دھرم پریورتن
🖋مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آر ایس ایس اور اس كے زیر اثر بی جے پی كی طرف سے بار بار تبدیلیٔ مذهب كے خلاف آواز اٹھتی رهتی هے، بھگوا دهشت گرد پریشان هیں كه آخر كیسے هندو سماج كواپنے دھرم پر قائم ركھا جائے اور ان كو اپنے مذهب سے باهر جانے سے روكا جائے، اس كے لئے مختلف ریاستوں میں ’’دھرم پریورتن ‘‘كا قانون لایا گیا، جو لوگ قانونی تقاضوں كو پورا كرتے هوئے مذهب بدلتے اور خاص كر اسلام قبول كرتے، ان كے خلاف ایف آئی آر درج كی جاتی هے، ابھی سپریم كورٹ نے اتر پردیش كی حكومت كو اس حركت پر پھٹكار لگائی هے، افسوس كه بھگوا گروپ اپنی كمی كو دوسروں میں تلاش كرنا چاه رها هے، وه اس پر غور نهیں كرتا كه خود همارے اندر كیا كمی هے؛ بلكه وه مسلمانوں اور عیسائیوں میں قصور تلاش كرتا هے، ان پر ظلم كرتا هے، ان كو بدنام كرتا هے، ان كے خلاف پروپیگنڈه كرتا هے، مسلم لڑكیوں كو مرتد كرنے كے لئے بڑے بڑے انعامات كا اعلان كرتا هے؛ حالاں كه ان كو خود اپنے دامن كا داغ دیكھنے كی ضرورت هے۔
ہندو مذہب میں عقیدہ کا بحران
اصل بات یه هے كه ہندو مذہب میں بنیادی طور پر کوئی ایسا ٹھوس عقیدہ نہیں پایا جاتا ، جس کو ہندو عقیدہ اور آئیڈیا لوجی (Ideo Logg) کا نام دیا جاسکے ، جو لوگ ’’ رام ‘‘ کو بھگوان اور خدا مانتے ہوں ، وہ بھی ہندو ہیں اور جوگ ’’ راون ‘‘ کو خدا قرار دیتے ہوں اور رام کو بُرا بھلا کہتے ہوں ، وہ بھی ہندو مذہب ہی کے علمبردار ہیں اور نہرو وغیرہ جیسے دانشور جو مورتی پوجا اور دیوی دیوتاؤں کے وجود کو توہم پرستی قرار دیتے ہوں وہ بھی ہندو ہیں ، غرض ہندو مذہب ’’ موم کی ناک ‘‘ ہے ، اس کی جو صورت چاہو ، بنا لو ، توہم پرستی ہی کے نتیجے میں طبقاتی تقسیم ہندو عقیدہ کا اٹوٹ جزء ہے اور اسی لئے ہندستان میں ہزاروں سال سے دبے کچلے ہوئے لوگوں کا احساس ہے کہ ہندو مذہب در اصل مذہبی قالب میں ’’ برہمن واد‘‘ کی حفاظت سے عبارت ہے ، اس نظام نے صدیوں سے دلت اور پست طبقات کو اپنے طاقتور پنجہ میں دبا رکھا ہے ، جب بھی انھوں نے انگڑائی لینے کی کوشش کی ، نہایت ذہانت کے ساتھ ان پر اپنی گرفت اور مضبوط کردی گئی۔
حالاںکہ ہمارا موجودہ جمہوری ڈھانچہ ذات پات کے تصور کی نفی کرتا ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ آج بھی برہمنوں کی تعداد تو چارپانچ فیصد سے زیادہ نہیں ، حکومت کے کلیدی عہدوں پر ان کی تعداد ۶۴ فیصد ہے ، سیاسی تبدیلیوں سے چہرے بدلتے ہیں ؛ لیکن اس حقیقت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، آج تک پست اقوام میں کوئی شنکر اچاریہ اور مٹھ کا سربراہ نہیں بن سکا ، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہندو قوم میں یہ مسئلہ محض ایک سماجی مسئلہ نہیں ؛ بلکہ اس کی جڑیں عقیدہ کی گہرائیوں میں پیوست ہیں ، ان حالات نے دبے کچلے لوگوں کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ ہندو ازم کے اس قید خانے سے اپنے آپ کو باہر نکالیں اور باعزت انسان کی طرح سماج میں زندہ رہیں ، اس کے لئے مشہور رہنما امبیڈکر نے بودھ ازم کو قبول کیا ؛ لیکن جلد ہی سمجھ دار اور باشعور لوگوں نے اس حقیقت کو سمجھ لیا کہ یہ شراب کو آب سمجھنے کے مترادف ہے ، بدھسٹ سماج کو ہندو سماج نے اس طرح جذب کر لیا ہے کہ گویا یہ قید خانہ کی ایک کوٹھری سے نکل کر دوسری کوٹھری میں داخل ہونا ہے ، وہی سماج ، وہی تہذیب ، وہی رسوم ورواج ، بس خداؤں میں ایک خدا کا اضافہ ، یا کچھ دیوتاؤں کی تبدیلی ، یہاں تک کہ دستورِ ہند کے مطابق بھی اس تبدیلی ٔمذہب کے باوجود وہ ہندو ہی شمار کیا جاتا ہے ، لوگ یہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ جن مذاہب کی پیدائش اور نشوو نما ہندوستان کی سر زمین میں ہوئی ہے ، برہمنوں نے اپنی ذہانت سے ان کا ایسا ’’ ہندو کرن‘‘ کر دیا ہے ، کہ اب کسی کے لئے ان مذاہب میں سے کسی کو اختیار کرنے کے باوجود ہندو سماج کے مظالم سے نجات پانا اور انصاف حاصل کرنا ممکن نہیں ۔
اس لئے بے چین اور بے قرار ذہن و فکر رکھنے والوں کے لئے دو ہی راستے رہ گئے ہیں ، عیسائیت یا اسلام ؟ اس سے کسی حقیقت پسند غیر مسلم کو بھی انکار نہیں کہ اسلام کے عقائد اوراُصول جتنے صاف و شفاف ، عقل و فطرت سے ہم آہنگ ، متوازن اور انسانی ضروریات کے لئے موزوں اور مناسب ہیں ، کسی اور مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی ، اللہ کی وحدت اورانسانوں کی وحدت ، یہ اسلام کا انقلابی تصور ہے اور دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں ، اگر خدا ایک ہے ، اس کا کوئی خاندان ، کنبہ نہیں اور کسی انسانی طبقہ سے اس کی قرابت مندی اوررشتہ داری نہیں تو اس سے خود بخود انسانی وحدت اور مساوات کا تصور اُبھرتا ہے ، پھر اسلام میں کوئی عقیدہ ’’پہیلی‘‘ کی طرح نہیں کہ اس کا سمجھنا مشکل اور سمجھانا مشکل تر ہو ، جیساکہ ہمارے عیسائی بھائیوں کے یہاں ایک میں تین اور تین میں ایک کا تصور (Concept of the Trinity) ہے ، یا ’’ عقیدۂ کفارہ ‘‘ (The Ataoement) ہے کہ غلطی کوئی کرے اور سزا حضرت مسیح علیہ السلام کو جھیلنی پڑے ، اسی لئے مسلمان حالاںکہ اس ملک میں بہت تھوڑی تعداد میں آئے ؛ لیکن اس ملک کے باشندوں نے جو طبقاتی تقسیم کی وجہ سے ظلم وجور سے دو چار تھے اوردیوتاؤں کی ایک فوج کی پرستش کرتے کرتے عاجز آچکے تھے ، انھوں نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ، افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش اور برما تک جو مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے ،وہ اسلام کی اسی کشش کا نتیجہ ہے ۔
بعض لوگ غلط فہمی پیدا کرتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس ملک میں جبرا تبدیلی ٔمذہب کرایا ہے ؛ لیکن یہ ایسا جھوٹ ہے کہ خود عقل عام اس کو جھٹلا تی ہے ، ہندوستان کے جنوبی اورساحلی علاقوں میں تو اسلام حضرت عمر فاروق ؓ ہی کے عہد میں آچکا تھا اور نہ صرف پَرْجَا ؛بلکہ بعض راجاؤں نے بھی اسلام قبول کیا تھا ، اس وقت یقیناً درۂ خیبر سے کوئی فوجی قافلہ ہندوستان نہیں پہنچا تھا ، اس وقت جبر و دباؤ کی کیا گنجائش تھی ؟ پھر غو ر کیجئے کہ مسلمانوں نے اس ملک کے مختلف حصوں پر کم و بیش آٹھ سو سال تک حکومت کی ہے ، آج جب حکومت کے بغیر ہندو سماج میں تبدیلی ٔ مذہب کا طوفان اُٹھا ہوا ہے اور کئی ریاستوں میں آبادی کا توازن بدل چکا ہے ، تو اگر اتنا طویل عرصہ جبر و دباؤ سے کام لیا جاتا تو کیا یہ ملک مسلم اکثریت نہیں بن گیا ہوتا ؟ حقیقت یہ ہے کہ جبرو دباؤ تو الگ چیز ہے ، مسلمان حکمرانوں نے تو عام طور پر اسلام کی تبلیغ ودعوت کی طرف بھی توجہ نہیں کی اور اشاعت ِدین کی طرف سے انتہائی تغافل برتا ، ورنہ اگر اس سلسلہ میں تھوڑی بھی کوشش کی جاتی تو اسلام میں جو کشش ہے ، یہی لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے کے لئے کافی ہوتی ۔
اسلام کے بعد اس ملک کے لوگوں کے لئے زیادہ قابل توجہ مذہب عیسائیت ہے اوراس میں شبہ نہیں کہ پچھلے سو سال میں ہندؤں کی بہت بڑی تعداد نے عیسائیت کو قبول کیا ہے ، اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ، کئی ریاستوں میں تو عیسائیت اکثریتی مذہب بن گیا ، میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ دو ہے ، ایک تو مادی وسائل کا استعمال ، ہسپتال ، درسگاہیں اور معاشی فلاح کے مراکز کے قیام و انتظام نے عیسائیت کو اس بات کا موقع فراہم کیا کہ مقامی آبادی میں اثر ونفوذ حاصل کرے اور ان میں داخل ہو سکے ، دوسرے گو عیسائیت ایک عالمی مذہب اور ترقی یافتہ قوم کا مذہب ہونے کی وجہ سے ہندو ازم کے ساتھ مکمل طور پر جذب نہیں کی جاسکتی ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عیسائیت کا کوئی سماجی تشخص ، نہیں ہے ، شادی ، بیاہ ، سماجی رسم ورواج وغیرہ میں وہ ہندو سماج ہی کا ایک حصہ بن گئے ہیں ، ان کے پاس حلال و حرام اور جائز وناجائز کا کوئی مکمل نظامِ حیات نہیں ، جو ان پر قیود و حدود عائد کرتا ہو اور اپنے پہلے معمولات سے روکتا ہو ، اکثر اوقات تو نام بھی تبدیل نہیں کئے جاتے ، بس کچھ تہواروں کا فرق ہوتا ہے ، شرک پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے ، مورتی کی پرستش پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے ، اس لئے جب کوئی ہندو عیسائی مذہب قبول کرتا ہے تو اسے بہت ہی معمولی تبدیلیوں سے گذرنا پڑتا ہے ، اس کی عملی زندگی میں تو کوئی انقلاب آتا ہی نہیں اور اسے فکر و عقیدہ کے اعتبار سے بھی کسی غیر معمولی تبدیلی سے گذرنا نہیں پڑتا ۔
اسلام مذہب کے معاملہ میں ایسی دو رنگی اور دو عملی کوروا نہیں رکھتا ، اسلام قبول کرنے کا مطلب خداؤں میں ایک خدا کا اضافہ نہیں ؛ بلکہ اللہ سے رشتہ جوڑ کر تمام توہمات سے رشتہ توڑنا ہے ، اس کی عبادتیں الگ ہیں ، اس کے تہوار الگ ہیں ، وہ غیر مسلم خاندانوں سے شادی بیاہ کا تعلق قائم نہیں رکھ سکتا ، وہ ایمان لانے کے بعد اپنے والدین کے ترکہ سے حصہ نہیں پاسکتا ، اس کو کھانے ، پینے ، خریدنے ، بیچنے ، کمانے غرض زندگی کے ہر شعبہ میں حلال و حرام کی حدیں قائم کرنی پڑتی ہیں اور حرام سے بچنا پڑتا ہے ، دین یقیناً آسان ہے ؛ لیکن جو نفس کی ہر خواہش پر لبیک کہنے کا عادی بن چکا ہو ، اس کے لئے حق پر گامزن ہونا ، لوہے کا چنا چبانے کے مترادف ہے ، گویا مسلمان ہونے کے بعد انسان ایک سماج سے دوسرے سماج کی طرف ہجرت کرتا ہے ، اس لئے یہ پھولوں کی سیج نہیں ؛ بلکہ کانٹوں کا فرش ہے ، اسی بنا ء پر جو لوگ خدا سے ڈر کر سچائی اورحقیقت کی تلاش کے جذبے سے معمور ہو کر اور عزم و ارادہ کی قوت سے مسلح ہو کر قدم اُٹھانا چاہیں ، وہی اس راہ پر آسکتے ہیں ، کسی بھی شخص کو حقیر ، معمولی اور مادی مقاصد کے تحت اس راہ میں آبلہ پائی کا حوصلہ نہیں ہو سکتا ؛ چنانچہ ایک تو ان مشکلات اور دوسری طرف دعوتِ اسلام کے کاموں سے غفلت کی بناء پر آزاد ہندوستان میں عیسائیت کی طرف ہندو سماج کا رُجوع زیادہ ہوا ہے ۔
ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ، جو ہر شخص کو اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرنے کی گنجائش فراہم کرتا ہے ؛ چنانچہ دستورِ ہند کے بنیادی حقوق کی دفعہ : ۲۵ میں تمام شہریوں کے لئے آزادیٔ ضمیر اور آزادی سے مذاہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق شامل ہے ، اس لئے سنگھ پریوار کا ’’ دھرم پری ورتن ‘‘ پرچیں بہ جبیں ہونا یقیناً ہندوستان کے دستور سے بغاوت کرنے کے مترادف ہے ، اپنی بیماری کو دور کرنے کے بجائے ان لوگوں کو بُرا کہنا جو بیماری کو بیماری سمجھتے ہیں ، بے وقوفی ہی کہی جاسکتی ہے ۔
اسلام نے بھی ضمیر و اعتقاد کی آزادی کو تسلیم کیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے صاف ارشاد فرمایا کہ ہدایت گمراہی کے مقابلہ واضح ہو چکی ہے ؛ لہٰذا دین کے معاملہ میں کوئی جبر و دباؤ نہیں ہے : لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ(البقرۃ : ۲۵۶) رسول اللہ ﷺسے صاف ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کا کام صرف نصیحت کرنا ہے ، آپ داروغہ نہیں ہیں کہ ان کو اپنی بات ماننے پر مجبور کردیں : اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ : ۲۱-۲۲) ایک موقع پر ارشاد ہوا کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسان ہی مومن ہو جاتے ، پھر کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دیں گے ؟: اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ (یونس : ۹۹) پیغمبر اسلام ﷺکو ہدایت فرمائی گئی کہ اگر وہ آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیں تو آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ، آپ پر تو محض یہ ہے کہ پیغامِ ہدایت کو صاف صاف اورکھلے طور پر پہنچا دیں اور بس : فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ(النحل : ۸۲) آپ سے فرمایا گیا کہ جو لوگ کفر پر بضد ہیں ان سے کہہ دو کہ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اورمیرے لئے میرا دین : لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن( الکافرون: ۶) ایک اور موقع پر آپ کی زبان سے کہلا گیا کہ ہمارے لئے ہمارےاعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال : لَـنَا اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ( الشوریٰ : ۱۵) غرض عقیدہ و ضمیر کی آزادی کا قائل اسلام بھی ہے ، وہ کسی شخص کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کرتا ، ہاں جہاں اسلامی حکومت ہو اور ایک شخص نے مسلمان ہونے کی حیثیت سے شہریت قبول کی ہو اور حقوق حاصل کئے ہوں ، اس کا اسلام سے کفر کی طرف سفر کرنا نہ صرف روشنی سے تاریکی کی طرف سفر کرنا ہے ؛ بلکہ گویا ملک سے بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی سیاسی نظام میں ناقابل برداشت ہے ، اسی لئے جہاں اسلامی حکومت ہو وہاں ارتداد موجب قتل ہے ۔
بہرحال تبدیلی ٔ مذہب پر ہونے والی یہ بحثیں مسلمانوں کے لئے مایۂ عبرت ہیں کہ ہندو سماج جو پاکیزہ مذہبی تصورات اور عقل انسانی سے ہم آہنگ عقائد سے محروم اور توہمات کے شکنجہ میں قید ہے اور جو روحانی سکون کے لئے مضطرب اور طبقاتی تقسیم کی وجہ سے مظلوم اور ستم رسیدہ ہے ، اسلام جیسا صاف ستھرا ، پاکیزہ ، روحانی اور اخلاقی قدروں سے معمور ، عقل و فطرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ، انقلاب انگیز اور انسانیت کی اصلاح کے لئے غیر معمولی صلاحیت کا حامل اور اثر انگیز مذہب و عقیدہ کا حامل ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے فرائض سے بےاعتنائی برتی اور آج تک بھی ہم کوئی منظم اور منصوبہ بند ، دعوتی اور تبلیغی سعی و کاوش نہیں کر رہے ہیں ؛ حالاںکہ یہی فریضہ ہے ، جو نصرت خداوندی کی کلید اور خدا کے غیبی نظام کے تحت مسلمانوں کی حفاظت و صیانت کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ۔
- تلفیق بین المذاھب اور تتبع رخص ایک مطالعہ از : اسجد حسن ندوی
- بچوں کی اسلامی تربیت : کچھ رہ نما اصول ڈاکٹر محمد سلیم العواترجمہ: احمد الیاس نعمانی
- خلافتِ بنو امیہ تاریخ و حقائق
- سادگی کی اعلی مثال : ڈاکٹر محمد نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ
- حلال ذبیحہ کا مسئلہ
- استاذ محترم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندوی کی یاد میں
- کتاب پر رحم نہ کرو ! پڑھو
- مفتی منور سلطان ندوی: ایک صاحبِ علم، صاحبِ قلم اور صاحبِ کردار عالمِ دین از : زین العابدین ہاشمی ندوی ،نئی دہلی
- ہیرا جو نایاب تھا
- کتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہ
Follow the حرا آن لائن / HIRA ONLINE channel on WhatsApp: