۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویؒ کی یاد میں
زین العابدین ہاشمی ندوی (ریسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی)
زندگی میں بہت سے چہرے ملتے ہیں، مگر کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی یادیں وقت کے دھندلکوں میں بھی ماند نہیں پڑتیں۔ ان کی باتوں کی نرمی، مسکراہٹ کی مٹھاس اور نگاہوں کی شفقت ہمیشہ دل پر نقش رہتی ہے۔ میرے لیے مولانا ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ ایسی ہی ایک شخصیت تھے — علم و حلم کے حسین امتزاج، شفیق استاد، اور سراپا خلوص انسان۔
لمبا قد، گندمی رنگ، سرخی مائل ڈاڑھی، اور چہرے پر سجی ہوئی خوبصورت سنہرے فریم کی عینک
یہ مولانا کا وہ دلنشین حلیہ ہے جو آج بھی نگاہوں میں تازہ ہے۔ مگر ان کی اصل پہچان ان کا اخلاق، ان کی نرمی، اور طلبہ سے محبت بھرا برتاؤ تھا۔ وہ نہ صرف علم بانٹتے تھے بلکہ محبت اور اعتماد بھی سکھاتے تھے۔
ان سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہم تخصص فی الادب میں ان سے "تعبیر” پڑھا کرتے تھے۔ مگر اس سے پہلے وہ مجھے تھوڑا جاننے لگے تھے، کیونکہ میں اکثر اپنے دوست عبدالواسع بھائی کے ہاسٹل میں آیا جایا کرتا تھا۔ مولانا وہاں طلبہ سے ملاقات کے دوران اکثر مجھے دیکھ لیتے۔ ایک دن شفقت بھرے لہجے میں پوچھا:
“بیٹا! تم کہاں سے آئے ہو؟ کہاں پڑھا ہے؟”
میں نے بتایا: “مولانا! ابھی عالیہ ثانیہ میں ہوں، مدرسہ ابو بکر صدیق سے پڑھ کر آیا ہوں، اس سے پہلے سیکروری اور سنبھل میں بھی کچھ سال گزارے ہیں۔”
وہ مسکرائے، سر ہلایا اور کہا: “اچھا ہے، تم نے مختلف ماحول دیکھے ہیں، اور کئی کئی گھاٹ کا پانی پیا ہے۔”
ایک جمالیہ ہال میں طلبہ کا ایک ادبی پروگرام منعقد ہوا، جس میں مولانا نذیر احمد ندویؒ صدرِ مجلس تھے۔ میں نے اس پروگرام میں جگر کی ایک غزل پڑھی۔ بعد میں کسی موقع پر مولانا سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہایت محبت سے پوچھا:
“ہم نے تمہیں بزم میں غزل پڑھتے دیکھا تھا، بتاؤ نعت سے زیادہ غزل پر کیوں زور دیتے ہو؟”
میں نے مسکرا کر کہا: “مولانا، بڑے شعرا نے زیادہ تر غزلیں ہی کہی ہیں، شاید اسی لیے دل غزل کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔”
میری بات سن کر مولانا کے چہرے پر خوشی کی ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔ کہنے لگے:
“تمہیں اردو ادب سے دلچسپی ہے، میں محسوس کر رہا ہوں۔ پڑھتے رہو، یہی دلچسپی آگے چل کر تمہیں آگے لے جائے گی۔”
میں نے عرض کیا کہ میں عبدالماجد دریابادی، ابن صفی، مرزا ہادی رسوا اور پریم چند کو کبھی کبھی پڑھتا ہوں۔
مولانا نے مسکراتے ہوئے کہا: “بہت اچھا، تم نے کم عمری میں اچھی کتابیں چن لی ہیں!”
ایک دن گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ان دنوں علی میاں صاحب کے والد مولانا عبدالحی صاحب کی کتاب "تذکرہ گلِ رعنا” پڑھ رہا ہوں۔
مولانا نے فرمایا:
“اچھی بات ہے، وہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے، مگر محمد حسین آزاد کی اب حیات زیادہ مشہور ہے تم ابِ حیات پڑھو، اس سے زیادہ سیکھنے کو ملے گا۔”
تب مجھے ان کے کہنے کا مطلب پوری طرح سمجھ نہ آیا، مگر بعد میں جامعہ ملیہ میں گریجویشن میں تذکروں کی تاریخ اور تنقیدی پر نظر ڈالی تو اندازہ ہوا کہ وہ مجھے محض ایک کتاب نہیں، بلکہ تحقیقی نظر عطا کر رہے تھے۔
تعبیر کی کلاس میں وہ اکثر کہتے تھے:
“انشاء کوئی قاعدہ نہیں، ایک فن ہے۔ اسے لکھتے لکھتے ہی سیکھا جاتا ہے۔”
پھر مسکراتے ہوئے داغ کا شعر سناتے:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے۔
ان کا تدریسی انداز دل میں اتر جانے والا تھا۔ وہ ایک جملے کو دس مختلف طریقوں سے بنوا کر سمجھاتے اور فرماتے کہ خیال کو جملے میں بُننا ہی اصل فن ہے۔
ان کی عربی بول چال پر تو حیرت ہوتی تھی۔ ایک بار میں نے پوچھا کہ “کیا عربی روانی سے بولنے کے لیے بھی آئینے کے سامنے مشق کرنی چاہیے؟”
ہنس کر کہنے لگے:
“نہیں، عربی بولنے کے لیے آئینے نہیں، اعتماد چاہیے۔ جب بولنے لگو تو دل میں یقین پیدا کرو کہ تم بول سکتے ہو، پھر الفاظ خود بہنے لگیں گے۔”
ندوہ میں جب کبھی جانا ہوتا اور کہیں مولانا دکھائی دے جاتے تو ضرور سلام عرض کرتا، وہ ہمیشہ شفقت سے پہچان لیتے۔ مگر افسوس کہ میں کبھی باضابطہ ان سے ملنے نہ جا سکا۔ کئی بار ندوہ میں دن گزارے، بہت سوں سے ملاقات ہوئی، مگر ان سے نہیں مل پایا — یہ احساس آج بھی دل میں ایک محرومی بن کر رہ گیا ہے۔
مولانا نذیر احمد ندویؒ صرف ایک استاد نہیں، ایک ادبی ذوق رکھنے والے فکری رہنما تھے۔ ان کے علم میں گہرائی تھی، زبان پر قدرت تھی، اور شاگردوں کے لیے محبت بے حد تھی۔ ان کے جانے سے ندوہ میں علم کا ایک باب بند ہوا، مگر ان کی یاد اور ان کی نصیحتیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے، اور ان کے علم و اخلاق کی روشنی ہمیں ہمیشہ راہ دکھاتی رہے۔ آمین۔