مطالعہ کا جنوں
معاویہ محب الله
مطالعہ، کتاب خوانی اور لکھنا ایک جنون ہے، شوق ہے، عشق ہے اور وہ بھی لازوال ہے، آدمی جب کتاب پڑھنا شروع کرتا ہے اس وقت جس علمی پوزیشن میں ہوتا ہے ختم کرتے ہوئے اپنے آپ میں تبدیلی محسوس کرتا ہے، بڑا بن جاتا ہے، سوچتا ہے، غور کرتا ہے، لوگوں سے ہٹ کر اپنی راہ خود بناتا ہے۔
یہی مطالعہ اسے اپنے ہم عصروں میں ممتاز کر دیتا ہے، کسی نے خوب کہا ہے کہ:
” اگر آپ ایک کتاب مکمل کرتے ہیں تو آپ اپنے ہم عصر و اقران سے ایک سال بڑے بن جاتے ہیں "
کتاب صرف ایک کتاب پڑھنا نہیں ہے بلکہ مصنف کے فکری سفر اور علمی سیاحت میں اس کا رفیق بننا ہے، مصنف کتاب میں اپنے طویل تجربات کا خلاصہ پیش کر دیتا ہے، بہت ساری علمی وادیوں کو سر کرنے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے، بے شمار خیالات کے انبار سے لعل و گوہر نکال کر فکر و تدبر کی صورت میں اوراق پر بکھیر دیتا ہے، بعض مصنفین نے اپنی کتابیں دس سال، بیس سال اور کسی نے تو چالیس پچاس میں مکمل کی ہیں، تو گویا وہ مصنف سے چالیس پچاس سالہ طویل رفاقت کا شرف رکھتا ہے۔
انسان کتابوں کے مطالعہ سے مصنف کے ذہن و دماغ میں چلنے والی نقل و حرکت، غور و تدبر اور فکر و نظر کا ہم دم ہوتا ہے، مصنف کئی ہزار صفحات کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرتا ہے، دو صفحات میں پھیلی ہوئی فکر کے پیچھے ہزار ہا صفحات کے مطالعہ کی ریاضتیں ہوتی ہیں جسے قاری چٹکیوں میں پا لیتا ہے، اسی لئے مشہور فلسفی رینے ڈیکارٹ نے کہا :
” اچھی کتابیں پڑھنا پچھلی صدیوں کے بہترین لوگوں سے گفتگو کرنے کی طرح ہے "
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ میں نے ۲۳ سال کے طویل مطالعہ و تدبر کے بعد تدبر قرآن کو لکھا ہے، سید مودودی نے تیس سال کی ریاضتوں کے بعد تفہیم القرآن جیسی تفسیر سپردِ قلم کی، مولانا ابو الکلام آزاد کہتے ہیں میں نے اپنی زندگی کے تیس چالیس سال میں ایسا شب و روز نہیں گزرا کہ قرآن کا مطالعہ نہ کیا ہو، علوم القرآن، تفاسیر، مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تک کتابوں کو کھنگالا ہے، امام فخر الدین رازی نے ۲۰ میں اپنی تفسیر مکمل کی ہے۔
روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی نے اپنا ناول War and Peace چھ سالوں میں لکھا ہے اور مسودے کی دس سے زیادہ بار نظر ثانی کی ہے۔ علامہ اقبال نے بھی جاوید نامہ اور اسرارِ خودی جیسے منظومات پر طویل فکری محنت کی جو برسوں کے غور و فکر کا نتیجہ تھیں، علامہ شبلی نعمانی رحمہ نے دس سال سے زائد عرصہ تک الفاروق کی تحقیق کی ہے۔
مصنفین کے ذہنوں کو پڑھنا بہترین سیاحت ہے کیونکہ مصنف اپنی کتابوں میں اپنے بہترین خیالات کو اجاگر کرتا ہے، اس سے انسان کی دماغی مصروفیت میں سکون اور اطمینان محسوس ہوتا ہے، ذہنی سیاحت تو روحانی غسل کے مانند ہے، انسان اس سے اپنے روحانی وجود کو جلا بخشتا ہے، سابقہ نظریات سے شفاف ہوتا جاتا ہے اور استدلال کی کمزوری واضح ہو جانے کے بعد جدید روحانی لباس زیب تن کرتا ہے۔
کتابوں کے مطالعہ کرنے والے قارئین اپنے مصنف سے علمی اتفاق و اختلاف کے باوجود دونوں بسا اوقات ایک وادیوں میں سیر و سیاحت کررہے ہوتے ہیں، رنگ، نسل، قوم، مقام، جنس اور مذہب و فکر کے جدا ہونے کے باجود ایک دوسرے سے ملتے ہیں، قاری اس سے بات چیت کرتا ہے اور اس کے خیالات کے بارے میں اس سے سیکھتا ہے، اس سے اتفاق و اختلاف کرسکتا ہے اور مصنف سے اس حقیقیت میں مل سکتا ہے کہ انھوں نے کسی دوسرے مصنف کو مشترکہ طور پر پڑھا ہے۔
یہ تو زندگی کی سب سے بہترین سیاحت ہے، جن مصنفین کو آپ نے دیکھا نہیں ہے، جن سے آپ نے ملاقات نہیں کی ہے، اپنی جگہ پر رہتے ہوئے مل لیتے ہیں، یہ تو شاید دنیا کی سب سے سستی اور سب سے زیادہ نفع بخش سیاحت ہے۔
✍️ معاویہ محب الله