*حج اور عمرہ کی فضیلت*

محمد رضی الاسلام ندوی

بیت اللہ کی زیارت اور وہاں مناسک کی انجام دہی کے لیے دو اصطلاحات مستعمل ہیں : ایک حج ، دوسری عمرہ –
حج کے لغوی معنیٰ قصد و ارادہ کے ہیں – شریعت کی اصطلاح میں مخصوص ایام (8 تا 12 ذی الحجہ) میں مخصوص اعمال و افعال کی ادائیگی کے لیے مخصوص مقامات (منی ، عرفات ، مزدلفہ اور مکہ مکرمہ) کی زیارت کا نام حج ہے ۔
حج اسلام کا پانچواں رکن ہے – اس کی فرضیت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ار شاد ہے :
وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيْلاً ومَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران :197)
” اللہ کا لوگوں پر یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے – اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تما م دنیا والوں سے بے نیاز ہے – “
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکوٰۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور استطاعت پر بیت اللہ کا حج کرنا – (بخاری : 8 ، مسلم : 16)
ایک حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے حج کا شمار سب سے زیادہ فضیلت والے اعمال میں کیا ہے – ( بخاری : 1519 ، مسلم : 83)
ایک حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :” لوگو ! اللہ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، لہٰذا حج کرو – “ ایک شخص نے کہا : ” اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ خاموش رہے – اس شخص نے دوبارہ یہی سوال کیا ، لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا – جب اس نے تیسری بار یہی سوال دہرایا تو آپ نے ارشاد فرمایا : ” اگر میں ہاں کہہ دوں تو وہ ہر سال فرض ہوجائے گا ، لیکن پھر تم اس پر عمل نہ کرسکو گے – “ ( مسلم : 1337)
امتِ مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص حج کی استطاعت رکھتا ہو اس پر عمر میں ایک مرتبہ حج فرض ہے – ( المغنی لابن قدامة : 16/5)
جو شخص استطاعت کے باوجود دنیوی مشاغل کی وجہ سے حج نہ کرے اس کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں – حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے : ” میں نے ارادہ کیا ہے کہ شہروں میں اپنے آدمی بھیجوں ، جو ان لوگوں کا پتہ لگائیں جنھوں نے استطاعت کے باوجود حج نہ کیا ہو ، پھر میں ان پر جزیہ لگاؤں ، وہ مسلمان نہیں ہیں ، وہ مسلمان نہیں ہیں – “ (التلخيص الحبیر لابن حجر، 223/2)
عمرہ کے لغوی معنیٰ زیارت کے ہیں ، یعنی کسی سے ملاقات کے لیے جانا ، یا کسی آباد جگہ کا قصد کرنا – شرعی اصطلاح میں عمرہ کا مطلب ہے بیت اللہ کی زیارت کرنا اور وہاں ان اعمال و مناسک کو انجام دینا جن کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے –
قرآن مجید میں عمرہ کا حکم دیا گیا ہے – اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ (البقرة : 196) ” اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو ۔“
رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں چار عمرے کیے : تین ماہ ذی قعدہ میں اور ایک حجۃ الوداع کے ساتھ ( بخاری : 1780 ، مسلم :1253]
صاحبِ استطاعت شخص کے لیے عمرہ واجب ہے یا سنت؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے – بعض واجب قرار دیتے ہیں تو بعض سنّت کہتے ہیں –