اسلام کی بالادستی اور مہذب دنیا کی معاندانہ پالیسی
محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
نام نہاد عالمی طاقتوں نے اسلام اور اسلام سے منسوب ہر اس شے کی مخالفت کا بیڑا اٹھا رکھا ہے جو اسلام کی قوت وشوکت کا اعلان کرتی ہو،اور جس کے ذریعہ اللہ کا کلمہ بلند ہوتا ہو،حرکت و نمو سے لبریز متحرک اور فعال اسلام کسی کو پسند نہیں،ٹھہرا ہوا،جامد وساکت،تھکا ہوا اور اونگھتا ہوا اسلام جو فکرو عمل سے خالی ہو،اور جو آسانی سے کسی تہذیب میں ضم یا گم ہوجانا گوارا کرلیتا ہو،یا اپنے مظلوموں کا سودا کر لینے پر راضی ہو، سب کو پسند ہے،اسلام اپنی امتیازی خصوصیات، جماعتی قوت،تحریکی مزاج،قیادت اور مرکزیت کے ساتھ آنکھوں میں چبھتا ہے،مسلم ممالک کے نمائندوں کو عالمی اسٹیج پر خالص اسلام کی بات کرنے کی اجازت نہیں،گھلا ملا اسلام،صلح کل والا اسلام،مصلحت پرست اسلام،ڈرا سہما ہوا اسلام ،جو حقیقت میں اسلام ہے ہی نہیں کچھ اور ہے،پیش کیا جائے تو کہیں کوئی رکاوٹ نہیں،ورنہ گرفت ہی گرفت ہے۔
جب کہ غور کریں تو ہر ایک کو اپبے امتیازات عزیز ہیں،کیتھولک عیسائیوں کی ایک مخصوص اور آزاد ریاست ہے جس کو ”واٹثیکن سٹی” کہا جاتا ہے،جو اٹلی کے شہر روم میں واقع ایک خود مختار ریاست ہے، اس کے سفارت خانے ہیں ،اسے مختلف ممالک میں سفارتی نمائندگی حاصل ہے، اور اس کا ایک ایسا صدر ہے جسے ملکی صدارت کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک اور براعظموں میں روحانی قیادت بھی حاصل ہے،امریکہ کے سربراہان عیسائیت کو اپنی گفتگو سے خارج نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کے اقدامات میں ہمیشہ واضح طور پر تحریف شدہ عیسائی مذہب کی تعلیمات کا عکس نظر آتاہے،ان کی جنگیں بھی اس سے مستثنی نہیں،آٹھ سے زیادہ چھوٹی بڑی صلیبی جنگیں اسی نام سے لڑی گئیں،ابھی بھی گاہے گاہے اس کا حوالہ آہی جاتا ہے،اور اسی جذبہ سے اسرائیل نوازی جاری ہے، بھارت پر ایک برہمن طاقت کا راج ہے جو اپنے تمام تر پروگراموں میں-غلط یا صحیح- مذہبی وابستگی کا اظہار کرتی ہے، صہیونیوں نے واضح الفاظ میں اور اعلانیہ طور پر مقبوضہ فلسطین( اسرائیل) کے لیے یہودیت کو سرکاری مذہب کے طور پر اپنا رکھا ہے،سب کچھ ٹھیک ہے،بس اسلام کو ایک سیکولر شبیہ کا لبادہ اڑھے رہنا ہے،لیکن بقول اقبال:
حق سے اگر غرض ہے تو زیبا ہے کیا یہ بات
اسلام کا محاسبہ، یورپ سے در گزر!
اس پس منظر کو نظر میں رکھیں تو مذہب کو سیاست سے الگ کرنے کا معاملہ ایک افسانہ اور جھوٹ کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا، جو صرف اسلام کی بات آنے پر بحث کا موضوع بن جاتاہے،آخر مغرب کو اسلام سے کیا کد ہے؟ اور خاص طور پر اس اسلام کے ساتھ کیا مسئلہ ہے جسے وہ ”سیاسی اسلام”کہتے ہیں؟مغربی ممالک کو اسلام سے دشمنی صرف اس لیے ہے کہ یہ ایک آفاقی اور جامع پیغام ہے ، اسلام جغرافیائی طور پربھی کسی جزیرہ میں بند نہیں، جیسے ہندو مت اور بودھ مذہب ، وہ منتخب لوگوں کے ساتھ خاص نہیں جیسے یہودیت، عیسائیت عالمگیریت میں اسلام کی ہمسری کرتی ہے؛لیکن اپنی تعلیمات کے تنوع اور زمان ومکان کے اعتبار سے ہمہ جہت ہونے اور قابل عمل ہونے میں وہ اسلام سے پیچھے رہ جاتی ہے۔
صرف اس لیے اسلام آنکھوں میں نہیں جچتا کہ وہ اپنے پیروکاروں کی مکمل رہبری کا فریضہ انجام دیتا ہے ،وہ ان کی زندگی میں پوری طرح داخل بلکہ اس پر حاوی ہے، وہ ان کی روزمرہ کی سرگرمیوں حتی کہ ان کے خوردو نوش اور لباس و پوشاک سے متعلق اصول وضوابط متعین کرتا ہے،وہ ان کو ان کے کسب مال کے حلال ذرائع اور اخراجات کے تعلق سے بھی ہدایات دیتا ہے،غرض کہ اسلام اپنے نام لیواؤں کی تمام سرگرمیوں پر نگراں اور حاکم کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام آسمان وزمین،روحانی ضرورت اور مادی ضرورت،انسان اور مالک حقیقی کے مابین ایک ہم آہنگ رشتہ استوار کرنے والا انقلابی اور جامع تصور ہے۔
مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نہ صرف اپنے دیار میں سفید نسل کی بالادستی کا خواب دیکھتا ہے ،بلکہ اسے استعمار اس سے بھی زیادہ عزیز ہے جس کے ذریعہ وہ خود کو دنیا کا استاد ،سرپرست، اتالیق اور حاکم تصور کرتا ہے ،اور اپنی ایسی ہی اعلی درجہ کی حیثیت تسلیم کرانا چاہتا ہے، تو پھر وہ کس طرح برداشت کرے گا کہ وہ لوگ جن کو وہ خود سے کمتر سمجھتا ہے،کھڑے ہوں،اور ایسی ثقافت وتہذیب کو عام کریں جو اپنے اندر حیرت انگیز اثر پذیری کی صلاحیت رکھتا ہو،اور جس کا سکہ تھوڑی سی محنت سے سکۂ رائج الوقت بن جاتا ہو،اور جس کے چراغ کی روشنی میں سچ کے چراغ روشن ہوتے ہوں،اور جھوٹ کی امیدوں پر اوس پڑ جاتی ہو؟
اسلام پسندی مغربی سیاستدانوں کے لیے ایک ڈرؤانا خواب ہے ؛اسی لیے مغربی ممالک نے ایشیا اور افریقہ کے مسلم اور غیر مسلم ممالک پر ناجائز قبضہ کیا تھا ، اور غلبہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے جوسب سے پہلا اور اپنے نزدیک اہم کام کیا تھا، وہ یہ کہ مغربی ثقافت وتہذیب کو پوری طرح عام کردیا جائے ،اور مغربی ثقافت کو عام کرنے کا پہلا زینہ یہ تھا کہ انہوں نے مشرقی یعنی اسلامی ثقافت ، اس کے ماننے والوں کی زبانوں،ان کی ترجیحات،ان کی عادتوں،ان کی پسند و ناپسند اوران کے پورے تاریخی ورثے کی تحقیر و تذلیل اور ان کو بے حیثیت قرار دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا،اور آج بدستور یہ عمل جاری ہے۔
لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ آج مغرب نے اپنے ہی گھر میں اسلام کے تہذیبی غلبہ کا ادراک کرنا شروع کردیا ہے، مسلمان مغربی ممالک میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں،خواہ وہ شہریت اختیار کرنے والے ہوں، یا وہاں مقیم تارکین وطن،یا وہ یورپی باشندے جو دامن اسلام سے وابستہ ہورہے ہیں،سب کا اس میں حصہ ہے، وہ ایک عددی طاقت بن چکے ہیں، اور اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں ، مغرب میں مسلمان اب پہلے کی طرح عارضی مدت کے لیے صرف کسی پیشہ سے وابستہ ہو کر،یا مزدور اور طالب علم کی حیثیت سے نہیں رہتے بلکہ وہ مختلف میدانوں کے باصلاحیت ماہرین،سائنٹفک اور اکیڈمک دنیا میں اہمیت کے حامل افراد کی حیثیت سے رہتے ہیں، اور ان میں سے بہت سے مسلمان مذہب کے پوری طرح پابندہیں ، افتخار کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اپنے مغربی معاشرے میں مؤثر حیثیت کے حامل ہیں، وہ اپنے مغربی معاشروں میں خلوص کے ساتھ خدمات مہیا کرتے ہیں ،اور ان کے ساتھ ہم آہنگ ہیں ، ان کے مسلمان ہونے اور مغربی شہری ہونے کے مابین کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ہے۔
یہی بات مغربی سیاست دانوں کو ہضم نہیں ہوتی،اور ان کے لیے مستقل درد سر ہے؛ کیوں کہ اسلام ایک عقیدہ کے اعتبار سے یورپ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے ، واشنگٹن میں واقع پیو ریسرچ سینٹر نے کئی سال پہلے ہی یہ تحقیق پیش کی تھی کہ اگلی چار دہائیوں میں عیسائی مذہب سب سے بڑا مذہبی گروہ بنا رہے گا؛ لیکن کسی بھی مذہب کے مقابلہ اسلام سب سے تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا،واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں عیسائیت سب سے بڑا مذہب ہے، اس کے بعد مسلمان آتے ہیں،اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو٢٠٦٠ء تک اسلام سب سے بڑا مذہب بن جائے گا،اندازہ ہے کہ اگلے چار عشروں میں دنیا کی آبادی ٩ء٣ ارب تک پہنچ جائے گی اور مسلمانوں کی آبادی میں ٧٣ فیصد کا اضافہ ہو گا، جب کہ عیسائیوں کی آباد کےی٣٥ فیصد بڑھے گی اور ہندؤوں کی تعداد میں ٣٤ فیصد اضافہ ہو گا۔
مغربی ممالک میںمغربی مسلمانوں کے اثرات بھی دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، یورپ میں اس ثقافتی تبدیلی کی صرف ایک ہی مثال کافی ہے،اور وہ ہے حلال کھانوں کی تلاش،جب یورپ نے افریقہ پر دائیں ہاتھ میں ہتھیار اور بائیں ہاتھ میں بائبل لے کر قبضہ کیا ، غیر مسلم قبائل اپنے گھروں میں فطری طریقہ سے تیار کردہ شراب ہی پیتے تھے؛لیکن جب عیسائی مغرب آئے تو افریقہ میں شراب کی فیکٹریاں قائم کیں ، اور افریقیوں کوان فیکٹریوں سے الکحل خریدنے پر مجبور کرنے کے لیے گھروں پر روایتی طریقوں سے شراب کی تیاری پر پابندی عائد کرنے والے قوانین جاری کیے، اور اب تک ایسے قوانین بہت سے افریقی ممالک میں نافذ العمل ہیں ، مغرب غیر مسلم معاشروں میں اپنی شراب کو فروغ دینے میں اس حد تک کامیاب ہوچکا ہے جتنا کہ چین میں افیون کی تجارت کو فروغ دینے میں اس کو کامیابی ملی تھی ، جب کہ مسلم معاشروں میں شراب کو فروغ دینے میں اس کی کامیابی بہت ہی محدود ہے۔
جب مسلمان آج مغربی ممالک میں آکر کے اندرآکر اور اہل مغرب کے درمیان رہ کر ایک ایسی نئی ثقافت تشکیل دیں جو حلال کھانے شراب ،اورخنزیرکے گوشت سے پاک وصاف ہو ، اور اس کا مطالبہ دن بہ دن غیر مسلموں کی جانب سے بھی بڑھتاجارہا ہو، تو یہ- خود اپنے آپ میں-ایک ثقافتی اور معاشی انقلاب ہے ، اور یوروپی ثقافت میں غیر معمولی دخل ہے ، اور اس کا ایک ہی راستہ ہے جو مسلمانوں کی طرف سے ہوکر آتا ہے۔
یہ بات ثقافتی اور معاشی تسلط کی سربراہی کرنے والے مغربی سیاستدانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے، کہ آپ بحیثیت مسلمان کسی طرح ان کے ہاتھ نہ آئیں،ان کے قابو سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ، صارف سے صنعت کار بن جائیں، پیروکار سے پیشوا بن جائیں،مقلد سے امام بن جائیں،مغربی رہنماؤں کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ آپ ایک خودمختار انسان بن جائیں جسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد،اپنی مذہبی شناخت اور اپنی روایات پر فخرہواور اپنے اسلام پر ناز ہو، اسلام سے مغرب کو یہی مسئلہ ہے،ایک ایسے عالمگیراور ہمہ گیر دین حق کے ساتھ مسئلہ ہے جس کے نام لیواؤں کو اس کی تعلیمات سے بالکلیہ الگ کرنا محال ہو،جب کہ مغرب تسلط ،تکبر، کمزوروں کے استحصال اورطاقت کے بے جاا ستعمال کے نشہ میں دھت ہو :
باطل کے فال وفر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زِرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
مغربی حکام کو جو چیز سب سے زیادہ بے چین کرتی ہے اور بے خوابی میں مبتلا کرتی ہے وہ ہمارامکمل اسلام ہے،ایسا ہوتا رہا ہے،قرآن کریم نے اسے بیان کیا ہے:”وما نقموا منہم الا ان یؤمنوا باللہ العزیز الحمید”(بروج:٨)(وہ مسلمانوں سے اسی بات کا بدلہ لے رہے تھے کہ وہ اس خدا پر ایمان رکھتے تھے جو غالب اور بڑی خوبیوں والے ہیں)دوسری جگہ ارشاد ہے:”قل یا أھل الکتاب ھل تنقمون منا الا أن آمنا باللہ وما أنزل الینا وما انزل من قبل،وأن أکثرکم فاسقون”(مائدہ:٥٩) (آپ کہہ دیجئے:اے اہل کتاب!کیا تم ہم سے لیے عناد رکھتے ہو کہ ہم اللہ پر،اس کتاب پر جو ہم پر اتاری گئی،اور اس کتاب پر جو ہم سے پہلے اتاری گئی ،ایمان رکھتے ہیں،اور یقیناً تم میں سے اکثر لوگ نافرمان ہیں)۔
یہی صورت حال آج بھی قائم ہے کہ اسلام حیرت انگیز تیزی سے پھیل رہا ہے،خود اہل مغرب کے زیادہ ترمطالعات اور تحقیقات ،جیساکہ ذکر کیا گیا، اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اسلام بہت سارے یورپی ممالک میں وہاں کا پہلا مذہب بن جائے گا ، اس حقیقت کے باوجود کہ اسلام اور مسلمانوں سے کھلی عداوت کی تحریکی کوششیں پاگل پن کی سطح تک پہنچ چکی ہیں، پھر ہم جانتے ہیں کہ زیادہ تر مسلمان صحیح طریقے سے اسلام کی پاسداری نہیں کرتے اوراسلام کی دعوت کا فریضہ انجام نہیں دے رہے ہیں، اس کے احکام کو صحیح طور پراپنی زندگی میں داخل نہیں کرتے، نیز مسلمانوں اور مسلم ممالک کے حالات لوگوں کواسلام کی طرف راغب نہیں کرتے ،اس کے باوجودیہ مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔
اگر مسلمان واقعتا اپنے مذہب کی نمائندگی کریں ، اپنی دعوت کو عام کریں،اور ان کے سیاسی حالات بہتر ہوں تولامحالہ ، آپ دنیا میں لوگوں کو خدا کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھیں گے،اور یہ پیشین گوئی سچی ہوگی جس کا ذکر اس حدیث میں ہے کہ” ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺسفر سے واپس تشریف لائے اور اپنی عادت کے مطابق ازواج مطہرات کے گھروں سے پہلے حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہ نے اپنے گھر کے دروازے پر آپﷺ کا استقبال کیا،اپنا ہاتھ آپﷺ کے رخسار مبارک پر رکھا، اورعرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے کپڑے بوسیدہو گئے ہیں، یہ سن کر آپﷺ نے فرمایا: اللہ نے تمہارے والد کو ایسا دین دے کر بھیجا ہے جس کو اللہ تعالی روئے زمین کے ہر پکے اور کچے گھر میں ضرور داخل کریں گے، اور دنیا کے جتنے حصہ میں رات پہنچتی ہے اتنے حصے میں یہ دین بھی پہنچے گا یعنی ساری دنیا میں پہنچ کر رہے گا”(المعجم الکبیر للطبرانی عن أبی ثعلبة الخشنی،حدیث نمبر:٥٩٦)۔
اورسب سے سچی بات یہ ہے کہ”واللہ غالب علی أمرہ ولکن أکثر الناس لا یعلمون”(یوسف:٢١) (اور اللہ تعالی اپنے کام پر قادر ہیں؛لیکن اکثر لوگ سمجھتے نہیں ہیں)۔