حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اور عصری آگہی
از : مولانا آدم علی ندوی
حالات زندگی
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ۱۹۲۹ء کو اس خانوادہ میں ہوئی جس کی دینداری و تقوی، عالی نسبی و عالی ہمتی کی تعریف حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ نے فرمائی ، جس کو ایمان و عزیمت کی وراثت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ سے ملی ، جہاں بچوں کو یہ لوریاں سنائی جاتی تھیں۔
الہی ہو مجھ کو شہادت نصیب
یہ بہتر سے بہتر عبادت نصیب
حضرت کی تعلیم و تربیت ڈاکٹر سید عبد العلی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی زیر سایہ ہوئی، دارالعلوم ندوۃ العلماء ، دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم کے نورانی ماحول میں تعلیم کی تکمیل ہوئی۔
حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃاللہ علیہ کی شفقتوں نے اس میں مزید نکھار پیدا کر دیا ، مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کی توجہات نے داعیانہ مزاج کی تشکیل کی اور مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے ملی وقومی مسائل پر تحلیل و تجزیہ کا ہنر دیا اور مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے تزکیہ و تربیت سے قلب کو سلیم بنادیا۔
ندوۃ العلماء کی تدریسی خدمات سے لے کر اہتمام و نظامت تک کی ذمہ داریاں آپ نے انجام دیں، مسلم پرسنل لا بورڈ ، رابطہ ادب اسلامی کی صدارت آپ کے حصہ میں آئیں۔
آخر کار ملت اسلامیہ کا مرشد، علم وادب کا سر پرست ۱۳/اپریل ۲۰۲۳ ء کو اپنے خالق سے جاملا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
امتیازی خصوصیات
حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ میں فکری توازن و اعتدال، علمی گہرائی ، دین کے لئے جانثاری، تصنیفی ذوق ، نرمی وتحمل مزاجی ، دیانت و تقوی یہ وہ خصوصیات ہیں جو آپ کو ورثہ میں ملیں اور آپ کی خاندانی امتیازات میں شامل ہیں لیکن تواضع وانکساری میں آپ کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
اسی طرح دوسرے تمام علماء و مفکرین سے جو خصوصیت آپ کو ممتاز کرتی ہے وہ آپ کی عصری آگہی ہے، جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں ، طوفان سے پہلے طوفان کو بھانپ لیتے ، ہوا کا رخ دیکھ کر بارش کا پتہ دیتے ، چہرہ دیکھ کر دل کی عبارت پڑھ لیتے۔
عصری آگہی میں معاون عناصر
حضرت مولا ناسید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ چونکہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے سب سے زیادہ قریب رہے اور ان کے اسفار میں برابر شریک رہے ہیں ، جس کی وجہ سے اہم شخصیتوں اور حکمرانوں سے ملاقات اور تبادلہ خیال کا کثرت سے موقع ملا ، اس لئے مولانا کو حقیقتِ حال اور مسائل کی نزاکت سے واقفیت کا جو موقع ملا وہ بہت کم لوگوں کو حاصل ہوا۔
آپ کے بڑے ماموں ڈاکٹر سید عبدالعلی حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے نئے موضوعات پر خصوصا جدید علوم جغرافیہ وغیرہ پر مطالعہ و کام کرنے کے لئے ابھارا اور رہنمائی کی اور اس میدان کا ہیرو بنا دیا۔
اسی طرح عالم عربی کے ان ممتاز ادیبوں اور صحافیوں سے حضرت کا برابر ربط رہا جو ملت کا درد رکھتے تھے اور ملت کو پیش آنے والے مسائل اور خطرات ، ملت کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں سے واقف تھے، چونکہ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۵۱ء میں تقریبا ایک سال مستقل آپ نے وہاں قیام کیا اور وہاں کی بڑی شخصیات سے استفادہ کیا اور اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان ممالک میں آتے جاتے رہے ، اس لئے وہاں کے حالات و مسائل کو سمجھنے میں بڑی آسانی ہوئی ، اور آپ خلیجی ممالک کے لئے خبیر و بصیر ہو گئے ۔
ہندوستان کے مسلمانوں کے مسائل سے واقفیت اور ان کے حل کے اسباب و وسائل کا علم بھی حضرت علی میاں رحمۃ اللہ علیہ سے منسلک رہنے اور ان کی صحبت و تربیت کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے سنِ شعور سے ہی برابر سیاسی و سماجی قائدین ، علماء و دانشوران ، ہر سطح کے لوگوں سے ملاقات و تبادلہ خیال کا برابر آپ کو موقع ملتا رہا ، اور یہ آپ کی ملی و عصری بصیرت و آگہی میں بڑا معاون ثابت ہوا۔
ندوہ کی آب و ہوا اور عربی واردو صحافت سے آپ کی وابستگی نے اس میں چار چاند لگا دیئے ، ایک جگہ مولانا تحریر فرماتے ہیں:
"ملکی و بیرونی جرائد و مجلات کے مطالعہ سے بہت فائدہ ہوا جو ثقافتی فکری اجتماعی سیاسی اور زمانہ کے حالات و تقاضے کو سمجھنے میں بہت معاون ہوا”۔ ( اوراق زندگی (١٠٤)
نیز آپ جس دور سے گزر رہے تھے وہ مشرقی ممالک کے مغرب سے آزادی کا وقت تھا ، آپ کے الفاظ میں "مغلوب ممالک کی یہ حالت کہ جیسے کوئی پرندہ اپنے قفس سے نکلنے کی امید میں زور لگاتا ہے ، اس حالت کو محسوس کرنے کا موقع مل رہا تھا۔”
عرب ممالک ، وہاں کے مسائل و حالات ، جغرافیہ وسماجی زندگی کو سمجھنے میں آپ کے لئے معاون وہاں کی زبان و ثقافت سے آپ کی دلچسپی بھی ہے، آپ نے اس کا اظہار بھی فرمایا:
"خاص طور پر عرب ممالک جہاں کی زبان و ثقافت میرا اصل موضوع تھا ، لہذا وہاں کے حالات سے مجھے واقف ہونے کا موقع مل رہا تھا” ( عالم عربی اور سامراجی نظام )
۱۹۵۹ء میں الرائد آپ نے نکالا اور اس میں حالات حاضرہ اور عالمِ اسلام ، خصوصا خلیجی ممالک کے حالات پر علمی و تحلیلی تبصرہ و تجزیہ کا سلسلہ شروع کیا جو وہاں بڑی وقعت کے ساتھ پڑھے جاتے تھے۔
عالمِ اسلام
خلیجی ممالک کی سیاسی تبدیلی ، سلاطین کی بے راہ روی ، ملک کی اقتصادی و دفاعی کمزوری ، اخلاقی انارکی پر حضرت صرف لکھتے ہی نہ تھے، بلکہ کڑھتے اور تڑپتے تھے اور پھر اسی خونِ دل کو تحریر کی شکل میں صفحۂ قرطاس پر اتار دیتے ، رہبری و رہنمائی کرتے اور سامراجی طاقتوں کی چالبازیوں سے ہوشیار و متنبہ کرتے اور ان سے بچنے کی تدبیریں بتاتے، فلسطینی مسلمانوں اور بیت المقدس کے لئے برابر فکر مند رہتے ، اپنے مضامین و مشوروں کے ذریعہ اس کا حل بتاتے اور
بازیابی کی مثبت کوششوں میں شریک رہتے۔ ترکی کی بیداری اور وہاں کی حالیہ بہتری میں آپ کا بھی حصہ ہے۔
ترکی کے سلسلہ میں یہ شعر کوڈ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
مراکش جا چکا ، فارس گیا اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ٹرکی کا مریض سخت جاں کب تک
"ترکی کا مریض سخت جاں بلب ہو چکا تھا اور آثار اچھے نہ تھے، لیکن خدا کی قدرت و حکمت کے سامنے سب ہیچ ہے ، وہ مردہ کو زندہ کر سکتا ہے، چنانچہ حالات نے کروٹ لینا شروع کیا اور ترکی کا قریب المرگ مریض صحت کی طرف مائل ہوتا نظر آنے لگا۔۔۔۔۔۔ ترکی عالم اسلام کا دھڑکتا ہوا دل رہا ہے ، اسی دھڑکتے ہوئے دل کو یورپ کی اسلام دشمنی و دسیسہ کاریوں نے مردہ بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی لیکن اب حالات پلٹ رہے ہیں۔” (عالم اسلام اور سامراجی نظام – ۱۳۸-۱۳۹)
مرشدِ ملت رحمۃ اللہ علیہ اپنے وسیع مطالعہ و تجربے کی بنیاد پر حالات کی سنگینی کے باوجود کبھی مایوس نظر نہیں آتے۔ لکھتے ہیں:
"حقیقتا امت مسلمہ ابتلا و آزمائش کی بھٹی میں تپ کر کندن بن جائے گی
اسلام کی فطرت میں قدرت نے پچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دباؤ گے۔
مسلمانوں کی ترقی و عروج اور غلبہ کا وقت آ پہنچا ہے اور انشاء اللہ جلد ہی وہ اپنے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ حاصل کر لیں گے اور عزت و وقار ، شان و شوکت کی بلندی پر فائز ہوں گے، جو ان کا طرہ امتیاز رہ چکا ہے۔” (عالمِ اسلام اور سامراجی نظام – ١٣٦)
آپ کا یقین تھا کہ دنیا دار الاسباب ہے ، یہاں کے انقلابات اور تبدیلیاں سب اسباب کے تابع ہیں ، اسی لئے ہمیشہ آپ ان اسباب و عوامل پر انگلی رکھتے جن کے ترک سے مسلمان شکست خوردگی اور پسپائی کا شکار ہوا ہے اور یورپ غالب آیا ہے اور ظاہری اسباب سے زیادہ معنوی اسباب کی طرف متوجہ کرتے جس میں ملک و معاشرہ کا ہر فرد مبتلا ہے، جو خدا کی ناراضگی اور اس کے قہر کو دعوت دیتے ہیں، چنانچہ ترکی کے آخری دور میں جبکہ وہ بہت مقروض تھا:”ترکی خلیفہ کے پاس یہودی نمائندہ گیا اور اس نے کہا کہ آپ کا جو قرض ہے ، ہم آپ کا سارا قرض ادا کر دیں گے، بس آپ ہم کو فلسطین ( بیت المقدس ) میں جگہ دیدیں ، ترکی خلیفہ کے ایمان کی بات ہے کہ یہ سنتے ہی ان کو دینی غیرت اتنی ہوئی کہ غصہ آگیا ، کہا : بیت المقدس تم کو دیدیں؟ کہا! اس کتے کو یہاں کون لایا ہے؟ نکالو اس کتے کو یہاں سے ، کہا! ہم فلسطین کی زمین کا ایک انچ بھی نہیں چھوڑ سکتے ، یہ ہماری عزت اور دین کی علامت ہے۔
یہ تھی ایمان کی بات ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اسلامیت پر ہی ان کی مدد کی، صدیوں دنیا پر غالب رہے اور سب سے زیادہ طاقتور رہے۔(حالات حاضرہ اور مسلمان۔٢٩.٣٠)
ہندوستان کے مسائل اور حضرت کی حکمت عملی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ہندوستان کی تاریخ پر گہری نظر تھی ، اسلامی حکومت کے خاتمے اور انگریزوں کے غلبے کے اسبابِ ظاہری و معنوی سے خوب واقف تھے، آزادی کے بعد ہندوستان کے سنگین حالات کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا تھا، حضرت مدنی کے خاص شاگرد رہے تھے ، جمہوریت کی نزاکتوں اور کمزوریوں پر نگاہ تھی ، اقلیت واکثریت کی پیچیدگیوں سے اچھی طرح باخبر تھے، اسی وجہ سے ہندوستان کے موجودہ مسائل پر آپ بہت سنجیدہ تھے اور تعمیری و ٹھوس حکمت عملی اختیار کرتے تھے اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے اسٹیج سے ہمیشہ لوگوں سے یہی مطالبہ بھی کرتے تھے، جبکہ ناواقف کوتاہ بیں لوگ اس کو دوسرے ناحیہ سے دیکھتے تھے اور جذباتیت کی وجہ سے ماحول خراب کرتے تھے۔ ایک جگہ آپ تحریر فرماتے ہیں:
"حقیقتِ احوال کے سلسلہ میں ہم کو سنجیدہ اور تعمیری انداز اختیار کرنے کی ضرورت ہے، اس میں صرف حق تلفی کرنے والوں کے خلاف محض آواز اٹھانے سے مسئلہ بہت کم حل ہوتا ہے، آواز اٹھانا غلط نہیں ، البتہ اس سے زیادہ ٹھوس عملی کوششوں کی ضرورت ہے، اس کے لئے ہم کو تعلیم کے نجی ذرائع اور ذرائع ابلاغ کا بھر پور استعمال اور ہم وطنوں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کرنا چاہئے ۔ ( حالات حاضرہ اور مسلمان – ۲۱۵)
ایک بڑی حقیقت جو عموما لوگوں کے نگاہوں سے اوجھل رہتی ہے اور بار بار ہمارے وقار کو مجروح کرتی ہے، وہ ہمارے مطالبہ کی عادت ہے، جو دشمن کو ہنسی اور زخم پر نمک چھڑکنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور برابر ہم زہر سے تریاق تلاش کرنے میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے رہتے ہیں۔ حضرت اس حقیقت پر انگلی رکھتے ہیں:
"اقلیت کے افراد کو کمی سے سابقہ پڑتا ہے لیکن اس کمی کو اگر قانونی بنیاد پر وہ دور نہ کرا سکتے ہوں ( یا حکومت بالقصد اس کو پورا نہ کرنا چاہتی ہو ) تو اس کو اپنی نجی تدبیروں نیز توجہ اور فکر مندی سے پورا کر سکتے ہیں، دنیا کی بیدار مغز اور حوصلہ مند اقلیتیں اس ضرورت کو محسوس کرتی ہیں اور اپنی ملت کی ضرورتوں کے لئے اپنی نجی غیر حکومتی ذرائع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرگرم عمل ہوتی ہیں اور اپنی اس ہوشمندی سے اکثریت کے مقابلہ میں پیچھے نہیں رہتیں ، بلکہ بعض وقت آگے بڑھ جاتی ہیں ، اس کی مثالیں عہد حاضر میں بھی مختلف ملکوں میں دیکھی جاسکتی ہیں”(حالات حاضرہ اور مسلمان۔ ۲۱۳)
جب ہندوستان میں ایک خاص طبقہ کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کو تشدد پسند ثابت کرنے کی آخری کوشش کی گئی اور صاف ذہنوں کو بھی اس گندگی سے ان لوگوں نے نجس کر دیا اور اسلام کی غلط تصویر ہم وطنوں کے سامنے پیش کی جانے لگے تو حضرت بے چین ہو گئے اور ایک دو مضمون یا پمفلٹ نہیں بلکہ دو ضخیم کتابیں اپنی بیماری و صحت کی خرابی کے باوجود تیار کیں (۱) رہبرِ انسانیت (۲) قرآن رہبر کامل۔اور ہندی ،انگریزی میں اسے منتقل کراکے دانشوروں اور ہم وطنوں کے ذہن کو تبدیل کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔
صحافت
صحافت ہر زمانہ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے ، مولانا کی پوری زندگی اس سے وابستہ رہی ہے، شروع سے ہی عربی واردو جرائد و مجلات سے جڑے رہے ، صبح صادق لکھنو ، رضوان ، ندائے ملت، تعمیر حیات کے ذریعہ تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتے رہے،اور ١٩٥٩ءمیں الرائد نکالنا شروع کیا اور البعث الاسلامی میں برابر لکھتے رہے اور اپنے آسان سنجیدہ علمی اسلوب سے اردو و عربی صحافت کو مالا مال کر دیا اور لوگوں کے ذہن و فکر کو بدلنے میں بڑا کام کیا اور ایک کامیاب و موثر ٹیم تیار کی ، اور دار العلوم ندوۃ العلماء میں آپ ہی کی نظامت میں صحافت کی باقاعدہ تدریس وٹریننگ کا شعبہ کھولا گیا۔
آپ ہمیشہ اس موثر میدان میں مغرب اور غیروں کے آگے رہنے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں پر حکمرانی کرنے اور اپنے لوگوں کے پیچھے رہنے اور اس کی اہمیت کو نہ سمجھنے پر شکوہ کناں رہے اور لوگوں کو اس میدان میں آگے آنے پر آمادہ کرتے رہے اور ابھارتے رہے، لکھتے ہیں:
"اسی طرح ہم نے نہ اسلامی ممالک اور نہ غیر اسلامی ممالک میں ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دی ، اس میدان میں ہماری جدوجہد نہ ہونے کے برابر ہے”۔ (حالات حاضرہ اور مسلمان۔ ٤٦)
حضرت کے یہاں غیر سنجیدہ اور اشتہار کے لئے استعمال ہونے والی صحافت کا کوئی فائدہ نہیں، لکھتے ہیں :
"دیکھنے میں آیا کہ مسلمانوں کا اس وقت مزاج کام کرنے سے زیادہ نام کرنے کا بن گیا ہے ، جد و جہد سے زیادہ جد و جہد کا اعلان اور پروگرام پر عمل کرنے سے قبل اس کا بے تحاشا اعلان اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ حال یہ ہے کہ تجاویز پاس کر دینا اور بیانات دے دینا ہمارے لئے زیادہ آسان ہو گیا ہے، ہم زبان کے دھنی ہیں اور اسی میں ہم کو مزہ آتا ہے اور خوشی ہوتی ہے اور اسی کی واہ واہی کے لئے ہم بزمیں سجاتے ہیں، اگر ان تمام تجاویز و بیانات کو جمع کر لیا جائے تو ایک نیا ہمالہ تیار ہو جائے ۔۔۔ ہمارے پاس ذرائع ابلاغ نہیں ، ہم وہ لٹریچر نہیں تیار کر پا رہے ہیں جس سے دوسروں کو سمجھا سکیں اور اسلام کی خوبیوں کو سامنے لاسکیں”۔ (عالم اسلام اور سامراجی نظام۔(۲۵۳ ۲۵۲،۲۰۱)
نئے مسائل اور حضرت کی فکرمندی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ جہاندیدہ ، ہمہ گیر و ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے، عالمی تغیر و تبدیلی سے گہری واقفیت رکھتے تھے ،سائنس وٹکنالوجی کی ایجادات اور اس سے رونما ہونے والے مسائل کا اچھی طرح آپ کو اندازہ تھا ، اس کے لئے جہاں آپ نے فکری رہنمائی ورہبری فرمائی، وہیں فقہی رہنمائی بھی کی ، اسلامک فقہ اکیڈمی کے سیمیناروں میں شرکاء کو اجتہاد واستنباط پر ابھارتے اور رہنما خطوط واضح فرماتے ، اس کا اندازہ اسی میدان کے بڑے فقیہ خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے ان الفاظ سے ہم کر سکتے ہیں:
"اس حقیر کو ان سے پچھلے دنوں ندوہ میں ایک حاضری پر تھوڑی دیر فقہ کے موضوع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا اور بہت دیر تک مولانا نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ تہذیب و ثقافت کے تغیر اور ثقافتی احوال کی تبدیلی سے احکام فقہیہ میں کیا تبدیلی آتی ہے اور بہت سی مثالیں اس سلسلہ میں دیں، تو واقعی مجھے ایسا لگا کہ مولانا کی شخصیت کے اندر ایک اور شخصیت چھپی ہوئی ہے” ( ندوۃ العلماء کا فقہی مزاج ۔ منور سلطان ندوی۔ ۳۳۳)
ایک سیمینار میں فرمایا:
"یہ موجودہ تمدن ہے اور موجودہ ترقی ہے، سائنس کی ترقی اس نے مسائل پیدا کئے ، انقلابی صورت حال پیدا ہو گئی، اس وقت ہم کو اس طرح کی نئی باتوں میں اجتہاد کرنے کی ضرورت پڑے گی” ( مقاصد شریعت – ۸۷)
اس ضرورت کو واضح کرنے کے بعد اس کے طریقہ کار کی بھی رہنمائی فرمائی:
"ہمارے اسلاف نے جو اجتہاد کیا ہے اور جو انہوں نے طریقہ کار اختیار کیا ہے، جو اصول مقرر کئے ہیں، اجتہاد و استنباط ان اصولوں کی بنیاد پر کرنا ہوگا ، اسی لائن پر چلنا ہو گا، اسی دائرہ کے اندر رہ کر کرنا ہو گا۔ (فقہ اسلامی اور عصر جدید ۔ ۳۵)
فقہ اکیڈمی کے ایک سیمینار میں دوران گفتگو سوال اٹھایا کہ:
"آلات ربط اور انٹرنیٹ انسانوں کی عام زندگی میں داخل ہو چکے ہیں اور ان سے اس طرح فائدہ اٹھایا جانے لگا ہے جس طرح آپس میں براہ راست رابطہ قائم ہونے کی صورت میں ہوتا ہے تو ایسی صورت میں شریعت اسلامی کی روشنی میں عقود و معاملات کو ان کے ذریعہ کسی حد تک عمل میں لایا جا سکتا ہے؟”(فقہ اسلامی اور عصر جدید – ۸۱)
قلب ماہیت کی مختلف صورتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"فقہ اسلامی کو اس کے مختلف پہلوؤں اور شکلوں پر نظر ڈال کر شریعت اسلامی کی رہنمائی حاصل کرنا ہے۔” (فقہ اسلامی اور عصر جدید۔۸۲)
سودی نظام اور سودی بینک کاری جو اہم مسئلہ ہے اور جس میں ابتلاء عام ہے، اس کے مضرات کا تذکرہ کرنے کے بعد اس کا حل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"اس کے لئے رفاہی فنڈ یا مالی تعاون کے ادارے یا تجارتی طریقہ کار کے رکھنے والے توفیرِ مال کے ادارے قائم کرنے سے ایک خاصی حد تک وہ مقاصد پورے ہو سکتے ہیں ، جن سے بینک کاری سے مطلوب فوائد کے مساوی فوائد بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور ان اداروں کے قیام سے اسلامی تصور کے مطابق ہمدردی و امداد کا مقصد بھی پورا ہو سکتا ہے، بیمہ اسکیموں کے بجائے مسلمان حکومت کے تعاون سے ایسی مالی تنظیمیں تشکیل دی جا سکتی ہیں جو بیمہ اسکیموں سے مطلوب فوائد کا اسلامی اور تعمیری بدل حسن بھی ہو سکتی ہیں۔
اس رخ پر اگر ہمارے علماء کرام اقتصادیات کے مسلمان ماہرین کے مشورہ سے یا اقتصایات کے ماہر مسلمان علماء کرام کے تعاون و مشورہ سے غور کریں تو نہایت صالح اور ستھرے نتائج برآمد ہونے کی بڑی توقع ہے۔ ( عالم اسلام اور سامراجی نظام۔١٧٤)
نفسیات کے ماہر اور حکمت و بلاغت کے پیکر
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ یقینا پیغمبر نہیں تھے کہ خطا کا امکان نہ ہو، لیکن اپنی گہری واقفیت، وسیع تجربه و دوراندیشی ، نفسیاتِ انسانی اور تاریخِ انسانی سے دلچسپی ، تہذیب و ثقافت کے عمیق مطالعہ کی وجہ سے ہمیشہ صحیح نتیجہ تک پہنچتے تھے اور اپنی تحریر و تقریر میں حکمت و بلاغت کی وجہ سے غلطی و چوک سے عموما محفوظ نظر آتے ہیں۔
اسی لئے جن اداروں اور تنظیموں کو آپ کی سر پرستی حاصل رہی وہ بھی ہمیشہ مثبت و تعمیری کاموں میں لگے رہے۔
آپ کی اس خوبی و کمال کو آپ کی تحریروں و تقریروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جذباتیت و شدت سے پاک اور حکمت و موعظت کا شاہکار ہیں۔ خصوصا آپ کی کتاب ”سماج کی تعلیم و تربیت” کا مطالعہ آپ کی نفسیات پر گہری نظر کو آشکار کر دیتا ہے۔
جغرافیہ
اس وقت صفِ علماء میں حضرت مولانا سید محمد رابع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو علمِ جغرافیہ پر جس قدر عبور حاصل تھا ، وہ کسی اور کو حاصل نہیں تھا ، اس سے قبل ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کو اس میں امتیاز حاصل تھا اور آپ نے اس میدان میں مہارت ان ہی کی رہنمائی میں حاصل کی اور مسلسل تین سالوں تک محنت کرتے رہے اور پھر اسی محنت کا ایک جزء "جزیرة العرب” وجود میں آیا جو نصابِ تعلیم کا حصہ بنا اور تاریخ وسیرت کے طالب علموں کا مرجع ۔
"حج و مقامات حج” بھی اسی سلسلہ کا تتمہ ہے اور "سمرقند و بخارا کی بازیافت” جو ایک سفرنامہ ہے، لیکن ان تاریخی علاقوں کا طبعی و عمرانی جغرافیہ بھی۔
جغرافیہ کا علم کسی علاقہ اور وہاں کے لوگوں کو سمجھنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور بغیر اس علم کے وہاں کی تہذیب و ثقافت کو سمجھنا مشکل ہوتا ہے ، حضرت کو چونکہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی خلافت و جانشینی حاصل تھی اور پورے عالم میں کام کرنا تھا ، اس لئے اس کو موضوع بنایا اور اس کے ذریعہ پوری ملت اسلامیہ کی رہنمائی ورہبری کا کام لیا۔
حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے "ارض القرآن” لکھ کر ملت اسلامیہ پر جس طرح ایک بڑا احسان کیا اسی طرح حضرت نے جغرافیہ کو موضوع بنا کر اور قیمتی تصنیفات چھوڑ کر مسلمانوں پر عظیم احسان کیا ، حضرت نے اس علم کی طرف سے غفلت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے :
"افسوس کی بات ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے والا علم جو جغرافیہ کے نام سے موسوم ہے، کم از کم عالم اسلام کے جغرافیہ کی حد تک بھی بہت کم مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہے”۔ (بین الاقوامی اسلامی جغرافیہ، الیاس بھٹکلی ندوی ، مقدمہ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ)