از : محمد صابر حسین ندوی
Table of Contents
عورت و مرد کی برابری کا مسئلہ
*قرآن مجید کا صرف یہی ایک امتیاز لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے اور منطقی و عقلی اعتبار سے یہ سمجھا دیا جائے؛ کہ کس طرح اس نے مرد و عورت کو برابری عطا کی ہے، ان کے ثواب و عقاب میں کوئی کمی و بیشی نہیں رکھی، اگر مرد قوام بنایا گیا تو اسے اس قوام کو پیدا کرنے والی، پالنے پوسنے اور اپنے سینے سے ۔ دودھ کا قطرہ قطرہ پلا کر پروان چڑھانے والی ایک نایاب مخلوق بنایا گیا،
اسلام سے پہلے اور مغربی عروج کے بعد عورت کی حیثیت
اسلام سے پہلے اور سچ کہئے تو مغربی عروج کے بعد بھی عورت سوائے ایک سامان کے کچھ نہیں رہی، وہ لذتوں کی دیوی بن کر رہ گئی، حسن پرستی اور نسل پرستی، گورے اور کالے کا امتیاز تو تھا ہی؛ اس سے کہیں زیادہ بحیثیت عورت اسے کمزور، پچھڑا ہوا، دبا کچلا اور دنیا کا ایک شئی لاحاصل بنا کر مارکیٹ میں رکھ دیا گیا، تاکہ اس کے جسم، ہنر، احساس اور بناوٹ کی بولی لگے، اور جو نہ بن بکنے کے لائق ہو اسے جوتیوں کی نوک پر رکھ کر غلامی کی دہلیز پر پٹک دیا دیا گیا، آج بھی کھلی نگاہ رکھنے والے جانتے ہیں کہ کس طرح انہیں اونچی اور نچلی ذات میں تقسیم کیا جاتا ہے، بالخصوص مذہبی طبقوں نے تو ایسا مزاق بنایا ہے؛ کہ اسے ایک مخلوق کہنا بھی گوارا نہیں کرتے، اس کی قدرتی کمزوریوں کو اچھال کر دنیا کا ایک حقیر و ادنی؛ بلکہ گھٹیا روپ بتاکر ہنسی ٹھٹھولا کرتے ہیں، چھوا چھوت اور معاشرتی بائیکاٹ کے ذریعے سماج میں دراڑ ڈالتے ہیں،
مذہب اسلام نے عورت کو مردوں کے برابر کھڑا کیا
یہ تو اسلام ہے جس نے اسے ہم پلہ قرار دیا ہے، انسانیت میں معزز بنایا ہے، محبت و جذبات اور احساسات کا پلندہ بتا کر حسن سلوک اور رواداری کا حکم دیا ہے، اسے کسی آن کمزور، مردوں سے کم اور عملاً ثواب سے محروم نہیں بتایا، دنیا پر انہیں ایک محسن، مربی اور رب مجازی کے طور پر دیکھا گیا ہے، ذرا قرآن کریم کی یہ آیت پڑھئے اور دیکھئے کیسے رب ذوالجلال نے قدم بقدم انہیں مردوں کے ساتھ کھڑا کیا ہے، وہ کوئی ناقص مخلوق نہیں، محض کسی کی تکمیل کا باعث نہیں، صرف دنیا کی سجاوٹ کا سامان بلکہ وہ حقدار اور مؤثر شخصیت کی مالک ہیں، اگرچہ ان کا عملی میدان الگ ہے مگر جو ان کا خاصہ وہاں تک دوسرے نہیں پہنچ سکتے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِیْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِیْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِیْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِیْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآئِمِیْنَ وَ الصّٰٓئِمٰتِ وَ الْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا _(احزاب:٣٥) _”یقیناً مسلمان مردوں اور عورتوں، ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں، فرمانبردار مردوں اور عورتوں، سچے مردوں اور عورتوں، صبر کرنے والے مردوں اور عورتوں، اللہ سے ڈرنے والے مردوں اور عورتوں، صدقہ کرنے والے مردوں اور عورتوں، روزہ رکھنے والے مردوں اور عورتوں اپنی Amritsar کی حفاظت کرنے والے مردوں اورعورتوں اور اللہ کو خوب یاد رکھنے والے مردوں اور عورتوں کے لئے ہم نے بخشش اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے ۔”*
*اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دس اوصاف کا ذکر فرمایا ہے کہ جو کسی شخص کے سچے اور پکے مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے، اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر یہ نقل کیا گیا ہے کہ حضرت اُم عمارہ انصاریہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ قرآن میں ہر جگہ مردوں ہی کا ذکر ہے ، خواتین کے لئے کچھ کہا ہی نہیں گیا ہے، اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی، جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ مستقل طورپر عورتوں کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے، (ترمذی: کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ﷺ، باب سورۃ الاحزاب : ۳۲۱۱)
: اسلام میں عورتوں کی حیثیت
اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اسلام میں عورتوں کی بھی مستقل حیثیت ہے ، ایسا نہیں ہے کہ وہ مردوں کے تابع محض ہیں؛ اسی لئے عورت خود اپنے مال کی مالک بن سکتی ہے، اپنی ملکیت میں تصرف کرسکتی ہے، اس کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتا، اسے اپنی زکوٰۃ خود ادا کرنی ہے، جب کہ بیشتر مذاہب میں عورت کو مستقل شخصیت کا درجہ حاصل نہیں تھا اور وہ پوری طرح مردوں کے تابع سمجھی جاتی تھیں؛ البتہ چوں کہ عورتوں میں حتی المقدور پردہ پوشی مطلوب ہے، یہ عورتوں کے اندر پائی جانے والی فطری حیاء کے بھی مطابق ہے اور اس میں پردہ بھی ہے، اس لئے قرآن مجید نے عام طورپر عورتوں کا نام بنام ذکر نہیں کیا ہے؛ بلکہ ذکر بھی کیا گیا تو ان کے شوہر کی طرف نسبت کرتے ہوئےجیسے: فرعون کی بیوی، حضرت نوح کی بیوی ، حضرت لوط کی بیوی ، صرف حضرت مریم کا نام لیا گیا ؛ کیوں کہ ان کے کوئی شوہر نہیں تھے، جن کی نسبت سے ان کا تعارف ہو، ( خلاصہ از: معارف القرآن: ۷؍۱۴۳۵) یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ خاص طورپر اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ ” کثیراً ” کا لفظ لایا گیا، یعنی بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے والے مرد اور عورت ، اس کے علاوہ اوربعض مواقع پر بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر کا حکم دیتے ہوئے کثرت کی ترغیب دی ہے، (دیکھئے: احزاب : ۴۱، جمعہ: ۱۰) مفسرین نے اس کی حکمت یہ بتائی ہے کہ دوسری عبادتوں میں خصوصی اہتمام کی ضرورت پڑتی ہے، ہر جگہ اور ہر حالت میں یہ عبادت نہیں ہوسکتی، جیسے نماز ہے؛ لیکن ذکر یعنی زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لینا یا دل سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا ایسی عبادت ہے جو ہر جگہ اور ہر حال میں کی جاسکتی ہے؛ اسی لئے قرآن مجید میں ایک اور موقع پر نیک بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ وہ کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور اپنے پہلو پر لیٹے ہوئے اللہ کا ذکر کرتے ہیں، ( آل عمران: ۱۹۱) اسی لئے ذکر کی کثرت میں نہ کوئی دشواری ہے نہ کوئی رکاوٹ ۔* ( مفاتیح الغیب : ۲۴؍۵۹۵_ دیکھئے:آسان تفسير قرآن مجید)
✍ *محمد صابر حسین ندوی*