ہیرا ” جو نایاب تھا
🖋️ از مـحمد کیـفــــ قـریشـی
علیا اولی شریعہ ، تکمیل
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ*
- _ تقریبا دس بارہ برس سے اک نام جو تعریف و توصیف کی خوشبو سے معطر فضل و کمال سے مزین کانوں میں رس گھولتا رہا وہ نام نذیر بے نظیر تھا ۔ مدرسہ جامعہ علمیہ ٹونڈلہ (ضلع فیروزآباد ) میں شعور کی آنکھیں کھولنے کے بعد آن محترم رحمتہ اللہ علیہ کے علم و فن کے خوب چرچے سننے کو ملے ، لیکن کبھی دیدار نصیب نہ ہوسکا، استاد محترم سے شناسائ و تعارف کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ جس مدرسے میں آپ محترم ؒنے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز کیا اسی دانش گاہ کا ناچیز بھی خوشہ چیں رہا ہے ۔ • _ نذیر احمد ؒ کا تعلق اتر پردیش کے معروف شہر اٹاوہ سے ہے ، جہاں آپ 1966 میں محلہ نورنگ آباد میں پیدا ہوۓ ، آپ کے والد ماجد جناب عزیزی ص کا جب ٹونڈلہ (ضلع فیروزآباد ) ریلوے ڈپارٹمنٹ میں بحیثیت سپرٹنڈنٹ تقرر ہوا تو آپ بھی مع اہل خانہ ریلوے کواٹرز میں مقیم ہوگۓ اور یہیں رہنے لگے ، محترمؒ کا خاندان دنیوی اعتبار سے اعلی تعلیم یافتہ تھا ، لیکن دینی تعلیم میں نمایاں مقام حاصل کرنے والے تنہا آپ ؒ تھے ۔ • اسی قصبے ٹونڈلہ( ضلع فیروزآباد )میں اسٹیشن سے قریب ایک جامع مسجد واقع تھی، جہاں ایک بزرگ شخص چھوٹا سا مدرسہ چلایا کرتے تھے ، مسجد اسٹیشن سے قریب ہونے کی وجہ سے آپ کے والد ماجد عزیزی صاحب یہیں نماز پڑھنے آیا کرتے تھے ، بحسن اتفاق ایک روز اچانک ان کی ملاقات انھیں بزرگ شخص سے ہوئ جو شہر لکھنؤ میں اپنا سب کچھ تیاگ کر صرف دین محمدی کی خدمت کے واسطے ٹونڈلہ ہجرت کرآۓ تھے ، یہاں آپ نے بہت ہی معمولی وسائل کے ساتھ نبوی طرز پر زاہدانہ زندگی گزارتے ہوۓ امت مسلمہ کی بے لوث خدمت کی اور طالبان علوم نبوت کو اپنے علم سے مستفید فرمایا ۔
بزرگ ؒ کا اسم گرامی *مظہر الحق
لکھنوی ہے آپ کے خسر * مفتی سعید* احمد لکھنویؒ ؒ جو مولانا فتح محمد تائب لکھنوی ؒ مصنف خلاصۃ التفسیر کے فرزند ارجمند تھے اور مولانا فتح محمد تائب لکھنویؒ کا شمار بانیان ندوہ میں بھی ہوتا ہے ، اسی روداد کے پیش نظر اگر یہ کہا جاۓ تو ہر گز غلط نہ ہوگا کہ اللہ رب العزت نے نذیر احمد ندوی ؒ کا تانا بانا بچپن ہی سے دارالعلوم ندوۃ العلماء سےجوڑ دیا تھا ، اور پھر مستقبل میں اس دیار کے لۓ قبول بھی فرمایا ۔
•_ نذیر احمد ندویؒ کی بسم اللہ خوانی مدرسہ جامعہ علمیہ ‘ٹونڈلہ” میں بدست مظہر الحق لکھنویؒ ہوئ ، "دراصل نزیر احمد ندویؒ کو دینی تعلیم کے لیے *بزرگ محترم ؒ نے اُن کے والد ماجد عزیزی صاحب سے مانگا تھا ” کہ آپ اس ننھی سی جان کو دینی تعلیم کی خاطر میرے حوالے کردیں” میری خواہش ہے کہ آپ
کی یہ وجیہ و خوب رو اولاد علوم نبوی میں نمایاں مقامحاصل کرے ، اور دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو و سرفراز ہو’
خیر! مظہر الحق ؒکی درخواست پر آپ کے والد نے لکھنویؒ کے حوالے کردیا ، جہاں چھوٹے سے مدرسہ میں آپ کی تربیت کی گئ ، میدان علم و ادب کا راستہ دکھایا گیا ، علوم عالیہ سے متعارف کرایا گیا ، اور علم نبوی کے حصول کے قابل بنایا گیا ، یہاں آپ نذیر احمد ؒ نے *جامعة التصریف* تک تعلیم حاصل کی ، اور پھر مزید اعلی تعلیم کے واسطے عالمی ادارے دار العلوم ندوۃ العلماء کا رخ کیا ، جہاں مولانا رابع حسنی ندویؒ ؒ نے امتحان کے بعد آپ کا مطلوبہ درجے میں داخلا مقرر فرمایا ،
(اس وقت دار العلوم ندوۃ العلماء میں مولانا کا داخلہ درجہ سوم میں ہوا تھا ۔)- _ راقم بچپن ہی سے نذیر احمد ؒ کی شخصیت سے واقف و متعارف تھا ، لیکن کبھی ملاقات کا شرف نصیب نہ ہو سکا ، الحمدللہ استاد محترم سے پہلی باقاعدہ ملاقات ندوۃ العلماء کی ممتاز شاخ مادر علمی مدرسۃ العلوم الاسلامیہ علیگڑھ میں ہوئ ، جہاں ۲۰۱۸ء میں آپ محاضرے کے لۓ تشریف لاۓ ہوۓ تھے ، یہیں آپ کو پہلی نظر جی بھر کے دیکھا اور نیاز حاصل کی ، مزید جب ٹونڈلہ کا حوالہ دیا، اپنے ماموں جان کا نام لیا (جو بچپن میں آپ کے رفیق درس رہے تھے) تو فورا پہچان گۓ ، اور بہت خوش ہوۓ ، حوصلہ افزا کلمات ادا کۓ ، نیک تمناؤں کا اظہار فرمایا اور اپنی شیریں زباں سے بڑی دعائیں دیں ۔
لیکن جب راقم کا گزشتہ سال دار العلوم ندوۃ العلماء ، میں درجہ عالیہ رابع شریعہ میں داخلہ ہوا تو بندہ کو مولاناؒ کی جانب سے اطمینان تھا کہ اب آپؒ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ، استفادے کاخوب موقع میسر آۓ کا، لیکن بندے کی یہ حرماں نصیبی رہی کہ اس وقت مولانا سخت بیمار تھے ، جب ناچیز نے آپ ؒسے کچھ سیکھنے کی درخواست کی تو آپ نے اس حالت میں بھی کیا ہی اپنائیت بھرا جملہ کہا ‘
اگر آپ اس وقت آۓ ہوتے جب ہم ٹھیک تھےتمہیں بہت کچھ سکھا دیتے” لیکن آپ نے پھر بھی مسکراتے ہوۓ دلاسا دیا اور فرمایا کہ کسی بھی کتاب ، عبارت یا جملے کے سمجھنے میں کیسی دشواری یا دقت پیش آۓ بلا تردد و ہچکچاہٹ کمرے آجا یۓ ، یا مسجد میں پوچھ لیجۓ گا ،
ہم ان شاءاللہ رہنمائ فرمایئں گے " - نذیر احمد ؓکی رہائش رواق اطہر غربی زیریں میں تھی بحسن اتفاق ہمیں بھی اسی بارڈنگ میں کمرہ ملا ، اس کا بڑا فائدہ یہ تھا کہ اکثر و بیشتر آپ کے نورانی چہرے کی زیارت بھی ہوجایا کرتی ، اور ملاقات کا موقع بھی مل جاتا ، ناچیز سے جب بھی ملتے بہت احترام و محبت سے ‘ کمرے حاضر ہوتا تو فرماتے آپ کی کیا ضیافت کی جاۓ بعض مرتبہ مجھے بھی شرم محسوس ہونے لگتی کہ اتنی بڑی شخصیت اور کہاں میری بساط ‘
دراصل آپؒ ٹونڈلہ کی وجہ سے بہت محبت کیا کرتے اور ایک الگ ہی انسیت کا معاملہ فرمایا کرتے تھے ،آپ
حضرات کو سن کر حیرت ہوگی کہ راقم کو مولانا سے باقاعدہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا ، یہ بات ناچیز کو بیان کرنا چاہۓ ،لیکن وفات سے ایک ہفتے قبل استاد محترم نے دارالعلوم کی مسجد میں افسوس بھرے انداز میں مجھ سے یہ جملہ خود کہا تھا : کہ تم ہم سے درجے میں نہیں پڑھ سکے اس کی بات الگ ہوتی ہے۔
گرچہ گزشتہ سال کے آواخر میں مولانا
نے بندہ ناچیز اور برادرم حمدان الحق ( مقیم ٹونڈلہ ) کو خصوصا الگ سے ایک دو عربی کتابین پڑھائ تھیں ۔
(اس وقت مولاناؒ کی طبیعت قدرے ٹھیک تھی ۔ )
•__ نذیر احمد ندوی ؒ نے 1988 میں دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فراغت حاصل کی ، اور پھر مولانا سید رابع حسنی ؒ کی ایماء پر یہیں تدریسی خدمات انجام دینے لگے ، دراصل مولانا رابع حسنی ندویؒ نے نذیر احمد ندویؒ ؒکی صلاحیت و قابلیت کو دوران طالب علمی ہی بھانپ لیا تھا ، اور ایک صاحب کے ذریعے آپ کے پاس کہلا بھیجا کہ نذیر سے معلوم کرۓ’ مستقبل میں کیا ارادہ رکھتے ہیں ‘ ندوہ میں تدریسی خدمات انجام دیں گے ؟ مولاناؒ اس وقت طالب علم ہی تھے ، آپ نے زیادہ توجہ دی اور نہ اس سلسلے میں غور کیا ، لیکن مولانا سید رابع حسنی ؒ کو بخوبی علم ہوگیا تھا کہ یہ ایک نایاب ہیرا ہے ، اگر یہ یہاں رہا تو اس دیار کو اپنے علم و فن سے زر خیز کر دیگا ، طلباء کو قلم کا دھنی اور زبان کا عاشق بنا دیگا ، اپنی منفرد صلاحیتوں سے انھیں نکھار دیگا ، اور اس کی روشنی و چمک اس ادارے کو تابندہ و درخشاں بنا دیگی ۔
الغرض دوبارہ مولانا سید رابع حسنی ؒ نے ایک خادم کو بھیجا کہ بھئ معلوم کرۓ بھلا یہ خاموشی کیسی ” ان صاحب نے مولانا سید رابع حسنیؒ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ نذیرصاحبؒ سے کہا : اماں حضرت! ندوہ میں استاذ بننے کی لوگ تمنا و خواہش کرتے ہیں ‘ کہ کاش انھیں اس ادارہ میں میں تدریس کا موقع مل جاۓ ، لیکن آپ تو ماشاءاللہ بڑے نصیب والے ہیں کہ بغیر کسی دوڑ بھاگ و تگ و دو کے دار العلوم میں پڑھانے کا سنہرا موقع مل رہا ہے ، تب بھی آپ خاموش ہیں ” خیر مولانا نے ان کے سمجھانے کے بعد غور و فکر کیا اور ناظم صاحب ؒ کے پاس تقرری کی درخواست دے دی ،
اور ندوے میں تدریس کے فرائض انجام دینے لگے ، کیا معلوم تھا کہ نذیر بے نظیر ” اپنی زندگی ندوے کے لۓ وقف کردیں گے ، اپنا اوڑھنا اور بچھونا اسی دیار کو بنا لیں گے ، اور اپنی
ساری قوت و توانائ عندلیبان گلشن پر صرف کردیں گے، اور اپنی موت سے
چند منٹ پہلے طلباء کو اپنے علم سے سیراب کریں گے ” حالت نزع سے کچھ لمحات قبل بھی زبان پر یہ جاری ہو گا کہ مجھے درجے لے چلو!
اۓ ہـۓ ” واہ رے مرنے والے’ تو کیا تھا! ایک جیتا جاگتا ‘چلتا پھرتا’ انسانی شکل میں فرشتہ تھا ۔۔۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیراسفر ۔
•_ یقینا وہ بہت انوکھا تھا ، اسی کی بات نرالی تھی ، اس کی مثال تو نایاب ہیرے کی سی تھی جس کے علم و عرفاں کی تابانی و ضوفشانی سے ہر کسں و ناکس مستفید ہوتا رہا ۔ وہ’ وہ’
تھا ” کہ اصاغر جس کے دلدادہ ہوں ، معاصر جس پر رشک پا ہوں ، اور اکابر جس کے مداح ہوں ، ایسا شخص جس نے پوری زندگی سب کا برابر احترام کیا، کہیں فرق مراتب روا نہ رکھا ، ہر شخص کو اس کا مقام دیا ، اور گویا پوری زندگی أنزل الناس منازلھم کی بے مثال تصویر پیش کرتا رہا ، اس کی جوانی و بڑھاپا ندوے میں گزرا ، ٣٧ سال ندوہ کی خدمت کی ، اور اپنے علم سے طلبہ کو سیراب کیا ، لیکن مجال ہے” کہ کسی شخص نے آپ کے متعلق ایک لفظ منفی کہا ہو ، غلط تاثر کا اظہار کیا ہو، لیکن یہ بچشم خود مشاہدہ ہے کہ آپ کا معاصر ہو یا شاگرد ، ملازم ہویا خادم ، غیرب ہو یا غنی ، عام ہو یا خاص الغرض ہر بندہ خدا آپ کے فضل و کمال ، نیک سیرت و حسن اخلاق پر رطب اللسان ہے ، ہر کسی کی زبان آپؒ کی خوبیوں سے معطر ہے ، کسی بھی محفل میں نذیر بے نظیر کا ذکر آ ۓ تعریف و توصیف کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں ۔
اس کے پاس کوئ عہدہ تھا نہ منصب ، اور نہ کسی ذمہ داری سے منسلک ، لیکن کبھی اس کا شکوہ نہ کیا ،کہیں بیان نہ کیا اور ایک لفظ زبان سے نہ نکالا ، خاموشی میں بہتری سمجھی ، سکوت میں خیر جانا اور گمنامی میں عافیت محسوس کی ، کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ دنیا وما فیہا کی حقیقت و حیثیت سراب کی مانند ہے ،یہاں کی ہر چیز وقتی ہے اور اس کے ساتھ آزمائش بھی ہے ، اصل انعام و فضل تو مالک حقیقی عطا فرماۓ گا ۔
کیونکہ آپ کی زبان حال یہی گنگناتی تھی کہ
جس دن سے میرے دل میں تیری یاد بسی ہے
ہر ایک کو تیرے سوا بھول گیا ہوں ۔
•__ ڈاکٹر نذیر احمد ندوی ؒ نے لکھنؤ یونیورسٹی سے عربک زبان میں پی ایچ ڈی کی اور ۲۰۰۲ میں وہیں سے آپ کو فلاسفی کی ڈگری بھی ملی ۔
زیادہ تر لوگ یہی جانتے ہیں کہ مولانا نے اختصاص ادب سے کیا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اختصاص ادب سے نہیں بلکہ فن حدیث سے تھا ۔
نذیر احمد ؒصرف ایک استاذ نہ تھے ، بلکہ ایک داعی مخلص بھی تھے ، ایسا داعی جو اپنے اندر داعیانہ جذبہ رکھتا ہو ، مولانا ؒنے بیرون ملک ترکی ، لندن ، اور سعودی عرب کا سفر کیا اور اندرون ملک تو سینکڑوں دعوتی اسفار فرماۓ، آپ کا ہر عمل ہر اقدام نام و نمود سے دور خاموشی کی فضا میں ہوتا تھا ۔
جس فرد فرید نے آپ کے پرخم کو سنوارا ، شخصیت کو تراشا اور نکھارا ، وہ زبان و بیان کے ماہر و فنکار ، ناقد ، اور مشہور صحافی مولانا سید واضح رشید حسنی ندوی ؒ تھے ۔
• یوں تو آپؒ عربی ادیب کی حیثیت سے معروف و مشہور تھے ، لیکن اردو و فارسی دونوں زبانوں میں ید طولی رکھتے تھے اور ساتھ میں انگریزی و سنسکرت کے دقت و عمق سے بھی خوب واقف تھے ۔ لیکن آپ کاجو مقام ادب عربی میں تھا ، آپ کو جو گہرائ و گیرائ زبان نبوت میں عطا تھی ، اس میں کوئ آپ کا ثانی نہیں ، جب عربی زبان میں تکلم فرماتے تو گویا دہن مبارک سے پھول جھڑتے ہوں ، اور جب
قلم حرکت میں آتا تو محسوس ہوتا کہ جیسے کسی نے صفحۂ قرطاس پر گل فشانی کر دی ہو ، جس نے بھی آپ سے پڑھا وہ خوب جانتا ہے کہ آپ کا درس منفرد نوعیت کا ہوتا تھا ، جس میں اردو کی شاندار ترجمانی ، انگریزی اصطلاحات سے لاجواب استدلال ، اور زبان سنسکرت کا زبردست تڑکا شامل ہوتا ، مولانا ؒ مشکل سے مشکل پر پیچ عبارت کو بڑی آسانی سے طلبہ کو سمجھا دیتے ، اور کبھی احساس کمتری کا شکار نہ ہو نے دیتے ، آپ صرف استاد نہ تھے بلکہ استاذ کی شکل میں ایک باپ تھے ، جس نے بڑی خاموشی سے نسل نو کی تعمیر کی ، اور ہمیشہ ایک باب کی مانند سایہ شفقت پھیلائے رکھا ، آپ ؒمصنف تو نہ تھے لیکن
مصنف گر ضرور تھے ، درجنوں طلبہ کو آپ نے قلم پکڑنا سکھایا ، سینکڑوں طلبہ نے آپ کے زیر تربیت لکھنا سیکھا، بے شمار تشنگان علم و ادب نے آپ ہی کے فیض نظر سے زبان و بیان کا سلیقہ پایا اور ہزاروں شائقینِ علم و فن نےآپ کے دامن تربیت سے فیض حاصل کیا ۔
اور آپ جاتے جاتے ہم سب کو یہ احساس دلا گۓ ‘ کہ
چاہے تم آج نہ ہو میری وفا کے قائل
پرتمہیں یاد آۓ گی کبھی یہ الفت میری
یقینا آپ کی شخصیت جامع الکمالات تھی ‘
_ آخری ملاقات!
مرحوم رح نے گھر( اٹاوہ )جانے سے دودن قبل ناچیز کو فون کیا’ اور اپنی شیریں زباں سے فرمایا : کیف!
کہاں ہیں ؟ مسجد سے نکل گۓ کیا ؟
اگر آپ مسجد تشریف لے آیئں تو آپ سے ملاقات ہوجاۓ ،میں بغیر کسی
تا خیر کۓ مسجد حاضر ہوا ۔
مولانا نے اپنے مخصوص مشفقانہ انداز میں خیریت معلوم کی ، ٹونڈلہ کے احوال دریافت کۓ اور دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگوفرمائ ۔
اُس دن اتفاق سے استاد محترم نے ٹونڈلہ جانے کا خیال بھی ظاہر کیا تھا کہ موسم ذرا سرد ہو جاۓ (مولانا کو موسم سرما میں بمقابل موسم گرما قدرے سکون ، طبیعت میں بہتری ، اور مزاج میں خوشگواری محسوس
ہوتی تھی ۔ ) تو آپ کے ہمراہ سفر ٹونڈلہ( ضلع فیروزآباد)کی ترتیب بناتے
ہیں ، وہاں جاکر بہت اچھا لگتا ہے ، دل کو خوشی محسوس ہوتی ہے اور مزاج میں شادمانی و انبساط بھی پیدا
ہوجاتا ہے ۔ مزید اس بہانے بچھڑوں کا دیدار ، اور پرانوں سے ملاقات بھی ہو جاتی ہے ۔
دوسری جانب اہل ٹونڈلہ بھی آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا کرتے اور بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے ۔ کیونکہ آپ میدان علم و ادب میں بلندی و اقبال کے منارے پر فائز ہونے کے باوجود ہر شخص سے یکساں سلوک روا رکھتے اور برابری کامعاملہ فرماتے تھے ، شکلوں اور صورتوں کے مطابق لوگوں سے پیش آنا
آپ کی فطرت میں نہ تھا ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ آپ کا پیکر حسن اخلاق ، دین محمدی کا سچا عاشق اور اس کا مخلص سپاہی ہونا تھا ۔
وہی دین محمد جس کی خدمت کا ۳۸ سال آپ کو موقع ملا ، جس کے لۓ اللہ رب العزت نے عزیزی کی اولاد میں سے صرف نذیرؒ بے نظیر کا انتخاب فرمایا ، نہ صرف انتخاب فرمایا بلکہ شرف قبولیت سے بھی نوازا ، آپ ؒ نے بھی اپنی پوری زندگی اس ذمہ داری کا حق ادا کیا ،اور اپنے پیچھے خادمان دین محمدی کا شاندار قافلہ چھوڑ ا ۔
اور تادم حیات اس صدا کو بلند کرتے رہے :
کہ وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہوا تھا ۔
مولانا کو دو دن بعد 1 اکتوبر کو اپنے وطن اٹاوہ جانا تھا ، اسی مناسبت سے آپ نے معلوم کیا کیف! کیا کوئ فیروزآباد جانے والا ہے ؟ اگر کوئ ساتھ ہوجاۓ تو ہمت بڑھ جاتی ہے ۔
کیونکہ آپ بیمار تھے ، پورے بدن سے کمزوری نمایاں تھی ، سہی سے چل بھی نہیں پارہے تھے ، آپ چاہتے تھے کہ بس ہمیں گوئ ٹرین میں چڑھادے ، لیکن ناچیز کے علم میں کوئ طالب علم فیروزآباد جانے والا نہ تھا ‘ اس لۓ راقم نے خود مولانا کو اسٹیشن چھوڑنے کا وعدہ کرلیا ، اور یکم اکتوبر بعد نماز ظہر مولانا کو اسٹیشن لیکر حاضر ہوا ، ہم استاد محترم کی نصیحت کے مطابق ایک گھنٹہ پہلے نکلے ، اور ٹرین چلنے سے پچیس منٹ قبل اسٹیشن پہونچ گۓ ،اور مولاناؒ کو آرام سے ٹرین میں بٹھایا دیا ، لیکن ٹرین چلنے میں ابھی خاصا وقت تھا، محسوس یہ ہورہا تھا کہ آپ تھک گۓ ہیں ، اس لۓ آپ کی خدمت میں چاۓ پیش کی اور دیر تک ساتھ بیٹھے رہے ، پھر باتوں باتوں میں ہی مولانا محترمؒ نے حوصلہ افزا کلمات ادا کرتے ہوۓ فرمایا ،
ماشاءاللہ!
آپ کو خدمت کا بہت سلیقہ ہے ، آپ کی ترتیب بالکل درست رہی اور ہم قبل از وقت باطمینان اسٹیشن پہونچ گۓ ۔
پھر مزید گویا ہوۓ ‘ *کیف! ہم تمہیں فون کرتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں ، یاد نہیں رہتا”
گھر سے واپس آجایئں تو پھر ان شاءاللہ تمہارے پڑھنے کی ترتیب بناتے ہیں ، اور موسم ذرا سرد ہوجاۓ تو اسی گاڑی سے ٹونڈلہ کا سفر کریں گے ،
اور پھر آپ نے خوب دعاؤوں کے ساتھ ناچیز اور برادرم انس (متعلم عالیہ رابعہ )کو اجازت دی ۔
• مولانا ؒ غالبا اتوار کو گھر سے ندوہ تشریف لے آۓ تھے ،لیکن آثم کی کوتاہی رہی کہ آپ سے ملاقات نہ کرسکا اور ایک دن بعد ہی اچانک عزیزم سید عبادہ حسن (متعلم عالیہ رابعہ ) کا فون آیا کہ کیف!
معلوم ہوا کہ مولانا نزیر احمد صاحب کو دل کا دورہ پڑا ہے” انھیں ہسپتال لے گۓ ہیں ‘ اس خبر کا سننا تھا کہ دل بیٹھ سا گیا اور بے چینی نے گھیر لیا ، کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک ساتھی کی آواز کان پر پڑی نذیر صاحب” کا انتقال ہوگیا ہے ، ارے وہی نزیر صاحب جن کی سفید داڑھی ہے ، اختصاص کے درجات میں پڑہاتے ہیں ‘
دل ماننے سے انکار کر رہا تھا، مگر آنکھوں نے راز فاش کردیا اور آنسو بر آۓ ، اور وہ
پورا منظر سامنے آکر ستانے لگا کہ ابھی تو تونے ملاقات کی تھی ، کچھ روز پہلے ہی تو تو”نے جی بھر کے دیکھا تھا ، ابھی تو آپ ؒ سخت بیمار بھی نہ تھے ،
کیسے یقین ہو کہ آپ اتنی جلدی ہم گنہگار طلباء کو یتیم کر جائیں گے ،
اب بھی یہی لگتا ہے کہ مولانا کسی سفر پر ہیں اور وہاں سے واپسی میں آپ کو تاخیر ہوگئ ہے ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ ایک ایسا سفر ہے جہاں سے کسی کی واپسی نہیں ، بلکہ صحیح معنوں میں آپؒ اب تک ایک سفر میں تھے ، جیسے ہی آپ کا یہ اذیتوں اور آزمائشوں بھرا سفر اپنی انتہا کو پہونچا ، اللہ رب العزت نے اپنے حضور بلا لیا ، ہمیں امید نہیں بلکہ کامل یقین ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے اس برگزیدہ بندے کے لۓ جنت کی کھڑکیاں کھول دی ہوں گی ، اور آپؒ دنیا کی الجھنوں اور پریشانیوں سے دور جنت کی ٹھنڈی ہوائیں کھا رہے ہوں گے ۔ ان شاءاللہ ۔
مولانا نذیر احمدؒ اپنے مالک حقیقی سے تو جاملے ، لیکن ندوہ کے تئیں آپ کی بے لوث خدمات تاریخ کے پننوں میں ہمیشہ محفوظ رہیں گی ، جنھیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی ۔
مزید آپ کے اخلاص ، اخلاق اور کردار سے ندوہ ہمیشہ معطر رہے گا ۔
میں اپنی یہ تحریر سید الطائفۃ سید سلیمان ندوی ؒ کے قلم سے نکلے ہوۓ ان اشعار پر کرتا ہوں جو مولانا ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ کی زندگی کی کیا خوب عکاسی کرتے ہیں :
جس کے لب کی جو صدا تھی نوحہ اسلاف تھی
جس کی ہر فریاد تھی صوت وراۓ کارواں
جس کی اک اک بات تھی روح بلالی کی اذاں
جس کی رگ رگ میں تھی سوز درد کی چنگاریاں