سادگی کی اعلیٰ مثال: ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندویؒ
از : اسجد حسن
شخصیتوں کی پہچان ان کے علم و فضل سے ضرور ہوتی ہے، مگر ان کی اصل پہچان ان کی سادگی، اخلاص اور انسانیت میں پوشیدہ ہوتی ہے ، انہی سادہ دل، پاکیزہ مزاج اور با اخلاق شخصیات میں ایک روشن نام ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندویؒ (استاذ دارالعلوم ندوۃ العلماء) کا تھا
ابتدائی تاثر اور پہلی ملاقات
افسوس کہ مجھے ان سے باقاعدہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن سب سے پہلے میں نے مولانا کو حفظ کے زمانے میں دارالعلوم ماٹلی والا بھروچ میں "النادی” کے سالانہ پروگرام کے موقع پر دیکھا تھا ، والد صاحب ( قاضی محمد حسن ندوی) سے ذکرِ خیر سننے اور دیکھنے کے بعد ہی سے مولانا کی شبیہ میرے ذہن و دل میں نقش ہو گئی تھی ۔
بعد میں جب میں مدرسہ سیدنا بلال لکھنؤ میں زیر تعلیم تھا تو مولانا وہاں بھی النادی کے پروگرام میں تشریف لاتے تھے تو وہاں مصافحہ اور مولانا کی گفتگو سنے کا موقع ملتا رہا ، دارا العلوم سے فراغت کے بعد جب میں تدریس کے لیے مدرسہ العلوم علی گڑھ آیا تو معلوم ہوا کہ یہاں بھی مولانا وقتا فوقتاً پروگرام میں تشریف لاتے رہتے ہیں ، اور سال گزشتہ بھی مولانا یہاں النادی کے پروگرام میں تشریف لائے تھے ، اس موقع پر بھی مجھے ان سے مصافحہ ، معانقہ اور صدارتی خطاب سنے کا موقع ملا۔
اسی مختصر مصافحہ اور معانقہ نے میرے دل پر یہ تاثر ہمیشہ کے لیے ثبت کر دیا کہ یہ انسان واقعی سادگی کی چلتی پھرتی تصویر ہے۔
ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ کے چہرے پر علم کا نور، آنکھوں میں وقار اور گفتار میں ٹھہراؤ تھا ، مگر ان سب کے باوجود ان کی طبیعت میں ذرا بھی تکلف، تصنع یا بڑائی کا شائبہ نہیں تھا، ان کی مجلس میں بیٹھنے والا ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ وہ ایک عام انسان کے درمیان ہیں — نہ کوئی فاصلہ، نہ کوئی غرور، یہی سادگی ان کی سب سے بڑی شان تھی۔
مجھے یاد ہے ، ابھی کچھ ہی دن پہلے جب ندوہ کے فقہی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا تھا تو وہاں بھی مولانا ہر نشست میں شریک تھے ، نہایت تواضع اور انکساری کے ساتھ ہال میں داخل ہوتے، اور جہاں جگہ مل جاتی، وہیں بیٹھ جاتے، مباحثے کو اس قدر توجہ سے سنتے جیسے کوئی ابتدائی طالبِ علم ہو، وہاں بھی انھیں دیکھ کر یہی احساس تازہ ہوگیا کہ اتنی علمی عظمت اور مقام کے باوجود وہ کتنے سادہ اور منکسرالمزاج ہیں۔
طلبہ سے بات کرتے تو محبت سے، اساتذہ کے ساتھ ادب سے، اور کم عمر علماء سے شفقت کے ساتھ پیش آتے ، ان کے چہرے پر ہمیشہ ایک مطمئن مسکراہٹ رہتی، جو ان کے باطن کی پاکیزگی کی آئینہ دار تھی ۔
ان کی زندگی میں ریا، دکھاوا اور بناوٹ کا کوئی حصہ نہیں تھا، لباس میں سادگی، رہن سہن میں اعتدال، گفتگو میں نرمی، اور معاملات میں دیانت — یہ سب ان کے اخلاق کا حصہ تھا، وہ سادگی، جس کی تعلیم نبی اکرم ﷺ نے دی، وہی سادگی ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ کے ظاہر و باطن میں نمایاں طور پر جھلکتی تھی۔
آخری ملاقات اور رخصت کا منظر :
منظورِ خدا کیا تھا، یہ تو نہیں معلوم، مگر جس دن مولانا کا انتقال ہوا اس دن عصر کی نماز پڑھ کر جب میں چائے پینے کے ارادے سے مدرسہ کے گیٹ پر آیا تو اچانک میری نظر مہتمم مدرسہ العلوم ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی دامت برکاتہم کی گاڑی پر پڑی، جو مولانا عاقب صاحب ندوی کے ساتھ کسی کا انتظار کررہے تھے خیال آیا کہ شاید مولانا کسی پروگرام کے لیے جا رہے ہو، میں نے سوچا، ذرا رُک جاؤں، جب وہ روانہ ہو جائیں تو چائے کے لیے جاؤں ، کہ نظر مولانا عارف صاحب کی گاڑی پر پڑی ، اور مولانا نے جلدی گاڑی کھڑی کی اور مہتمم صاحب کی گاڑی کی طرف جانے لگے ، میں نے پوچھا، “کہاں جا رہے ہیں؟” تو فرمایا: “اٹاوہ۔” میں سمجھ نہ سکا کہ اٹاوہ کیوں جا رہے ہیں ، ابھی اسی سوچ میں تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی ، دیکھا تو مہتمم صاحب کی کال تھی، انھوں نے فرمایا: “چلنا ہے؟” میں نے پوچھا: “کہاں؟” تو بولے: “جنازے میں!”
میں نے فوراً فون بند کیا، گاڑی کی طرف بڑھا اور بیٹھ گیا، رات دس بجے ہمیں مولانا کے جنازے میں شرکت کا موقع ملا، ان کا آخری سفر بھی ان کی پوری زندگی کی طرح سادگی سے مکمل ہوا۔
آج جب وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں، تو دل یہی کہتا ہے کہ سادگی کا یہ پیکر اب یادوں میں زندہ رہے گا ، ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر علم کے ساتھ سادگی، عاجزی اور خلوص شامل ہو جائے، تو انسان صرف ایک عالم نہیں بلکہ ایک مثالی شخصیت بن جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندویؒ کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے، اور ہمیں بھی ان کی سادہ، باوقار اور با اخلاق زندگی سے سبق لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔