۲؍ ایکڑ ہوگا اور اسی صورت میں اگر بیٹی کے بجائے بیٹا ہے تو اس کا حصہ ۶۵؍ایکٹر ہوگا ؛ چنانچہ اس طرح کی متعدد صورتیں ہیں جن میں مرد کے مقابلہ عورت کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ۔
صرف عورت وارث
بعض ایسی صورتیں بھی ہیں جس میں مرد کو حصہ نہیں ملتا ہے ؛ لیکن اگر اسی کی ہم درجہ عورت رشتہ دار ہو تو وہ میراث میں حصہ پاتی ہے ، جیسے کسی عورت نے پس ماندگان میں شوہر ، باپ ، ماں ، بیٹی اور پوتی کو چھوڑا ہو ، تو پوتی چھٹے حصے کی مستحق ہوتی ہے اور پوتی کے بجائے پوتا ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا ، اسی طرح مرنے والی عورت نے شوہر ، حقیقی بہن اور علاتی بہن کو چھوڑا ہے تو علاتی بہن چھٹے حصے کی حقدار ہوتی ہے ، علاتی بہن کے بجائے علاتی بھائی ہو تو اسے کوئی حصہ نہیں ملتا ہے ، اسی طرح بعض اوقات دادی وارث ہوتی ہے اور اجداد میں سے جو اس کے مقابل ہو، وہ وارث نہیں ہوتا ہے ۔
غرض کہ شریعت میں بہت سی صورتیں ایسی ہیں جن میں بمقابلہ مرد کے عورت کا حصہ برابر یا زیادہ ہوتا ہے یا عورت حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے ، ڈاکٹر صلاح الدین سلطان مصری نژاد فاضل ہیں ، جو جامعہ اسلامیہ امریکہ میں استاذ ہیں ، انھوں نے اس موضوع پر ’’ میراث المرأۃ و قضیۃ المساواۃ‘‘ کے عنوان سے قلم اُٹھا یا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تیس سے زیادہ حالتیں ایسی ہیں جن میں عورت مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ پاتی ہے یا وہ تنہا حصہ دار ہوتی ہے اور مرد محروم ہوتا ہے ، جب کہ چار متعینہ حالتیں ہیں ، جن میں عورت کا حصہ بہ مقابلہ مرد کے آدھا ہوتا ہے ، اگر اس پس منظر میں عورت کی میراث کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سمجھنا کہ عورت کو مرد کے مقابلہ کم حصہ دیا جاتا ہے ، محض غلط فہمی ہے ، اور جن صورتوں میں عورت کا حصہ کم ہے ، ان میں فرق محض فرائض اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے رکھا گیا ہے ؛ بلکہ اس میں بھی عورتوں ہی کی رعایت ملحوظ ہے ؛کیوں کہ مرد پر سارے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ہے ، عورت پر خود اپنی کفالت کی ذمہ داری بھی نہیں ، اس لحاظ سے بظاہر عورت کا حصہ نصف سے بھی کم ہونا چاہئے ؛ لیکن عورت کی فطری کمزوری کی رعایت کرتے ہوئے اسے نصف کا مستحق قرار دیا گیا ہے ۔
= = =
عورت کا حق میراث اور اسلام از: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
Related Posts
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_* *ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔ * ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن…
Read moreخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: 24؍جون 2025ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے…
Read more