ربوبیت الہی کی جلوہ گری
مولانا آدم علی ندوی
اللہ رب العزت نے آفاق و انفس میں اپنی وحدانیت وربوبیت کے بے شمار مظاہر بکھیر رکھے ہیں اور انسان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کو دیکھے اور غور کرے اور خدا کی قدرت وربوبیت کو پہچانے، تخلیق انسانی اور اعضاء جسمانی کا نظام اللہ کی کرشمہ سازی کا بہترین مظہر ہے، اس میں غور و فکر اور اس کا علم انسان کو معرفتِ الہی تک پہنچاتا ہے ، اسی لئے جابجا قرآن مجید میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
فَلْيَنْظُرِ الإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ -الطارق ٥ -تو انسان خوب دیکھ لے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا۔
وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ -الذاريات / ٢١ -اور خود تمہارے اندر بھی نشانیاں ہیں کیا تم دیکھتے نہیں۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْماً ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقاً آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ -المومنون / ١٢ تا ١٤ -اور ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ نطفہ کی شکل میں رکھا ، پھر نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنایا پھر خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کیا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں کی شکل دی، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر اسے ایک نئی صورت بنا کر وجود بخشا تو کیسی برکت والی ذات ہے اللہ کی جو سب سے بہتر پیدا کرنے والا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے تخلیق انسانی کا تذکرہ بار بار صرف ہماری معلومات کے لئے نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا اصل مقصد اور ہمارے کانوں اور دلوں سے بار بار خطاب کا اصل جوہر یہ ہے کہ ہم خالق و صانع کی عظمت اور ربوبیت کو پہچان سکیں اور اپنی حقیقت سے واقف ہوسکیں ۔
تخلیق انسانی کا نظام
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کو الگ الگ فطرت و خصوصیات کا حامل بنا کر دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ آپسی الفت و محبت کے ساتھ رہنے کی صلاحیت بخشی ، اور ان میں شہوت کا مادہ رکھ کر تخلیق انسانی نظام چلایا ، صلب ( پیٹھ ) ترائب ( پسلیوں ) سے مادہ منویہ نکال کر ایک محفوظ جگہ رحم میں پہنچا دیا جہاں نہ ہوا کا گزر ، نہ سردی و گرمی کا خطرہ اور نہ کسی آفت و بلا کا ڈر، پھر اس سفید قطرہ کو سرخ سیاہ مائل خون میں تبدیل کر کے لوتھڑا بنایا پھر خالص ہڈی بنا کر اس پر گوشت چڑھا دیا اور ہڈیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط بندھنوں سے جوڑ دیا ، اس طرح چند دنوں میں وہ ایک خوبصورت صحیح شکل میں انسانی وجود بن کر سامنے آیا ، جس میں بے شمار ایسے اعضاء ہیں جن کے کام جدا گانہ، جن کی خصوصیات الگ الگ۔
قابل غور یہ ہے کہ منی کے ایک قطرہ سے اللہ نے اعضاء جسمانی کا جو نظام بنایا ہے، تمام انسان و جنات مل کر اور کائنات کے تمام وسائل کا سہارا لے کر صرف ایک عضو، ایک چھوٹی ہڈی ، بلکہ ایک باریک رگ ، اس سے بھی آگے ایک بال بنانا چاہیں تو عاجز اور اللہ کی قدرت کے سامنے سر ٹیکنے پر مجبور ہیں۔
ہڈیوں کا نظام
ہڈی جسم انسانی کا ستون ہے ، اس کے ذریعہ انسان چلتا پھرتا اور اٹھتا بیٹھتا ہے ، پورے جسم میں ہڈیوں کا جو جال اللہ نے پھیلا دیا ہے ، اس کا نظام اس طرح ہے کہ سب ایک دوسرے سے الگ مگر ایک دوسرے میں اس طرح پیوست بھی ہیں کہ ہڈیوں میں ہی اللہ نے بندھن لگا دیا ہے، ہر ہڈی کے آخر میں ایک زائد حصہ ہوتا ہے ، جس کی شکل یہ ہے کہ ایک طرف تھوڑی سی خالی جگہ ہوتی ہے ، دوسری ہڈی میں باریک حصہ جو اس سوراخ میں بالکل فٹ ہو جاتا ہے ، پیٹھ میں٢٤/ سوراخ ہیں، جہاں آپس میں ہڈیاں ملتی ہیں ، اسی کو ہم پسلی کہتے ہیں ، پھر یہ ہڈیاں سینہ کی ہڈیوں سے ، کندھے کی ہڈیاں پہلو کی ہڈیوں سے ، اور پہلو کی ہڈیاں بازو سے ، بازو کی ہتھیلی سے ہتھیلی کی انگلیوں سے ، اس طرح سب ایک دوسرے سے پیوست ہیں، ہڈیوں میں چھوٹی بڑی گول چوڑی باریک ہر طرح کی ہیں ، بلکہ مذکر ومونث بھی ہیں، جس جگہ کے لئے جس طرح کی ضرورت تھی اللہ نے اسی طرح کی ہڈی لگائی ہے، مثلا دانت سے کاٹنے کی ضرورت تھی تو اس کو باریک اور نوکیلا بنایا ، جسم کے نیچے کے دھڑ ، پیر گھٹنوں میں سخت اور بڑی کی ضرورت تھی تو وہاں اسی طرح بڑی، موٹی اور مضبوط بنایا تا کہ انسان کا پورا دھڑ اس پر قائم رہ سکے ، جسم انسانی میں٣٦٠/ ہڈیاں او٢٤٨/جوڑ اور ۵۲۹/ بندھن ہیں، اگر ان میں ایک بھی زیادہ یا کم ہو جائے تو انسان بے چین ہو کر ڈاکٹر کی راہ لیتا ہے، زائد کو ختم کروانے اور کمی کی تلافی کی فکر کرتا ہے ، پھر اللہ نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھانے کا معاملہ اس طرح رکھا کہ جس ہڈی کو جتنی حفاظت کی ضرورت تھی اتنا گوشت اس پر چڑھا دیا کسی حصہ پر گوشت کی زیادتی اور کمی بھی بھونڈا پن اور نقصان کا سبب بنتی ہے۔
آنکھ کا نظام
سر میں اللہ نے ۵۵ / ہڈیاں مختلف شکل اور مختلف کاموں کے لئے بنائی ہیں، چونکہ سر اعضاء جسمانی میں سب سے بلند ہے اس لئے اہم اجزاء حواس خمسہ کو اسی میں رکھا گیا، اس میں بھی آنکھ کو سب سے بلند اور سامنے رکھا کیونکہ پورے وجود انسانی کے لئے وہ نگراں اور حفاظت کا ذریعہ ہے اور اسکی ضرورت سب سے زیادہ ہے ، ہر آنکھ میں اللہ نے سات طبقات بنائے جن میں سے ہر ایک کی ہیئت ومنفعت الگ ہے، اگر ان میں سے کوئی بھی اپنی ہیئت اور جگہ سے ہٹ جائے تو آنکھ کام کرنا چھوڑ دے، ان ساتوں طبقات کے درمیان اللہ نے آنکھ کی وہ پیتلی بنائی جس سے انسان کارخانہ قدرت کا مشاہدہ کرتا ہے، ساتوں طبقات، پپوٹے ، پلکیں سب اسی کی حفاظت کے لئے بنائے گئے ہیں ، مزید یہ حصے انسان کی خوبصورتی کو بھی دوبالا کر دیتےہیں۔
کان کا نظام
کان کو اللہ رب العزت نے سیپ کی طرح بنایا ، اس کے اوپری حصہ میں ٹیڑھا پن رکھا تا کہ تیز ہوا اور سخت آواز رک کر اندر پہنچے اور کوئی کیڑا کان میں داخل نہ ہو اور اگر ہو بھی جائے تو اس کو پہنچنے میں اتنی دیر لگے کہ انسان محسوس کر کے نکال لے، اسی لئے کان میں اللہ نے جو پانی رکھا اس کو آخری درجہ کڑوا بنایا تا کہ کوئی بھی کیڑا اندر جاکر اس کی کڑواہٹ سے فورا واپس آجائے ، اندر جا کر کان کو نقصان نہ پہنچائے ، اس کے برخلاف آنکھ کا پانی نمکین ہے ، کیونکہ آنکھ ایک چربی ہے جس کی جلد خراب ہونے کا امکان رہتا ہے اور نمکین پانی اس کے لئے مفید ہے جو اس کی حفاظت کا کام کرتا ہے ، اسی طرح منھ کا پانی یعنی لعاب کو اللہ نے شیریں اور میٹھا بنایا تاکہ ہر چیز کا ذائقہ اور لذت حاصل ہو سکے ، اس کے بر خلاف اگر لعاب کڑوا ہوتا تو میٹھی چیز بھی کڑوی محسوس ہوتی ، اسی لئے جب انسان بیمار ہو جاتا ہے اور منھ کا ذائقہ بگڑ جاتا ہے تو اچھی چیز بھی بے لذت محسوس ہوتی ہے اور کڑوی لگتی ہے۔
وَمَنْ يَكُ ذَا فَمِ مَرِيضٍ
يَجِدُ مُرَّاً بِهِ الْمَاءَ الزِّلَالَا
بیماری کی وجہ سے جس کا ذائقہ خراب ہو ، وہ شیریں پانی کو بھی کڑوا محسوس کرے گا۔
ناک کا نظام
ناک میں اللہ نے سونگھنے کی صلاحیت رکھی، وہ اچھی اور بری ، فائدہ مند اور نقصان دہ چیزوں کو سونگھ کر محسوس کر لیتی ہے اور پھر اس کی تدبیر کرتی ہے ، اسی طرح ناک سے انسان باہر کی اچھی ہوا کو اندر دل تک پہنچاتا ہے جس سے دل کو راحت اور غذا ملتی ہے اور اندر کے فاسد مادہ کو اسی کے ذریعہ نکالتا ہے، اسی لئے اس کو ڈھلوان نما اور اوپری حصہ کو پتلا اور نیچے کے حصہ کو چوڑا بنایا تا کہ باہر سے جانے والی چیز آہستہ اور رک کر اور چھن کر اندر پہنچے اور نقصان دہ نہ ہو اور اندر سے آنے والی چیز تیز آئے اور خارج ہو جائے ، اسی طرح اللہ نے ناک میں دو سوراخ بنائے کہ بسا اوقات ایک میں کوئی چیز پھنس جائے یا اس سے اندر کا فاسد مادہ نکل رہا ہو تو دوسرا خالی رہے اور سانس لینے میں دقت نہ ہو اور اس لئے بھی کہ کان آنکھ دو دو ہیں تو اس کو بھی دو بنایا تا کہ اگر ایک خراب ہو جائے اور کام کرنا چھوڑ دے تو دوسرا کام کرتا رہے لیکن ناک کی ہیئت اور شکل اگر آنکھ اور کان کی طرح دو ہوتی تو چہرہ پر بدنما لگتا، اس لئے اللہ نے اس کی ہیئت اور شکل تو ایک بنائی لیکن اس میں سوراخ دو رکھ دئے تا کہ اس کی افادیت بھی باقی رہے اور برا بھی نہ لگے۔
منھ کا نظام
منھ کو اللہ نے چہرہ میں ایسی جگہ رکھا جہاں وہ بہت خوبصورت اور مناسب لگتا ہے ، اندازہ کیجئے اگر وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ ہوتا تو کیسا لگتا ؟ اس کے اندر بہت سی منافع کی چیزیں رکھیں ، زبان جو دل کا ترجمان ہے اس کو اسی کے اندر محفوظ کیا ، زبان چونکہ اندر کی بات کو باہر منتقل کرتی ہے اس لئے اس کو اندر رکھا ، اس کے برخلاف کان باہر کی باتوں کو اندر تک پہنچاتا ہے تو اس کو باہر رکھا تا کہ باہر کی چیزوں کو اخذ کرنے میں پریشانی نہ ہو ، اور زبان کو اندر کی باتوں کو منتقل کرنے میں دشواری نہ ہو اور اس لئے بھی اس کو محفوظ اور پردہ میں رکھا کہ یہ دل کی طرح اہم ، لطیف ، نرم اور تر ہے ، اگر اس کو باہر رکھ دیا جائے تو گرمی ، ہوا اس کی لطافت کو نقصان پہنچائے گی۔
دانت بھی خدا کی کاریگری کا عظیم مظہر ہیں کہ منھ کی زینت اور غذا کے کھانے کا ذریعہ ہیں ، ان بتیس دانتوں میں اللہ نے الگ کاموں کے لئے الگ دانت بنائے ہیں ، بعض غذا کو باریک کرتے ہیں بعض کاٹنے میں معاون ہیں ، سفید رنگ اور مناسب ترتیب و برابری سے رکھ کر موتیوں کی طرح خوبصورت بنا دیا کہ دیکھنے میں خوشنما لگتے ہیں ۔
مزید اس پر دو ہونٹوں کا پردہ لگا کر اس کی رونق اور بڑھا دی اور بولنے، مخارج کی ادائیگی میں بھی یہ مفید ہیں ، ہونٹوں میں اللہ نے کوئی ہڈی اور سختی نہیں رکھی تا کہ منھ کو کھولنے اور بند کرنے ، پانی پینے اور غذا کھانے اور بار بار حرکت دینے میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔
گلے کا نظام جس کی وجہ سے دنیا میں کسی انسان کی آواز ایک دوسرے سے نہیں ملتی ، یہ عجیب و غریب اور حیران کن اللہ کا کرشمہ ہے۔
اسی طرح گردن جو جسم کو سر سے جوڑتا ہے اس میں سات گول اور کھو کھلے سوراخ ہیں وہ سب ایک دوسرے سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ ایک ہی محسوس ہوتے ہیں اور پتہ نہیں چلتا۔
بالوں کی تخلیق
سر اور چہرہ پر بالوں کا نظام چہرہ کو زینت بخشنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت کا بھی ذریعہ ہے، سر کے بال سر کی حفاظت کرتے ہیں تو پلکیں آنکھ کی حفاظت ، پلکوں کو کمان نما بنا کر رونق بڑھائی تو داڑھی کو وقار و ہیبت اور مردانگی کی علامت بنایا ، ہونٹوں کے اوپر مونچھ اور نیچے تھوڑے سے بال ( داڑھی کا بچہ ) ہونٹوں کو خوبصورت بنا دیتے ہیں۔
ہاتھوں کی تخلیق
انسان کے کام کاج کے لئے اللہ نے دو ہاتھ دئے اور ان دونوں کو اتنا لمبا بنایا کہ وہ اپنے بدن کے جس حصہ پر چاہے اس کو لے جائے ، اس میں ہتھیلیوں اور انگلیوں کا نظام رکھا اور ہر انگلی میں تین تین پورے اور انگوٹھے میں دو ، اور چار انگلیاں ایک طرف اور انگوٹھا ایک طرف رکھا تا کہ کسی چیز کو پکڑنا اور اٹھانا آسان ہو ، انسانی کاریگری، نقش و نگار اور تحریر کا کام بآسانی انجام پاسکے ، اگر سارے سائنسداں ہتھیلی اور انگلیوں کے اس نظام و ترتیب کو بدل کر کوئی اور ترتیب دینا چاہیں جس سے ہاتھ کے کام انجام پاسکیں ، تو ان کے لئے ناممکن ہے۔
ہر انگلی میں ناخون جہاں انگلیوں کی زینت و حفاظت کا ذریعہ ہیں ، وہیں انسان کے لئے باریک چیزوں کو پکڑنے اور اٹھانے اور ضرورت کے وقت بدن کو کھجلانے کا کام دیتے ہیں، اور اللہ نے ان ناخونوں میں ایسی حس ڈال دی کہ کھجلانے کی جگہ پر وہ بذات خود پہنچ جاتے ہیں اگر چہ ہم نیند اور غفلت میں ہوں ، جبکہ یہ کام اگر کوئی دوسرا کرے تو اس کو کھجلانے کی جگہ تلاش کرنے میں بہت دیر لگتی ہے۔
دل، دماغ اور پھیپھڑا
دل تمام ظاہری و باطنی اعضاء کا سردار مخدوم ہے، زندگی کا دار د مدار اور روح انسانی کا وجود اسی پر مبنی ہے ، یہی تمام صلاحیتوں اور صفاتوں کا مخزن و سر چشمہ ہے ، تمام اعضاء گویا اس کی فوج ہیں جو اس کے اشارے پر چلتے ہیں، آنکھ اس کا ہراول دستہ ہے تو زبان ترجمان اور کان مخبر و سفیر۔
خلاصہ یہ کہ تمام اعضاء کا بالواسطہ یا بلا واسطہ دل سے ضرور تعلق ہے اور ہر ایک کی رگیں دل سے ضرور ملتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا !
أَلَا إِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ لَهَا سَائِرُ الْجَسَدِ وَإِذَا فَسَدَتُ فَسَدَ لَهَا سَائِرُ الْجَسَدِ ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ -(بخاری، الایمان، باب فضل من استبرأ لدينه)
سنو ! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے ، جب وہ درست ہو جاتا ہے تو پورا بدن درست ہو جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے
تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے، وہ دل ہے۔
حضرت ابو ہریرہ کا ارشاد ہے!
الْقَلْبُ مَلِكٌ وَالْأَعْضَاءُ جُنُودُهُ فَإِنْ طَابَ الْمَلِكُ طَابَتْ جُنُودُهُ وَإِذَا خَبُثَ الْمَلِكُ خَبُثَتْ جُنُودُهُ ( أخرجه البيهقي في الشعب – (۱۰۹)
دل بادشاہ ہے اور اعضاء اس کی فوج ، اگر بادشاہ ٹھیک ہے تو فوج بھی صحیح کام کرے گی ، اور اگر بادشاہ ناکارہ ہے تو فوج بھی ناکارہ رہے گی ۔
چونکہ تمام اعضاء کو حرارت دل سے پہنچتی ہے ، اس لئے اللہ نے اس کو بہت گرم بنایا ،لہذا اس کو ایک ٹھنڈا کرنے والے آلہ کی ضرورت تھی تو اللہ نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے پنکھے کی طرح بنایا جو مستقل اس کو ہوا دیتے رہتے ہیں ، اسی لئے یہ دل کے بالکل قریب ہیں ، اسی طرح دماغ کو بھی اللہ نے دل کے ٹھنڈا کرنے کا ذریعہ بنایا، چونکہ دماغ ایک بہت ٹھنڈا عضو ہے،اس کا گرم ہونا خطرہ کی نشانی ہے ، اس لئے اس کو دل سے دور رکھا گیا تا کہ اس کی حرارت اس پر اثر انداز نہ ہو، اور دماغ کا اثر دل تک پہنچے اور دل کی حرارت افراط سے اعتدال پر رہے۔
معدہ کا نظام
اگر انسان صرف اسی پر غور کرے کہ کس طرح غذا اندر پہنچتی اور کس طرح خارج ہوتی ہے تو عبرت و نصیحت کے لئے کافی ہے کہ اللہ نے کیسے کیسے آلات بنائے کہ غذا اندر پہنچ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو کر باریک ہو جاتی ہے، پھر اندر کی مشین اسے گوند کر فاسد مادہ کو الگ کر دیتی ہے اور مفید کو اعضاء جسمانی میں منتقل ۔
کھانے اور سانس کی نلی بالکل قریب بلکہ ملی ہوئی ہیں، لیکن کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ دونوں مل جائیں ، نہ سانس کی وجہ سے غذا کو اندر جانے میں پریشانی اور نہ کھانے و پینے کی وجہ سے سانس لینے میں دقت آتی ہے، پھر اللہ نے آنتوں کو بنایا جو کھانے کو معدہ تک پہنچاتے ہیں ، معدہ میں دو اہم سوراخ ہیں ، ایک اوپر بڑا جس کو معدہ کا منھ کہا جاتا ہے جس سے کھانا اندر جاتا ہے ، دوسرا نیچے چھوٹا جس سے فاسد مادہ باہر خارج ہوتا ہے، یہ ہمیشہ بند رہتا ہے تا کہ کھانا معدہ میں رک کر ہضم ہو سکے، جب خراب حصہ نیچے بیٹھ جاتا ہے تو اس کا منھ اس کے وزن سے کھلتا ہے اور جب وہ نکل جاتا ہے تو پھر بند ہو جاتا ہے۔
معدہ کو اللہ نے اندر سے آگ نما حرارت سے گھیر رکھا ہے اور یہ حرارت آگ کی حرارت سے بھی تیز ہے، یہ کھانے کو پکا کر خون ، صفراء سوداء، اور بلغم میں تبدیل کر دیتی ہے، بلکہ کھانے کے ساتھ بسا اوقات جو کنکر ، پتھر کے چھوٹے ٹکڑے پہنچ جاتے ہیں ان کو گلا کر باریک کر دیتی ہے، پھر اللہ نے معدہ میں ایسے باریک راستے بنائے جو سب سے بہتر ولطیف حصہ کو دماغ تک اور باقی کو دیگر دوسرے اعضاء تک پہنچاتے ہیں، ہڈیوں اور ناخون کو بھی یہیں سے غذا ملتی ہے۔
معدہ میں جو خون ، سوداء وصفراء اور بلغم بنتا ہے ، اللہ نے سب کے لئے الگ الگ مصرف و مستقر بنایا جہاں وہ منتقل ہو جاتے ہیں، تلی سوداء کو قبول کرتا ہے ، تو پتا صفراء کا ٹھکانا ہے ، اور جگر خون کو چوس کر ایسی رگ کے ذریعہ جس کے تار ہر عضو سے ملے ہوئے ہیں سب میں بقدر ضرورت سپلائی کرتا ہے۔
انسان کے باطن میں اللہ نے جو صلاحیتیں عقل و شعور ، قصد وارادہ ، محبت و نفرت، رضا و غضب کی رکھی ہیں وہ اور زیادہ حیران کن ہیں۔
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا
تَفْضِيلاً – الاسراء/ ٧٠ –
اور یقینا ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی اور سمندر میں ان کو سواری دی اور ان کو اچھے اچھے رزق دیئے اور اپنی مخلوقات میں بہتوں پر ان کو خاص رتبہ بخشا۔
بچہ کی نشو و نما
غور کرو کہ تم رحم مادر میں تھے، جہاں نہ کسی کی مدد پہنچ سکتی ہے ، نہ کوئی غذا پہنچا سکتا ہے ، نہ کوئی پریشانیوں کو دور کر سکتا ہے، وہاں اللہ نے اپنے لطف وکرم سے ماں کے خون سے تم کو غذا بخشی اور برابر تمہاری پرورش کرتا رہا ، یہاں تک کہ جب تمہارے اعضاء مضبوط ہوئے اور اس لائق ہو گئے کہ ہوا اور روشنی تم کو نقصان نہ پہنچائے تو اللہ نے اس تنگ جگہ کو کشادہ کر دیا اور رحم میں حرکت پیدا کر دی اور تم کو دنیائے بسیط میں کمزور و ناتواں بغیر لباس و سامان کے وجود بخشا اور تمہاری ماں کے پستان میں اس طرح غذا کا دودھ کی شکل میں انتظام کیا جو نہ گرم نہ ٹھنڈا نہ کڑوا نہ نمکین ، بلکہ بالکل مناسب، مفید، پانی وغذا کا جامع بنا کر ہر چیز سے بے نیاز کر دیا اور پستان کی شکل ایسی بنائی کہ شیشی ، نیپل کی ضرورت نہیں اور ماں کے دل میں تمہاری محبت و شفقت پیدا کی کہ وہ رونے اور کراہنے سے بے چین ہو جاتی ہے۔
اور اس پر بھی غور کرو کہ جب عمر بڑھی تو اللہ نے دانت دیئے ، اعضاء و ہڈیاں مضبوط کر دیں، اگر پہلے ہی مرحلہ میں اللہ تم کو دانت عطا کر دیتا تو تم ان دانتوں سے دودھ پینے میں ماں کی کیا گت بناتے ۔
اور یہ بھی اللہ کی قدرت ہے کہ اس نے ایک مرحلہ تک عقل و شعور سے بچہ کو محفوظ رکھا اور اس کو بے فکر بنا کر اس کے اعضاء کی پرورش کی ، اگر بڑوں کی طرح پہلے ہی دن سے وہ عقل و شعور لے کر پیدا ہوتا تو سوچو بچپنے کے مزے کے دن کیسے نصیب ہوتے اور نشو و نما کی کیا کیفیت ہوتی ؟ پھر تو وہی غم و خوف لاحق رہتا جو زندگی کا اور عقل و شعور کا لازمی خاصہ ہے۔
بچہ کے زیادہ رونے میں جہاں بہت سے فائدے ہیں کہ والدین اس کے بھوک پیاس اور تکلیف کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں وہاں یہ بھی فائدہ ہے کہ دماغ میں ایک نقصان دہ مادہ ہوتا ہے جو رونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے اور اسی طرح رگیں کشادہ ہو جاتی ہیں اور کام شروع کر دیتی ہیں اور دیگر اعضاء میں بھی رونے سے مضبوطی آتی ہے۔
مرد و عورت کا فرق
ایک ہی مادہ ، ایک ہی سانچہ لیکن مرد و عورت کی شکل وصورت میں نمایاں فرق ، الگ الگ خصوصیات وصفات ، الگ الگ اعضاء ومزاج ، یہ سب اللہ کی کرشمہ سازی و قدرت ہے ، بس اس کا حکم ہے۔
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ
قَدِيرٌ – الشورى / ٤٩ – ٥٠ –
آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ کی ہے ، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، یالڑ کے لڑکیاں دونوں ملا کر دے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے ، یقیناً وہ خوب جانتا ، پوری قدرت رکھتا ہے۔
مرد و عورت کے آلات تناسل کے فرق میں بھی بڑی حکمتیں ہیں ، عورت کے رحم تک مادہ منویہ کے پہنچانے کی ضرورت تھی تو اللہ نے مرد کے لئے بقدر ضرورت لمبا بنایا اور عورت کو یہ مادہ منویہ چونکہ لینا تھا تو اس کے لئے برتن نما اس طرح بنایا کہ مرد کے عضو تناسل کو اپنے اندر لے سکے، اسی طرح مادہ منویہ چونکہ رقیق اور کمزور ہوتا ہے اس میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ اس سے توالد کا سلسلہ چل سکے تو خصیتین بنایا تا کہ وہ یہاں پہنچ کر پک جائے اور سخت ہو جائے اور اس میں ولادت کی صلاحیت پیدا ہو جائے ، اسی لئے مرد کے مزاج میں تیزی رکھی ، اس کے برخلاف عورت کو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا مادہ مرد کے مادہ کے ساتھ مل کر بذات خود سخت اور قابل ولادت بن جاتا ہے ، اسی لئے عورت کے مزاج میں برودت ہے اور اس لئے بھی کہ دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہو سکیں۔
مرد وعورت کے بالوں میں نمایاں فرق ہے چونکہ مرد ( قیم ) نگراں و سر پرست ہے اس کو بارعب ہونا چاہئے تو اللہ نے داڑھی مونچھوں سے نواز کر اس کا انتظام کیا اور عورت مرد کے لئے سکون کا ذریعہ ہے اور وہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے تو کے چہرہ اور جسم کو بالوں سے خالی رکھ کر بارونق اور نگاہوں کو مائل کرنے والی شکل عطا کی۔
بدن کی نشو و نما
کوئی آرٹسٹ سونے چاندی کا کوئی مجسمہ بنائے اور اس میں یہ صلاحیت پیدا کر لے کہ وہ بڑھتا رہے تو ناممکن ہے، اس کو توڑے بغیر وہ اس میں اضافہ کرنا چاہے ، موٹا کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا لیکن اللہ کی تخلیق کا معاملہ بالکل نرالا ہے وہ بدن ہڈی اور گوشت کو رحم مادر سے بڑھاپے تک کس طرح بڑھاتا اور گھٹاتا رہتا ہے کہ سارے اعضاء اپنی شکل و ہیئت پر باقی رہتے ہیں اور اس میں برابر اضافہ بھی ہوتا رہتا ہے۔
حواس خمسه
دنیا میں محسوسات صرف پانچ ہیں تو اللہ نے بھی انسانوں کو پانچ حاسہ دیئے تا کہ وہ ان تمام کو محسوس کر سکے، اور یہ حاسے چونکہ تنہا اپنا کام نہیں کر سکتے ان کو ایک معاون کی ضرورت تھی تو اللہ نے ہر ایک کو ایک ایک معاون بخشا ، نگاہ اندھیرے میں اپنا کام نہیں کر سکتی تو اس کو روشنی عطا کی ، کان کو اپنا کام کرنے کے لئے ہوا کی ضرورت تھی جو آواز کو اٹھا کر کان تک پہنچائے تو اللہ نے ہوا کو پیدا کیا جو قوت سامعہ کے لئے معاون ہے، اسی طرح ناک کی قوت شامہ تک خوشبو و بدبو کو پہنچانے کے لئے باد نسیم کی ضرورت تھی تو اس کا بھی انتظام کیا اور منھ کا قوت ذائقہ تنہا بغیر لعاب کے اپنا کام انجام نہیں دے سکتا تو اللہ نے منھ میں لعاب پیدا کیا ، اسی طرح ہاتھ کے اندر چھو کر چیز کو محسوس کرنے کی طاقت عطا فرمائی۔
اعضاء جسمانی کی قدر و قیمت
اللہ نے انسان کو جن اعضاء سے نوازا ہے ان میں سے کچھ ایک ایک ، کچھ دو دو ہیں اور بعض تین اور چار ہیں ہم لوگ ان کو مسلسل استعمال کرتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے۔
إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ -ابراهيم / ٣٤ –
بلا شبہ انسان بڑا ہی نا انصاف اور بہت ناشکرا ہے۔
غور کیجئے اور اس سے پوچھئے جن کو اللہ نے ان اعضاء سے محروم کر رکھا ہے، آنکھ کی قیمت نابینا سے پوچھئے ، کان کی قیمت بہرے سے ، ہاتھ اور پیر کی قیمت لولے لنگڑے سے معلوم کیجئے ، اگر اللہ انسان کو زبان نہ دیتا تو اس میں اور جانور میں کیا
فرق ہوتا ۔
اللہ نے انسانوں کی شکل وصورت میں جو فرق رکھا ہے وہ تعجب خیز ہے کہ دنیا میں ایک شکل کے دو لوگ نظر آنے مشکل ہیں، جانوروں کی طرح اگر انسانوں کی بھی شکل ملتی جلتی ہوتی تو آپسی معاملات ، خرید وفروخت کا نظام مختل ہو جاتا ، چونکہ جانوروں میں یہ معاملات نہیں تو صورتوں کے اس اختلاف و فرق کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔
آواز
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ
لِلْعَالِمِينَ – الروم / ٢٢ –
اور آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا مختلف ہونا بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے، یقیناً اس میں دانشمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔آواز میں اللہ کی کاریگری بھی عجیب ہے کہ تمام انسانوں کے حلق اور زبان میں یکسانیت کے باوجود آوازوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ، آواز دراصل ایک ہوا ہے جو انسان کے سینے سے اٹھتی ہے ، حلق ، زبان ، دانتوں اور ہونٹوں کا سہارا لے کر آواز میں بدل جاتی ہے ، حروف تہجی کا وجود ہوتا ہے، ہنسی اور رونے کی آواز پیدا ہوتی ہے ، نثر و نظم ، امر و نہی ، خطبات و مواعظ کا سلسلہ چلتا ہے ، ہوا ایک، محل ایک، نلی ایک جیسی اور یہ سب کچھ؟
افسوس ! انسان مادی کاریگری کو دیکھ کر تعجب کرتا ہے، لیکن خدا کی اس حیرت انگیز قدرت و کاریگری پر نگاہِ عبرت نہیں ڈالتا۔
انسان خلیفہ اللہ ہے
جسم انسانی کائنات کی طرح ہے، جس طرح کائنات کا مالک کائنات کا نظام چلا رہا ہے، اسی طرح اللہ نے جسم انسانی کو اس کا نمونہ بنایا کہ پورا جسم کائنات کی طرح ہے اور دماغ اس کا نظام چلا رہا ہے۔
ہمارے پیر اور ران زمین کی طرح ہیں کہ اس پر پورے جسمانی نظام کا بوجھ ہے ، معدہ اور آنت زمین پر موجود پانی کی طرح ہے، اسی طرح زمین پر ایک سطح تک ہوا کا نظام ہے تو جسم انسانی میں پھیپھڑا اس کا عکاس ہے ، نگاہ کو اوپر اٹھائیے تو چاند وسورج اور ستاروں کی دنیا نظر آئے گی تو جسم انسانی میں بھی آنکھوں کی روشنی، فکر کی رہنمائی ، احساسات کی رہبری کا نظام بھی اس سے اعلی وارفع نظر آئے گا۔
کائنات میں بارش و بادل ، حیوانات ونباتات ، معادن وجواہرات موجود ہیں تو آپ کے جسم میں بھی آنسوؤں اور مختلف قسم کی رطوبتیں ، لعابِ دہن، پسینہ، خون کا نظام ، جراثیم و خلیوں اور رگوں کا جال، غور وفکر اور یاد کرنے ورکھنے کی صلاحیتیں ان سے کمتر نہیں۔
خلاصہ یہ کہ جسم انسانی زمین ہے تو ہڈیاں پہاڑ ، دماغ معدن و مخزن تو پیٹ سمندر ، آنتیں دریا تو رگیں نہر و ندی، گوشت مٹی تو بال نباتات ، سانس کا نظام ہوا کا ترجمان تو بات چیت اور آواز گرج اور کڑک کا نمونہ، ہنسی روشنی تو رونا بارش کی طرح ، خوشی دن کا اجالا تو غمی رات کا اندھیرا، نیند موت تو بیداری زندگی کی علامت ، بچپن موسمِ بہار تو پچپن موسمِ خریف، جوانی گرمی تو بڑھاپا سر دی۔
اللہ رب العزت کے بہت سے فرشتے ہیں جو کائنات کے امور انجام دیتے ہیں اور اللہ کے حضور ان کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور ہر فرشتے کی ٹیم اور فوج ہے تو انسانی دماغ کے لئے اللہ نے حواس خمسہ بنائے جو اپنی رپورٹ دماغ کو منتقل کرتے ہیں اور پھر ان حواس کے معاونین ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
گویا ہر ہر انسان کائنات کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے جس میں خدا نے کائنات کی تمام جلوہ گری جمع کر دی ہے۔
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسُهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمُ
أَنَّهُ الْحَقُّ – سوره فصلت / ٥٣ –
عنقریب ہم اپنی نشانیاں انہیں کائنات میں دکھائیں گے اور خود ان کے اندر، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ وہی حق ہے۔
ماں کا دودھ
ولادت سے پہلے ہی ماں کی چھاتی میں دودھ کا بننا شروع ہو جاتا ہے ، اور ولادت کے بعد بچہ کے مناسب اس دودھ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس قدر عمر بڑھتی ہے اسی کے بقدر دودھ کی مقدار و غذائیت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، اسی لئے ماہر اطباء نے فورا جنم لینے والے بچہ کے لئے ان عورتوں کے دودھ کو نقصان دہ کہا ہے جن کی کچھ مدت گزر چکی ہو کیونکہ بچہ ابھی اس میں غذائیت زیادہ ہونے کی وجہ سے ہضم نہیں کر سکتا ، اسی طرح ایک یا ڈیڑھ سال کا بچہ اگر فورا جنم دینے والی خاتون کا دودھ پئے گا تو یہ اس کے لئے ناکافی ہے کیونکہ اس میں اس کی عمر کے موافق غذائیت نہیں۔
اسی طرح بوڑھی خواتین اور بچیاں کمزوری کی وجہ سے بچہ جننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں اور اس کی تکلیف کو برداشت نہیں کر سکتیں تو اللہ نے ان کے اندر شہوت بھی نہیں رکھی ، اور یہ شہوت اسی عمر سے شروع ہوتی ہے اور اسی عمر تک برقرار رہتی ہے جب تک ولادت کی تکلیف برداشت کرنے کی طاقت وصلاحیت رہتی ہے۔
دماغ کے خلیے (sells)
دماغ جو فکر و خیال ، حافظہ واحساسات کا مرکز ہے ، باہر سے مٹیالا اور اندر سے سفید ہوتا ہے، پیدائش کے وقت تقریبا پانچ سو گرام کا ہوتا ہے اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ضرورت کے مطابق بڑھتا رہتا ہے اور دس گنا تک بڑھ جاتا ہے ، یہ دراصل خلیات کا مجموعہ ہے ، اس میں چھوٹے اور گول تقریبا ایک سو ارب ( ایک کھرب ) خلیے موجود ہوتے ہیں ، اور ایک ہزار سے دس ہزار تک چھوٹے چھوٹے رابطے ہیں جو آپس میں خلیوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کی معلومات منتقل کرنے کا کام کرتے ہیں، تعجب خیز امر یہ ہیکہ ان خلیوں کا کام تقسیم ہے ، کچھ سننے کا کام کرتے ہیں ، کچھ سوچنے کا ، کچھ دیکھنے کا، جب ان میں سے کسی امر کے خلیے مر جاتے ہیں یا کمزور پڑ جاتے ہیں تو اس صلاحیت میں کمی آجاتی ہے۔
شہد کی مکھی
ان کا چھتہ انجینیئرنگ کا کمال ہے اور ان کی بنائی ہوئی شہد نہ سڑتی ہے نہ خراب ہوتی ہے بلکہ اس کے ساتھ کسی چیز کو ملا دیا جائے تو وہ بھی خراب ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے، ان کے چھتہ میں ایک ملکہ ہوتی ہے جو تنقیح کے عمل سے اپنے کو مستغنی رکھتی ہے اور اس کو عار سمجھتی ہے ، اس چھتہ میں دوسری ٹیم مادہ مکھیوں کی ہوتی ہے جو افزائشِ نسل ، کام کرنے ، اور شہد اکٹھا کرنے کا کام کرتی ہیں ، تیسری ٹیم نر مکھیوں کی ہوتی ہے، جو فوج اور سپاہی کا رول ادا کرتے ہیں۔
شہد کی مکھی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ صبح جب کسی ایک پھول کا رس چوستی ہے تو اب دن بھر کسی اور جنس کے پھول کا رس نہیں چوسے گی ، پورا دن اسی جنس کا رس چوسے گی ، مثلا صبح کو وہ گلاب پر بیٹھی اور اس کا رس چوسا اور اپنے چھتہ میں منتقل کیا تو دن بھر اب گلاب ہی کے پھول پر بیٹھے گی اور اسی کا رس چوسے گی ، چمیلی یا کسی اور پھول کا رس نہیں چوسے گی ۔
شہد کی اس مکھی میں اللہ جل جلالہ کا اس فطرت و طبیعت کو ودیعت کرنا اس کی رحمت کاملہ اور عامہ کی وجہ سے ہے ، کہ اس مکھی کو مختلف پھولوں کی تلاش و جستجو کی زحمت برداشت نہ کرنی پڑے اور انسانوں پر اس کے ذریعہ یہ رحمت فرمائی کہ ایک مکھی جب ہم جنس پھولوں پر بیٹھے گی تو نر و مادہ کا اختلاط اس کے پیروں کے ذریعہ بآسانی ہو سکے گا ، جبکہ اگر وہ دوسرے پھولوں پر چلی جاتی تو یہ فائدہ نہ ہوتا۔
مکھی
مکھی میں اللہ اللہ نے عجیب و غریب صلاحیتیں رکھی ہیں اس کے معدہ نہیں ہوتا ، کھانے کے جس حصہ یا جزء کو کھاتی ہے، اس سے خارج ہونے والے انزائم اسے جذب کر کے جسم و خون کا حصہ بنا دیتے ہیں مکھی کھانے کے جس ذرہ کو لیتی ہے فورا ہی اس کی ماہیت تبدیل ہو کر اس کے اندر وہ چیز جذب ہو جاتی ہے، لہذا کوئی شخص اس چیز کو واپس لینا چاہے تو ناممکن ہے۔
وَإِنْ يَسْلُبُهُمُ الذُّبَابُ شَيْئاً لَّا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ الحج / ٧٣ –
اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو چھڑا بھی نہیں سکتے۔
اس کی دو آنکھیں سیکڑوں بلکہ ہزاروں چھوٹی چھوٹی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہیں، اس کی آنکھ ایک سیکنڈ میں سو تصویریں جذب کر سکتی ہے، لاکھوں خلیوں پر مشتمل یہ حقیر مکھی کیسی عجیب و غریب صلاحیتوں کی مالک ہے ، یہ سب اللہ کی کرشمہ سازی ہے۔ اللہ نے اس کے ایک بازو کو جراثیم و بیماریوں کا مسکن بنایا تو دوسرے بازو میں شفا رکھ دی۔
مکڑی
اللہ نے اس مکڑی کو ایسی کاریگری اور انجینئرنگ کا فن سکھلایا کہ ایک انجینئر کے نقشہ اور عمارت میں غلطی تو ہو سکتی ہے لیکن مکڑی کے نقشہ اور کاریگری میں کوئی نقص نہیں آسکتا ، انسان کی بنائی ہوئی عمارت کو زلزلہ ، آندھی اور طوفان مسمار کر دیتے ہیں جبکہ مکڑی کے جالے میں رحمتِ خداوندی نے وہ طاقت و مضبوطی ودیعت فرما دی کہ کوئی زلزلہ اور سخت آندھی اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ، جالے کے انتہائی نازک ریشمی تار اسٹیل سے بھی تقریبا بیس گنا زیادہ طاقتور ہوتے ہیں ، مکڑی کے جالے کا باریک تار اپنی حجم سے پانچ گنا لمبا بغیر ٹوٹے ہوئے کھنچ سکتا ہے، ان جالوں کو بٹ کر اگر ایک مربع انچ موٹی رسی بنائی جائے تو وہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ کلو گرام وزن اٹھا سکتی ہے۔
نیز مکڑی کا جالہ اس کے لئے شکارگاہ بھی ہے کہ کیڑے اس میں پھنس جاتے ہیں اور مکڑی کا غذا بن جاتے ہیں، جالوں کی چمک اور اس کا جاذبِ نظر ہونا اس کے شکار میں معاون بنتا ہے کہ مکھی، مچھر اس کی چمک دیکھ کر آتے ہیں اور شکار ہو جاتے ہیں۔
عموما جالا مادہ مکڑی بنتی ہے ، اور اس وقت بنتی ہے جب بلوغت کو پہنچتی ہے اور اپنے اس خوشنما گھر میں نر مکڑے کو بلاتی ہے، پھر تلقیح کا عمل ہوتا ہے، مکڑی چونکہ مکڑے سے طاقتور اور بڑی ہوتی ہے، تو اسے مار ڈالتی ہے اور قسطوں میں چٹ کر جاتی ہے، گویا مکڑی نے جال بنایا تھا مکڑے کو رجھانے اور اس کو اپنی غذا بنانے کے لئے ، قرآن میں مکڑی کے گھر بنانے کے لئے اتخذت کا صیغہ اس کی تائید کرتا ہے۔
چیونٹی
موجودہ ریسرچ یہ بتاتا ہے کہ چیونٹیوں کا طرزِ زندگی انسانوں سے بہت زیادہ ملتا جلتا ہے، وہ بھی اپنے مردے کو دفن کرتی ہے ، ان کے یہاں بھی انتہائی نظم وضبط کے ساتھ تقسیمِ کار ہے ، کام کرنے والی چونٹیوں کی جماعت پر ایک نگراں ہوتا ہے ، وہ کام کرتے ہوئے آپس میں باتیں بھی کرتی ہیں، اور ایک دوسرے کو کام کے سلسلے میں پیغامات بھی دیتی رہتی ہیں، بلکہ ان کا منظم انداز سے بازار بھی لگتا ہے جہاں وہ ایک دوسرے سے سامان کا تبادلہ کرتی ہیں، موسمِ سرما کے لئے رزق اکٹھا کرتی ہیں اور اس کی کی حفاظت کرتی ہیں اگر کوئی دانہ نمی پا کر اگنا شروع کرتا ہے تو فورا ہی اس کی جڑ کاٹ دیتی ہیں ، چونٹیاں وہ دانے جن میں اگنے کی صلاحیت ہوتی ہے انہیں دو ٹکڑے کر دیتی ہیں تاکہ ان میں نمو کی صلاحیت ختم ہو جائے ، چونکہ دھنیا کے ایک دانے کے دونوں ٹکڑوں میں نمو کی صلاحیت ہوتی ہے لہذا اسے چار ٹکڑوں میں تقسیم کر دیتی ہیں ، اگر کوئی دانہ نمی کا شکار ہو جاتا ہے تو اسے باہر نکال کر دھوپ دکھاتی ہیں۔
بعض چونٹیاں دستوں میں بٹ کر چلتی ہیں، ہر دستے کا ایک سردار ہوتا ہے ، یہ دستہ دورانِ سفر ایک رقیق مادے سے راستے پر لکیر بناتا چلا جاتا ہے جب دستے کا ہر فرد اپنی غذا اکٹھا کر لیتا ہے تو اسی لکیر پر چلتا ہوا واپس آجاتا ہے۔
اللہ کی اس ننھی مخلوق کی رہائش کا نظم و نسق انسانی رہائش سے کم نہیں ، یہ زمین کے اندر چار پانچ میٹر گہرائی تک رہائشی اور مختلف دوسری ضرورتوں کے لئے جگہیں بناتی ہیں ، گیٹ پر ہی چوکیدار کی جگہ ہوتی ہے ، کچن، اسٹور روم ، بڈ روم ، بچوں کی نرسری و پارک سڑک و راستے یہ سب ان کی آبادی (وادی) کا حصہ ہوتے ہیں۔
تعریف اس رب کی جس نے اس ننھی مخلوق کو یہ فطرت و صلاحیت بخشی ۔
چیونٹی پر اللہ کی خاص رحمت یہ ہے کہ اس کے لئے اللہ نے اس کے ہر کھانے کے بعد مٹھائی و شربت اور دودھ وچائے کا انتظام اس طرح کر دیا کہ ایک "افس“ نامی کیڑے کو چیونٹی شکار کر کے اپنے قبضہ میں کر لیتی ہے ، اس کی پرورش کر کے اس کو اپنی اولاد بنا لیتی ہے اور اس کو گلاب کے پتوں میں چھوڑے رکھتی ہے ، جب کھانا کھا کر آسودہ ہو جاتی ہے تو اس کے پاس آکر اس کے چوسے ہوئے میٹھے مادہ سے بطور تفکہ لطف اندوز ہوتی ہے جو اس کے لئے مٹھائی ، دودھ اور شربت و چائے کا کام کرتا ہے۔
اکسیلو کوب نامی لکڑی کا کیڑا
یہ کیڑا انڈا دیتے ہی مر جاتا ہے اور اپنے ہونے والے بچہ کی پرورش نہیں کر پاتا ، اس پر اللہ کی رحمت دیکھئے کہ اللہ نے اس کی فطرت اس طرح بنائی ہے کہ یہ موسمِ بہار میں کسی لکڑی میں طبعا سوراخ کرتا ہے اور پھول پتیاں اس میں جمع کرتا ہے اور ان کو کتر کر گھونسلے بناتا ہے اور سوراخ کا منھ انہیں کترے ہوئے پھول اور پتیوں سے بند کر لیتا ہے اور انڈا دے کر فورا مر جاتا ہے ، جب اس کے انڈے پھوٹتے ہیں تو ایک سال تک باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہی جمع شدہ پھول اور پتے کے ٹکڑے اس کی غذا بنتے ہیں۔
مرغی کا انڈا اور ربوبیت الہی
ایک امریکی سائنسداں نے مرغی کے انڈوں سے بغیر مرغی کے بچے پیدا کرنے کا ارادہ کیا اور سارے وسائل جمع کر لئے ، انڈوں کے لئے اس حرارت کا بھی انتظام کیا جو مرغی کے انڈوں پر بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے اور عمل شروع ہو گیا ، اتفاق سے ایک تجربہ کار کسان کی اس سائنسداں سے ملاقات ہو گئی ، اس نے کہا سر ! مرغی چوبیس گھنٹے میں ایک بار انڈوں کو الٹتی پلٹتی ہے ، اس کے لئے آپ نے کیا انتظام کیا ہے؟ سائنسداں نے تمسخرانہ لہجے میں کہا ، بھائی ! مرغی کو اس لئے انڈے الٹنے پلٹنے کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ حرارت نچلے حصہ میں بھی پہنچ جائے اور ہم نے جس حرارت کا انتظام کیا ہے وہ بغیر حرکت دیئے نچلے حصہ تک پہنچ رہی ہے ، اس طرح وہ مدت تمام ہوئی جس میں انڈوں سے بچے پیدا ہو جانے چاہئے لیکن ایک بھی انڈے سے بچہ نہ نکلا ۔
اب سائنسداں نے دوسری بار کوشش شروع کی اور اس مرتبہ ہر چوبیس گھنٹہ میں انڈوں کو الٹتا پلٹتا رہا ، آخر کار ہر انڈے سے وقت پر چوزے نکلے ، اب سائنسدانوں کی ریسرچ ٹیم اس پر تحقیق کے لئے کوشاں ہوگئی اور سب اس نتیجہ پر پہنچے کہ انڈوں کے اندر جس جھلی میں مادہ جمع ہوتا ہے اور چوزے بنتے ہیں ، اگر اس کو الٹا پلٹا جاتا رہے تو مادہ پورے میں پھیلا رہتا ہے اور کسی ایک ہی سمت جمع نہیں ہوتا اور اگر حرکت نہ دیا جائے تو مادہ نیچے کی سمت جمع ہو جاتا ہے جس کے وزن سے وہ باریک جھلی پھٹ جاتی ہے۔
تعریف اس خدا کی جس نے مرغی کو یہ فطرت و صلاحیت بخشی کہ انڈوں کے سینے کے وقت وہ انڈوں کو الٹتی پلٹتی رہتی ہے۔
کائنات میں ربوبیت کی جلوہ گری
رب العالمین کے ربوبیت کی جلوہ گری سارے عالم پر محیط ہے۔
اور خدا کے سوا ہر چیز اور ہر مخلوق عالم ہے۔عالم بالا عرش و کرسی ، ملائکہ واجنہ، کہکشاں اور نظام شمشی ۔اور عالم سفلی انسان و حیوان ، نباتات و جمادات ، سمندر اور سمندر کی مخلوق یہ سب الگ الگ عالم ہیں ۔
سارے عالم و کائنات کا اگر روشنی چکر لگائے جس کی رفتار فی سیکنڈ تین لاکھ کلو میٹر ہے تو ماہر فلکیات آنسٹائن کے اندازے کے مطابق اسے ایک ارب سال سے زیادہ لگے گا۔
اللہ کی ربوبیت اس پورے کائنات پر حاوی اور عام ہے۔
ہمارا یہ نظام شمسی (sollar systom) یعنی جس سورج کے تحت ہماری زمین ہے اور اس میں اس کی حیثیت صرف ایک نقطہ کے مانند ہے، اور اس طرح تیرہ یا چودہ اور زمینیں مشتری ، زہرہ، عطارد، زحل، یورینیس، نیپچون، پلوٹو وغیرہ اور ان کے ما تحت چاند ایک نظام شمسی ہے، اور صرف ہماری کہکشاں میں اس طرح کے ڈیڑھ کھرب نظام شمسی ہیں ، جبکہ ماہرین فلکیات کے مطابق پچاس کروڑ اور کہکشائیں ہیں۔
سورج زمین سے ۱۵/ کروڑ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے اور اس کی روشنی زمین پر ساڑھے آٹھ منٹ میں پہنچتی ہے جبکہ بعض دوسرے ستاروں کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں ایک کروڑ پچاس لاکھ سال لگتے ہیں۔
اللہ اکبر کا ئنات کی وسعت اور اس میں خدا کی ربوبیت۔
الحمد لله رب العالمین۔ تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو سارے جہان کا پالنہار ہے۔
یہ سب ستارے اور سیارے ایک مقررہ نظام پر چل رہے ہیں اور مدت ہائے دراز گزر جانے کے باوجود بھی ان کے نظام میں ذرہ برابر فرق نہیں آتا، کبھی یہ آگے اور کبھی پیچھے، کبھی گول مدار پر اور کبھی مستدیر یا بیضاوی مدار پر چکر لگا رہے ہیں، لیکن جو بھی ہے وہ منظم و مستحکم کہ اجرام علویہ میں سے کوئی بھی دوسرے کے نظام میں خلل نہیں ڈالتا اور نہ آپس میں ٹکراتے ہیں۔
اسی طرح ان کی رفتار میں بھی فرق ہے ، بعض تیز رفتار اور بعض سست ، مشتری کی رفتار فی گھنٹہ تیس ہزار میل ہے، یعنی اتنی دیر میں کہ انسان ایک مرتبہ سانس لے وہ ستائیس میل طے کر چکا ہوتا ہے، بالفاظ دیگر ایک دفعہ نبض اچھلتی ہے تو مشتری اپنی جگہ سے سات میل دور چلا گیا ہوتا ہے، کیونکہ انسان ایک منٹ میں تقریبا اٹھارہ مرتبہ سانس لیتا ہے اور ایک مرتبہ سانس لینے کے دوران چار دفعہ نبض اچھلتی ہے۔
ستاروں کی روشنی میں بھی فرق ہے ، ایک کی رنگت دوسرے
سے جدا گانہ، ایک کی روشنی میں شدت و تیزی دوسرے سے کم یا زیادہ ، اور بعض تو ایسے ہیں کہ ان کی رنگت وقفہ وقفہ سے بدلتی رہتی ہے اور روشنی کی شدت و ضعف میں بھی کمی زیادتی ہوتی رہتی ہے ، لیکن جو کچھ بھی ہے اٹل قانون کے تابع ۔
اس سے حیرت انگیز بات عالم میں یہ بھی نظر آتی ہے کہ اللہ نے ان ستاروں اور سیاروں کے لئے ایک خاص مدار مقرر کر دیا ہے، اگر وہ اس سے ایک انچ بھی ہٹ جائیں تو نظامِ عالم درہم برہم ہو جائے ، گویا پوری کائنات ایک مشین ہے جس میں ہر پرزے نہایت حیرت انگیز اور ناقابلِ فہم نظام کے ذریعہ باہم مربوط ہیں، ایک پرزے کے بگڑنے کا سب پر اثر پڑتا ہے۔
سائنسدانوں کی زبان میں یوں کہہ لیں کہ تمام اجرامِ عالم میں ایک قوتِ جذب و کشش پائی جاتی ہے اور اس کے تمام اجزاء ایک خاص اصول کی پابندی سے ایک دوسرے کو کھینچتے ہیں ، جب یہ توازن بگڑے گا تو پورا عالم درہم برہم ہو جائے گا لیکن خدا کی ربوبیت اس نظام و توازن کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اسے اس پیچیدہ کام میں کوئی زحمت نہیں ہوتی ۔
توسیع کا ئنات
وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ – الذاريات / ٤٧ – ہم نے کائنات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا اور ہم اس کو وسعت دینے والے ہیں۔
کائنات اور زمین کا مستقل پھیلاؤ اللہ کی بڑی قدرت و رحمت ہے ، جبکہ حکومتیں آبادی کی بڑھتی ہوئی کثرت سے پریشان ہیں اور نسل کشی کے لئے کوشاں ہیں، اللہ کی ربوبیت پر یقین نہیں ، حالانکہ اللہ مخلوق کی توسیع کے ساتھ کائنات اور زمین میں بھی برابر توسیع کر رہا ہے۔
کائنات کے بارے میں جدید تصور یہی ہے کہ زبردست دهماکه (big bang) کے بعد سے ہی کائنات کا پھیلاؤ شروع ہوا اور یہ توسیعی عمل اب بھی جاری ہے، ایک اندازے کے مطابق وہ سابقہ دائرہ کار کے مقابلہ دس گنا بڑھ چکی ہے۔
وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَالِكَ دَحَاهَا -النازعات / ٣٠ –
اس کے بعد اللہ نے زمین کو پھیلا دیا۔
ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ زمین کا نقشہ پہلے کچھ اور تھا ، گردش لیل و نہار اس میں تبدیلیاں لاتا رہا، پہلے زمین پر پائے جانے والے براعظم الگ الگ جزیروں میں بٹے ہوئے نہیں تھے بلکہ یہ سب ملے ہوئے تھے ، اس کے بعد وہ پھٹ گئے اور سطح زمین پر ادھر ادھر پھیل گئے اور بھرے ہوئے سمندروں کے ارد گرد براعظموں کی ایک دنیا آباد ہو گئی ، زمین کی یہ تبدیلی دو انچ فی سال کی رفتار سے ہو رہی ہے۔
اللہ کا کارخانہ عجیب و غریب ہے ، اس میں اللہ نے اپنی قدرت وربوبیت کے جلوے بکھیر دئے ہیں۔
سمندر میں خدا کے عجائبات
زمین کا جملہ ٧١/ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے، جبکہ سمندر میں ۳۲/کروڑ مربع میل سے زیادہ پانی موجود ہے،
سمندر زمین کی خشکی کو معتدل رکھنے کے علاوہ بارش ، بحری تجارت اور بے شمار فوائد پر مشتمل ہے، سمندر معدنیات کا خزانہ ہے ، کہا جاتا ہے سمندر کے ایک مربع میل پانی میں ایک لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ کا سونا برآمد ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ ہیرے ، جواہرات اور موتی وغیرہ بھی سمندر میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح اللہ نے سمندر میں لاتعداد بحری حیوانات پیدا کئے ، خصوصا مچھلیاں انسانوں کا رزق بنتی ہیں اور ساحلی علاقوں کے لوگوں کا تو ذریعہ معاش ہیں ۔
سمندر میں مچھلیوں کی ایک قسم وہیل ہے، جس کی لمبائی تقریبا ۹۵-۹۰ ہاتھ ہوتی ہے اور اس کا وزن اوسطا ساٹھ ہزار کلو ہوتا ہے ، دوسرے الفاظ میں صرف ایک مچھلی میں ۲۰ /کلو وزن کے تین ہزار بکروں کا گوشت ہوتا ہے، اس کے جسم سے چربی کے تقریبا ایک سو پیپے حاصل کئے جاسکتے ہیں ، یہ اپنی غذا اس طرح حاصل کرتی ہے کہ جب اس کو بھوک لگتی ہے تو اپنا منھ کھول دیتی ہے اور پانی کافی مقدار میں اس کے منھ میں چلا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بڑی تعداد میں مچھلیاں بھی ، پھر جب وہ اپنا منھ بند کرتی ہے تو پانی تو باریک دانتوں سے باہر آجاتا ہے اور مچھلیاں اس کی غذا بن جاتی ہیں۔
اسی طرح سمندر کی تہوں میں جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ایک اور مچھلی ہوتی ہے جس کی پیٹھ پر ایک شیشہ نما ابھرا ہوا حصہ ہوتا ہے ، اللہ نے اس اندھیرے میں اس کے لئے روشنی کا انتظام اس طرح کیا کہ سمندر کی تہوں میں ایسے پتھر ہیں جن کو حرکت دیں تو روشنی نکلتی ہے ، یہ مچھلیاں جب ان پتھروں کو حرکت دیتی ہیں تو روشنی ان کے پیٹھ پر موجود شیشوں سے منعکس ہوتی ہے اور ان کے سامنے روشنی پھیل جاتی ہے، جس سے یہ اپنا راستہ طے کرتی ہیں اور خوراک تلاش کرتی ہیں۔
اسی طرح چین کے دریا میں ایک عجیب و غریب مچھلی پائی جاتی ہے جس کا گوشت اگر کوئی کھالے تو وہ ہنستا ہی رہتا ہے یہاں تک کہ مر جاتا ہے، چین میں ان مچھلیوں کے شکار اور خرید وفروخت پر پابندی ہے اور حکومت اس کا گوشت بڑے مجرموں کو سزا دینے کے لئے استعمال کرتی ہے کہ چپکے سے اس مچھلی کا گوشت مجرم کو کھلا دیا جاتا ہے اور وہ کچھ دن مستقل ہنستا رہتا ہے، آخر کار مر جاتا ہے۔
مکئی
مکئی کے پودے آپ نے ضرور دیکھے ہوں گے اور اس کی بالی کو آگ پر بھون کر ضرور کھایا ہوگا ، اس کی تولید میں خدا کی کرشمہ سازی حیرت انگیز ہے۔
اس کے بالائی حصہ میں چھوٹے چھوٹے ذرات کی شکل میں پھول آتے ہیں وہ نر ہیں اور درمیان میں بال یعنی دانے پڑنے کی جگہ ہوتی ہے جو ابھری ہوئی گانٹھ کی شکل میں ہوتی ہے، اس میں باریک ریشمی سرخ وسفید دھاگے نکلے ہوتے ہیں جن میں نہ دکھنے والے سوراخ ہوتے ہیں ، انہیں دھاگوں کے سوراخ کے ذریعہ بالائی حصہ کے باریک دانے گر کر اندر پہنچتے ہیں اور جتنے دانے گرتے ہیں اتنے ہی مکئی کے دانے اس بال میں پڑتے ہیں، اگر کبھی آپ مکئی کے اس درمیانی گانٹھ بال کے منھ کو اوپر سے باندھ دیں اور پالن گرینیس (pollengrains) نہ ہو سکے تو ایک بھی دانہ اس میں پیدا نہ ہوگا۔
گیہوں
ہم اپنے عمومی کھانے میں گیہوں کی روٹی کثرت سے استعمال کرتے ہیں ، کھیتوں میں اس کی بالیوں پر آپ کی ضرور نظر پڑی ہوگی ، ان بالیوں میں چھوٹے چھوٹے دانے ہوتے ہیں کبھی آپ دیکھیں تو یہ دانے تین غلاف کے اندر ہوتے ہیں ، سب سے اوپری غلاف باریک سوئی کی طرح ریشوں کا ہے جو نر ہے اور تینوں غلاف کے اندر اس کے مادہ کی جگہ ہے جہاں ان ریشوں کے اثرات منتقل ہوتے ہیں تو دانے پڑتے ہیں ، اگر آپ کبھی ان اوپری ریشوں کو توڑتے جائیں اور بال میں بالکل ریشے نہ رہیں تو دانے نہ پیدا ہوں ۔
کھجور
کھجور آپ شوق سے کھاتے ہیں اور مہمانوں کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں ، اس کے عملِ تولید کے نظام اور مراحل پر غور کریں تو حیرت ہوگی ، اور خدا کی ربوبیت پر یقین بڑھے گا۔
کھجور کا درخت زمین سے اپنی غذا حاصل کرتا ہے ،حاصل شدہ مادہ سب سے پہلے تنوں میں منتقل ہوتا ہے، پھر اس سے بچا ہوا حصہ فلٹر ہو کر ٹہنیوں میں پہنچتا ہے ، ٹہنیاں بقدر ضرورت گاڑھا حصہ لے کر باریک اور نرم حصہ کو خوشوں کو منتقل کر دیتی ہیں ، خوشے اپنی ضرورت پوری کر کے مزید باریک حصہ کھجور کے پھلوں تک پہنچا دیتے ہیں اور پھلوں کے منھ پر ایک جھلی نما فلٹر مشین ہوتی ہے جو گاڑھے مادے کو پھل کے درمیان لگی جھلی کے اندر پہنچا دیتی ہے اور اس سے گھٹلی بنتی ہے اور باریک اور لطیف مادہ کو جھلی کے اوپر ڈال دیتی ہے جس سے کھجور کا وہ حصہ بنتا ہے جس کو ہم کھاتے ہیں اور زبان میٹھی ہو جاتی ہے اور جسم توانا ہو جاتا ہے۔
موتی
موتی ایک قیمتی دھات ہے جس کو بادشاہ اور امراء استعمال کرتے ہیں، رانیاں اور شہزادیاں بڑے شوق سے موتیاں جڑے زیورات پہنتی ہیں، یہ کہاں ملتا ہے اور کس طرح بنتا ہے؟ اس کا جواب معلوم کیا جائے تو خدا کی ربوبیت عیاں ہو جاتی ہے، یہ سمندر کی تہوں میں ہوتا ہے اس کی مشنری اور کارخانہ حیرت انگیز ہے۔
سمندر میں ایک چھوٹا کیڑا ہوتا ہے جو مکڑی کے جالے کی طرح ہوتا ہے، یہ سمندر کی تہوں میں موجود سیپوں میں داخل ہو جاتا ہے ، اس کے جالے نما جسم کے نیچے حصہ میں کئی منھ ہوتے ہیں جس سے ریت اور مضر چیزوں کو ہٹاتا ہے اور ایک چکنا مادہ چھوڑتا ہے ، وہ ریت کے باریک ذرات اور اس کا چکنا مادہ سیپ میں جمع ہو کر دال کے برابر سخت ہو جاتے ہیں ، یہی موتی کہلاتے ہیں جو بڑے قیمتی سمجھے جاتے ہیں۔