استاذ محترم مولانا نذیر احمد ندویؒ کی وفاتنہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز
ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ مکرم ڈاکٹر مولانا نذیر احمد ندویؒ استاذ دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی رحلت کی خبر بجلی بن کر گری:خوش درخشید ولے شعلہ مستجل بود ایسا لگا جیسے اہلِ علم کے افق سے ایک اور ستارہ ٹوٹ کر گرا ہو، اور علمی فضا میں ایک گہری اداسی چھا گئی ہو، وہ ایک ایسے کامیاب استاذ تھے جن کے درس میں شریک ہونا صرف عبارتوں کا حل کرنا نہیں، بلکہ علم وادب کا لطف اٹھانا ہوتا تھا، وہ بات کرتے تو الفاظ پھول بن جاتے، جملے خوشبو بن کر فضا میں بکھر جاتے، ان کی گفتگو میں ایسا رس اور بانکپن تھا کہ سننے والا دیر تک اس کے سحر میں گرفتار رہتا:وہ کہیں اور سنا کرے کوئیان کے پڑھانے کا انداز دل کو موہ لینے والا تھا،
عربی زبان وادب تو تھا ہی ان کا میدان، جس کے وہ شہ سوار تھے، ندوہ کے پندرہ روزہ عربی ترجمان "الرائد” کی مجلس مشاورت کے رکن رکین بھی تھے، اور اس میں گاہے گاہے ان کے مضامین وتراجم شائع ہوتے تھے، اردو شعر وسخن سے بھی مولانا کو حظ وافر ملا تھا، انگریزی پر بھی غیر معمولی قدرت رکھتے تھے، عربی عبارتیں پڑھاتے تو گویا لفظوں کی گرہیں کھلتی جاتیں، اور اردو میں اس کا ترجمہ کرتے تو جملے میں ایسا ذوق، ایسی سلاست اور ایسی چاشنی گھول دیتے کہ دل جھوم اٹھتا، میں نے ان سے مختارات ثانی اور مجموعۃ من النظم پڑھی تھی، وہ جب کسی نثری یا شعری فن پارے کی اردو تعبیر کرتے تو معنی کا دریا بہا دیتے، ایک بار انہوں نے «يَتَلَأْلَأُ وجهُه تَلَأْلُؤَ القمر ليلة البدر» کا ترجمہ یوں کیا:”آپ کا رخِ روشن ماہِ شبِ چہار دہم کی طرح چمکتا تھا”یہ جملہ اب بھی میرے دل کے نہاں خانوں میں پنہاں ہے، اور یاد آتے ہی ایک روح پرور روشنی ذہن میں پھیل جاتی ہے،
ان کے ترجمے محض لفظ کی جگہ لفظ کے نمونے نہیں ہوتے تھے، وہ اعلی لسانی مذاق کا مظہر ہوتے تھے، میں ان کی درسی تقریروں کے ہر فقرے کو نوٹ کرتا، پھر عبارتوں پر دھیان دیتا، مگر چند جملوں کے بعد وہ کوئی ایسی خوبصورت تعبیر لے آتے کہ قلم خود بخود رکنے سے انکار کر دیتا، میں عش عش کر اٹھتا، اور پھر قلم بند کرتا، معلوم نہیں برقی دور میں وہ قلمی یاد داشتیں غریب الوطنی کی کس گرد میں چھپی ہوں گی، ہاں اب تک یاد ہے کہ ان کا انداز ہر ہر فقرہ کو درد واثر سے بھر دیتا تھا، بس سامنے ایک درسی کتاب رکھنے کی دیر تھے:پھر دیکھیے انداز گل افشانیٔ گفتاررکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
مولانا کے بعض ادبی تبصرے بھی یاد آتے ہیں، ایک بار کہنے لگے: "امیر جمع ہیں احباب درد دل کہہ لے”میں جمع کے میم کو ساکن پڑھا جائے تو وزن کی زیادہ رعایت ہو اور شعری ضرورت کی وجہ سے گوارا بھی، ایک بار فرمایا: بڑے لوگوں کی بعض تسامحات بھی ادبی شاہکاروں میں شمار ہوتی ہیں، مثلا مولانا آزاد کا یہ جملہ کہ "ہم خاک نشینان بوریائے مذلت” یا تو خاک نشیں ہوں گے یا بوریا نشیں، یا غالب کا یہ مصرع کہ:
"ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا” میں پا اور پا دو بار آنا تنافر وتعقید سے خالی نہیں، اس لیے بولنے میں ثقیل ہیں، لیکن آزاد اور غالب پر حرف رکھے، کس کی جرات!
مولانا فرمایا کرتے تھے کہ قرآنی ادب کے ساتھ ساتھ حدیث وفقہ کے ادب کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے، خصوصاً ہدایہ کی روشنی میں، جہاں ایسی لطیف تعبیرات ملتی ہیں جیسے استرخاء المفاصل، أین باتت یده اور یُعالجُ بالأصبع وغیرہ۔
ڈاکٹر نذیر احمد ندویؒ کی شخصیت میں وقار، نرم گفتاری، حلم وعلم، اور حسنِ ادا کا ایسا امتزاج تھا جو کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، ان کے اندازِ گفتگو میں تاثیر تھی، ان کے اسلوبِ تدریس میں حسن تھا، ان کے سکوت میں بھی علم بولتا تھا، ان کی نشست وبرخاست، شیروانی، عینک یہاں تک کے پانی پینے کا انداز بھی پسند کیا جاتا تھا، ایسی نفاست، ایسی صوتی حلاوت، ایسا سلیقہ، ایسی متانت، شگفتگی اور معصومیت کہ انسان فدا ہوجائے، اور ان سے نظر ہٹنے نہ پائے، ہم نگاہیں چرا کر بھی ان کی لب کشائی سے محظوظ ہوتے تھے، اور دیر تک کتابی دنیا سے دور ہو جاتے تھے:
رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیںادھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
مولانا ایک بلند نگاہ، شریف النفس، بے تعصب، بے نیاز، نیک سرشت اور خوش خصال وباکمال انسان تھے، بے نفس اور بے ضرر، جلب زر اور دار ودر کے ہنر سے بھی نا واقف معلوم ہوتے تھے، کسی پر اپنے علم کا دھونس نہیں جماتے تھے، اللہ کے برگزیدہ بندوں میں تھے، ان کے بارے میں زبان خلق پر یہی شہادت ہے، اور اس پر "وجبت له الجنة” کا وعدہ بھی ہے:أنتم شهداء الله في الأرض
گذشتہ سال ندوہ میں فقہی سیمینار کے موقع سے ان کے ساتھ ناشتہ کی میز پر کچھ دیر بیٹھنے کی سعادت ملی تھی، ہمیں ان کی منکسر المزاجی سے حیا آرہی تھی، محسوس ہوا کہ مولانا کو امراض نے گھیر رکھا ہے؛ اس لیے بڑی احتیاط سے کھانا پڑ رہا ہے، شوگر حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی، مولانا پر ہجوم رنج والم کے آثار دیکھ کر صدمہ ہورہا تھا، اب مولانا پہلے کے سے زندہ دل، شگفتہ مزاج اور خوش طبع نظر نہیں آرہے تھے، لیکن وہ نقش دیوار نہیں بنے، اور گوشۂ عافیت میں نہیں بیٹھے، دم واپسیں تک درس دیتے رہے، سن کر تحیر آمیز رشک آیا کہ مولانا نے 7 اکتوبر 2025 بروز منگل کی صبح بھی دو گھنٹے پڑھائے، اور "مریں گے ہم کتابوں پر” کا وعدہ سچ کر دکھایا۔
آج ان کے جانے سے نہ صرف ان کے شاگرد، بلکہ پورا علمی حلقہ ایک بڑے عالم دین، نفیس ونستعلیق مدرس، اور عربی کے صحافی وادیب سے محروم ہوگیا ہے، وہ صرف استاد نہیں، علم کی خوشبو تھے؛ اب وہ خوشبو فضا میں بکھر گئی ہے، مگر ان کی علمی یادیں اور ان کے ادبی جملے ہمیشہ دلوں کے گوشوں میں مہکتے رہیں گے:
عمر کے ہر ورق پہ دل کی نظر
تیری مہر ووفا کے باب آئےکے
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے