از : قاضی محمد حسن ندوی
 قرآن کا تقدس اور اس پر زہرافشانی کرنے والوں کا انجام
 قرآن کا تقدس اور اس پر زہرافشانی کرنے والوں کا انجام

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم آسمانی کتابوں میں ایک واحد کتاب ہے، جو ہر طرح کی تحریفات و تغیرات سے پاک ہے ، قرآن پاک اللہ کا مقدس کلام جس میں نہ کبھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے ، اور نہ آئندہ کبھی ہوگی اور نہ اس پر کسی کو انگشت نمائی کا حق ہے ، قرآن مجید وہ کتاب ہے جس میں پوری انسانیت کے لیے ہدایت کا پیغام ہے( شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ھدی للناس) رمضان المبارک کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید اتارا گیا ہے، لوگوں کے لئے یہ ہدایت کی کتاب ہے ( سورہ بقرہ۔ )
یہ امتیاز وخصوصیات صرف قرآن کریم کو حاصل ہے ، اس لئے کہ یہ کلام اللہ کا کلام ہے ، یہ الہامی اور آسمانی کتاب ہے ، اس لئے ہرطرح کے عیوب اور تحریف و تبدیلی سے بے داغ ہونے پر خود سورہ بقرہ کی پہلی آیت "ذلک الکتاب لاریب فیہ” ( یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں) دال ہے ، اور کلام الٰہی کو تمام مخلوق کے کلام پر فضیلت حاصل ہے ،”کلام الملوک ملوک الکلام” ( بادشاہوں کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہ ہوتا ہے)
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بجا ارشاد فرمایا ہے "من اصدق من اللہ قیلا” ( اس سے زیادہ سچی بات بھلا کس کی ہوسکتی ہے؟) دوسری جگہ پر فرمایا ہے،”قل صدق اللہ” ( آپ کہ دیجئے اللہ نے سچ کہاہے)
لیکن افسوس صد افسوس کہ چند دنوں قبل وسیم رضوی نے اعداء اسلام کا آلہ کار بن کر قرآن مجید کی 26 آیات کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کیا ہے ، اور یہ کہا ہے کہ ان آیات میں امن وامان کے خلاف پیغام ہے ، یہ آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاء ثلاثہ کی پیداوار ہے، یہ وہ باتیں جو بے بنیاد ہیں، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں، بلکہ اس خبیس شخص نے اپنے جرائم اور برے حرکات پر پردہ ڈالنے کی ایک ناپاک کوشش کی ہے اس لئے اس کا یہ قدم نہایت ہی افسوسناک ہے ، اور شرمناک بھی ،اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اگر اس کو پھانسی پر لٹکا دیاجائے تو جرم کے اعتبار سے سزا ہلکی ہوگی ،کیوں ؟ اس لئے کہ سزا جرم کے مطابق ہوتی ہے ،اور اس شخص نے ایسی اوچھی حرکت کی ہے، جس سے نہ صرف جمیع عالم کے مسلمانوں کے دلوں کو ٹھیس پہنچایا، بلکہ اس نے قرآن مجید کے تقدس پر تہمت عائد کرکے اللہ تعالیٰ سے جنگ مول لی ہے ،اور اللہ تعالی سے جنگ کرنا ھلاکت و تباہی کو دعوت دینا ہے ،
تاریخ شاہد ہے جب بھی کسی نے قرآن مجید پر انگشت نمائی کی، اس کو دنیا میں منھ کی کھانی پڑی، نیز وہ آخرت میں ذلیل وخوار ضرور ہوگا ،چنانچہ 1984 میں کلکتہ ہائی کورٹ میں وسیم رضوی کی طرح ایک جاہل کمبخت شخص نے قرآن کے خلاف رٹ دائر کیا تھا، تو وکلاء نے اس بات پر بحث کرنے سے انکار کردیا کہ مدعی کا دعویٰ حق بجانب ہے یا نہیں لیکن اس بات پر جج کے روبرو بحث کی کہ آیا مذھبی کتاب کے خلاف مقدمہ ہو سکتا یا نہیں ،اس کا اثر یہ ہوا کہ وہاں کے چیف جسٹس نے یہ تبصرہ کرتے ہوئے قرآن مجید کے خلاف رٹ کو خارج کردیا کہ ہندوستان کے قانون ( سمبدھان) میں لکھا ہوا ہے کسی مذھبی کتاب پر جرح نہیں کیا جاسکتا بالاخر اس کے دعویٰ کو خارج کردیا،
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اس فیصلہ سے مدعی کی ایسی رسوائ ہوئ کہ جگ ظاہر ہے ،اسی طرح کا حشر وسیم رضوی کے ساتھ شروع ہوچکا ہے، چنانچہ ایک طرف شیعہ کے تمام علماء نے سماجی بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے یہاں تک کہ بھائ بہن والدہ اور بیوی نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے ، دوسری طرف بی جے پی کے ترجمان شہنواز حسین نے کہا ان کی پارٹی ان لوگوں کے سخت خلاف ہے ،جو کسی بھی مذہبی کتاب کی توہین کرتے ہیں ، اس کے علاؤہ اقلیتی کمیشن نے 21 دن کے اندر معافی مانگنے کے لئے کہاہے اور اس پر عمل نہ کر نے کی صورت میں قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے ،
الغرض اس کی اس ناپاک حرکت کی وجہ سے سنیوں سے زیادہ شیعہ عوام وخواص نے نہ صرف نفرت کا اظہار کیا ہے بلکہ تمام شیعہ علماء نے وسیم رضوی کو خارج عن الاسلام کا حکم دیا ہے، یہ ایمان کا تقاضہ بھی ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے،
"من رای منکم منکرافلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان” (رواہ البخاری ) (اگر کوئ مسلمان کوئ منکر ناپسندیدہ عمل دیکھے تو اسے حسب طاقت ازالہ کرنے کی کوشش کرے اگر اس کی سکت نہ ہو تو زبان سے اس کی اصلاح کی کوشش کرے لیکن اگر یہ بھی ناممکن ہو تو دل سے اس منکر کو ناپسندکرے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے )
سب سے بڑی بات یہ ہے اس وسیم رضوی کے واقعہ کے بعد پورے ملک میں جو صورت حال پیدا ہوئ ہے وہ دراصل "عسی ان تکرہوا شیئا فھو خیرلکم” کی عملی تصویر ہے، اس لئےیہ جان کر بیحد خوشی ہوگی کہ وسیم رضوی کی شرانگیزی اور زہر افشانی سے نہ صرف شیعہ اور سنی مسلمانوں کے مابین بعد اور دوری کم ہوئ ہے ، بل کہ جمیع شیعہ علماء نے یک زبان ہو کر اعلان کیا ہے کہ قرآن مجید میں تیس پارے ہیں ، قرآن مجید الفاظ ومعانی کے ساتھ ساتھ حرکات سکنات کی تبدیلی سے محفوظ ہے ، اور الفاظ ومعانی دونوں من جانب اللہ ہیں، اور دونوں کی اللہ نے حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے کہ ہم نے اس کو نازل کیاہے اور ہم ہی اس کے محافظ بھی ہیں "انا نزلنا الذکر وانالہ لحافظون” ( سورہ حجر)
افسوس کا مقام یہ ہے کہ قرآن کے خلاف اغیار سے زیادہ اپنوں کی طرف سے زہر افشانی ہورہی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے قرآن مجید کی تعلیماتِ وہدایات اور نزول قرآن کے مقاصد ( ہدایت انسانی) سے چشم پوشی کرکے اس کتاب کو صرف شفاء للناس ایصال ثواب کا ذریعہ سمجھ بیٹھا ہے، جبکہ یہ ضمنی فوائد ہیں اصل نہیں چوں کہ اصلا فائدہ اور نزول قرآن کا مقصد (ہدایت الثقلین ) انسان جنات کی ہدایت ہے ،اصل کو چھوڑ کر فرع سے صرف تعلق کوئی دانشمندی کی بات نہیں ،چنانچہ ایسے ہی لوگوں کے خلاف اللہ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہی دیں گے "وقال الرسول یارب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا” اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہیں گے اے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے( الفرقان)
امت مسلمہ پر جس طرح ظلم و تشدد کا پہاڑ توڑا جارہاہے ، بالخصوص ہمارے ملک ہندوستان میں ہمارے ساتھ اپنوں اور اغیار کا سلوک ہو رہا ہے ہے اس کی ایک وجہ تعلیمات قرآنی سے چشم پوشی ہے علامہ اقبال نے بجا فرمایا ہے ،
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کریم کے حقوق وفرائض کو سمجھ کر اس پر عمل کی کوشش کریں ،درج ذیل حقوقِ کا لحاظ کریں
(١) تجوید و قرات کے ساتھ تلاوت کرنا حفظ کرنا
(٢) تفہیم اور تدبر قرآن کے لیے مدارس کے گھنٹوں میں توسیع کی فکر کرنا
(٣) تعلیمات قرآن مجید کو حرز جان بنانا
(٤) ہر مسجد میں روزانہ یا کم از کم ہفتہ میں ایک دن درس قرآن اور تفہیم قرآن کا حلقہ قائم کرنا اس کی تعلیماتِ کو عملی زندگی میں بروءکارلانے کی تذکیر کرنا
(٥) معاشرے میں جو برادران وطن سے اختلاط کی وجہ سے غیر شرعی رسومات درآئ ہیں انہیں ختم کرنے کے لیے ہر گھر میں ترجمہ اور مختصر تفسیر قرآن کا اہتمام کرنا اور اپنے معاشرے کو اسلامی قالب میں ڈھالنے پر توجہ دی