ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویؒ
علم، اخلاص اور کردار کا حسین امتزاج
آدم علی ندوی
مدرسۃ العلوم الاسلامیہ۔علی گڑھ
ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر
مولانا نذیر احمد ندویؒ کی ولادت 1967ء میں نورنگ آباد شاہی مسجد ضلع اٹاوہ (اترپردیش) میں ہوئی۔ آپ کے والد محترم جناب عزیز احمد صاحب ریلوے میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے اور ان کی پوسٹنگ ڈونڈلا میں تھی۔ مولانا نے بچپن اور ابتدائی زندگی کا بڑا حصہ اپنے والد کے ہمراہ وہیں گزارا۔
والد کے انتقال کے بعد خاندان واپس آبائی وطن اٹاوہ منتقل ہو گیا۔ آپ سات بھائی بہنوں میں سے ایک تھے (چار بھائی، تین بہنیں)؛ جن میں دو بھائی — آپ کے بڑے بھائی اور خود آپ — انتقال فرما چکے ہیں، جب کہ دو بھائی اور تین بہنیں حیات ہیں۔
پسماندگان میں بیوہ اور ایک صاحبزادی شامل ہیں۔
تعلیم و تربیت
مولانا نے 1979ء میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ وہیں سے 1986 میں عالمیت اور بعد ازاں1988 میں ادبِ عربی میں فضیلت حاصل کی۔ ندوہ میں آپ نے نہ صرف نصابی علوم حاصل کیے بلکہ عربی و اردو ادب کے گہرے ذوق کو پروان چڑھایا۔
بعد ازاں آپ نے جامعہ لکھنؤ سے عربی سے پی۔ایچ۔ڈی (ڈاکٹریٹ) کی ڈگری بھی حاصل کی۔
آپ کے علمی و اخلاقی نشوونما میں استادِ محترم مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ کی تربیت اور نگرانی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ وہی آپ کے لیے علم و اخلاق کے مینار ثابت ہوئے، اور انہی کے رنگ میں آپ کی شخصیت نکھرتی گئی۔
علمی سفر اور تدریسی خدمات
تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ ندوۃ العلماء ہی میں تدریس و تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔
آپ عربی زبان و ادب کے نہایت ماہر استاد تھے، اور آپ کا درس ذوق و علم، ادب و اسلوب، اور زبان و بیان کا حسین امتزاج ہوتا تھا۔
آپ صرف ایک مدرس نہیں بلکہ مربی اور رہبر تھے۔
عربی، اردو، فارسی، انگریزی اور ہندی — سب پر یکساں قدرت رکھتے تھے۔
سبق کے دوران جب آپ عربی لفظ کا معنی بتاتے، تو صرف اردو ترجمہ پر اکتفا نہ کرتے بلکہ انگریزی، ہندی اور فارسی میں بھی اس کے مفاہیم بیان کرتے، اور موقع بہ موقع اشعار و محاورات سے کلام کو مؤثر بنا دیتے۔
آپ ندوہ کے مشہور 15 روزہ عربی جریدہ "الرائد” کے پروف ریڈر بھی رہے۔
مولانا واضح رشید حسنی ندویؒ آپ پر غیر معمولی اعتماد رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے:
"اگر نذیر صاحب نے دیکھ لیا تو اب دیکھنے کی ضرورت نہیں۔”
یہ آپ کی دقتِ نظر اور زبان پر عبور کی بہترین شہادت ہے۔
علمی مزاج اور تدریسی خصوصیات
آپ کی مجلسِ درس میں نرمی، لہجے میں شائستگی اور طرزِ بیان میں مٹھاس ہوتی۔
طلبہ گوش بر آواز ہوتے، کہ کب کوئی ادبی شہ پارہ یا دلنشین تعبیر آپ کی زبان سے نکلے اور وہ اسے محفوظ کر لیں۔
آپ کے درس کا انداز ادب و محبت کا حسین امتزاج تھا —
نہ ڈانٹ کی سختی، نہ رعب و دبدبہ، بلکہ مسکراہٹ کی مٹھاس اور نصیحت کی نرمی۔
آپ کا کہنا تھا:
"میں ندوے میں موجود رہوں اور درجے پڑھانے نہ جاؤں تو بچوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔”
یہ وہ آخری جملہ تھا جس کے بعد آپ کی روح پرواز کر گئی۔
یہ جملہ آپ کی اخلاص، فرض شناسی اور عشقِ علم کی آخری علامت بن گیا۔
سادگی و انکساری
مولانا کی زندگی سادگی، انکساری اور قناعت کا عملی نمونہ تھی۔ایک شاگرد لکھتے ہیں:
"ایک صبح میں کینٹین پر ناشتہ کر رہا تھا، مولانا آہستہ قدموں سے اندر آئے اور پست آواز میں بولے: ‘ایک گلاس گرم دودھ ملے گا؟’
دودھ آیا، مولانا نے جیب سے دوا کا لفافہ نکالا، دوائیں دودھ کے ساتھ لیں، خالی گلاس میز پر رکھا اور خاموشی سے باہر نکل گئے۔”
یہ منظر مولانا کی تواضع و وقار کا زندہ نمونہ ہے۔
علمی مقام و اعتراف
مولانا نذیر احمد ندویؒ اپنی عربی فصاحت و بلاغت، اردو و ہندی کی مہارت، اور زبان کی باریکیوں پر گہری نظر کے لیے مشہور تھے۔
ان کی علمی ساکھ کے معترف چھوٹے بڑے سبھی تھے۔
ان کے شاگردوں میں آج متعدد ایسے افراد ہیں جو خود عربی و اردو کے نامور اساتذہ اور مصنفین بن چکے ہیں۔
اگرچہ مولانا نے کوئی تصنیف نہیں لکھی، مگر ان کی افراد سازی اور کردار سازی ہی ان کی سب سے بڑی تصنیف ہے۔
بیماری اور آخری ایام
عرصہ دراز سے مولانا شوگر کے عارضے میں مبتلا تھے۔
بیماری کے باوجود تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔
یہاں تک کہ آخری ہفتوں میں بھی وہ اسپتال میں داخل ہونے کے باوجود صبح آٹھ بجے سے ایک بجے تک ندوہ آ کر درس دیتے اور پھر اسپتال لوٹ جاتے۔
آپ کے آخری الفاظ،
"یہاں سے کل پڑھائیں گے”
طلبہ کے لیے ایک ابدی یادگار بن گئے، جو دراصل آپ کے آخری درس کے بعد ادا ہوئے تھے۔
وفات اور تعزیتی تاثرات
مولانا نذیر احمد ندویؒ 7 اکتوبر 2025ء کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔
ان کی وفات کی خبر نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اساتذہ و طلبہ کو غمزدہ کر دیا۔
ہر دل سے ایک ہی صدا بلند ہوئی:”موتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَم”
یعنی "عالم کی موت دراصل ایک عالم کی موت ہے۔”
ان کے انتقال پر ملک و بیرونِ ملک کے متعدد علماء و اساتذہ نے تعزیتی کلمات کہے۔
مولانا ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے فرمایا:”وہ ان علمائے ربانیین میں سے تھے جو خاموش رہ کر دنیا پر اثر چھوڑ جاتے ہیں۔
ان کی سادگی میں عظمت، اور ان کے سکوت میں نور تھا۔”
شخصیت کے نمایاں اوصاف
علم و حلم کا حسین امتزاج۔سادگی و قناعت۔خاموشی میں وقار۔شاگردوں سے شفقت و محبت۔تدریس میں ہمہ گیری اور فصاحت۔نام و نمود سے بےنیازی
مولانا نذیر احمد ندویؒ کی زندگی ایک درس ہے —
اخلاص، محنت، اور خاموش خدمت کا درس۔
وہ چلے گئے مگر ان کے فیضانِ علم و اخلاق کی خوشبو آج بھی ندوہ کی فضاؤں میں مہک رہی ہے۔
خدا بخشے، بہت سی خوبیاں تھیں جانے والے میں۔
علامہ اقبالؔ کے الفاظ میں ہم ان کے لیے دعاگو ہیں:
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا
اللّٰہ تعالیٰ مولانا کی مغفرت فرمائے،
ان کے درجات بلند کرے،
اور ان کے علم و کردار کو ہم سب کے لیے روشنی کا چراغ بنائے۔
آمین یا ربّ العالمین۔