ہمارے سماج کی ایک اہم بیماری افواہ ہے ، اور یہ بیماری ہمارے معاشرہ میں بہت زیادہ عام ہے، اور اس بیماری میں عوام خواص سبھی مبتلا ہیں ،کوئی بات کسی سے سن لی، بس اس پر یقین کر لیا اور اس کو آگے چلتا کر دیا، خاص طور پر اگر کسی سے ذاتی یا مذہبی مخالفت ہو یا کسی سے دشمنی ہو تو اگر اس کے بارے میں ذرا سی بھی کہیں سے کان میں کوئی بھنک پڑی تو اس پر یقین کرکے لوگوں میں پھیلانا شروع کر دیں گے۔
کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں، اسی وجہ سے قرآن کریم میں میں اس سلسلے میں واضح اور احکام موجود ہے ،
﴿يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبينوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا على ما فعلتم نادمين﴾
اے ایمان والو اگر کوئی گناہگار تمہارے پاس کوئی خبر لیکر آئے تو تم ذرا ہوشیاری سے کام لو (یعنی ہر شخص کی ہر بات پر اعتماد کرکے کوئی کاروائی نہ کرو، ہوشیاری سے کام لینے کا مطلب ہے کہ تم پہلے اس کی تحقیق کرو کہ واقعی یہ خبر سچی ہے یا نہیں؟، ) اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہو سکتا ہے کہ تم نادانی میں کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا دو، اور بعد میں تمہیں اپنے فعل پر ندامت اور شرمساری ہو کہ ہم نے یہ کیا کر دیا؟۔
اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ اگر ان کو کوئی خبر ملے تو سب سے پہلے اس کی تحقیق کرے پھر جب تحقیق سے وہ صحیح ثابت ہو جائے پھر اس پر عمل اور کاروائی کرے، ورنہ بلا تحقیق کے اس خبر پر عمل کرنا اس پر کاروائی کرنا اور اس کو دوسروں تک پھیلانا یہ سب غلط اور نا جائز ہے۔
اسی کو آج کل ہم لوگ "افواہ سازی” کے نام سے جانتے ہیں،
واضح رہے کہ بغیر تحقیق کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات کے کہہ دینے سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں،
ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا « کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع »
یعنی انسان کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے،
"افواہیں اور موجودہ حالات”
آج یہ بیماری ہمارے معاشرہ میں گھر کر گئی، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کے ساتھ آگے بڑھا دیا، جب دوسرے نے سنا اس نے بھی کچھ اپنی طرف سے اضافہ کرکے آگے چلتا کر دیا،بات ذرا سی تھی مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی،اس کے نتیجے میں دشمنیاں، عداوتیں لڑائیاں قتل و غارتگری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں، بعض لوگ تو جھوٹوں کی ٹولیاں بنائے پھرتے ہیں ، ان کا کام صرف جھوٹ پھیلانا اور ایک دوسرے کے بیچ لڑائی کروانا ہے جب تک وہ کسی کو آپس میں لڑا نہیں دیتے چین نہیں آتا، بغیر جھوٹ کے دن نہیں کٹتا، انہیں دوسروں کو پریشان کرکے خوشی نصیب ہوتی ہے دل کو سکون ملتا ہے،
*سوشل میڈیا اور افواہیں*
اور جس دور سے ہم گزر رہے ہیں سوشل میڈیا کا دور ہے آناً فاناً خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے خواہ جھوٹی خبر ہی کیوں نہ بس اپنا مقصد حاصل کرنے کیلئے، دوسرے کو بدنام کرنے کیلئے، مذہبی منافرت پھیلانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں جب پوری دنیا میں خبر پھیل جاتی ہے تو پھر تحقیق شروع ہوتی ہے، پھر بہت تحقیق کے بعد پتا چلتا ہے کہ یہ خبر جھوٹی ہے اس کی کوئی اصل نہیں، معاملہ کچھ اور تھا، مطلب یہ کہ پہلے جھوٹی خبر خوب اچھی طرح پھیلا دیتے ہیں اس کے بعد تحقیق کا کام عمل میں آتا ہے ، حالانکہ یہی کام اگر پہلے کیا جاتا تو دوسروں کی دل آزاری نہ ہوتی، دوسروں کا دل نہ دکھتا، مگر آدمی اپنی مفاد کی خاطر دوسروں کی تکلیف کو کہاں محسوس کرتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے، ع
*یہاں مضبوط سے مضبوط لوہا ٹوٹ جاتا ہے
*کئی جھوٹے اکٹھے ہوں تو سچا ٹوٹ جاتا ہے
*خلاصہ کلام*
حاصل یہ ہے کہ لوگوں میں بات نقل کرنے میں احتیاط بالکل ختم ہو چکی ہے، جبکہ مسلمان کا کام یہ ہے کہ جو بات اس کی زبان سے نکلے وہ ترازو میں تُلی ہوئی ہو، نہ ایک لفظ زیادہ ہو، نہ ایک لفظ کم ہو، خاص طور پر اگر آپ دوسرے کی بات نقل کر رہے ہوں تو اس میں تو اور زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔
یہ افواہیں …!
Related Posts
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_*
*_لفظ "ہجرت” کی جامعیت_* *ہجرت ایک ایسا لفظ ہے، جس سے ہر کان آشنا اور دل مانوس ہے، اور جس کے بارے میں عموما یہ سمجھا جاتا ہے؛ کہ یہ کسی عہد جہل و وحشت کی یادگار ہے، کہ جب کبھی کوئی مذہبی جذبات و احساسات کی برانگیختی اور جوش و ولولہ نے تمدنی احساسات کو مغلوب کرلیتا تھا، اور دین پرستی اور خدا پرستی کے جنون میں اپنی روایتی عقلی و تہذیبی زندگی تک کو قربان کر دیتا تھا، وہ معاشرہ و سوسائٹی کی تمام تر محبت اور اپنوں کے اخلاص کو ترک کر کے کسی دشت و جبل کی سیاحی اور کسی اقلیم کی دشت پائی کو قبول کر لیتا تھا؛ وہ وادی و صحرا کا مسافر بن جاتا تھا، بادیہ پیمائی کرنا اور خانہ بدوش زندگی جینا ہی اس کا مشغلہ بن جاتا تھا؛ لیکن اب قابل غور امر یہ ہے کہ آج دنیا کی چمک دمک اور اس کی اعلی سے اعلی تمدن و ثقافت، علمی ترقی و عروج اور تحقیقی عالم جس کی ہر راہ آپ کو بلاتی یے، جو اپنی کشش کے ذریعہ اپنی طرف لبھاتی ہے، اور ہر ممکن کوشش کرتی یے؛ کہ وہ آپ کو دنیا و مافیھا کی محبت و عشق میں مبتلا کردے، اس کی خواہش ہے کہ وہ آپ کو خلوص و تقدس اور ایثار و قربانی کی راہ سداد سے بھٹکا کر بجلی کی چکا چوند میں گم کر دے، وہ سورج اور چاند کی گردش میں ضم ہوجا نے اور اپنی ہستی ہو ظاہری اسباب میں مدغم کردینے کی دعوت دیتی یے۔ * ان سے دوری و مہجوری بھی ہجرت کی حقیقت سے کب خالی ہے؟ اپنے نفس کو زلف خمدار اور نگاہ آبدار سے محفوظ کرلینا بھی تو اسی مفہوم کا مصداق ہے، دراصل "ہجرت سے مقصود ہے کہ اعلی مقاصد کی راہ میں کم تر فوائد کو قربان کر دینا، اور حصول مقاصد کی راہ میں جو چیزیں حائل ہوں ان سب کو ترک کر دینا؛ خواہ آرام و راحت ہو، نفسانی خواہشیں ہوں، حتی کہ قوم ہو، ملک ہو، وطن…
Read moreخلع کی حقیقت اور بعض ضروری وضاحتیں
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ابھی چند دنوں پہلے مؤرخہ: 24؍جون 2025ء کو تلنگانہ ہائی کورٹ نے محمد عارف علی بنام سیدہ افسر النساء کے مقدمہ میں خلع سے متعلق ایک فیصلہ دیا ہے، یہ جسٹس موسمی بھٹا چاریہ اور جسٹس بی آر مدھو سودن راؤ پر مشتمل دو رکنی بینچ کا فیصلہ ہے، عدالت نے اپنے خیال کے مطابق مظلوم خواتین کو آسانی پہنچانے کی کوشش کی ہے؛ لیکن عدالتوں کی معلومات چوں کہ شرعی معاملات میں ثانوی اور بالواسطہ ہوتی ہیں؛ اس لئے اس کی وضاحت میں کئی جگہ چوک ہوئی ہے، اس فیصلہ سے بنیادی طور پر جو بات واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ خلع پوری طرح بیوی کے اختیار میں ہے، جیسے شوہر طلاق دے سکتا ہے، اسی طرح بیوی اپنے شوہر کو خلع دے سکتی ہے، نہ یہ کسی وجہ پر موقوف ہے، نہ شوہر کی منظوری پر، اس بنیاد پر خلع کو بلا شرکت ِغیر بیوی کا حق مانا گیا ہے، اور یہ بھی کہ خلع میں شوہر کی طرف سے معاوضہ کا مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تین باتیں اہم ہیں: اول یہ کہ کیا شریعت میں خلع تنہا عورت کا فیصلہ ہے یا شوہر اور بیوی کی باہمی صلح اور مفاہمت پر مبنی عمل ہے؟ دوسرے: خلع میں عورت کی طرف سے کسی عوض کے ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ تیسرے: اگر خلع تنہا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے تو ان خواتین کی مشکلات کا حل کیا ہے، جن کے شوہر ان کا حق ادا نہیں کرتے اور باوجود مطالبہ کے طلاق بھی نہیں دیتے؟ اس سلسلہ میں نکاح اور اس کے بعد علیحدگی کے سلسلہ میں اسلام کے پورے تصور کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شریعت میں بحیثیت مجموعی علیحدگی کی چھ صورتیں ہیں: طلاق، خلع، متارکہ، لعان، ایلاء اور فسخ نکاح، یہ چھ صورتیں مختلف نوعیتوں کے اعتبار سے ہیں، ورنہ تو بنیادی طور پر علیحدگی کی دو ہی صورتیں ہیں، ایک: طلاق، دوسرے: فسخ نکاح، نکاح کبھی قاضی کے ذریعہ فسخ ہوتا ہے اور کبھی مانع ِنکاح کے…
Read more