آدم علی ندوی
زمر کی وجہ تسمیہ
اس سورت کا نام سورہ زمر ہے، جو زمرۃ کی جمع ہے، اس کے معنی جماعت یا گروہ کے ہیں، یہ نام اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ سورت کے آخری حصہ کی دو آیات میں دو گروہوں کا تذکرہ ہے۔ وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (الزمر.٧١۔٧٢۔٧٣)
(اور وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، گروہ در گروہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے تو اس کے دروازے کھولے جائیں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے کیا تمھارے پاس تم میں سے کچھ رسول تمہارے پاس نہیں آئے جو تم پر میری آیتیں تلاوت کرتے تھے اور تم کو اس دن کی ملاقات سے ڈراتے تھے وہ لوگ کہیں گے ۔ کیوں نہیں۔ لیکن عذاب کی بات کافروں پر طے ہو چکی تھی۔کہا جائے گا جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ، اس میں ہمیشہ رہنے والے، پس وہ تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانا ہے۔
اور وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈر گئے، گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جائے جائیں گے، یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آئیں گے، اس حال میں کہ اس کے دروازے کھول دیے گئے ہوں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے تم پر سلامتی ہو۔ تم کو مبارکباد ہو، تم ہمیشہ ہمیش کے لیے داخل ہو جاؤ۔)
ایک اہل تقوی کا کہ ان کو اعزاز و اکرام کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا، یہ جب اپنی جنتوں میں پہنچیں گے تو فرشتے استقبال کریں گے، سلامی و مبارکباد پیش کریں گے اور جنت کے دروازے ان کے پہنچنے سے پہلے کھلے ہوئے تیار ہوں گے۔ اور دوسرا گروہ ان کافروں کا ہوگا جن کو جہنم کی طرف ہانک کر لے جایا جائے گا، فرشتے (جہنم کے داروغہ) پھٹکار لگائیں گے اور جھڑکیں گے اور جہنم کا دروازہ بند ہوگا، بےعزتی کے ساتھ وہاں کھڑے انتظار کریں گے جس طرح جیل کا دروازہ بند ہوتا ہے، پھر ذلت کے ساتھ جہنم میں ڈھکیل دیے جائیں گے۔
ان دونوں آیات میں دونوں گروہوں کی منظر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ گویا نگاہوں کے سامنے وہ منظر موجود ہے قاری اور سامع اس کو دیکھ رہے ہوں اور اس میں تقابل بھی موجود ہے کہ ایک طرف اہل جنت کا کردار استقبال و اعزاز کے ساتھ ہے اور دوسری طرف اہل جہنم کا کردار ہے کہ ان کی بے عزتی اور تذلیل کی جا رہی ہے۔جنت کی طرف تشویق اور جہنم سے تخویف کا پہلو بھی واضح ہے ، الفاظ کی یکسانیت موسیقیت اور خوبصورتی پیدا کر رہی ہے جس سے ان آیات کا اثر دل پر نقش ہوتا چلا جاتا ہے۔
سورہ زمر کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول:
سورہ زمر کے سلسلہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ اس سورہ کو ہر رات پڑھا کرتے تھے (سنن الترمذی ۔حدیث نمبر 2920 ۔3405 من حدیث عائشۃ)
یہ مکی سورتوں میں سے ہے اور مکی سورتوں کے مضامین عقیدۂ توحید، رسالت، جنت و دوزخ کا تذکرہ، بعث بعد الموت اور عقیدۂ آخرت اس سورہ پاک میں بھی پوری طرح موجود ہیں، البتہ اس سورہ کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں الوہیت یعنی توحید خالص عملی کا عنصر بنسبت دوسری مکی سورتوں کے غالب ہے، بلکہ توحید عملی کا ایسا زوردار اسلوب دلائل و شواہد اور مثالیں دوسری صورتوں میں کم ہیں، نفسیات انسانی کو توحید کی قبولیت کے لیے اس طرح آمادہ کیا گیا ہے اور جھنجھوڑا گیا ہے کہ اس کی قبولیت و عدمِ قبولیت کے نتائج کا نقشہ اس کے سامنے گردش کرنے لگتا ہے اور وہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ اس کے دل و ضمیر کی بات کہہ دی گئی۔ اس مکی ماحول میں جہاں ایک خدا کے تصور کے ساتھ سیکڑوں خداؤں کا تصور اور ان کے مظاہر عبادت و استعانت رائج تھے اس میں اعلان ہوتا ہے۔ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ (سورۃ الزمر۲،۳)(پس اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے لیے اپنے دین کو خالص رکھ کر۔خبردار! دین خالص اللہ ہی کا ہے،)خدا پر یقین کامل کے ساتھ ظاہری و باطنی عبادتوں میں بھی اس کی وحدانیت لازم ہے، جس طرح وہ اپنی ذات میں یکتا و تنہا ہے اسی طرح اپنے افعال و صفات میں بھی تنہا ہے، کوئی اس کا شریک و ساجھی نہیں، لہذا اس کے ساتھ کسی اور کی عبادت روا نہیں، اس منظر نامے میں توحید خالص کے داعی کا اعلان بلکہ حکم الہی پر عملی مظاہرہ بھی دیکھیں قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ (سورۃ الزمر۔11)((اے نبی ﷺ! ان سے کہہ دیں: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کروں۔)
حیرت کی انتہا اس وقت ہو جاتی ہے اور شرک کی مذمت دل میں اس وقت پیوست و جاگزیں ہو جاتی ہے جب اللہ توحید کے علمبردار اور دنیا سے شرک کا صفایا کرنے والے نبی کو مخاطب کرتا ہے۔ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (65)( تمھیں اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام نبیوں کی طرف وحی کی گئی ہے کہ اگر تم اللہ میں کسی کو شریک ٹھہراؤ گے تو ضرور تمہارا ہر عمل ضائع ہو جائے گا اور تم بلا شک خسارے میں رہنے والو ں میں سے ہو گے۔)
اور اللہ کی یہ سنت صرف نبی پاک کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جب سے دنیا بنی اور انسانی آبادی بسائی گئی اسی وقت سے شرک کی قباحت اور شناعت کو لازم کر دیا گیا اور اس سے ہر نبی و ولی اور ہر بشر کو خبردار کیا گیا کہ یہی بنیاد ہے، اسی پر اللہ کی رضا و خوشنودی منحصر ہے، اس میں کھوٹ اور کمی ہے تو سب بے کار و اکارت ہے ۔
بندۂ عشق باش و آزاد باش
ہرچہ کردی بجز خُدا، باد باش
محض عشقِ خدا کا بندہ بن، باقی سب سے بے نیاز ہو۔ جو کچھ تُو نے خدا کے سوا چاہا، وہ برباد ہو۔
دراصل انسان کے دل کا چند امور پر ایمان و یقین عقیدہ کہلاتا ہے، اس میں تذبذب و شک عقیدے کی کمزوری ہے اور انسان کے ظاہری اعمال کا انحصار اسی دل کے یقین پر ہے، اگر وہ مضبوط و ٹھوس ہیں تو ظاہری اعمال عبادت و استعانت کا صدور بھی اسی طرح ہوگا، اسی لیے قرآن نے پہلا سبق انسانیت کو اسی عقیدے کی دی اور اسی دل کی سوئی کو ایک خدا کی طرف موڑا کبھی سلبی اسلوب میں کبھی ایجابی اسلوب میں اور کبھی دلائل و شواہد کے ساتھ۔ تمام مکی سورتیں اسی درس اول سے بھری ہیں اور دل کی دنیا کو بنانے و سنوارنے کو مہمیز کرتی ہیں اور ان مکی سورتوں میں سورہ زمر کا کچھ نمایاں ہی اسلوب و امتیاز ہے،مثلا مذکورہ بالا آیات میں شدید و عید اور ترہیب کا نقطۂ عروج نظر آتا ہے کہ نبی کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ اگر آپ بھی اخلاص کی کمی، ریا و نمود اور شرک میں مبتلا ہوئے تو آپ کے بھی تمام اعمال اکارت کر دئیے جائیں گے۔
اللہ کا وجود۔یا توحید ربوبیت سے توحید الوہیت پر استدلال
فطرت انسانی کے تار کو اللہ رب العزت کبھی کبھی چھیڑتے ہیں اور اس کا سوئچ آن کرتے ہیں اور دل و دماغ پر اس فطرت کا کرنٹ لگاتے ہیں کہ اس کو ہوش آ جائے کبھی فطری شواہد اور دلائل عقلیہ کے ذریعہ اور کبھی آفاق و انفس میں غور و تدبر کی دعوت دے کر۔سورہ زمر اسی مضمون کو نہایت بلیغ اور اختصار کے اسلوب میں اس طرح بیان کرتی ہے، اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (سورۃ الزمر۔62)( اللہ ہر چیز کا خالق ہے، اور وہی ہر چیز کا نگہبان (وکیل) ہے۔) اللہ ذرے ذرے کا خالق و مالک ہے اور ہر چیز اس کی ماتحتی میں اپنے کام پر مامور ہے، آیت پاک میں دو مرتبہ کل شی کا تکرار بہت معنی خیز ہے، اسی طرح اسی مضمون کو مختصرا تمثیلی اسلوب میں اس طرح بیان فرمایا لَّهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ(سورۃ الزمر۔63)(زمین اور آسمانوں کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں،)یہ آیت خدا کی عظیم قدرت و طاقت پر کنایہ واشارہ ہے اور تمثیل کا شاہکار بھی۔
خدا کی بڑائی و عظمت انسان کے دل میں مضمر ہے لیکن بسا اوقات انسان اپنی مادی ضروریات یا سماجی دباؤ کی وجہ سے اس کا اظہار کرنے سے گریز کرتا ہے اور اس پر پردہ ڈالتا ہے اس کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے اور سارے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں، دل میں پوشیدہ اسی راز کا اظہار لطیف وخبیر ذات ان آیات میں کرتی ہے.وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِن قَبْلُ (سورۃ الزمر.8)(اور جب انسان پر کوئی تکلیف (مصیبت) آتی ہے تو وہ اپنے رب کو مڑ کر، توبہ کی حالت میں، پکارتا ہے۔ پھر جب اللہ اس پر اپنی طرف سے کوئی نعمت نازل فرما دیتا ہے تو وہ اسے بھلا دیتا ہے جس کے لیے وہ پہلے دعا کرتا تھا،)فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ (سورۃ الزمر.49)(جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارنے لگتا ہے۔ پھر جب ہم اس کو اپنی طرف سے نعمت بخشتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے (میرے) علم (ودانش) کے سبب ملی ہے)
پچھلی امتوں میں لوگوں کے غلط عقائد و افعال ضرور تھے، لیکن سرے سے خدا کے وجود کے منکر نہ تھے، لیکن اس امت میں ملحدین و منکرینِ خدا کی بھی تعداد خاصی رہی ہے اور ہے اور وہ اپنے فلسفہ و عقل کی بنیاد پر ایک خدا کا تصور و عقیدہ سے محروم ہیں اور ان کی کوتاہ عقل خبط عشواء کی طرح ان کو گمراہی کے صحراء و جنگل میں دوڑاتی رہتی ہے اور وہ راستہ نہیں پاتے، دلائل و شواہد کی رسی ان کے ہاتھ نہیں لگتی، اللہ جل جلالہ نے ایسے لوگوں کی رہنمائی کے لیے آسان اور دل کو چھو جانے والے دلائل کونیہ و عقلیہ پیش کیے ہیں کہ راہ کے متلاشی کے لیے راہ کو پانا بالکل آسان ہو جائے، آسمان و زمین کی تخلیق، دن اور رات کی آمد، سورج اور چاند کا طلوع اور متعینہ مدت کے مطابق چلنا، انسان اور جانوروں کی تخلیق، رحم مادر میں بچے کی پرورش، بارش، چشمہ و دریاؤں کا نظام، نباتات و جمادات کا ہجوم، گویا کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے وجود اور اس کے یکتا وہ بے مثل ہونے پر شاہد عدل ہے، لیکن توفیق الہی جس سے سلب ہو جائے اور جو اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لے، اس کا کیا کیا جائے؟
أَفَمَن شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (سورۃ الزمر۔22)(کیا وہ شخص، جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور جو اپنے رب کی روشنی کی طرف گامزن ہے، اُس بے سمجھ کے برابر ہو سکتا ہے جو کسی نصیحت سے سبق نہیں لیتا؟ پس وای اُس کے حال کا، جس کے دل اللہ کی نصیحت کے بعد بھی مزید سخت ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگ صریح گمراہی میں ہیں۔)
اس آیت پاک میں بھی دل کی نرمی اور قساوت قلبی کا تقابل خوبصورتی کو دوبالا کر دیتا ہے اور شرح صدر ایمان کے حصول اور قساوت قلب کفر و عناد کا کنایہ ہے، اس طرح یہ آیت فنی و ذوقی لطف کو بھی پیدا کرتی ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
پچھلی قوموں میں اور زمانہ جاہلیت میں خدا کا تصور تھا، سرے سے خدا کا انکار نہیں تھا، بس اس کے ساتھ دوسرے معبودانِ باطل کی شرکت تھی اور ان کے عقائد میں خدا کے تعلق سے کمزوری اور بگاڑ تھا،اس پر بھی استفہام وتھکم کے اسلوب میں ان کو عار دلایا گیا کہ یہ کیا طریقہ ہے کہ مانو تو ایک خدا کو اور سر جھکاؤ غیروں کے سامنے۔وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلۡ أَفَرَءَيۡتُم مَّا تَدۡعُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ(سورۃ الزمر۔38)( اگر تم ان سے دریافت کرو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا، تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ تمہیں پھر کیا خیال ہے—جو تم اللہ کے سوا جن مخلوق سے مدد چاہتے ہو)البتہ عام ملحدین کی بھی ایک جماعت ضرور تھی جن کے لیے ان کی عقل کو آفاق و انفس میں غور و تدبر کی دعوت دی گئی تاکہ ان کی عقل کو شرح صدر ہو سکے، ملحدین کی تعداد تو جب بڑھی جب عہد وسطی کے "تاریک عہد” کے بعد کلیسا کے خلاف بغاوت شروع ہوئی اور کارل مارکس کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا، اس مغربی الحاد سے عالمِ اسلام کے وہ نوجوان بھی متاثر ہوئے جو وہاں گئے یا ان کے زہر آلودہ کتابوں سے استفادہ کیا اور اپنے حق پر قائم نہ رہ سکے، خالقِ فطرت نے انسانی شعور و فطرت کو اس طرح بنایا ہے کہ اگر وہ ہر ذہنی آلودگی و خیالی ناپاکی سے صاف ہو کر کائنات میں غور کرے تو حق تک لازما پہنچ جائے گا اور خدا کو پا لے گا، اسی لیے اللہ نے ایسے لوگوں کو بجائے نصیحت و حکم کے اپنی عقل سے کائنات میں تدبر و تفکر کی بار بار دعوت دیتا ہے(الزمر۔ آیات۔٥۔٦۔٢١۔٥٢۔٦٢۔٦٣۔٦٧۔)آسمان و زمین کی تخلیق، کائنات میں رات و دن کا سلسلہ، سورج اور چاند کا وقت متعینہ پر نکلنا اور ڈوبنا، مختلف مراحل میں تخلیق انسانی، حیوانات اور ان کے جوڑوں کی پیدائش،(سورۃ الزمر۔۵.٦) اسی طرح بارش کا نظام جو زمین کی سرسبزی و شادابی کا اور اناج کی پیدائش کا اور پوری دنیا کو پانی سپلائی کا ذریعہ ہے اور پھر اس پیدا شدہ رزق کی تقسیم و تقدیر کا وہ نظام جس کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہیں، بلکہ پورا نظام کائنات اسی کے دستِ قدرت میں ہے، اگر کوئی بھی انسان مادیات و محسوسات سے آزاد ہو کر اور غفلت و تقلید محض سے خالی ہو کر، سرکشی و عناد سے نکل کر ان آفاق وانفس کے فطری دلائل اور تاریخی شواہد اور دلائل کونیہ میں غور کرے، کسی چیز کا سہارا لیے بغیر اپنے ضمیر و فطرت کو گواہ بنائے تو صدا آئے گی،لا اله الا الله۔ کہ اللہ ہے اور وہ ایک ہے اور وہی کائنات کا خالق و مالک ہے اور وہی اس نظام کو چلاتا ہے۔
حريف نکتہ توحيد ہو سکا نہ حکيم
نگاہ چاہيے اسرار ‘لا الہ’ کے ليے
اور اسی "اسرار” میں انسانیت کی بلندی و کامیابی مضمر ہے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
توحید خالص عملی
فطرت انسانی توحید خالص کی طالب ہے، ماحول و معاشرہ، بےجا عظمت و تعظیم اس کو شرک تک پہنچا دیتا ہے اور وہ اس گندگی و پلیدگی میں اس طرح گھل مل جاتا ہے کہ اسی بدبو میں اس کو مزہ آنے لگتا ہے اور توحید خالص کی خوشبو سے اس کو نفرت ہونے لگتی ہے۔وإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ (سورۃ الزمر۔45)(جب صرف اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل گھٹن اور کراہت کا شکار ہو جاتے ہیں؛ اور جب اللہ کے سوا جن معبودوں کا ذکر ہوتا ہے، تو وہ اچانک خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں۔)اس آیت میں مشرک کی کیفیت و ہیئت کو مقابلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ جب ایک خدا کا ذکر کیا جائے تو اس کو برا لگتا ہے اور جب کئی خداؤں کا ذکر چھیڑا جائے تو خوشی میں مست ہوتا چلا جاتا ہے،آیت میں "اذا فجائیہ” اور "وحدہ” کا استعمال معنی خیز ہے کہ کبھی اچانک بھی ایک خدا کا تذکرہ آ جائے تو ناگوار ہوتا ہے، ناگواری کے لیے "اشمأزت” کا لفظ ہی نفرت اور بغض اور اندر کی کبیدگی کو ظاہر کرتا ہے، اسی طرح "یستبشرون” کا لفظ استدراجا خوشی میں اضافہ کو واضح کرتا ہے۔
خدا تعالی عزیز و قدیر ہے، دنیا کی کوئی شے اس کے حکم کے دائرہ سے خارج نہیں ہے، اس کا حکم کُنْ وجود و فنا کے لیے کافی ہے، اسی نے تمام عاقل و غیر عاقل کو پیدا فرمایا، وہی نظام کائنات چلاتا ہے، اسی نے اولا آدم کو مٹی سے پھر اس سلسلہ کو ایک نظام کے تحت جاری فرمایا، زندگی و موت اسی کے قبضہ میں ہے، اس کی مشیئت کے بغیر ایک ذرہ اور پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، آدمی اس کی مشیئت کا ہر قدم، ہر سانس پر محتاج ہے، لیکن اس کی حکمت نے انسان کو تھوڑا اختیار دے کر آزمائش اور امتحان میں ڈالا، اس نے زمین پر بہت سی چیزیں اپنی پسند اور رضا کی بنائیں اور بہت سی چیزیں اپنی ناراضگی و غضب کی بنائیں، کفر و فساد اللہ کو پسند نہیں، شرک سے منزہ و پاک ہے، توحید و اخلاص، شکر و حمد، تسبیح و تھلیل میں اپنی رضا رکھی اور اعلان کر دیا۔ إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ (سورۃ الزمر۔7)(اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا۔ اور اگر تم شکر ادا کرو تو وہ تمہارے لیے اسے پسند کرتا ہے۔) آیت کریمہ ایجاز بلیغ کی واضح مثال ہے کہ چند الفاظ میں مخاطب کو کفر اور اس کے انجام، ایمان و شکر اور اس کے انجام سے متنبہ کر دیا گیا اور اللہ نے اپنی بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیا کہ اس کو کیا پسند ہے اور کیا ناپسند ہے، آیت میں صیغہ مضارع کا استعمال اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ان اعمال پر دوام و استمرار ضروری ہے، اگر اس کام سے رکے یا دور ہوئے تو اللہ بھی اپنی رضا و خوشنودی کو روک لے گا۔
اسی طرح ذات الہی تنہا و بے مثل ہے سب اس کے محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں، وہ غالب ہے، سب اس کے سامنے مغلوب ہیں، اپنے اعمال و افعال میں شرکت سے پاک ہے، کوئی اس کا ہمسر نہیں، نہ اس کی اولاد ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے، کیونکہ جو الواحد القہار ہوگا اس کی ذات ان چیزوں سے پاک ہوگی وہ اپنی ربوبیت و الوہیت میں یکتا ہوگا۔لَّوْ أَرَادَ اللَّهُ أَن يَتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ (الزمر۔4)(اگر اللہ چاہتا کہ کوئی اولاد بنائے تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا منتخب کر لیتا۔ پاک ہے وہ (اس سے)، وہ تو اللہ ہے، یکتا اور سب پر غالب۔)قرآن مجید میں چھ جگہ (یوسف/۳۹۔ رعد/١٦۔ابراھیم/٤٨۔غافر/١٦۔ص/٦٥۔زمر/٤) قہار واحد کے ساتھ مستعمل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ جو غالب ہوگا وہ یکتا ہوگا۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے۔ القهر التام يستلزم الوحدۃ فان الشركۃ تنافي تمام القهر (الصواعق المرسلۃ لابن قيم ۔۲/٤٦٦)اس آیت پاک میں یہ پیغام بھی ہے کہ انسان شیاطین الانس والجن سے علیحدگی کا اعلان کرے اور خدا کی یکتائی اور اخلاص کو قبول کرے اور یہ پیغام فرد کے لیے بھی ہے اور معاشرے کے لیے بھی ہے کہ وہ ہر طاقت و قوت کے سامنے سبحانہ ھو اللہ الواحد القہار کا مظاہرہ کرے، اس کی ذات و صفات، اعمال و افعال میں کسی کو شریک نہ سمجھے۔
دل سے پِکار کہ اندھیر ہے بہت
روشنی مانگ، اجالے کی دعا مانگ
اور قرآن مجید میں اپنی قہاریت کی تاریخ بیان فرمائی کہ جب جب بندوں نے زمین پر کفر و شرک کو اختیار کیا اور توحید خالص اور رسالت و آخرت سے منھ موڑا، اللہ نے ان کی گرفت فرمائی، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، اور فرعون و ہامان، نمرود و شداد کا حشر قرآنی تاریخ کا حصہ ہے جو اللہ کے قہر و غضب سے خبردار کرتے رہتے ہیں۔
یہی عقیدہ توحید روئے زمین پر آنے والے تمام انبیاء کی بنیاد تھی، یہی اسلام کی بھی روح اور بنیاد ہے،یہی عقیدہ ملت ابراہیمی کا شعار و امتیاز ہے، تمام انبیاء نے سب سے پہلے اسی کی دعوت دی اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر اسی دعوت سے آغاز فرمایا، اقوام و ملل کی تاریخ بتاتی ہے کہ عموما گمراہی کا سبب اسی عقیدہ کی خرابی تھی، بعثت نبوی کے وقت خود خانۂ کعبہ (٣٦٠) بتوں سے بھرا تھا اور چھٹی صدی عیسوی میں ہمارے ملک ہندوستان میں (۳۳۰ ملین) بت موجود تھے، اہل عرب کا حال تو یہ تھا کہ مٹی کا ڈھیر اکٹھا کر کے اسی کو خدا بنا لیتے، زادِ سفر کو بت بناتے اور جب بھوک لگتی اسی کو کھا لیتے، آسمانی مذاہب یہود نے حضرت عزیرعلیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے لیا اور عیسائیت نے حضرت عیسی علیہ السلام کو، اہل عرب نے فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیا، (سورہ زمر۔٤) خلاصہ یہ کہ انسانیت ہمیشہ توحید الہی یعنی خدا کو ایک سمجھنے میں اور صرف اسی کی عبادت و پرستش میں ٹھوکریں کھاتی رہی ہے اور یہ صرف پچھلی قوموں اور جاہلیت کا خاصہ نہیں، بلکہ آج بھی خدا کی الوہیت و ربوبیت میں حضرت انسان وادی تیہ میں بھٹک رہا ہے، بس فرق یہ ہے کہ گمراہ مذاہب کفار و مشرکین توحید اعتقادی یعنی خدا کی ربوبیت کے منکر ہیں اور مسلمانوں میں بڑی تعداد الوہیت یعنی توحید عملی کے سلسلہ میں پس و پیش میں ہے، زبان و دل سے تو لا الہ الا اللہ کا اعلان و اقرار کرتے ہیں، لیکن عبادت کی ہر قسم جو اللہ کے لیے خاص ہے، اس میں غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں، سجدہ اور رکوع، دعا و استعانت پیروں، بزرگوں، قبروں اور مزاروں کو روا سمجھتے ہیں اور یہ تصور کرتے ہیں کہ یہ آخرت میں ہمارے لیے سفارشی ہوں گے، یہ ہم کو خدا کے قریب پہنچا دیں گے۔ (زمر۔۳۔٤٣) قرآن عزیز میں خدا کو ایک سمجھنے کا جو مطالبہ کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ دل و زبان سے اقرار و اظہار ہو اور عمل سے اس کا ظہور و صدور ہو اور اس کے خلاف ہر کام سے دوری ہو اور براءت کا اعلان بھی، اس سورہ پاک میں عملی توحید یعنی الوہیت کا اعلان و اظہار اور اس کی اہمیت کا بار بار تذکرہ کیا گیا ہے، حکم کے ساتھ اعلان بھی ہے اور سماج میں اس کا جو طریقہ سب سے زیادہ رائج ہے اس سے صاف ممانعت اور آخرت میں نمٹنے اور سخت سزا کا چیلنج ہے،(٢۔٣) نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حکم ہوا کہ آپ بھی اس عملی توحید کا اعلان کریں اور یہ بتا دیں کہ اگر تم لوگ اسی طرح الوہیت کی بدعقیدگی میں مبتلا رہے تو بڑا نقصان اٹھاؤ گے، یہ نقصان تم سے متعدی ہو کر تمہارے اہل وعیال تک منتقل ہوتا ہے،اور آخرت میں چہار جانب سے آگ کے شعلوں کی نذر کر دیے جاؤ گے یہاں اس بات کو سمجھ لو اور مان جاؤ۔ (زمر۔١١تا١٦) ربوبیت پر یقین کے ساتھ الوہیت میں خرابی کی ایک مثال اور لوگوں کی تصویر کشی سورہ کی آیت نمبر (٣٨) میں دیکھیے کہ اگر آپ ان سے آسمان و زمین کے خالق کے بارے میں دریافت کریں، تو اللہ کا نام لیں گے، لیکن جب عملی میدان میں ہوں گے تو عبادت و دعا غیر اللہ سے، جبکہ ان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نفع و نقصان کے مالک نہیں، لیکن ایک موحد جو واقعی اللہ کی نگاہ میں موحد ہو، اعتقاد میں بھی اور عمل میں بھی، وہ زبان حال و قال سے اعلان کرتا ہے۔ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (زمر.64)(کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کرنے کا حکم دیتے ہو، اے جاہلو؟)استفہام انکاری کے ساتھ حیرت و استعجاب بھی اور اس کے ناممکن ہونے پر رد عمل کا اظہار بھی ہے، اور آخر میں "ایہا الجاھلون” سے خطاب اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارا مطالبہ بے حیثیت اور لائق توجہ نہیں، تم اپنے اس مطالبے پر دوبارہ نظر ثانی اور غور کرو ۔ سورہ کافرون میں بھی اسی کا اعلان ہے، کیونکہ ایک موحد کو یہ معلوم ہے کہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر سارے اعمال و افعال، نیکیوں اور بھلائیوں کا دارومدار ہے، یہ وہ کنجی ہے جس سے نیکیوں کے نامہ اعمال کا قفل کھلتا اور بند ہوتا ہے۔لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (زمر.65)(اگر تم اللہ میں کسی کو شریک ٹھہراؤ گے تو ضرور تمہارا ہر عمل ضائع ہو جائے گا اور تم بلا شک خسارے میں رہنے والو ں میں سے ہو گے۔)لہذا اگر اللہ کی جانب سے اس کی توفیق و ہدایت ملی ہو تو بہت بڑا انعام سمجھو اور اللہ کا شکر بجا لاؤ (زمر۔٦٦
دِل سوز سے خالی ہو تو ہے دِل بھی صنم خانہ
پھر ذوق نہیں پیدا، پھر شوق نہیں ہوتا
توحید عملی یعنی عبادت کی قسمیں اور اس میں کوتاہیاں
سورہ پاک میں توحید عملی کے لیے جو لفظ بار بار استعمال ہوا ہے وہ عبادت ہے اور اسی کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، عبادت: محبت کے ساتھ خضوع و تذلل کا آخری درجہ ہے جو صرف اللہ کو روا ہے، اس کے مظاہر مختلف و بے شمار ہیں، سجدہ و رکوع، دعا و استعانت، نذر و قربانی وغیرہ۔ ہمارے معاشرے میں چونکہ یہ مظاہر غیر اللہ کے لیے کیے جاتے ہیں تو مسلمان بھی انہیں کے نقش قدم پر چل پڑا اور ان مظاہر کو مختلف آستانوں اور شخصیات سے جوڑنے لگا اور مسلمان رہتے ہوئے "طاغوت” کے جال میں پھنس گیا اور وَجَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِيلِهِ (الزمر۔8)(اور دوسروں کو اللہ کا ہمسر بنانے لگتا ہے تاکہ اللہ کے راستے سے گمراہ کرے۔) کا مظاہرہ کرنے لگا۔
تو اس عبادت یا توحید عملی کے لیے سب سے اول اور لازمی امر اس سورت کی روشنی میں ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ (الزمر.6)(یہی ہے اللہ، تمہارا رب۔ اسی کی بادشاہی ہے، کوئی معبود نہیں مگر وہ، پھر تم کدھر پھیرے جا رہے ہو؟)یہ عقیدہ ویقین ہے کہ رب (پالنہار) صرف وہی ہے، اسی کی حاکمیت پورے کائنات پر چھائی ہوئی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، دوسری جگہ آیت نمبر (٤٦) میں ارشاد ہے: اے محمد! کہہ دیجئے کہ اللہ آسمان و زمین کو بنانے والے، حاضر و غائب کو جاننے والے، آپ ہی اپنے بندوں کے درمیان فیصل اور حاکم ہیں۔ وہی تمام مخلوقات کا خالق، اسی کی بادشاہت، وہی زندگی اور موت دینے والا، وہی اسباب فراہم کرنے والا، عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں، رزق کا مالک تن تنہا وہی، صحت و مرض اسی کی طرف سے، نظام کائنات میں کن فیکون کا مالک، ذرہ ذرہ اس کے قبضۂ قدرت میں، یعنی ہر چھوٹے بڑے امور اس کے تصرف و اختیار میں، لہذا حضرت انسان کو چاہیے کہ اسی کے احکامات و تشریعات کو قبول کرے، اسی کی نازل کردہ کتاب کو اپنائے، اسی کے بھیجے ہوئے پیغمبر کی اطاعت کرے، تمام اوامر و نواہی میں اسی کے حکم کا پابند ہو، اب اس میں جو چیزیں رکاوٹ ہوں، اور اس فطری عقیدہ میں آڑے آتی ہوں ان کو ٹھکرا دے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
ان رکاوٹوں کے سلسلے میں سورت میں غور کرنے سے دو چیزیں سامنے آتی ہیں اور حقیقت یہ ہے وہی دونوں چیزیں تمام رکاوٹوں کا خلاصہ ہیں، (١) طاغوت کی عبادت۔(٢) شرک۔
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى (الزمر: 17)(جو لوگ طاغوت کی بندگی سے بچ گئے اور اللہ کی طرف رجوع کر لیا، ان کے لیے خوشخبری ہے)طاغوت کیا ہے؟ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "ہر وہ چیز جس کی غیر اللہ کے سوا عبادت کی جائے” (تفسیر ابن قیم ج٣۔ ص۹۷۳) علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں مزید وضاحت ملتی ہے "طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کے ساتھ بندہ حد سے بڑھ جائے عبادت و پیروی میں، ہر امت کا طاغوت وہ ہے جس سے خدا اور اس کے رسول کے سوا رجوع کریں یا خدا کے بجائے اس کی عبادت کریں یا اس کی پیروی کریں، یہ دنیا کے طاغوت ہیں” (اعلام الموقعین، ج۱۔ ص٤٠) امام طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں "میرے نزدیک طاغوت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اللہ کے مقابلہ میں ہر سرکشی کرنے والا جس کی عبادت کی جائے، خواہ اس کی زبردستی سے یا عبادت کرنے والوں کی خوشی و رغبت سے، خواہ وہ انسان ہو یا شیطان، بت یا کوئی بھی چیز” (تفسیر طبری۔ ج۵۔ ص٤١٩) "طاغوت” کا مادہ ط غ ی(سرکشی) ہے، یہ اسی سے مبالغہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سرکشی میں اس حد تک بڑھا ہوا جو متعدی ہو یعنی دوسروں کو بھی اللہ کے راستے سے روکنے والا ہو اور یہ لفظ اسم جنس ہے تو اس میں ہر وہ طاقت اور شئے شامل ہے جو اس کام کو انجام دے، اس لفظ کی ساخت اور ط غ کا استعمال اس کی خطرناکی اور ہیبت کو ظاہر کرتا ہے اور اس بات کا اظہار اس لفظ سے ہی ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی ڈراؤنی چیز ہے جس سے انسان کو دور بھاگنا چاہیے، اسی لیے اس سے بچنے کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ "ترکوا” کے بجائے "اجتنبوا” ہے جس میں جسمانی و روحانی اجتناب اور دوری دونوں شامل ہے، مزید ایک طرف سخت اجتناب کی کیفیت ہے تو دوسری طرف رجوع و انابت کا آخری درجہ۔ یہ ایک مومن کی ظاہری و باطنی تصویر کشی ہے جو یہ آیت ظاہر کرتی ہے۔
طاغوت کی ان تشریحات کی روشنی میں ہمارے سماج میں دو طرح کے طاغوت کا وجود ہے جن سے لوگ خدا اور رسول کو چھوڑ کر جڑے ہیں، ایک تو حسی و غیر حسی افراد و اشیاء، ان کو لوگ بڑا سمجھتے ہیں اور اتنا بڑا کہ خدا کا درجہ دیتے ہیں اور اس کے رسول کی تعلیمات کو کم سمجھتے ہیں یا کم اہمیت دیتے ہیں، دوسرے دنیا کے وہ ظالم حکمراں و طاغوتی طاقتیں جن کی قوت و طاقت کے سامنے اپنے آپ کو مجبور محض سمجھ لیتے ہیں، خدا پر یقین و توکل اور تقدیر پر بھروسہ نتیجتا کم ہو جاتا ہے، اسی غلط عقیدہ اور رجحان سے تمام انبیاء نے اپنی امت کو بچنے کی تاکید فرمائی،أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ (النحل.۳٦)(اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو)سورہ پاک میں بھی اللہ نے دنیا و آخرت کی کامیابی کو طاغوت اور اس کی عبادت سے اجتناب اور ایک اللہ کی طرف سے انابت اور رجوع سے جوڑا ہے(الزمر۔١٧) اور یہ توحید کا ایسا اہم باب ہے جس کو اللہ نے ایمان سے بھی مقدم کیا ہے، سورہ بقرہ میں ہے فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللَّه (البقرة.۲۵٦)(جو کوئی طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے)اور کلمہ توحید میں بھی پہلے نفی پھر اثبات ہے، لہذا جب یہ ہمارا عقیدہ ہو، تو ہماری عملی زندگی کا حصہ بھی ہو اور اس کا اظہار ہر موقع اور ہمارے ہر عمل سے ہونا چاہیے، اسی کا عملی مظاہرہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ملتا ہے اور اللہ نے اس نمونے کو اپنانے کی تاکید بھی فرمائی، بت پرستی و طاغوتی ماحول و سماج میں انہوں نے اور ان کے متبعین نے اعلان کیا۔ قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنكُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ كَفَرْنَا بِكُمْ وَبَدَا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ أَبَدًا حَتَّىٰ تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ (الممتحنۃ۔٤)(تمہارے لیے ابراہیمؑ اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے، جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا کہ ‘ہم تم سے اور ان معبودوں سے جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، قطعی بیزار ہیں، ہم نے تم سے کفر کیا، اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بغض پیدا ہو گیا، جب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لے آؤ)
توحید عملی یعنی توحید الوہیت کی دوسری رکاوٹ شرک ہے
اللہ کے لیے خاص عملی چیزوں میں دوسروں کو شریک کرنا یہ شرک ہے، جیسے کسی اور کو سجدہ اور رکوع کرنا، کسی اور سے استعانت و دعا کرنا، اللہ کے علاوہ کسی انسان و جنات، پیر و مرشد اور بت و جادو کے نام ذبح کرنا، پھیلی ہوئی اقسام شرک کی فہرست تیار کی جائے تو بہت لمبی بلکہ کتابچہ تیار ہو جائے گا اور اس میں بہت بڑی جماعت پھنستی نظر آئے گی، بہت سی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف شرک سے ہی نہیں بلکہ ان ذرائع اور راستوں پر بھی پابندی لگا دی جو شرک تک پہنچا سکتی تھیں اور اللہ نے شرک کو اکبر الکبائر بلکہ ایسا جرم قرار دیا جس کی کوئی معافی نہیں اور شرک میں مبتلا شخص ہمیشہ کے لیے جہنم رسید ہوگا۔ (النساء۔ 48 ۔المائدہ۔ 72 )
شرک سورہ زمر کی روشنی میں
اس سورہ پاک کی روشنی میں شرک کا جائزہ لیں تو شرک ایک ایسا متعدی مرض نظر آتا ہے جس کی خرابیاں اور نقصانات دنیا و آخرت دونوں جگہ ہیں، اور مشرک اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی لے ڈوبتا ہے، شرکیہ ماحول و فضا کی آلودگی اتنی زہریلی ہوتی ہے کہ گھر و خاندان ہی کیا، پورا سماج اس کی بدبو سے متاثر ہوتا ہے، اور دھیرے دھیرے اسی کا عادی ہو جاتا ہے اور اس کی قباحت نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ (زمر۔ 15) انسان زندگی کے لطف و لذت سے محروم ہو جاتا ہے، ایمان کے ساتھ جو شرح صدر اور اطمینان قلبی ہے، وہ غائب ہو جاتی ہے، بے چینی و کشمکش میں مبتلا رہتا ہے، سکون و اطمینان غارت ہو جاتا ہے،
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
اس کی تصویر اسی سورہ کے آیت نمبر (29) میں بہت نرالے اور اچھوتے انداز میں ایک مثال کے ذریعے پیش کی گئی ہے، مشرک کی حیرانی اور پریشانی کی تصویر اس سے اچھے انداز میں ملنا ممکن نہیں، یہ قرآن کا معجزہ ہے کہ چند الفاظ میں وہ خوبصورت منظر نامہ سامنے آ جاتا ہے کہ مشرک کے دل کو چھو جائے اور دل میں کچھ بھی سفیدی و قبولیت کا مادہ موجود ہو اور ابھی مہر نہ لگی ہو تو بغیر قبول کئے نہیں رہ سکتا۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ(اللہ ایک مثال دیتا ہے: ایک آدمی ہے جس کے مالک بہت سے ہیں، جو آپس میں جھگڑالو ہیں، اور ایک دوسرا آدمی ہے جو پورا کا پورا ایک ہی شخص کا ماتحت ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوگا؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔)
دو غلام ہوں ان میں سے ایک کے آقا کئی ہوں اور سب ہی ایک ہی وقت میں اس کو خدمت کے لیے آواز دیں "متشاکسون” کا لفظ ان آقاؤں کے آپس کے جھگڑے کی تصویر پیش کرتا ہے، تو وہ کیا کرے گا؟ اور دوسرا وہ غلام جس کا ایک ہی آقا، ہر وقت حاضر باش، آقا بھی خوش اور یہ بھی اطمینان سے،”سلما للرجل” کا لفظ نرمی،اطمینان کی کیفیت کی مجسم تصویر ہے، جبکہ پہلا ایک کے پاس جائے تو دوسرا ناراض، دوسرے کے پاس جائے تو تیسرا خبر لے، کرے تو کیا کرے، بیچارہ حیران و پریشان، سب کی ناراضگی و غضب کا مستحق، نہ خود سکون سے، نہ آقا خوش۔ (زمر 29 )
وہ ایک سجدہ ہے جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
چلیے دنیا تو گزر ہی جاتی ہے، بے اطمینانی و بے چینی کے ساتھ ہی سہی، لیکن آخرت کا کیا ہوگا؟لَهُم مِّن فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِن تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ (زمر. 16)(ان کے اوپر آگ کے چھپر ہوں گے اور نیچے بھی آگ کے چھپر)چہار جانب سے آگ ہی آگ، کہاں بھاگے گا؟ اور یہ سلسلہ وقتی و عارضی نہیں ہوگا، بلکہ دائمی ہوگا، کیونکہ مشرک کا دامن نیکیوں سے خالی ہوتا ہے، اس کے نامۂ اعمال سے نیکیوں کو مٹا دیا جاتا ہے، گناہوں کا پلندہ لیے آگ کی لپٹوں میں جل بھن رہا ہوگا،”ظلل” کا تکرار واستعارہ آگ کی سختی اور شدت اور تہ بتہ ہونے پر دلالت کرتا ہے، یہ عذاب کی آخری انتہا اور آگ کی شدت کی آخری ڈگری ہوگی جس میں مشرک کو ڈالا جائے گا، یہ جملہ خبریہ ہے، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ اس قبیح و گندے عمل سے باز آ جاؤ، شرک ایسا قبیح و گندا عمل ہے کہ نبی پاک کو اور تمام انبیاء کو خبردار کیا گیا کہ دیکھنا اس کی آلودگی سے دامن بچائے رکھنا اور امت کو اس کے ذرائع سے بھی دور رہنے کی تاکید کرتے رہنا، کیونکہ اس میں پھنسنے کے بعد انسان ناکارہ ہو جاتا ہے، خسران مقدر بن جاتا ہے، اللہ جل جلالہ کس انداز میں نبی پاک کو مخاطب فرما رہے ہیں اور کتنی شدید تاکید فرما رہے ہیں، دراصل یہ تاکید ہمارے اور آپ کے لیے ہے۔لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (زمر۔65)(خدا کی قسم! اگر اپ نے شرک کیا تو ضرور بالضرور آپ کے عمل رائیگاں و بے کار ہو جائیں گے، اور آپ ضرور بالضرور گھاٹا اٹھانے والوں میں ہو جائیں گے۔) اسی طرح شرک ایک گھٹا ٹوپ تاریکی ہے جس میں پڑنے کے بعد آدمی کے دل کی انکھ بند ہو جاتی ہے یعنی قساوت قلبی کا شکار ہو جاتا ہے، اسے برائیوں اور گمراہیوں میں مزہ آنے لگتا ہے اور اس کے اندر اعمال حسنہ اور ایک خدا سے دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے۔ (زمر 22۔ 45)
اس کے مقابلے میں شرک سے دور رہنے والا مسلم ایسی خصوصی روشنی میں اپنی زندگی کی منزلیں طے کرتا ہے جو روشنی اس کو اللہ کی جانب سے عطا کی جاتی ہے، (زمر .22) اور آخرت میں تو مزے ہی مزے ہیں۔ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ(زمر۔ 20)(ان کے لیے بلند و بالا محل ہوں گے، ان کے اوپر بھی ایسے ہی محل بنے ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔)یہ آیت اس جنت کی سیر کرا رہی ہے جو صرف مومن موحد کے لیے خاص ہے اور انہیں کی تعظیم و تکریم کے لیے بنائی گئی ہے، "لہم” کی تقدیم اس کے لیے اشارہ ہے اور مزید جنت کے تہ در تہ بلند و بالا محلوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پیش کر رہی ہے جس کے نیچے نہریں حسن و دلفریبی کا منظر پیش کر رہی ہوں گی۔ اور پیچھے دو غلاموں کی مثال سے مومن و موحد کو ظاہر و باطن میں جو اطمینان قلب اور سکون و راحت نصیب ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ہمیشہ خوش و خرم محسوس کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ توحید عملی انسان کو معبودان باطلہ اور خرافات اور رسم و رواج سے آزادی دلاتا ہے، انسانیت کو شرف و وقار بخشتا ہے، اس کو ذلت و پستی کے دلدل سے نکالتا ہے، توحید قلب کے اطمینان و قوت کا سرچشمہ ہے، اسی توحید کی بنیاد پر مساوات و بھائی چارہ کی فضا قائم ہوتی ہے، اس کے برخلاف شرک انسانیت کی توہین، اس کے تقدس کی پامالی ہے، اپنی ذات اور پوری انسانی آبادی پر ظلم عظیم ہے، خرافات اور دجل و فریب کا پیش خیمہ ہے، سماج میں خوف و دہشت اور بے اطمینانی کا راستہ ہے، شرک انسان کی عقلی و روحانی اور جسمانی توانائی کو ختم کر دیتا ہے، مثبت کام و فکر کے بجائے منفی اعمال و افکار جنم لینے لگتے ہیں اور انجام کار من لقی اللہ یشرک بہ شیئا دخل النار (رواہ مسلم فی الایمان۔ 93)(جو اللہ سے ملے اس حال میں کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرتا ہو وہ جہنم میں داخل ہوگا)
مضمون کی تکمیل سے پہلے سورہ زمر کی اس آیت کا تذکرہ ضروری ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ پسند تھی اور گناہوں کے دلدل میں پھنسی انسانیت کے لیے ایک آس اور سہارا ہے اور یہ امید دلاتی ہے کہ انسان اللہ کا پیارا ہے جب بھی اور جس مرحلہ میں بھی اور جتنی غلطیوں کے ساتھ بھی، اللہ کے دربار میں حاضر ہو کر توبہ کر لے وہ معافی کا پروانہ عطا فرما دے گا۔قُلۡ يَٰعِبَادِيَ ٱلَّذِينَ أَسۡرَفُواْ عَلَىٰٓ أَنفُسِهِمۡ لَا تَقۡنَطُواْ مِن رَّحۡمَةِ ٱللَّهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ(زمر۔۵۳)(کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ۔ یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ یقیناً غفور و رحیم ہے۔)یہ آیت قرآن مجید میں امید و رجا کی سب سے بڑی آیت ہے، اللہ کا خطاب "یا عبادی” میں محبت و شفقت، نرمی و لطف کا اظہار ہے، "اسرفوا” کا لفظ اس کا اشارہ ہے کہ بندہ گناہ میں حد سے بڑھ چکا ہو اور مایوسی کی حد تک پہنچ چکا ہو تو ایسی صورت میں امید کی پہلی کرن "لا تقنطوا من رحمۃ اللہ” کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر "إِنَّ ٱللَّهَ يَغۡفِرُ ٱلذُّنُوبَ جَمِيعًاۚ” سے اطمینانِ قلب اور تسلی حاصل ہو جاتی ہے،”انہ ھو الغفور الرحیم” پر امید کی انتہا ہو جاتی ہے کہ دربار عالی کھلا ہوا ہے اور گنہگاروں کی توبہ کا انتظار ہے کہ کب رجوع کریں اور پھر اس کے نتیجے میں ان کو معافی کا پروانہ دیا جائے۔